ترا عشق ہے ایمان رسول عربی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم

ہر کہ عشق مصطفٰی سامان اوست
بحر و بر در گوشئہ دامان اوست
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
‘‘ ثلث من کن فیہ وجد حلارۃ الایمان ان یکون اللہ و رسولہ احب الیہ مما سوا ھما وان یحب المر الا یحبہ الا اللہ وان یکون ان یعرد فی الکفر کما یکرہ ان یقذف فی النار‘‘ ( صحیح بخاری کتاب الایمان )
جس شخص میں یہ تین باتیں ہوں گی وہ حلاوت ایمان سے بہرور ہو گا۔ : (1) اللہ اور اس کا رسول اس کو سب سے زیادہ محبوب ہوں ۔ (2) اگر کسی سے محبت ہو تو صرف اللہ کے لئے ہو (3) اور کفر پر رجوع ہونے کو اس طرح نا پسند کرے جس طرح آگ میں جانے کو نا پسند کرتا ہے۔
یہ حدیث کلی طور پر وضاحت کررہی ہے کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے عشق و محبت سے ایمان کی حلاوت و چاشنی نصیب ہوتی ہے، جس کے اندر جتنی محبت ہو گی حلاوت ایمان میں اسی قدر اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ ایمان میں بھی استحکام اور مضبوطی پیدا ہوتی چلی جائے گی۔ اندگی کیف و مستی کے ماحول میں گزرتی رہے گی اور دنیا و آخرت میں شادکامی، کامرانی و سر خروئی میسر ہو گی۔ یہ نہیں تو پھر حلاوت ایمان بھی نہیں مل سکتی۔ اور جب حلاوت ایمان ہی نہیں تو پھر عبادت و ریاضت، ذکر و اذکار، تسبیح و تہلیل میں خشوع و خضوع عجز و انکساری کا کوئی گزر ہی نہیں ہو سکتا۔ ذکر الٰہی میں بے کیفی و بے اطمینانی ہو گی، روح عبادت سے محرومی ہو گی اور دل تسکین و طمانیت، چین و قرار سے یکسر خالی ہو گا۔
حضرت ابو ہریرہ اور حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے ملتے جلتے الفاظ کے ساتھ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا یومن احدکم حنی اکون احب الیہ من والدہ وولدہ والناس اجمعین۔ ( بخاری، کتاب الایمان )
حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو گا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے ماں باپ اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب و پیارا نہ ہو جاؤں۔
حکیم الامت حضرت علامہ مفتی احمد یار خاں صاحب نعیمی علیہ الرحمہ اس حدیث کی تشریع فرماتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں:
‘‘ یہاں پیار سے مراد طبعی محبت ہے نہ کہ عقلی کیونکہ اولاد کو ماں باپ سے طبعی الفت ہوتی ہے، یہی محبت حضور سے زیادہ ہونی چاہئے اور بحمدہ تعالٰی ہر مومن کو حضور جان و مال اور اولاد سے زیادہ پیارے ہیں۔ عام مسلمان بھی مرتد اولاد اور بے دین ماں باپ کو چھوڑ دیتے ہیں حضور کی عزت پر جان نچھاور کر دیتے ہیں، غازی عبدالرشید، غازی علم دین، عبدالقیوم کی زندہ جاوید مثالیں موجود ہیں۔( مراۃ المناجیح، جلد اول ص30 )
حضرت امام بخاری حضرت عبد اللہ بن ہشام سے روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہم ایک دن حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تھے آپ نے حضرت عمر فاروق کا ہاتھ اپنے دست مبارک میں لے رکھا تھا، حضرت عمر فاروق فرما رہے تھے:
یا رسول اللہ لانت احب الی من کل شئی الا نفسی التی بین جنبی فقال لہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم لن نؤمن احدکم حتی اکون احب الیہ من نفسہ فقال عمر الذی انزل الیک الکتاب الانت احب الی من نفسی التی بین جنبی فقال لہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم الاٰن یا عمر۔ ( بخاری شریف، کتاب الشفا، جلد دوم،ص 15)
یارسول اللہ ! میرے دونوں پہلوؤں کے درمیان جو میری جان ہے، اس کے علاوہ آپ مجھےسب سے زیادہ محبوب ہیں یہ سن کر حضور نے فرمایا تم میں سے کوئی اس وقت تک ہر گز مومن نہیں ہو سکتا، جب تک کہ میں اس کی اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں تب حضرت عمر نے عرض کیا اگر ایسی بات ہے تو قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو کتاب ہدایت دے کر مبعوث فرمایا آپ مجھے میری جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔ تو حضور نے فرمایا اے عمر ! اب تمہارا ایمان مکمل ہوا۔
مذکورہ دونوں حدیثوں سے یہ حقیقت واضح ہو رہی ہے کہ تاجدار مدینہ محبوب خدا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی ذات سے محبت دنیا کی تمام محبتوں پر فوقیت رکھتی ہے۔ یہی ایمان کی کسوٹی ہے، ہمارا ایمان تکمیل کی منزل کو تب ہی پہنچے گا جب ہم دنیا و مافیہا سےبڑھ کر ان سے محبت کرنے لگیں، دنیا کی ساری محبتیں اس محبت کے سامنے سرد پڑ جائیں اور ساری زنجیریں اس زنجیر عشق کی موجودگی میں بے اثر ہو جائیں ۔
لٰہذا جب تک حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے سب سے زیادہ قلبی لگاؤ گہرہ تعلق و محبت نہ ہو جائے ہمارے اعمال صالحہ، تسبیح و تہلیل، ہماری تبلیغ و دعوت توحید، ہمیں کامل مومن نہیں بنا سکتی ہے۔ کیونکہ حضور کی محبت تو ایمان کی پہچان، اصل ایمان، بلکہ عین ایمان ٹھہری۔ ہمارے جملہ اعمال کی قبولیت کا انحصار تو بس اسی ذات مقدسہ کی محبت پر ہے۔
عاشق خیرالورٰی امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی علیہ الرحمہ نے اسی فکر کو عشق سے لبریز شعر کے قالب میں یوں ڈھالا ہے:
مولٰی علی نے واری تیری نیند پر نماز
اور وہ بھی عصر سب سے جو اعلٰی خطر کی ہے
صدیق بلکہ غار میں جان اس پہ دے چکے
اور حفظ جان تو جان فروض غرر کی ہے
ثابت ہوا کہ جملہ فرائض فروع ہیں
اصل الاصول بندگی اس تاجور کی ہے
اس حبیب نے اگر ہمیں نماز، روزہ، حج وغیرہ کا طریقہ اور اصول نہ بتایا ہوتا تو ہمیں کیا معلوم ہوتا کہ نماز کیا ہے ؟ روزہ ، حج کی اہمیت کیا ہے ؟ سلیقہ بندگی، میعار زندگی، تہذیب و تمدن ، طرز معاشرت، حسن اخلاق و کردار، تو اس رسول پاک کی دین ہے۔ ورنہ ہم تو اندھیروں میں بھٹک رہے تھے، بے دینی ، بے راہ روی، غفلتوں نحوست کی دبیز تاریکی میں گھرے ہوئے تھے۔ خدائے وحدہ لاشریک کے سامنے تو اسی نے ہمارا سر نیاز جھکایا۔ شرافت و انسانیت، اخوت و محبت، صدق و صفا، عزت و وقار، اخلاص وفاء، استقامت و عزیمت سے روشناس کرایا۔ خدائے تعالٰی کی معرفت اور اس کی محبت و اطاعت و بندگی کا آفاقی پیغام ، محسن انسانیت سے ہی ملا ہے۔ تو پھر سوچئے کہ ان کی ذات گرامی سے محبت اور عشق کرنا اصل ایمان اور جان ایمان کیوں نہ ہو۔ مجدد اسلام امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی نے کیا بہترین تصویر کھینچی ہے۔
جان ہے عشق مصطفٰی روز فزوں کرے خدا
جس کو ہو درد کا مزہ ناز دوا اٹھائے کیوں
حضور اکرم، مدنی و تاجدار صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے محبت اور عشق کا تقاضا یہ ہے کہ دل و جان سے ان سے محبت کی جائے ان کی ولایت و حکومت ہر حال میں اور ہر جگہ تسلیم کی جائے۔ اس تصور سے ہی عشق و سنت کی حلاوت و چاشنی ملے گی۔ اور لذت جام عشق سے ہی قلب و جگر کی تسکین ہو گی۔ اس سلسلہ میں حضرت قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
قال سھل من لم یرو لایۃ الرسول فی جمیع الاحوال و یری نفسہ فی ملکہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لا یذوق حلاوۃ سنۃ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قال لا یومن احدکم حتی اکون احب الیہ من نفسہ۔ ( الشفا، جلد دوم، ص15)
حضرت سہل بن عبداللہ تستری فرماتے ہیں کہ جو شخص حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی ولایت و حکومت ہر جگہ اور ہر حالت میں تسلیم نہیں کرتا وہ سنت نبوی کی حلاوت محسوس نہیں کر سکتا۔ کیونکہ حضور نے فرمایا تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ میری ذات کو جان و مال سے زیادہ محبوب نہ بنا لے۔
شمع رسالت کے پروانوں ! محبان رسول کی زندگی کا جائزہ لیجئے، تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جائے گی کہ اطاعت و محبت رسول میں وہ انتہائی بلند درجے پر فائز تھے۔ ان کی حیات کے بہت سے ایسے درخشندہ گوشے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہی ان کی زندگی کا اوڑھنا بچھونا تھا، اسی کو سب سے عظیم سرمایہ افتخار تصور کرتے۔ اسی دولت نے ان نفوس قدسیہ کو عروج و کمال کی منزل تک پہنچایا۔ جس سے آج وہ افق عشق و محبت کے جگمگاتے ماہ و نجوم بن کر دنیا میں اس کی کرنیں بکھیر رہے ہیں۔ اور صبح قیامت تک بلاشبہ اہل جہاں عشق و وفا، جذبہ صادق، خلوص و للہیت کا سبق لیتے رہیں گے۔
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1284614 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.