پی ٹی آئی ۔ایک گزارش

میں اور میرا ٹوٹا پھوٹا خاندان ہم لوگ قیام پاکستان سے قبل ہی مسلم لیگ کی دیوانگی میں مبتلا ہو گئے تھے۔ہزارہ مسلم لیگ کا گڑھ تھا اور قائد سے محبت لوگوں کے ایمان کا حصہ تھی۔لوگ اپنی محبتیں بھول جایا کرتے ہیں لیکن پہاڑی علاقے کے لوگ اپنی محبتوں اور نفرتوں میں بڑے پکے ہوتے ہیں۔ہمارے دادا اور ہمارے والد دونوں اسی دیوانگی میں لے کے رہیں گے پاکستان بن کے رہے گا پاکستان کے نعر ہ ہائے مستانہ بلند کرتے رہے۔دادا تو خیر قائد کی وفات کے چند ہی دنوں کے بعد اسی سرمستی میں کہ ہم اب آزاد ہیں راہی ملک عدم ہوئے لیکن والد جب تک رہے اپنی پرانی محبت کو سینے سے لگائے مسلم لیگ ہی کی محبت کا دم بھرتے رہے۔ہزارے والوں کو مسلم لیگ کے نام پر بہت سے بہروپیوں نے لوٹا اور ہم بخوشی لٹتے رہے۔پاکستان بنتے وقت چونکہ سرخپوش ہمارے قائد کے خلاف تھے۔پاکستان کے خلاف تھے اس لئے آج بھی سرخ کپڑا دیکھ کے ہم ہزارے وال بدک جاتے ہیں۔

اسی محبت نے ہمیں کبھی بھٹو اور اس کی پارٹی کے قریب نہیں آنے دیا۔ہزارے کے لوگوں کا خیال تھا کہ یہ شخص بھی دراصل مسلم لیگ جو کہ اس ملک کی بانی جماعت ہے، کا تیاپانچہ کرنا چاہتا ہے۔اس لئے ہم نے پیپلز پارٹی کے ساتھ بھی خوب "متکا"لگائے رکھا۔پہلے نیپ اور اس کے بعد پیپلز پارٹی کبھی بھی ہزارے والوں کے دل میں جگہ بنانے میں کامیاب نہ ہو سکیں۔ان پارٹیوں اور ان کے قائدین کو دھونا ہمارا شروع سے محبوب مشغلہ رہا ہے۔ان کے بارے لکھتے ہوئے ہمارے قلم میں کبھی لڑکھڑاہٹ نہیں آئی۔ہاں شاید ہم تعصب ہی کا شکارتھے اور شاید اب بھی ہیں۔وجہ ہم نے بیان کر دی ۔کیا کہا آپ متائثر نہیں ہوئے؟بھائی ہماری اس بے لوث محبت سے مسلم لیگ والے بھی کبھی متاثر نہیں ہوئے۔انہوں نے بھی ہمیشہ ہم سے وہی سلوک کیا جو ایک معشوقہ غمزہ و عشوہ طراز اپنے سادہ لوح عاشق کے ساتھ کیا کرتی ہے۔لیکن وہ عاشق ہی کیا جو معشوق کا در چھوڑ دے سو ہم ہزارے وال بھی مسلم لیگ کے نام پر کبھی نونیے ہوئے کبھی قافیے لیکن پھر یہ ہوا کہ قائد کی مسلم لیگ جن کے اشارہ ابرو کی باندی تھی۔انہوں نے ہمیں تیسری بار اپنی وزارت عظمیٰ کے لئے سرخوں کے آگے بیچ دیا۔یہ ق ن ف والے سب اس بل پہ دستخط کرنے والوں میں شامل تھے۔ہر ایک بہروپئیے کی اپنی اپنی قیمت تھی جو اس نے وصول کی اور ہمارا سودا کر دیا۔

ہمیں احساس ہو گیا کہ اس بے ثبات دنیا میں بے لوث محبت کی کوئی قدر نہیں ہوتی۔اگر آپ مٹی کے مادھو اور بجلی کے کھمبے منتخب کر کے اسمبلیوں میں بھیجیں گے تو وہ وہاں ہوتے ہوئے بھی آپ کی بات نہیں کر پائیں گے۔اقبال کے بقول ہم تو فطرت کی نگہبانی کرنے والے لوگ تھے لیکن محبت کے چکر میں یوں پھنسے کہ اس عاشقی میں عزت سادات بھی گنوا بیٹھے۔اس حادثے کے فوراََ بعد ایک سے بڑھ کے ایک موقع پرست آتا رہا اور ہمارے کندھے سے کندھا ملا کے ہماری ہمدردیاں حاصل کرنے کی سعی کرتا رہا۔پہاڑئیے لیکن اب کی بار لٹنے والے نہیں کہ ایمان کی حرارت ابھی ان میں باقی ہے اور مومن ایک سوراخ سے کتنی بار اپنے آپ کو ڈسوا سکتا ہے۔پورے پاکستان کی طرح اب تو ہزارے کے کھیتوں اور کھلیانوں ،گھروں اور چوباروں،دوکانوں اور بازاروں میں ایک ہی شخص کے نام کا چرچا ہے اور وہ ہے عمران خان۔

میانوالی کے خان سے ہمیں امید ہے کہ وہ ہمارے بھی زخموں پہ مرہم رکھے گا۔ہمیں اور چاہئے بھی کچھ نہیں۔ہم تو اپنے قائد کے پاکستان کی خیر مانگتے ہیں۔ہمیں نواز شریف پہ بڑا مان تھا لیکن نواز شریف نے نہ صرف ہزارے وال کا خیال نہیں کیا بلکہ پاکستان کی اساس پہ ضرب لگانے والوں سے ہاتھ ملا لیا۔نواز شریف نے ہمیں نہیں بیچا اس نے ہماری پاکستانیت کا سودا کیا ہے۔ہمیں اے این پی سے گلہ نہیں کہ ان کا تو منشور ہی یہی تھا۔انہوں نے کبھی اس سے انکار بھی نہیں کیا۔ہم نے تیر کھا کے جب کمیں گاہ کی طرف دیکھاتو محسوس ہوا کہ ہم تو اپنوں ہی کی کمینگی کا شکار ہوئے تھے۔

خان بھائی !ہم پہاڑئیے بہت سادہ دل لوگ ہیں لیکن یہ یاد رکھئے گا کہ ہماری محبت بھی انتہا ءکی ہوتی ہے اور نفرت بھی۔ہم نے ایک صدی سے زاید قائد اور قائد کی لیگ سے محبت کی ہے بغیر صلے کی پرواہ کئے۔ہمیں اب آکے لگا ہے کہ زاغوں کے تصرف میں ہیں عقابوں کے نشیمن۔ہمیں آپ قائد ہر گز نہیں لگتے پر ہمیں آپ سے اپنے قائد کی خوشبو آتی ہے۔ہمیں آپ سے پاکستانیت کی خوشبو آتی ہے۔آپ قائد اعظم نہیں بن سکتے کیونکہ جنہوں نے یہ کوشش کی منہ کی کھائی۔آپ قائد کا پرتو بن سکتے ہیں۔آئیے ہمارے دل اور بانہیں آپ اور آپ کی پارٹی کے لئے کھلی ہیں۔ہم ہزارے وال آک کو ہزارہ میں خوز آمدید کہتے ہیں۔

آخر میں ایک گزارش آپ سے اور آپ کے ہمدردوں سے کہ ہم سخت لہجوں کے عادی نہیں۔ہمیں محبت ہی سے جیتا جا سکتا ہے۔سنا ہے آپ کی پارٹی میں لوگ بات بعد میں کرتے ہیں اور گریبان پہ ہاتھ پہلے ڈالتے ہیں۔سیاست اور ہزارہ میں سخت لہجے نہیں چلتے۔ہم اونچا بولنا اور اونچا سننا پسند نہیں کرتے۔لہجے میں تھوڑی مٹھاس اور رویوں میں تھوڑی نرمی لوگوں کا دل جیتنے کا سبب بنتی ہے۔عمران بے چارہ بھی لیکن کیا کرے یہاں ہر طرف چور ہی چور ہیں۔اب چوروں کو کوئی محبت سے کیسے بلائے۔
Qalandar Awan
About the Author: Qalandar Awan Read More Articles by Qalandar Awan: 63 Articles with 54117 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.