اخلاص پیدا کر تھوڑا عمل بھی کافی ہوگا

رسول کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو جب یمن بھیجا تو فرمایا: اخلص دینک یکفک العمل القلیل۔
(المتدرک علی الصحیحین، کتاب الرقاق، الحدیث: 7913، ج5، ص430)
کہ اپنے دین میں اخلاص کر تجھے تھوڑا عمل بھی کافی ہوگا۔ (حاکم) حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کا واقعہ کسی سے مخفی نہیں کہ ایک لڑائی میں ایک کافر پر آپ نے قابو پالیا۔ اس نے آپ کے منہ مبارک پر تھوک دیا تو آپ نے اسے چھوڑ دیا۔ وہ حیران رہ گیا کہ یہ بات کیا ہے؟ بجائے اس کے کہ انہیں غصہ آتا اور مجھے قتل کر دیتے انہوں نے چھوڑ دیا ہے۔ حیران ہوکر پوچھتا ہے تو آپ فرماتے ہیں
گفت من تیغ از پئے حق مے زنم
بندہء حقم نہ مامور تنم
شیر حقم نیستم شیر ہوا
فعل من بر دین من باشد گواہ
کہ میں نے محض رضائے حق کے لیے تلوار پکڑی ہے میں خدا کے حکم کا بندہ ہوں اپنے نفس کے بدلہ کے لیے مامور نہیں ہوں۔ میں خدا کا شیر ہوں اپنی خواہش کا شیر نہیں ہوں۔ چونکہ میرے منہ پر تونے تھوکا ہے اس لیے اب اس لڑائی میں نفس کا دخل ہوگیا اخلاص جاتا رہا، اس لیے میں نے تجھے چھوڑ دیا ہے کہ میرا کام اخلاص سے خالی نہ ہو
چونکہ در آمد علتے اندر غزا
تیغ رادید نہاں کردن سزا
جب اس جنگ میں ایک علت پیدا ہوگئی جو اخلاص کے منافی تھی تو میں نے تلوار کا روکنا ہی مناسب سمجھا۔ وہ کافر حضرت کا یہ جواب سن کر مسلمان ہو گیا۔ اس پر مولانا رومی فرماتے ہیں
بس خجستہ معسیت کاں مرد کرد
نے زخارے بردمد اوراق ورد
وہ تھوکنا اس کے حق میں کیا مبارک ہو گیا کہ اسے اسلام نصیب ہوگیا۔ اس پر مولانا تمثیل بیان فرماتے ہیں کہ جس طرح کانٹوں سے گل سرخ کے پتے نکلتے ہیں اسی طرح اس کے گناہ سے اسے اسلام حاصل ہوگیا
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1282902 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.