گھونگھے اور مکڑی کیسے سفر کرتے ہیں

جانوروں کی دنیا جتنی وسیع اور ہمہ گیر ہے اتنی ہی عجائب اور غرائب سے بھرپور بھی ہے۔ یہاں قدم قدم پر آپ کو اتنے حیرت انگیز تماشے نظر آئیں گے کہ آپ بے ساختہ ان حقیر کیڑے مکوڑوں کی ذہانت کو خراج تحسین ادا کریں گے جو قدرت نے انہیں عطا کی ہے۔ سفر کے دوران میں اکثر حشرات الارض سرنگیں‘ پل اور لمبی لمبی سڑکیں بناتے چلے جاتے ہیں۔ اس معماری کے بغیر ان کا سفر مکمل ہوتا ہے نہ ان کی جان محفوظ سمجھی جاتی ہے۔

کیا آپ نے کبھی گھونگھے کو سفر کرتے دیکھا ہے؟ اکثر دیکھا ہوگا۔ اس کی کھال بے حد چکنی اور چمکدار ہوتی ہے اور یہ عموماً رات کی تاریکی اور سائے میں حرکت کرتا ہے تاکہ پرندوں کی عقابی نظروں سے محفوظ رہ سکے۔ سخت زمین یا تیز دھار والی گھاس پر جب یہ چلتا ہے تو اس کے منہ میں سے ایک لیس دار مادے کی ایک پٹی سی خارج ہوتی ہے جو اس کے جسم کے نیچے قالین کی طرح بچھتی جاتی ہے اور گھونگھا اسی پٹی پر رینگتا ہے۔ یوں اس کا نرم و نازک جسم زخمی ہونے سے بچ جاتا ہے۔ یہ لیس دار مادہ گھونگھے کیلئے اتنا ضروری ہے کہ بیان سے باہر....۔ آپ اس کی راہ میں ریزر بلیڈ گاڑدیں‘ گھونگھا اس بلیڈ کی دھار پر سے بھی اسی طرح گزر جائے گا جیسے پھول کو مسلتا جارہا ہو۔ اس کے بچائو کا سبب یہی لیس دار مادہ ہے جس سے وہ اپنے سفر کیلئے سڑکیں بناتا ہے۔ صبح سویرے سورج نکلنے کے چند لمحے بعد اگر آپ کو اپنے باغیچے میں جانے کا اتفاق ہو تو آپ دیکھیں گے کہ رات کو پڑی ہوئی اوس کے ننھے منے موتیوں کے درمیان کہیں کہیں چمکدار لمبی لمبی سفید لکیریں بھی موجود ہیں۔ یہ ہیں وہ ”سڑکیں“ جو گھونگھے نے اپنے سفر کیلئے تیار کی ہیں‘ بالکل اسی طرح جیسے سڑکیں بنانے والی دیوپیکر مشین جب چلتی ہے تو اپنے آگے سڑک بناتی جاتی ہے ایسی سڑک کو کارپٹ کہتے ہیں۔ سڑکیں بنانے والا یہ لیس دار مادہ گھونگھے کے جسم کے غدودوں میں تیار ہوتا ہے اور گھونگھے کے حرکت کرتے ہی اس کے جسم سے گرنا شروع ہوجاتا ہے۔ شاید آپ کو گھونگھے کی ”عظیم رفتار“ کا علم نہ ہوگا۔ آئیے! ہم بتائیں یہ ننھا سا کیڑا ایک منٹ میں صرف دو انچ کا فاصلہ طے کرتا ہے۔ یعنی ایک گھنٹے میں دس فٹ‘ یہ گھاس پر چلے یا پتھریلی زمین پر اس کی مقررہ رفتار میں کبھی فرق نہیں آتا۔

اب آئیے! ننھی منی‘ لیکن بے حد چالاک اور دانش مند مکڑیوں کی طرف۔ ان کے حرکت کرنے کے طریقے بڑے عجیب اور اتنے پُراسرار جتنی خود مکڑیاں۔ یہ اکثر لمبے لمبے پل بناتی ہیں۔ درختوں کی شاخوں کے درمیان یہ پل ان کی آمدورفت کا کام دیتے ہیں اور اتنے باریک ہوتے ہیں کہ دوسروں کو نظر نہیں آتے۔ مکڑی جب ان پر دوڑتی ہے تو ایسا دکھائی دیتا ہے جیسے ہوا پر چل رہی ہو۔ بعض اوقات مکڑیاں ان پلوں پر بیٹھی رہ جاتی ہیں اور یہ پل ہوا کے زبردست جھونکوں سے فضا میں اڑ جاتے ہیں اور مکڑیاں فضائے بسیط میں ”پروں“ کے بغیر پرواز کرکے سینکڑوں میل کا سفر طے کرلیتی ہیں۔ کبھی کبھی مکڑیوں کے بنائے ہوئے یہ پل ہم انسانوں کو نظر بھی آجاتے ہیں۔ موسم گرما کے آخری دنوں میں یا خزاں کے ابتدائی دور میں غروب آفتاب کے وقت یہ پل مغرب کی جانب لہراتے‘ بل کھاتے اور چمکتے دکھائی دیں گے اور تعداد میں اس قدر کہ شمار کرنا ممکن نہ ہوگا۔سخت گرمی کے موسم میں جب مکڑیاں گھبرا جاتی ہیں‘ تب ان پر آسمان کی ٹھنڈی فضائوں میں پہنچنے کی دھن سوار ہوتی ہے۔ پرندوں کی مانند ان کے پر ہوتے تو ارادہ کرتے ہی فضا میں پہنچ جاتیں‘ لیکن قدرت نے انہیں پرعطا نہیں کیے‘ البتہ انتہائی طاقتور اور منظم دماغ ضرور دیا ہے چنانچہ مکڑیاں اپنی دماغی صلاحیتیں بروئے کار لاتی ہیں وہ نہایت خوبصورت اور ہلکا پھلکا جالا بنتی ہیں اور ایسے رخ کہ جونہی ہوا کا معمولی جھونکا آئے یہ جالا اپنی جگہ سے الگ ہوکر ہوا میں اڑنے لگے۔ سمندروں میں سفر کرنے والے اکثر جہازوں کے اوپر مکڑیوں کے ایسے جالے پائے گئے ہیں جو فضا میں
سے اترے اور جہازوں سے چمٹ گئے۔یہی حال ہوائی جہازوں کا بھی ہے بعض دفعہ جہاز جب زمین پر اترتے ہیں تو ان کے کاک پٹ پر مکڑیوں کے جالے چمٹے ہوئے ملتے ہیں اور ان جالوں میں جیتی جاگتی مکڑیاں بھی نظر آتی ہیں۔
Jaleel Ahmed
About the Author: Jaleel Ahmed Read More Articles by Jaleel Ahmed: 383 Articles with 1183422 views Mien aik baat clear karna chahta hoon k mery zeyata tar article Ubqari.org se hoty hain mera Ubqari se koi barayrast koi taluk nahi. Ubqari se baray r.. View More