کیسے تھمے گی ہند-چین بری کشیدگی؟

تازہ اطلاع کے بموجب ہند-چین کشیدگی میں بحیرہ جنوبی چین کی ملکیت پر بیجنگ اپنے دعوے پرآج بھی قائم ہے جبکہ اس سے قبل ہندوستانی دفاعی تھنک ٹینک نے انکشاف کیا تھا کہ چین ہندوستان کو سبق سکھانے کیلئے کرگل طرز کی کارروائی کرسکتا ہے۔ انسٹی ٹیوٹ فار ڈیفنس اسٹڈیز اینڈ اینالائسز آئی ڈی ایس اے نے ہندوستان اور چین کے درمیان تنازعات کے حالیہ تناظر میں جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا تھاکہ دونوں ممالک کے درمیان سرحدی تنازع کرگل جنگ جیسی صورتحال پیدا کرسکتا ہے ، چین کی جانب سے یہ کارروائی ریاست اروناچل پردیش ، لداخ اور سکم کے علاقوں میں متوقع ہے اور اس کا مقصد ہندوستان کو سبق سکھانا ہوگا، اگر کرگل طرز کی یہ جنگ ہوئی تو مختصر ہوگی لیکن اس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان سرحدی تنازع حل کرنے کیلئے نتیجہ خیز مذاکرات ہوسکتے ہیں۔ابھی اس بات کوپندرہواڑہ بھی نہیں گذرا کہ ہند-چین کشیدگی کے خدشات پھر واضح ہوئے ہیں۔ جنوبی ایشیا ءبر صغیر کے زیادہ تر رقبے پر پھیلا ہوا ملک ہندوستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کے بڑے ممالک میں شامل ہونے کے باوجودہ چین سے پس رہا ہے۔واضح رہے کہ ہندوستان کے مشرق میںچین کے علاوہ بنگلہ دیش اور میانمار ہیں، شمال میں بھوٹان اور نیپال اور مغرب میں پاکستان ہے اس کے علاوہ ہندوستان کے جنوب مشرق اور جنوب مغرب میں بحر ہندبھی واقع ہے۔

ذرائع کی مانیں توبحیرہ جنوبی چینSouth China Sea چین کے جنوب میں واقع سمندر دراصل بحر الکاہل کا حصہ ہے اور سنگاپور سے لے کر آبنائے تائیوان تک 35 لاکھ مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ یہ جن 5ابحار پرمشتمل ہے جن میںبحر ہند کے علاوہ اوقیانوس، کاہل، منجمد جنوبی، منجمد شمالی کے بعد سب سے بڑا آبی ذخیرہ ہے۔اس سمندر سے ملحقہ ممالک میں چین، مکاؤ، ہانگ کانگ، تائیوان، فلپائن، ملائیشیا، برونائی، انڈونیشیا، سنگاپور، تھائی لینڈ، کمبوڈیا اور ویت نام شامل ہیں۔ اس سمندر میں گرنے والے بڑے دریاؤں میں پرل، من، جیولونگ، سرخ، میکانگ، راجانگ، پہانگ اور پاسگ شامل ہیں۔اس سمندر کیلئے سب سے زیادہ استعمال ہونے والی اصطلاح بحیرہ جنوبی چین ہے جو انگریزی اور بیشتر یوروپی زبانوں میں استعمال ہوتی ہے لیکن کبھی کبھار اسے ملحقہ ممالک میں مختلف ناموں سے بھی پکارا جاتا ہے۔اس سمندر کا انگریزی نام چین میں تجارت کے مواقع کی تلاش میں یوروپ اور جنوبی ایشیا سے آنے والے یورپیوں نے رکھا تھا۔ سولہویں صدی میں پرتگیزی جہاز رانوں نے اسے بحیرہ چینMare da Chinaکا نام دیا۔ تاہم اسے بعد ازاں قریب کے دیگر آبی اجسام سے ممتاز کرنے کیلئے بحیرہ جنوبی چین کا نام دیا گیا۔چین میں اس کا روایتی نام بحیرہ جنوبی ہے۔ تاہم اشاعتی ادارے بحیرہ جنوبی چین ہی لکھتے اور شائع کرتے ہیں۔ ویت نام میں اسے بحیرہ مشرق کہا جاتا ہے اور کبھی کبھار ویت نام میں غیر ملکی زبانوں میں شائع ہونے والی کتابوں میں اسے اسی نام سے پکارا جاتا ہے۔ فلپائں میں اسے بحیرہ لوزون بھی کہا جاتا ہے جو فلپائن کے اہم جزیرے لوزون سے موسوم ہے۔ جنوب مشرقی ایشیا میں اسے بحیرہ چمپا بھی کہا جاتا تھا جو 16 ویں صدی سے قبل کی ایک بحری ریاست کے نام سے جانی جاتی ہے۔

بیجنگ حکومت اسی بحیرہ جنوبی چین کے متنازع علاقے کے وسیع تر حصے پر اپنے ملکیتی دعوے سے دستبرداری پر تیار نہیں ہے۔اس سلسلے میں چین انڈونیشیا میں آئندہ ہفتے ہونے والی مشرقی ایشیائی ملکوں کی دو اہم سربراہی کانفرنسوں میں نہ تو کسی ملک کو کوئی رعایت دینے پر تیار ہو گا اور نہ ہی کسی قسم کی مصالحت پر آمادہ۔اس کا سبب یہ ہے کہ بحیرہ جنوبی چین کی علاقائی ملکیت سے متعلق بیجنگ حکومت کو داخلی سطح پر بڑھتے ہوئے دباؤ کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ چینی حکومت میں یہ احساس بھی پایا جاتے ہے کہ علاقائی ملکیت سے متعلق اس کے دعووں کو خطے کے دیگر ملکوں کی طرف سے زیادہ سے زیادہ محدود کرنے کی کوششیں بھی کی جا رہی ہیں جبکہ بحیرہ جنوبی چین کا علاقہ ممکنہ طور پر تیل اور گیس کے ذخائر سے مالا مال ہے اور بیجنگ حکومت اس کے بہت وسیع حصے کو اپنی ملکیت قرار دیتی ہے۔ اس متنازعہ خطے میں کئی ایسے چھوٹے چھوٹے جزیرے بھی شامل ہیں جو غیر آباد ہیں۔ بیجنگ کی طرف سے اس سمندری علاقے میں بورنیو کے جزیرے کے شمالی ساحلی حصے کو بھی چین ہی کی ملکیت قرار دیا جاتا ہے لیکن اس خطے میں ویت نام، فلپائن، تائیوان، ملائیشیا اور برونائی بھی ایسے ممالک ہیں جو بحیرہ جنوبی چین کو جزوی طور پر اپنا ملکیتی علاقہ قرار دیتے ہیں۔ یہ ملک امریکہ اور جاپان کے ساتھ مل کر چین سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ اس علاقے پر اپنی حاکمیت سے متعلق تنازعے کو حل کرے اور اس بارے میں پائے جانے والے جمود کا خاتمہ کرے۔ یہ تنازع امسال ایک بار پھر خطے میں نئی کشیدگی کی وجہ بنا تھا اور معاملہ مختلف ملکوں کے بحری دستوں کے آمنے سامنے آ جانے تک بھی پہنچ گیا تھا۔

بیجنگ سے ملنے والی رپورٹوں میں خارجہ پالیسی سے متعلقہ امور کے ماہرین کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ چین کو اچھی طرح احساس ہے اور وہ کافی خود اعتماد بھی ہے کہ اس کی فوجی طاقت بڑھتی جا رہی ہے۔ اسلئے بیجنگ میں ملکی قیادت کے پاس بظاہر ایسی کوئی وجہ نہیں کہ وہ اپنے اب تک کے دعووں سے دستبردار ہو جائے۔لندن میں خارجہ پالیسی کے چیٹم ہاؤس انسٹیٹیوٹ کے ایشیا پروگرام کے سربراہ کیری براؤن کہتے ہیں کہ چینی قیادت کی سوچ میں چین عسکری اور اقتصادی حوالوں سے اب بہت نمایاں اور کافی مضبوط ہے، لہٰذا وہ بھلا اپنے دعووں سے دستبردار کیوں ہو گا؟ اگر چین کی توانائی کی اور عسکری ضروریات کو دیکھا جائے، ساتھ ہی اس بات کو بھی مد نظر رکھا جائے کہ متنازع سمندری علاقے میں کتنے زیادہ قدرتی وسائل پائے جاتے ہیں تو چین کا اپنے ملکیتی دعووں کو ترک کر دینا بڑا عجیب ہو گا۔

چینی وزیر اعظم وین جیاباؤ آئندہ ہفتے پہلے تو جنوب مشرقی ایشیائی ملکوں کی تنظیم آسیان کی ایک سربراہی کانفرنس میں شرکت کریں گے اور پھر 19 نومبر کو ایک مشرقی ایشیائی سمٹ میں بھی۔ یہ دونوں کانفرنسیں انڈونیشیا کے جزیرے بالی پر منعقد کی جائیں گی۔مشرقی ایشیائی کانفرنس 2005سے ہر سال منعقد کی جاتی ہے۔ اس میں جنوب مشرقی ایشیائی ملکوں کے علاوہ چین، جاپان، ہندوستان، آسٹریلیا، جنوبی کوریا اور نیوزی لینڈ کے اعلیٰ نمائندے یا رہنما حصہ لیتے ہیں جبکہ امسال انیس نومبر کو ہونے والی اس کانفرنس میں امریکی صدر باراک اوباما کی شرکت بھی متوقع ہے۔کئی ایشیائی سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ آسیان کی سربراہی کانفرنس اور مشرقی ایشیائی سمٹ میں بحیرہ جنوبی چین کی ملکیت سے متعلق تنازع کے ذکر قوی طور پر آسکتا ہے لیکن ان میں چین بظاہر اپنے مؤقف میں کسی تبدیلی کا اشارہ نہیں دے گا۔
 
S A Sagar
About the Author: S A Sagar Read More Articles by S A Sagar: 147 Articles with 116458 views Reading and Writing;
Relie on facts and researches deep in to what I am writing about.
Columnist, Free Launce Journalist
http://sagarurdutahzeeb.bl
.. View More