حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ کے
چچا حجرت انس بن نضر رضی اللہ تعالٰی عنہ لڑتے لڑتے میدان جنگ سے بھی کچھ
آگے نکل پڑے وہاں جاکر دیکھا کہ کچھ مسلمانوں نے مایوس ہو کر ہتھیار پھینک
دئیے ہیں حضرت انس بن نضر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے پوچھا کہ تم لوگ یہاں
بیٹھے کیا کر رہے ہو ؟ لوگوں نے جواب دیا کہ اب ہم لڑ کر کیا کریں گے ؟ جن
کے لئے لڑتے تھے وہ تو شہید ہوگئے حضرت انس بن نضر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے
فرمایا کہ اگر واقعی رسول خدا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم شہید ہو چکے
تو پھر ہم ان کے بعد زندہ رہ کر کیا کریں گے ؟ چلو ہم بھی اسی میدان میں
شہید ہوکر حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچ جائیں۔ یہ کہہ
کر آپ دشمنوں کے لشکر میں لڑتے ہوئے گھس گئے اور آخری دم تک انتہائی جوش
جہاد اور جان بازی کے ساتھ جنگ کرتے رہے یہاں تک کہ شہید ہو گئے لڑائی ختم
ہونے کے بعد جب ان کی لاش دیکھی گئی تو اسی سے زیادہ تیر و تلوار اور نیزوں
کے زخم ان کے بدن پر تھے کافروں نے ان کے بدن کو چھلنی بنا دیا تھا اور ناک
کان وغیرہ کاٹ کر ان کی صورت بگاڑ دی تھی کوئی شخص ان کی لاش کو پہچان نہ
سکا صرف ان کی بہن نے ان کی انگلیوں کو دیکھ کو ان کو پہچانا۔ ( بخاری
غزوہء احد ج2 ص579 و مسلم جلد2 ص38 )
اسی طرح حضرت ثابت بن وحداح رضی اللہ تعالٰی عنہ نے مایوس ہو جانے والے
انصاریوں سے کہا کہ اے جماعت انصار ! اگر بالفرض رسول اکرم صلی اللہ تعالٰی
علیہ وآلہ وسلم شہید بھی ہو گئے تو ہم ہمت کیوں ہار گئے ؟ تمہارا اللہ تو
زندہ ہے لٰہذا تم لوگ اٹھو اور اللہ کے دین کے لئے جہاد کرو۔ یہ کہہ کر آپ
نے چند انصاریوں کو اپنے ساتھ لیا اور لشکر کفار پر بھوکے شیروں کی طرح
حملہ آور ہو گئے اور آخر خالد بن ولید کی تلوار سے جام شہادت نوش کر لیا۔
(اصابہ ترجمہ ثابت بن وحداح) |