میمو کا معمہ اور گروپوں کی سیاست

ملک میں ان دنوں پیپلز پارٹی حکومت کی طرف سے امریکی حکومت کو بھیجے گئے ایک پیغام کا چرچا ہے جس میں اپنی حکومت فوج سے بچانے کی استدعا کرتے ہوئے امریکی مفادات کے مطابق بعض اقدامات کی پیشکش کی گئی تھی۔یہ معاملہ منظر عام پر آنے کے بعد اس پیغام رسانی میں شامل امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی کو اسلام آباد طلب کرلیا گیا ہے۔پی پی حکومت اور حسین حقانی اس طرح کے کسی پیغام میں ملوث ہونے سے انکار کر رہے ہیں لیکن بادی النظر میں معلوم ہوتا ہے کہ ایسا ہوا ہے اور پی پی حکومت کی طرف سے اپنے بچاﺅ میں ایسا کیا گیا ہے ۔ میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ” میمو کے معاملے کو 9دن میں انجام تک پہنچائیں اگر حسین حقانی کے خط کی انکوائری نہ ہوئی تو ہم پورے ملک سے پٹیشن لیکر سپریم کورٹ میں جائیں گے میں خود عدالت عظمیٰ کے دروازے پہ جاﺅں گا۔“ایک خبر کے مطابق مسلح افواج کی جانب سے حکومت پر دباﺅڈالا جارہا ہے کہ امریکی ایڈمرل مائک مولن کو پاکستانی فوج کے خلاف خط بھیجے جانے میں ملوث ہونے کے باعث امریکہ میں پاکستانی سفیر حسین حقانی کو برطرف کیا جائے اور ان پر مقدمہ چلایا جائے۔خبر کے مطابق فوج محض ان کا استعفیٰ قبول کرنے پر مطمئن نہیں ہو گی ان پر مقدمہ چلایا جانا ضروری ہے تا کہ قوم کے سامنے تمام حقیقت کھل کر سامنے آ سکے۔خبر میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ایوان صدر کی جانب سے ان مطالبات کی مزاحمت کی جا رہی ہے۔کئی حلقوں کی جانب سے امریکہ کو خط لکھے جانے کوملکی خود مختاری پر حملہ قرار دیا جا رہا ہے۔تاہم حقیقت میں ہماری خود مختاری پر عشروں پہلے سے ہی بڑا سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔

امریکی حکومت کے نام اس میمو کے معاملے سے قطع نظر پاکستان میںیہ عمومی رائے ہے کہ موجودہ سیاسی جماعتیں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہیں۔معاف کیجئے سیاسی جماعتیں تو ملک میں ہیں ہی نہیں ،سیاسی جماعتوں کے نام پر قائم خاندانی،شخصی ،علاقائی گروپ ہیں۔یعنی پاکستان میں اصل سیاسی جماعتوں اور سیاسی شخصیات کو ختم کر کے ملٹری ڈیموکریسی کے احاطے میں محدود سیاسی جماعتیں قائم کرنے والوں کا سیاسی لائحہ عمل مکمل طور پر ناکام ثابت ہو چکا ہے۔دوسرے الفاظ میں ملٹری ڈیموکریسی کاتجربہ مکمل ناکامی سے دوچار ہے۔اسی صورتحال کا مخصوص انداز میں” ادراک“ کرتے ہوئے ملک میں نئی سیاسی جماعت اور نئی سیاسی قیادت سامنے لائی جا رہی ہے اور اسٹیبلشمنٹ سے وابستہ دھڑا دھڑ نئی سیاسی جماعت میں شامل ہو رہے ہیں اور ان شامل ہونے والوں میںوہ لوگ بھی شامل ہیں جو بدلتی ہواﺅں کا رخ دیکھ کر اپنی سیاسی وفاداریوں کا تعین کرتے ہیں۔نئی سیاسی قیادت لانے والے شاید اپنی خرابیوں اور خامیوں سے پیدا سنگین ملکی صورتحال کے پیش نظر اصلاحاتی پروگرام تیار کر رہے ہیںجس کے تحت نئی قیادت کے ذریعے عوام کو مطمئین کرنے کے لئے چند بہتری کے اقدامات متوقع ہیں لیکن وہ اصلاح نہ ہو سکے گی جس سے ملک میں آئین و قانون کو تمام شخصیات اور اداروں پر حاوی کیا جا سکے اور عوامی مفاد کو اولین ترجیح دی جا سکے۔

پیپلز پارٹی بے نظیر بھٹو کے بعداپنے راستے سے بھٹک چکی ہے اور آصف زرداری کی سربراہی میں پی پی پی حکومت نے بدترین کرپشن، بد انتظامی اور اختیارات کے ناجائز استعمال سے بدنامی کے ملکی ریکارڈ توڑ چکی ہے۔میاں برادران کی سربراہی میں مسلم لیگ (ن) سے وابستہ عوامی توقعات میں تیزی سے کمی واقع ہوئی ہے۔ آبادی و وسائل میںملک کے بڑے صوبے میں قائم حکومت عوامی مسائل و مصائب کو مخاطب کرنے اور اہمیت دینے کو مسلسل نظر انداز کرتی چلی آئی ہے۔صوبے میں سیاست کے روائیتی منفی سیاست کے نظارے عام ہیں۔میاں محمد نواز شریف نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ہم نے” یہی تو سبق حاصل کیا ہے“ لیکن عملی صورت یہ ہے کہ انہوں نے سبق حاصل نہیں کیا۔انداز بادشاہی بدستور جاری ہیں،خاندانی سیاسی حاکمیت کی صورتحال نمایاں ہے۔ کئی مفاد پرست عوامی حلقوں کی وابستگیاں پنجاب میں حکومت ہونے کی وجہ سے مسلم لیگ(ن) کے ساتھ ہیں۔مسلم لیگی کارکن جب قائد کہتا ہے تو اس میں قائد کا تمام خاندان شامل ہوتا ہے ۔ اب ملک و عوام کی تقدیر بدلنے کا دولہا عمران خان کو قرار دیا جا رہا ہے ۔عمران خان جس کے میدان میں کھیل رہے ہیں اور ان کی ٹیم میں جو کھلاڑی شامل ہیں ،اسے دیکھتے ہوئے عوامی و قومی مفادات کی پاسداری کی توقع خود فریبی کے سوا اور کچھ نہیں۔راولپنڈی/اسلام آباد کی ہی ایک مثال کے مطابق لینڈ مافیا کے نمایاں افراد بھی انصاف کی تحریک میں نظر آتے ہیں گویا بقول شاعر ”ہوئے بیمار جس کے سبب اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں“۔

اب میاں صاحب نے امریکی حکومت کے نام پی پی پی حکومت کے پیغام کے معاملے پر انکوائری اور معاملہ سپریم کورٹ میں لیجانے کی بات کی ہے۔ اس سے مجھے اپنے ایک عزیز کا بوڑھا گھریلو ملازم میرو یاد آ گیا۔نہایت سادہ طبعیت کا میرو چاند رات کو داڑھی اور مونچھیں ٹھیک کرانے کے لئے نائی کے پاس گیا۔نائی نے میرو سے عملی مزاق کرتے ہوئے داڑھی مونچھ کے ساتھ اس کی گنج کر دی اور بھویں بھی صاف کر دیں۔میرو جب یہ حلیہ لئے گھر والوں کے سامنے آیا تو سب کو نائی کی اس حرکت پہ غصہ آیا اور انہوں نے میرو سے دریافت کیا کہ” تم نے نائی کو ایسا کرنے سے روکا نہیں؟“ ۔اس پر میرو نے جواب دیا کہ ”میں تے اس نوں کیناں ریاں آں لیکن او کردا ریا“ ۔

گزشتہ دنوں میاں صاحب نے اسلام آباد میں ایک میڈیا گفتگو کے دوران اس بات کی تردید کی کہ عدلیہ ایجنسیوں کے کہنے پر چلتی ہے۔سپریم کورٹ تو حکومت کو کہتی آئی ہے کہ ایسا غلط کام نہ کرو لیکن حکومت ہے کہ سنتی ہی نہیں،مانتی ہی نہیں۔ ظلم و بے انصافی کے شکاربے توقیر عوام تو عرصہ سے ارباب اختیار سے کہتے آ رہے ہیں کہ ملک وعوام کے مفادات کے منافی اقدامات نہ کرو لیکن میرو کی طرح ان کی بھی کوئی نہیں سنتا۔

نئی سیاسی منصوبہ بندی سے آئندہ عام انتخابات کا منظر نامہ کچھ یوں نظر آ رہا ہے کہ پیپلز پارٹی،مسلم لیگ(ن) اور مسلم لیگ(ق) کی اسمبلی سیٹوں میں کمی کو عمران خان کی تحریک انصاف پورا کرے گی۔یعنی کوئی ایک سیاسی جماعت بڑی جماعت نہ بن سکے گی بلکہ گروپوں کی حکومت بنے گی۔ملک میں سیاسی گراوٹ کی نصف صدی سے اب ملک میں ایسی عوام تخلیق ہو چکی ہے جو ہر نئی آنے والی حکومت کی تابعداری کو ہی ملک سے وفاداری قرار دیتے ہیں۔اب ملک میں گروپوں کی سیاست کے ماحول میں ایسے ہی عوام میں یہ سوچ بھی پنپ رہی ہے کہ اگر گروپوں کی ہی سیاست ہے تو سب سے مضبوط و مقدس گروپ کی اطاعت ہی کیوں نہ کی جائے۔ملک میں پارلیمنٹ،آئین و قانون کی بالادستی کا منصوبہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد ایک سہانا سپنا ہی رہ گیا ہے۔مستقبل قریب میں ایسی صورتحال نظر آ تی ہے کہ جب حکومت مخالف عناصر کو ملک مخالف عناصر قرار دیا جانے لگے گا۔لہذا ”مشتری ہوشیار باش“ اور سلامتی کی خیر۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 770 Articles with 620139 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More