انسان…کارخانہ قدرت کا کثیرالمقاصداورہمہ جہت منصوبہ

دنیا میں اگر کسی چیز پر غور کیا جا سکتا ہے تو وہ انسان ہے،نوری و ناریوں کے درمیان اس مخلوق ارضی سے آج کی اس بے محیط و بے بسیط کائنات میں رنگ و نور اور دلکشی و رعنائی کی ہما ہمی ہے۔غور کے لئے اس کا صرف کوئی ایک پہلو نہیں کثیرُالصّفات اس مخلوق پر ہی برتری، بندگی، خدائی،گہرائی، گیرائی بلکہ وجہ کُن فیکُون کی اصلیت بھی یہی ہے،طب ہمیں بتاتی ہے کہ زندگی کے ظہور کے لئے پروٹین کا ہونا ضروری ہے،اردو میں لحمیات کہلانے والے خُلیات پر مبنی اس سیال مادے کی ترکیب و تشکیل بھی اتنی پیچیدہ و گنجلگ ہے کہ پھر رہ رہ کر یہی کہنا پڑتا ہے کہ انسان پروردگار کائنات کاوہ کثیر المقاصد اور ہمہ جہت پروجیکٹ ہے کہ اس کائنات کی آرائش و زیبائش و جگ آرائی اسی کے لئے اور اسی کے دم خم کی مرہون منت ہے، میڈیکل سائنس سے اس کے ہونے کے بارے میں رجوع کریں تو اس کے وجود کے آغاز و تشکیل کے لئے حیاتیات (Biology ( ،ماں کی کھوکھ میں نشو وارتقاء کے عمل سے گزرنے والے انسان کو سمجھنے کیلئے ایمبرائیولوجی (Embroyalogy)،زندگی کے آخری مرحلے یعنی ارزل العمر کے معاملات کو سنبھالادینے کے لئے جیرنٹالوجی (Gerontology)، انسانی جسم کے مواصلاتی نظام کیلئے عصبیات (Neurology)،دل کے معاملات جاننے کیلئے قلبیات (Cordialojy)،انسان کے وجود کو لچک دار بنانے والے جوڑوں کو سمجھنے کیلئے ریماٹولوجی (Rheumotology)،جسم میں سیلز اور ٹشوز کے وجود،تشکیل ترتیب کے مطالعے کیلئے ہسٹالولوجی (Histology)،ولادت سے قبل دنیا میں آنے کے منتظر انسان کی جنس کی تعین کے ذمہ دارہارمون کے لئے انڈوکرینالوجی(Endocrinology)اور انسانی رویوں،جذبات اور باطنی احساسات کے لئے نفسیات (Psycology) ،اس کی تمدنی، گھریلو زندگی کے لئے علم الانسان(Anthropology)،سماجی دلچسپیوں کیلئے سماجیات(Socialogy)،حکمرانی اور ایوان اقتدار کے اسرار و رموز سمجھنے کیلئے سیاسیات(Political Science)،مالیات کے معاملات کے لئے اقتصادیات(Economics) اور سب سے بڑھ کر اس کے دینی اور روحانی معاملات کے لئے دینیات (Theology)دست بدستہ کھڑی نظر آتی ہے۔یہ وہ علوم ہیں جو خالصتاً انسانی وجود، اُس کے ہونے اور اس کو لمحہ آخر تک برقرار رکھنے جیسے معاملات پرمبنی مسائل اور کی اصلاح کا حل پیش کرنا ہوتا ہے۔ذرا سوچئے…انسان دنیا میں آ گیا،وہ ایک لوتھ (بے کس و بے بس نو مولود)تھا، ماں باپ اور معاشرے نے اسے پال پوس کر بڑا کیا، اس کی بڑھتی عمراور جذبات و احساسات کو خاص نہج پر رکھنے اور پروان چڑھانے کیلئے بھی کسی چیز کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ ہے شعور اور وجدان، یہ اکتسابی نہیں بلکہ تجرباتی ہوتا ہے،اس کے لئے دانے کو خاک میں مل کر گل و گلزار بننا پڑتا ہے یا حنا کا پتا تب نسوانی ہتھیلی کو حسن و زیبائش بخشتا ہے جب وہ پتھروں کے درمیان اپنے وجود کو نئے سراپے میں ڈھالنے کا اقرار کرتا ہے۔

اس کثیر جہتی مخلوق کا تخلیق کار بھی یقیناً ایک اور صرف ایک ہے،انسان سمیت کائنات کے ہر ہر واحد وجود کو دُوئی کی صفات سے آشنا کرنے والے کے آگے کوئی ہے نہ پیچھے،وہ ناپ تول کے پیمانوں میں بھی نہیں آتا، وہ قدیم ہے لہٰذا وہ زمان و مکاں کے احاطہ امکاں سے بھی بہت بہت ماوراء ہے،پیغام ابدی یہ ہے کہ انسان اس سرزمین تلخابہ و شیریں کے آغاز سفر پرہی تمام تر صلاحیتوں، قابلیتوں اور اہلیتوں سے متصف تو تھا ہی مگر پھر بھی ایتھنز کے مکین علم و دانش کے دیوتائوں کے شعُور و وجدان اورتجربی ادراک کی سمت دیکھیں تو ایک ہی انسانی سرگرمی نظر آئے گی اور وہ ہے انسان کا اپنے وجود اور اس کے بعد کائناتی اسرارورمُوز پر غوروفکر، رحم مادر سے دھرتی کی کھوکھ میں منتقلی کے ہر ہر مرحلے تک اس کی فکر و دانش اس ایک نقطے سے ٹکراتی رہی کہ میں کہاں سے آیا؟کیوں اور کیسے آیا اور ولادت سے صبح قیامت کو دوبارہ اٹھنے تک میرا اس دنیا میں رہنے کا مقصد وحید کیا ہے؟بے نظیر و بے مثال خدائے عزوجل کی اس کثیر المقاصد پروڈکٹ کا فکرودانش کا گہنا بھی بے نظیر و بے مثال ہے اور اسی کاہی اعجاز ہے کہ وہ اپنے احسن الخلق ہونے پر مسلسل غور کرتا آ رہا ہے،وہ بے بال و پر ہے مگر یہ فضائیں اور ہوائیں اس کی کی زیر تسخیر ہیں،آفتابی کرنوں کی دور مغرب میں تدفین کے بعد یہ اندھیروں کو بسیرا نہیں کرنے دیتا بلکہ وہ اپنے شبستانی گلستاں کورنگ و نور میں ڈبو دیتا ہے، اس نے آفتاب و ماہتاب کی جادوئی رعنائیوں میں کھو کر اپنے وجود کو کھونے کے بجائے ایک کی کرنوں سے توانائی پیدا کر رہا ہے جبکہ دوسرے کی خاک کو اپنے پائوں تلے روند کر اس کے برتری کا بت بھی توڑ کر رکھ دیا ہے جبکہ برقناتی نظر نہ آنے والی لہروں کو بھی اپنی اُنگلیوں کے تابع فرمان کر دیا ہے۔

نباتات ہوں یا حیوانات، جمادات ہوں یا موجودات۔یہ اپنی فطرت میں جامد بھی ہیں اور سیماب پا بھی مگر انسان…جی ہاں حضرت انسان میں اس کے خالق نے وہ خاصیت مبعوث کی ہے کہ وہ ہر ہر لمحہ تغیر آشنا ہے، وہ ہر دم طوفان ہے ،اسی کے خالق کاانسان سے متعلق فیصلہ ہے…موت کی موت ہے طوفاں سے جدا ہونا !

ابھی تک دنیا کے پاس انتہائی مطلوب،خطرناک اور مہلک ترین مجرم کی استقامت کو آزمانے اور اسے کچھ کہنے پر مجبور کرنے کیلئے آخری حربے کے طور قید تنہائی کا طریقہ ہے،انسان کے عدم وجود نے خودکار نظام قدرت پر رواں دواں کائنات کو قید تنہائی کا ہی اسیر بنا رکھا تھا،انسان کے عدم سے وجود میں لانے کا سبب جہاں خدا کی خدائی کا اظہار تھا وہاں ہی احدیت کی کثریت،تضادات کی کشمکش اور اس کے نتیجے میں نہ ختم ہونے والی ایک ایسی دنیا کا ظہور تھا جہاں اگر اہرمن تھا تو یزدان بھی،کرشن جی مہاراج تھے تو ارجن بھی،جہاں ابراہیم بھی تھا اور آتش نمرود بھی،مصطفویۖشمع روشن تھی اور ساتھ ہی بولہٰبی بھی،حسین کا کربل بھی سجا ہوا تھا اور یزید بھی مسند آرائے سلطنت تھا،۔اسی کشمکش کے نتیجے میں ایک زندگی پوشیدہ تھی اور انسان کی بعثت کا اصل مقصد وحید بھی یہی تھا۔

زمانہ آب رواں کی طرح انسانی پلوں سے مسلسل بہہ رہا ہے،خدائی مخلوق کے ساتھ اس احسن مخلوق کا انٹرکشن جاری ہے،بے محیط و بے بسیط فاصلوں کے ناپ تول،مائیکروسکوپک وجود کی سرجری،ریاضیاتی فارمولوں سے بعید و بالا رفعتوں کی تسخیراور زمین کی تاریک ترین گہرائیوں میں جھانکنے کا عمل جاری و ساری ہے،وہ کائناتی راز، وہ پوشیدہ ربّانی اسرارجو کبھی افشا نہ ہو سکے تھے اب بے نقاب ہوتے جا رہے ہیںاورجب کبھی عالمین کی تمام وسعتیں،کائنات کا آخری ذرہ،آخری قوت اور وجودانسان کی دسترس میں آگیا تو شاید وہ اپنی عزیز ترین متاع اور احسن تقویم انسان کو فنا کی طرف رواں کرے گا…کیوںکہ ہر ابتدا کی کوئی نہ کوئی اخیر ،ہر ظلم کا کوئی نہ کوئی انصاف ،ہر شب کی کوئی نہ کوئی صبح اور ہر تاریکی کے بعد کوئی نہ کوئی
سحر جلوہ خورشید سے ضرور روشن ہوا کرتی ہے…یہی انسان کا مآل ہے۔
Mohammed Obaidullah Alvi
About the Author: Mohammed Obaidullah Alvi Read More Articles by Mohammed Obaidullah Alvi: 52 Articles with 59282 views I am Pakistani Islamabad based Journalist, Historian, Theologists and Anthropologist... View More