خواتین کیلئے خاتون ڈرائیور؛کیا یہ تجربہ ثابت ہوگا درست ؟

دہلی کی سڑکوں پر صنف نازک کے خلاف بڑھتے ہوئے جرائم پرشکنجہ کسنے کی فکر میں متعدد تجربے ہوتے رہے ہیں۔اس سلسلے میں درپیش متعدد مسائل کے حل کیلئے مرکزی دارالسلطنت میں ایک نئی شروعات ہوئی ہے جس میں سفر کے دوران حفاظت کی گارنٹی ہوگی۔ مجرمانہ سرگرمیوں کے پیش نظرخواتین اب ان روزگاروں اور کاروبار میں بھی داخل ہوچکی ہیں جن میں کبھی صرف مردوں کی اجارہ داری ہی تصور کی جاتی رہی تھی؛ مثلا ، دہلی کی سڑکوں پر دوڑنے والی ٹیکسیوں میں اب جلد ہی کچھ خواتین ٹیکسی ڈرائیور بھی شامل ہو چکی ہیں۔یہ خواتین شہر کے مختلف حصوں میں بطور ڈرائیور ٹیکسی میں خواتین سواریوں کے سفر کاذریعہ بن رہی ہیں۔لہٰذا اگر آپ کو دہلی کی سڑکوں پر خاتون ٹیکسی ڈرائیور اپنا کام پوری ذمہ داری سے کرتی نظر آئے تو تعجب کی بات نہیں۔ضرورت مند خواتین کو ٹیکسی ڈرائیونگ کے ذریعے اپنے پیروں پر کھڑا کرنے میں مدد کر رہی ہیں مینو وڈھیرا۔بیرون ملک سفر کے دوران مینو نے دیکھا کہ وہاں خواتین بھی ٹیکسی ڈرائیور کا کام بڑی آسانی سے کرتی ہیں۔ 2003 میں ملک آنے پر انہیں خواتین کو روزگار دلانے کا اس سے اچھا ذریعہ نظر نہیں آیاتو انھوںنے آزاد فاؤنڈیشن کی شروعات کی۔فی الحال آزاد فاؤنڈیشن جنوبی دہلی کی کچی بستیوں اور غریب خاندانوں کی خواتین کی مدد کر رہی ہے۔کمزور مالی حالات کی ماری خواتین خاندانی پریشانیوں کی وجہ سے کام کرنے کے لئے مجبور ہو جاتی ہیںجبکہ انہیں پورا محنتانہ بھی نہیں ملتا ۔ انہی خواتین کوپر وقارزندگی کیساتھ ساتھ اقتصادی طور پر قابل بنانا’سکھا‘ کا مقصد ہے۔سکھا نے خواتین کی ٹیکسی کیب سروس شروع کی جس میں جی پی ایس ، موبائل فون ، ایمرجنسی بٹن اور پیپر اسپرے جیسے سیکورٹی ذرائع بھی دستیاب ہیں۔ آج کل بڑی تعداد میں خواتین مختلف کام کررہی ہیں۔ اس لئے اگر انہیں بطور خاتون ہی ٹیکسی ڈرائیور کا کام مل جائے تو کیا کہنے؟

ٹیکسی ڈرائیور کے طورپرخواتین کے تناظر میں کچھ لوگ سوال اٹھا سکتے ہیں۔ ایسے سماج میں جہاں قدم قدم پر تحفظ کا فقدان ہے ، وہاں خواتین کس طرح محفوظ ہو سکتی ہیں؟ کون سا کام ایسا ہے جہاں تشدد کے امکان سے انکار کیا جا سکتا ہو۔ممبئی میں پہلے سے ہی کچھ خواتین ٹیکسی ڈرائیور کے طور پر کام کر رہی ہے۔ جنوبی ہندکی کچھ ریاستوں میں وہ آٹو ڈرائیور بھی ہیں لیکن شمالی ہند کی ریاستوں پر نافذ نہیں ہوتی۔ آندھرا پردیش میں کئی ڈھابے ایسے ہیں جہاں عورتیں بطور ویٹر کام کرتی ہیں۔منی پور کے دارالحکومت امفال سے 10 کلو میٹر کی دوری پر ہند-میانمار کی سرحد کے قریب موری ضلع میں واقع ہے۔ اس ضلع کی کچھ خواتین قلی کا کام کامیابی سے کر رہی ہے۔ وہ ملکی ‘غیر ملکی سیاحوں کے بھاری سامان ڈھوکر اپنا روزی کماتی ہیں۔ اسی طرح گجرات میں بھاونگر اسٹیشن پر بھی خواتین بطور قلی کام کرتی ہیں۔ پہلے ان کی تعداد کافی تھی لیکن ریلوے کے ذریعے ان کے لائسنس کی تجدید نہ کئے جانے کی وجہ سے اب یہ تعداد کم ہوکر 18 رہ گئی ہے۔ یہ حقیقت ہر ایک تسلیم کرتا ہے کہ عمارت کی تعمیر کے کام میں لگے مزدوروں میں عورتیں سر پر اینٹیں اور گارا لیکر اوپری منزل تک کیسے پہنچا دیتی ہے۔کئی سال پہلے بندیل کھنڈ جیسے پسماندہ علاقے میں کچھ غیر سرکاری اداروں نے جل کارپوریشن کے ساتھ مل کر ہینڈ پمپ ٹھیک کرنے والی مکینک خواتین کی ٹیم تربیت کی تھی۔ یہ خواتین اپنی سائیکلوں پرہینڈپمپ ٹھیک کرنے والے اوزار لے کر ان دیہاتوں میں پہنچتی تھیں جہاں سے نل خراب ہونے کی شکایت آتی تھی۔ اسی طرح کی خبر گزشتہ دنوں پنے سے ملی تھی کہ وہاں ’خواتین گارڈوں‘ کا مطالبہ بڑھ رہی ہے۔ایک اور خبر کے مطابق پونے میں واقع مختلف سوسائٹیوں اور ملوں میں بہت سی خواتین گارڈ کام کرتی ہیں۔ ایک بلڈر کے مطابق خاتون گارڈ ، مرد گارڈوں کے مقابلے میں کام کے تئیں کہیں زیادہ وقف ہوتی ہیں۔گذشتہ دنوں مشہور انڈسٹری تنظیم ’ایسوچیم‘کی طرف سے ایک مطالعہ کروایا گیا تھا۔ اس مطالعہ کے تحت 1998 سے 2004 کے درمیان پبلک ا ور پرائیویٹ سیکٹرکے روزگار میں عورتوں کی تعداد کے تناظر میں تحقیق کی گئی تھی۔ اس مطالعہ کے مطابق پبلک سیکٹر میں خواتین کی تعداد تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہے۔ ان دونوں علاقوں میں خواتین کی تعداد 49.05 لاکھ تھی جو 2004 میں بڑھ کر 50.02 لاکھ ہو گئی ہے۔

’سکھا ‘نامی کمپنی بھی اسی لئے شروع کی گئی ہے جس سے خواتین اقتصادی طور پر بھی قابل بن سکیں۔یہ تنظیم انہی خواتین کو تربیت دیتی ہیں جن کی عمر کم از کم 20 سال ہو اور وہ آٹھویں پاس ہوں۔ چھ ماہ کی ٹریننگ کے دوران یہ خواتین ڈرائیونگ کے ساتھ سیلف ڈیفنس کی ٹیکنالوجی ، بات چیت کرنے کا فن اور انگریزی کا علم بھی حاصل کرتی ہیں۔ یہ تمام صلاحیتیں ان میںخود اعتمادی پیدا کرتی ہیں۔ اس کے بعد انہیں روزگار بھی فراہم کیا جاتا ہے۔ یہ ریڈیو ٹیکسی سروس اسی لئے شروع کی گئی ہے تاکہ اس میں صرف خواتین اور خاندان ہی سفر کرسکیں ۔مینو نے لندن اسکول آف اکونومکس سے فراغت حاصل کی۔ ان کے والد انڈین نیشنل آرمی میں تھے۔ انہی کے نام پر مینو نے تنظیم کا نام آزاد فاؤنڈیشن رکھا۔ وہ اس کی ڈائریکٹر ہیں۔ آزاد فاؤنڈیشن کے اس کام میں کئی بڑی کمپنیاں ماروتی اور شیل مدد کر رہی ہیں۔ اس کے علاوہ دہلی پولیس بھی خواتین کو سیلف ڈیفنس کی ٹریننگ دینے میں مدد کر رہی ہے۔ اگر دوسری ریاستوں سے بھی کوئی ضرورت مند خاتون اس کام کو کرنا چاہے تو وہ اس کی مدد کے لئے بھی تیار رہتی ہیں۔ان کی مانیں توخواتین پر ہونے والے جرائم میں زیادہ ترمعاملات میں ان کے خاندان یا رشتہ دارہی ملوث ہوتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ خواتین گھر پر ہوتی ہیں تو بھی وہ جرائم کی شکار ہوتی ہیں جبکہ باہر کام کرنے پر وہ گھر سے زیادہ محفوظ ہیں۔ خواتین کے ٹیکسی چلانے کا کئی لوگ مخالفت کرتے ہیں۔خواتین نہ صرف ذمہ دار ہوتی ہیں بلکہ گھر اور باہر کے تمام کام پورے کرتی ہیں۔ وہ ٹریفک قوانین کی پیروی کرتی ہیں۔ شراب پی کر گاڑی چلانے جیسے معاملے خواتین کے ساتھ نہیں ہوتے۔ بعض کاتو یہاں تک کہنا ہے کہ خواتین مردوں سے زیادہ ذمہ داری سے کام کرتی ہیںجبکہ کسی تنہا خاتون کیلئے شہر کی سڑکوں پر کیب کے ذریعے سفرکرنا بعض مرتبہ پر خطرہونے کے ساتھ جان لیوا بھی ہوجاتاہے۔اس پر طرح یہ کہ کیب ڈرائیور کی بدسلوکی سے ان کا مسلسل سابقہ پڑتاہے ۔

دہلی شہر کی سڑکوں پر اب ایسی کیب فراٹے بھرنے لگی ہیں جن کی چلانے والی خواتین ہیں۔اس جدت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ خواتین کیلئے روزگار کاایک نیا دروازہ کھل گیا ہے۔لہذا جب کبھی فروزی اوربیگنی رنگ کی وردی زیب تن کئے کسی خاتون کاگاڑی چلاتے ہوئے لوگ دیکھتے ہیں تو سمجھ جاتے ہیں کہ یہ کوئی عام ڈرائیورخاتون نہیں ہے۔اگر چہ روز مرہ کی زندگی میں صنف نازک کو چمچماتی گاڑیوں کا اسٹیرنگ تھامے بارہا دیکھا گیا ہے لیکن پیشہ ورانہ طورپر اسے اختیار کرتے ہوئے دیکھنا دہلی والوں کیلئے کسی عجوبہ سے کم نہیں ہے۔ غریب اور جھگی بستیوں کی ان کی لڑکیوں نے چولہا چوکہ چھوڑکر ڈرائیونگ کو بطور معاش اختیار کرلیا ہے۔جنوبی دہلی کے کالکاجی میں’ سکھا‘ ان خواتین کو ڈرائیونگ کی تربیت دینے کے علاوہ کمرشیل کیب بھی مہیا کروا رہی ہے۔خاص بات یہ ہے کہ خاتون ڈرائیور وں کی یہ کیب صرف خواتین کیلئے مخصوص ہے جبکہ گاڑی چلانے والی ان خواتین کی تعلیم بھی واجبی سی ہے۔مدن پور کھادر کی 23سالہ رجنی کیلئے محض آٹھویں کلاس تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد 8ہزارروپے ماہانہ کمانا معمولی بات نہیں ہے جبکہ گھروں میں برتن جھاڑو وغیرہ کاکام کرنے والی عورتوں کا کل ملاکر 4یا5ہزار تک پہنچنا بھاری پڑ جاتاہے ‘وہ بھی کئی گھروں میں ملازمت کر نے کے بعد۔رجنی کے والد رنگ پینٹ اور سفیدی کاکام کرتے ہیں جبکہ ماں فٹ پاتھ پر سبزیاں بیچتی ہے۔رجنی کے والدین نے اسے صاف کہاتھاکہ وہ ڈرائیونگ کاپیشہ اختیار نہ کرے کیونکہ یہ کام صرف مردوں کو زیب دیتاہے لیکن اب کار میں بیٹھی ہوئی اپنی بیٹی کو دیکھ کر وہ ساری مخالفت بھول چکے ہیں۔کچھ ہی دن قبل رجنی نے اپنی کمائی کے 60ہزارروپے سے گھرمیں ایک کمرہ تعمیر کروایاہے۔رجنی کی مانیں توڈرائیونگ نے اسکی زندگی میں انقلاب بر پا کردیاہے ۔اسی طرح کی ایک دوسری مثال 38سالہ شبنم کی ہے جو 18سالہ بیٹی کی ماں ہیںلیکن جدوجہد کرنے کے معاملے میں عمر نے ان کا کچھ نہیں بگاڑا ہے۔’سکھا‘ کی تجربہ کار ڈرائیوروں میں سے ایک شبنم اوور ٹائمover time اور ٹپtip کے ذریعہ 9ہزار روپے ماہانہ تک کمالیتی ہیں۔اس پیشے میں آنے سے قبل وہ ڈیلی ویجزdaily wages کے ذریعے مریضوں کی دیکھ بھال کے پیشے سے وابستہ تھیں جس میں انہیں 100روپے یومیہ ملاکرتے تھے جبکہ ڈرائیونگ کی نوکری میں شبنم کو نئی خود اعتمادی نصیب ہوئی ہے۔ایک سالہ گاڑی چلانے کی تربیت کے دوران انہوں نے قرض لے کر گھرکا خرچ چلایا تھا جسے اب وہ اتار چکی ہیں۔بہرحال رجنی اور شبنم کی طرح ہی سندر نگری کی تنوجہ‘ مدن پور کھادر کی وینا اور للتا بھی ڈرائیونگ کی تربیت حاصل کرکے زندگی کے اسٹیرنگ پر قابوپانے کے فراق میں ہیں۔گزشتہ 2برسوں سے خواتین کو ڈرائیونگ کی تربیت دینے والے شری نواس کے مطابق پسماندہ بستیوں کی خواتین کو ان کے گھر سے نکال کرروزگار کے میدان میں لانا اور کام کے تئیں ان کی خود اعتمادی اور یقین کو پروان چڑھانا کوئی آسان بات نہیں ہے۔اس کے باوجود وہ 72سے زیادہ عورتوں کو گاڑی چلانے کی تربیت دے چکے ہیںجودارالسلطنت کی پرائیویٹ اور کمرشیل گاڑیوں کو چلارہی ہیں۔ذرائع ابلاغ میں شائع رپورٹ نے جہاں شہر اور قومی سطح پر متعدد خواتین کو اس پیشہ میں داخل ہونے کیلئے مہمیز کیا ہے وہیں مختلف سوالات بھی پیدا کئے ہیں جن میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ کیا خواتین کے ڈرائیور بن جانے سے صنف نازک کے خلاف جاری مجرمانہ سرگرمیوں پرواقعتا لگام کس سکے گی یا اس چلن سے فتنوں کا نیا باب کھلے گا؟
S A Sagar
About the Author: S A Sagar Read More Articles by S A Sagar: 147 Articles with 116562 views Reading and Writing;
Relie on facts and researches deep in to what I am writing about.
Columnist, Free Launce Journalist
http://sagarurdutahzeeb.bl
.. View More