پسندیدہ ترین ملک .... آخر کیوں؟

بلوچستان میں طویل بدامنی، کراچی میں بیس سالوں سے جاری بیرونی مداخلت، قبائلی علاقوں میں جاری دشت گردی، ملک بھر میں پھیلے ہوئے فرقہ وارانہ فسادات ، پانی کے تمام ذخائر پر غیر قانونی ڈیموں کی تعمیر کے ذریعے پورے پاکستان کو بنجر بنانے اور مقبوضہ کشمیر میں مسلسل اور بے رحم نسل کشی کرنے والے دہشت گرد اور سفاک صفت ملک کو راتوں رات پسندیدہ ملک قرار دینے کی آخر کیا منطق ہے۔ بھارت سے تجارت تو پہلے ہی جاری ہے۔ ہمارے پاس اس کودینے کے لیے کیا ہے، بس لینا ہی لینا ہے۔ ہماری گھریلو انڈسٹری اور دوسری صنعت تو پہلے ہی چائنا نے چھین رکھی ہے۔ اب زرعی اجناس کم ترین قیمت پر بھارت سے لے کر ہم اپنی کھیتیوں کو بھی بنجر بنا دیں گے۔ اس کے باوجود تجارت جاری رکھیں لیکن پسندیدہ ترین ملک قرار دے کر ہم یہ کیسے بھول سکتے ہیں کہ کراچی سے تاؤ بٹ پاکستان میں رسنے والا خون میں بھارت ملوث ہے۔پانی بند کرکے اس نے ہماری زراعت اور معیشت پر شب خون مار رکھا ہے۔ ایٹمی ہتھیار اس نے لوڈ کر کے ہم پر تن رکھے ہیں۔ اپنے ملک میں مرغی مرنے پر بھی ہمیں الزام دیتا ہے۔ اپنے لوگوں کو خود مار کر ہمارے سر لگا دیتا ہے، یہ تو ہمارے دیہاتی کھڑپینچوں سے بھی زیادہ کم ظرف ملک ہے، جس نے ابھی تک ہمیں دل سے قبول نہیں کیا اور وہ کسی بھی طور پر ہماری ترقی اور کامیابی پر خوش نہیں رہ سکتا ، ایسے پڑوسی سے معاملات کرنے میں احتیاط کی ضرورت ہے۔

بھارت بڑا ملک ہے، کامیاب معیشت ہے، ترقی کی راہوں پر گامزن ہے، ایٹمی طاقت ہے اور اسلحے کے انبار ہیں، اس کے باوجود وہ ہم سے خائف ہے اور پاکستان کا کمزور ترین شہری بھی بھارت سے مرعوب نہیں ہے۔ یہ نفسیاتی برتری ہی ہماری قوت اور دولت ہے۔ لیکن ہمارے حکمران ہمیں اس قومی غیرت سے بھی محروم کرنا چاہتے ہیں۔پاکستان کے دستور کے مطابق کشمیر میں پیدا ہونے والا ہر فرد پاکستان کا شہری قرار پاتا ہے۔ ہماری پوری پاکستانی قوم کشمیریوں کو پاکستانی شہر ی اور اپنا مسلمان بھائی قرار دیتی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک فرد روزانہ آپ کے بچوں کو سنگینوں پر لٹکائے اور باپ اسے اپنا پسندیدہ ترین فرد قرار دے۔ اس کا واضع مطلب ہے کہ ایسا فرد اپنی اولاد سے لاتعلقی کا اعلان کر چکا ہے۔ اسے اپنی اولاد سے زیادہ اس کے قاتلوں سے محبت ہے۔ اگر ایسی بات ہے تو پھر حکمرانوں کو کھل کر اعلان کرنا چاہیے کہ ہمارا کشمیر سے کچھ لینا دینا نہیں۔ ہم بھارت سے دوستی چاہتے ہیں۔ ہمیں کشمیر میں اپنی بیٹیوں اور ماؤں کی عصمت دری سے کوئی واسطہ نہیں، ہمیں سستا پیاز، آلو اور پان درکار ہے۔ پھر قوم نے فیصلہ کرنا ہے کہ وہ حکمرانوں کے موقف کو تسلیم کرے یا اپنے موقف کو منوانے کے لیے میدان میں نکلے۔

ہمارے حکمرانوں نے غیر مشروط طور پر بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دے دیا جبکہ بھارتی وزیراعظم نے محض ایک دورے کے لیے دہشت گردی کے خاتمے کی شرط عائد کرکے ہمارے حکمرانوں کے منہ پر بروقت طمانچہ رسید کر دیا ہے۔ ہماری کابینہ قوم کو بتلائے کہ اس یوٹرن سے پاکستان کو کیا حاصل ہوگا۔ کیا ہم پنجاب اور سندھ کی زمینوں کو بنجر کرکے، کراچی، قبائلی علاقوں، بلوچستان اور کشمیر میں بہنے والے خون اور اپنی گردن سے رِستے ہوئے خون کو نظرانداز کرکے کیا حاصل کریں گے۔ کہیں ہم غیروں کو دوست بناتے، بناتے اپنے وجود سے ہی ہاتھ تو نہیں دھو بیٹھیں گے۔ اگر بھارت کو راہداری ہی دینی ہے تو دیں، آپ نیٹو فورسز کو بھی راہداری دے رہے ہیں، جو واپس اس اسلحے سے ہماری سرزمین پر روزانہ فائر کرتے ہیں۔ اب قوم کو برملا یہ کہتی ہے کہ یہ حکمران ، اپوزیشن اور اسٹبلشمنٹ پاکستان کے لیے نہیں بلکہ پاکستان کے دشمنوں کے تحفظ کے لیے کام کر رہی ہے۔ نوآموز سیاستدان عمران خان بھی ایک جلسے کے بعد اپنے اوسان خطا کر بیٹھے ہیں۔ انہوں نے بھی کہہ دیا ہے کہ کشمیر کو سائیڈ لائن کرکے تجارت جاری رکھی جائے۔ یہ سب بھول رہے ہیں کہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح ؒ نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔ جب تک شہ رگ محفوظ نہیں، آپ کی سلامتی خطرے میں رہے گی۔ یہ عقل سے پیدل دماغ کے بجائے پیٹ سے سوچنے والے، غیرت سے عاری، بے حمیت اور بزدل انسانوں کا وطیرہ ہے۔ کوئی غیرت مند انسان عصمت دریوں، شہدائے کے خون اور مسلسل مداخلت کرنے والے ملک کو دوست تو درکنار بدترین دشمن تک کہنے کو تیارنہیں ہوتا۔ بھارت دنیا کا بدترین دشت گرد، انسانیت کا قاتل اور خود غرض بھڑیوں کا ملک ہے۔ وہ حکمرانوں اور سیاستدانوں کا دوست ہو سکتا ہے، پاکستان اور اہل پاکستان کا دوست نہیں ہو سکتا۔

جوپاکستان کے دشمن سے یاری لگائے گا.... اس کا انجام شیخ مجیب اور ۔۔۔۔ سے مختلف نہیں ہوسکتا اور جو پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھے گا اس کا انجام اندرا گاندی اور شیخ عبداللہ سے مختلف نہیں ہوسکتا۔ یہ تاریخی حقیقت ہے جسے کوئی نہیں جھٹلا سکتا۔ کسی نے آزمائش میں جانا ہے تو جا کر دیکھ لے۔ پاکستان 27 رمضان المبارک اور لیل القدر کی مبارک رات کو قائم ہوا تھا۔ جس کی بنیاد کلمہ طیبہ پر رکھی گئی تھی، یہ اسی کلمہ طیبہ کی بنیاد پر قائم ہے اور قیامت تک قائم رہے گا۔ ہم حکمرانوں ، سیاستدانوں اور اسٹبلشمنٹ کو صرف یہ یاددھانی کروانا چاہتے ہیں کہ اس آگ میں ہاتھ نہ ڈالیں۔ جس نے ڈالا وہ نشان عبرت بنا اور جو آئندہ ڈالے گا وہ بھی رہتی دنیا تک عبرت کا نشان بنے گا۔

پاکستان اور تحریک آزادی کشمیر راہ خدا میں دی جانے والی لاکھوں قربانیوں کا ثمر ہے۔ وہ خون جو اللہ کی راہ میں پیش کیا جائے اس کی حفاظت اور تقدس خود باری تعالٰی اپنے ذمہ لے لیتے ہیں۔ جو اس کی بے حرمتی کرنے کی جسارت کرے گا صفہ ہستی سے مٹ جائے گا۔ چند ٹکوں کی خاطر شہداءکے خون سے سودا کرنے والے ذلت اور رسوائی کے علاوہ کچھ حاصل نہیں کر پائیں گے۔ پاکستان جن اندرونی مشکلات کا شکار ہے، وہ بھی مشیت ایزدی ہے کہ ہر ایک فرد اور طبقہ دریائے سوات کے پانی کی طرح شفاف انداز میں ظاہر ہو جائے کہ کون کیا ہے اور کون کس کے ساتھ ہے۔ کامیاب وہی ہوں گے جو کلمة اللہ کی سربلندی اور مملکت خدادا د کی سلامتی پر حرف نہیں آنے دیں گے۔میںتو پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو رہتی دنیا تک قائم رہنے اور امت مسلمہ کی سربلندی کے مرکز اور محور کے طور پر کردار ادا کرنے کے لیے وجود میں لایا ہے۔ ہاں یہ پاکستان جس کا خواب علامہ اقبال جیسے مرد خدا مست نے دیا، جس کو نقاش پاکستان چوہدری رحمت علیؒ جیسی جلیل القدر شخصیت نے نام دیا اور اس خواب کی تعبیر بابائے قوم محمد علی جناح جیسے بااصول، باکردار اور صاحب حکمت انسان کے ذریعے ہوئی۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی مشیت کے علاوہ اور کیا تھا۔

میں پورے درد کے ساتھ یہ بات حکمرانوں، سیاستدانوں، اسٹبلشمنٹ والوں اور عوام الناس کے سامنے رکھتا ہوں کہ چند ٹکوں کی خاطر اہل پاکستا ن کی عزت، غیرت، حمیت اور دینی اقدار کو داؤ پر نہ لگاؤ۔ اگر بھارت کشمیر، بلوچستان، کراچی، قبائلی علاقوں اور اندرون ہندوستان مسلمانوں کی سلامتی کی ضمانت دیتا ہے۔ کشمیر کے منفصفانہ حل پر تیار ہو جاتا ہے تو پھر ہم اسے دوست قرار دیں گے اور جب وہ دس بارہ سالوں تک اپنے عہد و پیما پر قائم رہ کر ثابت کرتا ہے کہ وہ ایک اچھا پڑوسی ہے تو اسے پسندیدہ ترین ملک بھی قرار دے سکتے ہیں۔ لیکن اگر وہ ایٹمی میزائل ہم پر تان رکھے۔ ہمارے گھروں پر مسلسل شب خون مارے اور ہمارے کشمیری بھائیوں کو روزانہ خون میں نہلائے، ہمارے پانی کے ذرائع پر قابض رہے تو پھر وہ ہمارا بدترین دشمن ہے۔۔۔۔ ہمارا دوست نہیں........ جو ہمارے بد ترین دشمن کو دوست قرار دے....پھر وہ بھی ہمارا نہیں۔
Atta ur Rahman Chohan
About the Author: Atta ur Rahman Chohan Read More Articles by Atta ur Rahman Chohan: 129 Articles with 106414 views عام شہری ہوں، لکھنے پڑھنے کا شوق ہے۔ روزنامہ جموں کشمیر مظفرآباد۔۔ اسلام آباد میں مستقل کالم لکھتا ہوں۔ مقصد صرف یہی ہے کہ ایک پاکیزہ معاشرے کی تشکیل .. View More