سمندر سے خشکی تک ٹوٹ گیا آلودگی کا ریکارڈ

عالمی سطح پرسمندر سے خشکی تک آلودگی کاریکارڈ ٹوٹ گیا ہے جبکہ عالمی سطح پر 80 فیصد سمندری آلودگی خشکی پر انسانی سرگرمیوں کے باعث ہے ۔تفصیل میں جائیں تو امریکی محکمہ توانائی کی تازہ رپورٹ کے مطابق نامیاتی ایندھن سے نقصان دہ کاربن کے اخراج کا سالانہ ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے ۔ دنیا بھر سے حاصل کردہ اعداد و شمار کے نتائج کے مطابق چین 212ملین میٹرک ٹن کاربن کے اخراج کے ساتھ سرفہرست ہے ، چین امریکا کی نسبت 59ملین ٹن اور ہندوستان کی نسبت 48ملین ٹن زیادہ کارب کا اخراج کرانے والا ملک ہے۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ انفارمشین اینالائسس مرکز کے ڈائرکیٹر ٹوم ببوڈن کہتے ہیں کہ چین کی جانب سے کاربن کا اخراج بہت زیادہ ہے۔انہوں نے بتایا کہ ہم اگر 1751 کے اعداد وشمار لے کر اب تک کے ڈاٹا کا جائزہ لیں تو اب تک کسی ایک سال کے عرصے میں 500ملین میٹرک ٹن کاربن کا اخراج نظر نہیں آتا۔ان کا کہنا تھا کہ 2009میں 8.6 بلین میٹرک ٹن کی نسبت 2010میں 9.1بلین ٹن کاربن کے اخراج سے ایک سال کے عرصے میں کاربن کا اخراج 6 فیصد بڑھا ہے۔حالیہ اعداد وشمار کے مطابق چین امریکہ اورہندوستان دنیا کے 3 سب سے زیادہ آلودگی پھیلانے والے ممالک ہیں جبکہ سعودی عرب، ترکی ، روس ، پولینڈ اور قازقستان میں قبل اطمینان حد تک کاربن کا اخراج ہوا نیز پاکستان ، سوئٹزر لینڈ ، آذربائیجان ، سلواکیہ ، نیوزی لینڈ نے 2009 کی نسبت کاربن کے اخراج میں معولی سی کمی کی۔ٹوم بوڈن کے مطابق آلودگی کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2007-8 میں پیدا ہونے والا عالمی معاشی بحران ختم ہونے کو ہے، انھوں نے بتایا کہ تونائی کے استعمال سے لگتا ہے کہ کمپنیاں 2008سے قبل کے پیداواری عمل میں واپس آگئی ہیں۔ٹوم بوڈن کا کہنا ہے کہ سائنس ہمیں بتائی ہے کہ ہم ایک دھند کی جانب سفر کرہے ہیں۔

دوسری جانب ناکارہ پلاسٹک سے سمندری آلودگی میں اضافہ جاری ہے۔وجہ صاف ہے کیونکہ گزشتہ نصف صدی کے دوران کھانے پینے کی اشیا کو پلاسٹک کے ڈبوں، بوتلوں اور پیکٹوں میں بند کرنے کے رجحان میں مسلسل اضافہ ہواہے۔ پلاسٹک عموماً پیٹرول کے مرکبات سے بنایا جاتا ہے اور اسے استعمال کے بعد ضائع کر دیا جاتا ہے۔ ماہرین کا کہناہے کہ پلاسٹک کا یہ کوڑا کرکٹ نہ صرف ہماری زمین بلکہ سمندروں کو بھی آلودہ کر رہا ہے جس سے آبی حیات کیلئے خطرات بڑھ رہے ہیں۔ امریکی ریاست کیلیفورنیا کا ایک ادارہ فائیو جائرز اس مسئلے کے حل کی کوششیں کررہاہے۔ادارے سے وابستہ ایرکسین عالمی سطح پر سمندروں میں پلاسٹک کی ردی کے پھیلاو ¿ اور آبی حیات اور انسانوں پر بحری آلودگی کے منفی اثرات کے بارے میں آگہی پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی مانیں تو سمندروں میں پانچ خطے ایسے ہیں جہاں دنیا میں ضائع کیا جانے والا بیشتر پلاسٹک جمع ہوجاتا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ان خطوں میں زمین کی گردش اور پانی کے بہاؤ کی وجہ سے ایک ایسا بھنور وجود میں آتا ہے جہاں پانی کی گردش میں کوڑا کرکٹ جمع ہوسکتا ہے۔کمینزاور ان کے شوہر ایرکسین کیلی فورنیا کے فائیو جائرز نامی ایک غیر منافع بخش تحقیقی ادارے کے بانی ہیں جو سمندروں میں پلاسٹک کی آلودگی پر تحقیق کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔کمینز کہتی ہیں کہ گزشتہ 100 سال کے عرصے میں پلاسٹک کا استعمال بہت عام ہو گیا ہے جسے بہت جلد ضائع کر دیا جاتا ہے۔اور پلاسٹک کی نسبت ان اشیا اور قدرتی مادوں کا استعمال بہت کم ہو گیا ہے، جنہیں ایک طویل عرصے تک استعمال کیا جاسکتا ہے۔ استعمال کے بعد پلاسٹک کے تھیلوں یا بوتلوں کو بے کار سمجھ کر یا تو ردی میں ڈال دیا جاتا ہے یا ندیوں اور دریاؤں میں بہا دیا جاتا ہے۔ وقت کے ساتھ یہ پلاسٹک سمندروں تک پہنچ جاتا ہے، جہاں وہ پانی کے ساتھ بہتا رہتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ چونکہ پلاسٹک ایک پائیدار مادہ ہے‘یہ بحری ماحول کے لیے مسائل پیدا کر سکتا ہے۔پلاسٹک نہ تو پانی میں گھلتا ہے اور نہ بحری جاندار اس سے غذا حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ مادہ کئی ہزار برسوں تک سمندروں میں اسی طرح موجود رہ سکتا ہے۔سمندروں کا سفر کرتے ہوئے انہوں نے باریک جال کی مدد سے پانی کی سطح سے جو کوڑا جمع کیا ‘ اس پر امریکی ریاست کیلیفورنیا کی ایک لیبارٹری میں تحقیق کی جارہی ہے۔ایرکسین کہتے ہیں کہ سمندروں میں جو پلاسٹک موجود ہے، وہ کسی ایک جگہ جمع نہیں، بلکہ یہ بہت وسیع علاقے پر پھیلا ہوا ہے۔ اسے پلاسٹک کا شوربہ کہنا غلط نہیں ہوگا جو ایک بر اعظم سے دوسرے بر اعظم تک پھیلا ہوا ہے۔بعض اوقات جانور اس پلاسٹک کو غذا سمجھ کر کھانے کی کوشش کرتے ہیں، یا اپنے بچوں کو کھلا دیتے ہیں جس سے ہر سال کئی سو بحری پرندے، مچھلیاں اور کچھوے پلاسٹک کھانے سے مر جاتے ہیں۔کمینز کا کہنا ہے کہ تقر یبا 43 فی صد بحری جانوروں ، 86 فی صد سمندری کچھووں اور 44 فی صد سمندری پرندوں کے پیٹ میں پلاسٹک پایا گیا ہے، یا ان کے گرد لپٹا ملا ہے۔ ہم نے بحرالکاہل کے شمالی علاقوں سے جو مچھلیاں جمع کیں ان میں تقریبا 35 فی صد کے پیٹ میں پلاسٹک کے ٹکڑے موجود تھے۔پلاسٹک کے اثرات محض سمندری حیات کو ہی نہیں بلکہ انسانوں کو بھی متاثر کررہے ہیں۔ کمینز کہتی ہیں کہ اپنے خون پر کچھ ٹیسٹ کروانے کے بعدمجھے یہ معلوم ہوا کہ میرے خون میں بہت سے ایسے کیمیائی مرکبات موجود ہیں جو پلاسٹک کے ساتھ چپک جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ میرے خون میں انسانوں کے بنائے بہت سے دوسرے کیمیائی مرکبات بھی شامل تھے جس میں ڈی ڈی ٹی، پی ایف سی اور آگ کا پھیلاؤ روکنے والے کیمیائی مرکبات بھی شامل تھے۔ ہم یہ نہیں جانتے کہ یہ تمام مرکبات میرے خون میں کس طرح شامل ہوئے لیکن ایک عورت کی حیثیت سے میں یہ جانتی ہوں کہ یہی کیمیائی مرکبات میرے خون سے میری اولاد کے خون میں بھی شامل ہو سکتے ہیں۔پلاسٹک کو دوبارہ استعمال کے قابل بنانے کے علاوہ ایرکسین اور کمینز دونوں پلاسٹک کے متبادل مواد کے استعمال پر زور دیتے ہیں۔ ان کے مطابق لوگوں کیلئے یہ جاننا ضروری ہے کہ پلاسٹک کی آلودگی کی وجہ سے ان کی صحت کو کیا خطرے درپیش ہیں۔ اگلے ماہ وہ دونوں سمندروں میں اپنے آخری سفر کا آغاز کریں گے۔ بحر الکاہل کے جنوبی خطے کے اس سفر کے بعد ان کا ارادہ ہے کہ وہ اپنے تجربات کے بارے میں ایک کتاب لکھیں گے، اور سائنسی کمیونٹی کو اپنی تحقیق کے نتائج کے بارے میں بھی بتائیں گے۔

عالمی سطح پر 80 فیصد سمندری آلودگی خشکی پر انسانی سرگرمیوں کے باعث ہے۔سمندری آلودگی کے خاتمے کے 6 عالمی معاہدوں کو تسلیم کرنے والے ملک پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کا 82 فیصد گندا پانی صاف کئے بغیر ہی سمندر کی نذر کیا جارہا ہے ، زمین کے 71 فیصد رقبے پر پھیلے سمندروں میں پائی جانے والی 80 فیصد آلودگی کا سبب خشکی پر بسنے والے انسان ہیں، روزانہ کراچی اور لاہور کا 500 ملین گیلن اور صنعتوں سے خارج ہونے والا 97 فیصد تک گندا پانی نالوں اور دریاؤں کے ذریعے سمندر کا حصہ بن رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی ادارے UNEP کے مطابق بحری آلودگی کی 80 فیصد وجہ زمینی ذرائع (دریاؤں کی آلودگی،شہروں اور صنعتوں سے خارج ہوتا گندا پانی وغیرہ10فیصد موسمیاتی اور10فیصد بحری ٹرانسپورٹ ہے۔ کیسپین سی میں گرنے والا 60 فیصد گندا پانی صاف کئے بغیر سمندر کا حصہ بن رہا ہے ، لاطینی امریکا اور کربین میں یہ شرح 80 اور افریقہ اور انڈوپیسفک میں 90 فیصد تک ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ مسئلے سے نمٹنے کیلئے 56 بلین ڈالر سالانہ کی ضرورت ہے۔ جنگ ڈویلپمنٹ رپورٹنگ سیل نے سمندروں کے عالمی ہفتے کے موقع پر مختلف ذرائع سے جو رپورٹ تیار کی ہے اس کے مطابق سمندری آلودگی کی ایک وجہ ساحلی علاقوں میں تیزی سے بڑھتی آبادی بھی ہے جہاں فی کلو میٹر اوسطً 77 افراد آباد ہیں ، ماہرین کے مطابق 2025میں تناسب 115 تک پہنچ جائے گا۔ گزشتہ 30 برس کے دوران سیٹلائٹ سے لی گئی تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ مختلف حیاتیات کی آماجگاہ ، دلدلی زمین اور مینگروز کے جنگلات میں گزشتہ 4 دہائیوں میں 90 فیصد تک کمی ہوئی ہے۔ہوا میں آلودگی دل کے دورے کی شرح اور امکانات بڑھا دیتی ہے۔ اس کے علاوہ پھیپھڑوں کی بیماریوں کی شرح میں بھی اس سے اضافہ ہو جاتا ہے۔ تحقیق کے مطابق ہوا میں موجود مخصوص اجزاءسانس اور خون کی گردش میں گڑبڑ پیدا کر کے دل کے دورے کی راہ ہموار کر دیتے ہیں۔ ماہرین نے کہا ہے کہ بڑی سڑکوں اور آلودہ ہوا والے ماحول میں رہنے والے ذیابیطس ، بلڈ پریشر اور بڑی عمر کے لوگوں کو بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔واضح رہے کہ آلودگی جوڑوں کے ورم کے خطرے کو بڑھا دیتی ہے۔یہ حقیقت امریکی ماہرین طب کی تحقیق میں سامنے آئی ہے۔تحقیق کے مطابق ہوائی آلودگی جو سلفر آکسائیڈ، کاربن مونو آکسائیڈ اور نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ پر مشتمل ہوتی ہے جوڑوں کے ورم یا ان کے پتھرانا کا سبب بنتی ہے۔ماہرین کے مطابق آئندہ 10 یا 20 برسوں کے دوران ہوائی آلودگی کے باعث فضاءمیں سلفر آکسائیڈ اور نائٹروجن کی مقدار بڑھنے سے جوڑوں کے امراض میں اضافہ ہونے کا خدشہ ہے۔تحقیق کے مطابق ہوائی آلودگی سے زیادہ متاثر نچلے طبقے کے افراد ہو رہے ہیں کیونکہ ان کے گھر ایسے علاقوں میں واقع ہوتے ہیں جو ہوائی آلودگی سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔

ماحول کسی اجتماع سے بنتا ہے مگر اس کی اکائی ایک فرد ہی ہوتا ہے۔ جیسے ایک فرد سے دو، دو سے تین اور پھر بڑھتے بڑھتے معاشرہ اور اس معاشرے کے کسی کام سے ماحول تشکیل پاتا ہے۔ اسی اکائی کی حثیت سے فرد کوئی عمل جسے دوسرے بھی اختیار کرتے ہیں آگے چل کر رواج یا رسم یا اقدار بن جاتا ہے۔

انفرادی طور پر ماحولیاتی تباہی میں کمی کیلئے ہر شخص کو کم ازکم ایک پودا گھر میں یا گھر کے باہر گلی میں یا اپنے کام کرنے کی جگہ پر یا اس کے قریب یا اس راستے میں جہاں سے گذر ہوتا ہو۔اس طرح اس کی حفاظت کی ذمہ داری پوری کی جاسکے گی بلکہ اس کی پرورش اور اس وقت تک حفاظت کرنی ہوگی جب تک وہ تناور درخت نہ بن جائے۔ ایک درخت نہ صرف مجھے بلکہ سیکنڑوں لوگوں کو صاف ہوا فراہم کر سکتا ہے۔ سیلاب اور بارشوں کی تباہی سے بچا سکتا ہے اور یہ سب چیزیں ماحول سے ہی جڑی ہوئی ہیں۔

آلودگی پر شکنجہ کسنے کیلئے دہلی کی میٹرو ریل کواسی بنیاد پر یو این کاربن کریڈٹ ملے ہیں کیونکہ میٹرو ریل شہر میں گرین ہاؤس گیسوںمیں کمی کیلئے کافی مدد گار ثابت ہوئی ہے جس کیلئے اقوام متحدہ نے اسے اپنے کاربن کریڈٹ کے لیے منتخب کیا ہے۔اقوام متحدہ نے اس سے متعلق اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ میٹرو کے یہ نیا ٹرانسپورٹ نظام شہر میں سالانہ چھ لاکھ تیس ہزار ٹن آلودگی کی سطح کو کم کرنے میں مدد گار ثابت ہوا ہے۔اس کے مطابق اگر میٹرو نہیں ہوتی تو پھر تقریبا اٹھارہ لاکھ لوگ ہر روز کار، بسوں اور موٹر سائیکل سے سفر کرتے جس سے فضائی آلودگی میں اضافہ ہوتا۔ماحولیاتی آلودگی سے کی حفاظت کیلئے سرکاری سطح پر بہت سے کام کرنے کی ضرورت ہے مگر انفرادی سطح پر ہم بہت سے اقدام کرکے اپنے لئے اور معاشرے کی طرف سے ہم پر جو فرائض ہیں وہ ادا کر تے ہوئے کئی اہم اقدام اٹھا سکتے ہیں۔ ماحول کو تباہی سے بچانے کا ادراک کرتے ہوئے میں اپنی گاڑی کی بروقت ٹیونگ سے دھویں سے پاک گاڑی چلا کر،سڑک پر گاڑی چلاتے ہوئے بلا ضرورت ہارن بجانے سے گریز کرکے، گھر سے باہر سفر کرتے ہوئے، کسی تفریحی مقام پر، کسی پارک میں کوئی چیز کھاتے ہوئے یا کسی چیز کو استعمال کرتے ہوئےاس کی فالتو حصے ، چھلکے، خالی ڈبے، یا کور یافضلات کو ادھرادھر پھینکنے سے گریز کرکے انفرادی طور پر ماحولیات کی تباہی میں کمی کیلئے اہم قدم ہوگا۔ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے اور اپنے اردگرد کو صاف ستھرا رکھنے کیلئے اپنا کردار ادا کر سکتا ہے اور ایسا کرنا اس کا مذہبی اور ملی فریضہ بھی ہے۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ نا صرف ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کیلئے سخت سے سخت قوانین بنائے بلکہ ان پر سختی سے عمل درآمد بھی کروائے جیسا کہ ترقی یافتہ ممالک میں ہو رہا ہے۔میرا تعلق ڈی ڈبلیو سے کافی پرانا ہے ڈی ڈبلیو نے اپنی رپورٹوں کے ذریعے ماحول کی صفائی کی اہمیت سے بخوبی آگاہ کیا ہے اس لئے مجھے اپنی ذمہ داری کا بڑی شدت سے احساس ہے میں مختلف استعمال شدہ بے کار چیزوں سے ماڈل اور کھلونے بناتی ہوں جس سے ماحولیاتی آلودگی کی بجائے ہمارے ارد گرد کی خوبصورتی میں اضافہ ہوتا ہے تاکہ آنے والی نسلوں کیلئے دنیا کو ایک محفوظ جگہ بنایا جا سکے۔

اسلام نے اس سلسلے میں 1400 سال قبل قواعد و ضوابط جاری کئے ہیں اور اپنے پیروں کو ان مسائل سے مربوط قوانین اور دستورات کی رعایت کرنے اور انفرادی و اجتماعی قواعد و ضوابط کو نافذ کرنے اور ان پر عمل کرنے کی تاکید کی ہے اور ماحول اور حفظان صحت کے تحفظ کے سلسلہ میں طریقہ کار مقرر کئے ہیں ‘مثال کے طور پر:1 ہر وہ چیز جس کا کھانا (سانس لینا، پینا) انسان کے بدن کے لئے مضر ہو، حرام ہے، مگر یہ کہ کوئی مجبوری ہو ۔2 کوڑا کرکٹ کو رات بھر اپنے گھروں میں نہ رکھنا بلکہ اسے دن کو گھر سے باہر منتقل کرنا ۔3 جاری پانی، پانی کی نہر کے کنارے اور پھل دار درخت کے نیچے یا سڑک و غیرہ پر کوڑا کرکٹ ڈالنے اور آلودگی ایجاد کرنے سے پرہیز کرنا ۔4 اگر قیامت آجائے اور آپ میں سے کسی کے ہاتھ میں ایک پودا ہو، تو اسے زمین میں لگائیے۔اسی طرح سیکڑوں دوسرے قوانین اور اخلاقی ہدایات، اس امر کا سبب بنے ہیں کہ ایک مسلم شہری، ماحول کی حفاظت اور حفظان صحت کے اصولوں کو اپنے اصلی فرائض شمار کرے ۔
S A Sagar
About the Author: S A Sagar Read More Articles by S A Sagar: 147 Articles with 115960 views Reading and Writing;
Relie on facts and researches deep in to what I am writing about.
Columnist, Free Launce Journalist
http://sagarurdutahzeeb.bl
.. View More