غداری

پاکستانی سیاست میں سنسنی خیزی ہمیشہ سے ہی اسکی پہچان رہی ہے لیکن آزاد میڈیا نے اس سنسنی خیزی میں جو نئے رنگ بھرے ہیں وہ بیان سے باہر ہیں۔ پلک جھپکنے میں الزامات کا طومار کھڑا کر د ینا ا ن کےلئے معمولی سی بات ہے اور ستم بالا ئے ستم یہ ہے کہ اپنے خود ساختہ الزامات کی بنیادوں پر مخالفین کو مجرموں کی صف میں کھڑا کرنا ان کی صحافتی فن کاری کا نقطہ کمال بھی ہے ۔بے گناہوں کو گناہ گار اور گناہ گاروں کو معصوم بنانے کا فن کوئی ان سے سیکھے ۔ مجھے نہیں معلوم کہ میڈیا کی موجودہ روش پاکستان کو کہاں پر لے جائےگی لیکن اتنا بہر حال طے ہے کہ پاکستان کی سلامتی، ترقی اور استحکام اور اس سے متعلقہ خفیہ معاملات اور دستا ویز پر جس بر جستگی اور ڈھٹائی سے مکالمہ پاکستانی میڈیا پر دکھایا جاتا ہے اس سے جگ ہنسا ئی کے سوا کچھ بھی ہاتھ نہیں آتا۔ جب انسان خود ہی اپنی تذلیل پر اتر آئے اور خود کو برہنہ کرنے کے شوق میں مبتلا ہو جائے تو کو ئی اس کی مدد نہیں کرسکتا۔ جگ ہنسائی کے ساتھ ساتھ رسوائی بھی مقدر بنتی جاتی ہے اور ایسا غیروں کے ہاتھوں سے نہیں بلکہ ہمارے اپنے ہی کمالات کا شاخسانہ ہوتا ہے۔ ٹی وی اینکرز کو اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں کہ ان کی اسطرح کی موشگافیوں سے ہمارا عالمی برادری میں کیا مقام ہو گا اور ہم دنیا کو کیا منہ دکھائیں گئے انھیں اگر کوئی دلچسپی ہے تو اس چیز سے کہ ان کے فرمودات کیا رنگ دکھاتے ہیں اور وہ ہر چیز سے بے نیاز اپنے ریٹنگ کے مشن میں جٹے رہتے ہیں ۔ عوام کو حالات و واقعات سے باخبر رکھنے کا نعرہ ان کے اس اندازِ فکر کا وہ بنیادی پتھر ہے جس پران کی سنسنی خیزی کی پر شکوہ عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ باعثِ حیرت ہے کہ با خبری کے جنون میں مبتلا سنسنی خیز میڈیا کچھ دنوں کے بعد انتہائی اہم خبر کو یوں نظر انداز کر دیتا ہے جیسے ایسی خبروں کا کبھی کوئی وجود تھا ہی نہیں ۔ سنسنی خیزی اور مقصدیت دو الگ الگ شعبے ہیں اور پا کستانی میڈیا مقصدیت کا نہیں سنسنی خیزی کا قائل ہے اور سنسنی خیزی میں سکینڈلز اور الزامات کی اہمیت ہمیشہ مسملمہ ہوتی ہے لہذا میڈیا ایسی ہی خبروں کی ٹو میں لگا رہتا ہے جس میں الزامات اور سکینڈلز کی بھر مار ہو تاکہ عوام کی توجہ اور ہمدردیوں کو حاصل کیا جا سکے اور اپنے ٹی وی چینل کی ریٹنگ کو گرنے سے بچا یا جا سکے۔ان کی اس سوچ کا ملکی سا لمیت پر کیا اثر پڑے گا یہ ان کی دردِ سری نہیں ہے ۔۔

پاکستانی میڈیا نے آجکل سفیرِ پاکستان حسین حقانی کو اپنے نشانے پر رکھا ہوا ہے اور اس کے خلاف ایک ایسی مہم چلائی جا رہی ہے جس میں اسے ایسے شخص کے روپ میں پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس نے افواجِ پاکستان اور آئی ایس آئی کے خلاف میمو لکھوا کر وطن سے غداری کی ہے لہذا اس پر غداری کا مقدمہ قائم کر کے اسے سزا دی جانی ضروری ہے تاکہ دوسرے اس سے عبرت حاصل کریں ۔اس میمو کے بارے میں مزید واضح کر دوں کہ اس میمو کو دو مئی کو مائک مولن کو لکھا گیا تھا لیکن موجودہ سیاسی مصلحتوں کے پیشِ نظر اسے اب یکا یک منظرِ عام پر لایا گیا ہے اور اس کا رخ بھی ایوانِ صدر کی جانب ہے ۔اسٹیبلشمنٹ نے ہمیشہ اپنے نمک خواروں کو جمہوری حکومتوں کے خلاف استعمال کیا ہے اور اس دفعہ قرعہ فال منصور اعجاز کے نام نکلا ہے اور اسے موجودہ حکومت کو بدنام کرنے اور اس کی حب الوطنی پر الزامات لگانے کے کام پر معمور کیا گیا ہے۔ منصور اعجاز کاکام اتنا ہی ہے کہ اس نے یہ شہادت دینی ہے کہ اس نے یہ میمو سفیرِ پاکستان حسین حقانی کے کہنے پر لکھا تھا اور سفیرِ پاکستان حسین حقانی کو صدرِ پاکستان آصف علی زرداری نے میمو لکھنے کی یہ اہم ذمہ داری سونپی تھی کیونکہ حسین حقانی نے ان خیالات کا اظہار خود مجھ سے ٹیلیفون پر کیا تھا ۔ منصور اعجاز نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ میرے ایک استفسار پر سفیرِ پاکستان حسین حقانی نے مجھے بتا یا تھا کہ اس میمو کو لکھوانے میں اسے بگ باس کی تائید حاصل ہے لہذا غداری کا مقدمہ بگ باس ( صدرِ پاکستان آصف علی زرداری) کے خلاف بھی قائم ہونا چائیے کیونکہ آصف علی زرداری کی پشت پناہی کے بغیر سفیرِ پاکستان حسین حقانی ایسا میمو لکھنے کا رسک نہیں لے سکتے تھے۔ میں ٹیلیویژن پر ٹاک شو دیکھ رہا تھا جس میں اس بات پر زور دیا جا رہا تھا کہ جو کچھ اس میمو میں لکھا گیا ہے اور جس طرح کی یقین دہانیاں امریکہ کو کروائی جا رہی ہیں وہ حسین حقانی کے بس میں نہیں ہیں اور جو چیز اس کے بس میں نہیں ہے اسے امریکی احکام تک پہنچانے کی کوئی تُک نہیں بنتی لہذا ثابت ہوا کہ اس میمو کو کسی ایسے شخص نے لکھوایا ہے جو بڑے فیصلے کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ حسین حقانی چونکہ صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کے انتہائی قابلِ اعماد ساتھیوں میں سے ہیں لہذا اسے صدرِ پاکستان آصف علی زرداری نے کہا تھا کہ وہ امریکی حکام کو اس طرح کی یقین دہانی کروائیں لہذا غداری کے اصل مجرم صدرِ پاکستان آصف علی زرداری ہیں لہذا ان کے خلاف قانون کو حرکت میں آنا چائیے۔یاد رکھیں سچ وہی ہو گا جو منصور اعجاز اپنی زبان سے ادا کرے گا اور منصور اعجاز وہی بولے گا جو اسے آئی ایس آئی بولنے کے لئے مجبور کرے گی اور آخری فیصلہ وہی ہو گا جو آئی ایس آئی چاہے گی ۔

موجودہ صورتِ حال کو سمجھنے کےلئے ہمیں ۵ جولائی 1977 کے واقعات کی طرف رجوع کرنا ہو گا کیونکہ اس کے بغیرموجودہ سازش کو سمجھا نہیں جا سکتا ۔ پانچ جولائی 1977 کو جنرل ضیا لحق نے اقتدار پر غا صبانہ قبضے کے بعد ذولفقار علی بھٹو کو اپنے راستے سے ہٹانے کےلئے ایک بین الا قوامی سا زش کا جال بھنا اور اس کےلئے ایف ایس ایف کے چیف مسعود محمود کا انتخاب کیاگیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلا ف قتل کی ایک پرانی ایف آئی آر کو از سرِ نو زندہ کیا گیا اور ذولفقار علی بھٹو کو اس میں نامزد کر کے اس کے خلاف قصقری کے قتل کی کاروائی کا آغاز کیا گیا۔مسعود محمود کو قتل کے اس مقدمے میں وعدہ معاف گواہ بنا یا گیا۔پولیس کے پانچ دوسرے اعلی عہدیداروں کو بھی اس سازش میں شریک کیا گیا لیکن انھیں یہ ضمانت دی گئی تھی کہ انھیں سزا سنائے جانے کے بعد معافی دے کر پھانسی سے بچا لیا جائے گا۔ انھوں نے جنرل ضیا الحق کے حکم پر اقبالِ جرم بھی کیا اور اس بات کی شہادت بھی دی کہ قصوری کا قتل ذولفقار علی بھٹو کے احکامات پر ہوا تھا۔پولیس کے ان سارے افسران کو اس بات کا یقین دلایا گیا تھا کہ ذولفقار علی بھٹو پر سزاکے بعد ان کی رحم کی اپیلیں منظور کر لی جائیں گی اور یوں انھیں کسی قسم کی کوئی سزا نہیں ہو گی اور وہ باعزت بری ہو جائیں گئے لیکن ہوا بالکل اس کے بر عکس اور ان سارے پولیس افسران کو بھی ذولفقار علی بھٹو کے ساتھ ہی تختہ دار پر کھینچ دیا گیا تھا تاکہ دنیا کو یہ تاثر دیا جا سکے کہ جنرل ضیا لحق بڑا انصاف پسند شخص ہے اور وہ کسی سے بھی رو ر عائت نہیں کرتا۔اگر جنرل ضیا لحق پانچ پولیس افسران کی اپیلیں منظور کر لیتا تو پھر اس پر عالمی دباﺅ بڑھ سکتا تھا کہ وہ ذولفقار علی بھٹو کی جان بخشی کی اپیل پر اس کی سزائے موت بھی منسوخ کرے لہذا نہ رہے با نس نہ بجے بانسی کے مصداق اس نے سب کو موت کی وادی میں دھکیل کر سارے ثبوتوں کو ہمیشہ ہمیشہ کےلئے ختم کر دیا۔ مسعود محمود کو امریکہ میں گمنام زندگی میں دھکیل دیا گیا تھا اور اب کوئی ایسا ثبوت باقی نہیں بچا تھا جو جنرل ضیا لحق کی سفاکیت کا بھانڈا پھوڑ سکتا ۔ راوی چین ہی چین لکھ رہا تھا اب اسے کسی بات کا ڈر نہیں تھا لیکن وہ لہو جوآستین پر لگا رہ گیا تھا وہ تو پکار پکار کر کہہ رہا تھا کہ قاتل جنرل ضیا الحق ہے۔ جب تمام معاملات حسبِ منشا طے پا گئے تو نیلی چھتری والے نے جنرل ضیا الحق کو اپنے پاس بلانے کا فیصلہ کرلیا تو اسکی ساری تد بیریں دھری کی دھری رہ گئیں اور کوئی بھی اسے موت سے بچا نہ سکا۔ خدا نے اسے عبرت کا نمونہ بنا دیا لیکن اقتدار کی خا طر جھوٹ کا کھیل پھر بھی جاری ہے ۔۔

پاکستان کی عدلیہ کے ججز بھی اس سازش میں برابر کے شریک تھے۔ ان سے اس بات کا حلف لیا گیا تھا کہ وہ ہر حال میں ذولفقار علی بھٹو کو سزائے موت دیں گئے۔ ، عدلیہ کے ججز نے ایسا ہی کیا اور یوں ایشیا کے ذہین و فطین سیاستدان ذولفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل عمل پذیر ہوا۔ مٹھا ئیاں بانٹی گئین بھنگڑے ڈالے گئے اور جشن منائے گئے کہ ایک قاتل اپنے منطقی انجام کو پہنچا۔پاکستان کی ساری مذہبی قیادت بھی اس سازش میں شریک تھی ۔حیرت ہوتی ہے کہ خانہ کعبہ کی دیواروں سے لپٹ لپٹ کر رونے والے، عشقِ محمد ﷺ کا دعوی کرنے والے، درودو سلام کی محفلیں سجانے والے، تسبیح ، نماز روزے اور درودو سلام میں اپنے شب و روز گزارنے والے علما ئے کرام بھی جھوٹ کے علمبردار بن جائیں گئے ۔سرکارِ دو عالم ﷺ کے روضہ مبارک کے روبرو تو وہ سچ کا ساتھ دینے اور جھوٹ کی بیخ کنی کا وعدہ کرتے ہیں لیکن ذاتی مفادات کی خا طرسرکارِ دو عالم ﷺ سے کیا گیا وعدہ بھی فراموش کر دیتے ہیں اور اس گروہ میں شامل ہو جاتے ہیں جن کا مطمع نظر دنیاوی مفادات کا حصول ہو تا ہے۔اگر اپنے وقت کے چند جید علما نے بھی اپنے ایمان کو مفادات کے چند ٹکڑوں کے عوض بیچ دیا تھا تو پھر سچ کے ساتھ کھڑا رہنے کےلئے کیا فرشتے آسمان سے اتریں گئے ۔ اللہ ہو کا ورد اور سینے پر اسمِ محمد ﷺ کی پھونکیں اس وقت بے اثر ہو جاتی ہیں جب سچائی کی بجائے جھوٹ کا ساتھ دیا جاتا ہے اور یہی سب کچھی مولائیت نے کیا تھا اور ایک بے گناہ کو سرِ دار کھینچ کر اپنے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنا یا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اب کوئی بھی ان کی کہی ہوئی باتوں اور ان کے دعووں کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے کیونکہ ان کے ہر عمل کے پیچھے ان کے ذاتی مفادات کار فرما ہو تے ہیں۔ حیات کے رازدن علامہ اقبال نے اس سارے فلسفے کو ایک شعر میں جس جامعیت اور خوبصورتی سے بیان کیا ہے جی نہیں چاہتا کہ اس سے آپ کو محروم کروں۔
یہ ذکرِ نیم شبی یہ مراقبے یہ سرور۔۔تیری خودی کے نگہبان نہیں تو کچھ بھی نہیں

سچائی کو قتل کرنا کسی بھی انسان کے لئے ممکن نہیں ہوتا ۔ سچائی ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔ ذولفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل ہوا لیکن اس کے قاتل خود پکار اٹھے کہ ہم نے ذولفقار علی بھٹو کے قتل کا فیصلہ دباﺅ میں کیا تھا ۔ سچ تو یہی ہے کہ سچ وقت کی کوکھ سے خود بخود جنم لیتا ہے اور اپنی حقانیت کی گواہی دے جاتا ہے۔ ذولفقار علی بھٹو کا قتل بھی ایسی ہی سچائی تھی جسے فوجی جرنیل عدلیہ اور مولائیت سمجھنے سے قاصر تھی ۔ان سب نے مل کر اس کا قتل کیا لیکن کیا ان کی سازشوں سے وہ واقعی اس انجام سے ہمکنار ہوا جس کی آرزو ان سارے کرداروں نے اپنے من میں پال رکھی تھی ۔ اس نے جان دے کر آپنے لئے ایک ایسی راہ کا انتخاب کر لیا جس میں انسان ہمیشہ ہمیشہ کےلئے امرہو جاتا ہے اور مخالفین کے مقدر میں ذلت و رسوائی کے سوا کچھ بھی ہاتھ نہیں آتا۔وہ تاریخ کے سینے میں ایک دل کی مانند دھڑک رہا ہے لیکن اس کے مخالفین وقت کی عدالت میں عبرت کی ایسی علامت بنے ہوئے ہیں جن سے ہر کوئی نفرت کرتا ہے۔ جنرل ضیا لحق اور اس کے حواریوں کا کوئی نام لیوا باقی نہیں ہے لیکن ذولفقار علی بھٹو سے عوام کی محبت کا یہ عالم ہے کہ اس کے مزار سے کبھی بھی سرخ گلاب خشک نہیں ہوتے۔لوگ اس کے مزار پر اس کی جراتوں کو ہدیہ تبریک پیش کرتے ہیں، اس کی عظمتوں کے گیت گاتے ہیں اور اس کے نقشِ قدم پر چلنے کے عہدو پیمان کرتے ہیں۔ وہ ایک ایسی شان سے زندہ ہے جس میں ہر سو محبت کے زمزمے بہہ رہے ہیں لیکن ایک وقت تھا جب اسے بھی سازش کے تحت گناہ گار ثابت کیا گیا تھا جیسا کہ آج صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کو مجرم ثابت کرنے کی سر توڑ کوشش کی جا رہی ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ فوجی جرنیل صرف سیاسی قیادت کو ہی اس اعزاز سے سرفراز کرتے ہیں اور ان کے خلاف سازشوں کا جال بن کر ان کا کریا کرم کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیتے ہیں؟

(جاری ہے)
Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 620 Articles with 452679 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.