حضرت کعب بن مالک رضی اﷲ عنہ کا امتحان

حضرت کعب بن مالک رضی اﷲ عنہ کا واقعہ بے انتہا دلچسپ اور رقت آمیز ہے . یہ انہوں نے اس وقت خود ہی بیان فرمایا جب بوڑھے اور بینائی سے محروم ہوچکے تھے.

فرماتے ہیں میرا واقعہ یہ ہے کہ جس زمانہ میں شرکت تبوک سے پیچھے رہ گیا اس وقت میں انتہائی خوش حالی میں تھا. اس سے پہلے دو سواریاں میرے پاس کبھی جمع نہیں ہوئی تھیں اور اس جنگ میں تو دو سواریاں بھی میں نے خرید رکھی تھیں.

رسول اﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم جب کسی جنگ کا ارادہ فرماتے تو عام طور پر اس خبر کو پھیلنے نہ دیتے . جب یہ جنگ ہوئی تو سخت گرمی کا زمانہ تھا. دو ردراز اور جنگلوں کا سفر درپیش تھا اور کثیر التعداد دشمن سے سامناتھا. نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے امور میں مسلمانوں کو آزاد کر رکھا تھا کہ جس طرح چاہیں دشمن کے مقابلے کی تیاری کرلیں اور اپنا ارادہ مسلمانوں پر ظاہر فرمادیاتھا. اور مسلمان نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اس کثیر تعداد میں تھے کہ ان کا اندراج رجسٹر پر نہ ہوسکتا تھا . کعب رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ بہت کم ایسے لوگ ہوں گے کہ جن کی غیر حاضری کانبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو علم ہوسکتا تھا بلکہ گمان تھا کہ کثرت لشکر کی وجہ سے غائب رہنے کا نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو علم بھی نہ ہوسکے گا جب تک ﷲ تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ وحی علم نہ ہوجائے. یہ لڑائی جس وقت ہوئی وہ زمانہ پھلوں کے پکنے کا تھا . سایہ گستری بار آوری اور خنکی کا موسم تھا ایسے زمانہ میں میری طبیعت آرام طلبی اور راحت گیری کی طرف بہت مائل ہوگئی . نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اور مسلمانوں نے تیاریاں شروع کردیں. میں صبح اٹھ کر جہاد کی تیاری کے لئے باہر نکلتا لیکن خالی ہاتھ واپس ہوتا. تیاری اور اسباب سفر کی خریداری وغیرہ کچھ نہ کرتا. دل بہلا لیتا کہ جب میں چاہوں گا دم بھر میں تیاری کرلوں گا. دن گزرتے چلے گئے . لوگوں نے تیاریاں مکمل کرلیں حتی کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے ساتھ مسلمان جہاد کیلئے روانہ ہوگئے . میں نے دل میں کہا کہ ایک دو دن بعد تیاری کرکے میں بھی مل جاؤں گا. اس عرصہ میں مسلمانوں کا لشکر بہت دور جا چکا تھا میں تیاری کیلئے باہر نکلا،لیکن پھر بغیر تیاری کے واپس آگیا حتی کہ ہر روز یہی ہوتا رہا دن نکل گئے. لشکر تبوک پہنچ گیا. اب میں نے کوچ کا ارادہ کرلیا کہ جلدی سے پہنچ کرنبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ شامل ہوجاؤں. کاش اب بھی کوچ کر جاتا. لیکن آخرکار یہ بھی نہ ہوسکا. اب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے تشریف لے جانے کے بعد جب کبھی میں بازار میں نکلتا تو مجھے یہ دیکھ کر بڑا دکھ ہوتا کہ جو مسلمان نظر آتا ہے اس پر یا تو نفاق کی پھٹکار نظر آتی ہے یا ایسے مسلمان دکھائی دیتے ہیں جو واقعی ﷲکی طرف سے معذور لنگڑے لولے تھے. جب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم تبوک پہنچ چکے تو مجھے یاد فرمایا اور پوچھا کعب بن مالک کیا کررہا ہے تو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے ایک شخص نے عرض کی : یا رسول اﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم ! اس کو خوش عیشی اور آرام طلبی نے مدینے ہی میں روک لیا ہے تو معاذ بن جبل رضی اﷲ عنہ نے کہا تم نے غلط خیال قائم کیا ہے یا رسول اﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم ! اس میں تو بھلائی اور نیکی کے سواکچھ نہیں.نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم یہ سن کر خاموش رہے اور جب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم تبوک سے واپس تشریف لانے لگے تو میں سخت پریشان تھا کہ اب کیا کروں؟ میں غلط حیلے سوچنے لگا تاکہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے عتاب سے محفوظ رہ سکوں. چنانچہ ہر ایک سے رائے لینے لگا. اور جب معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم تشریف لا چکے ہیں تو اب غلط سوچ و بچار سے دستبردار ہوگیا. اب میں نے اچھی طرح معلوم کرلیا کہ میں کسی طرح بھی نہیں بچ سکتا. چنانچہ میں نے سچ سچ کہنے کا ارادہ کرلیا. نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم جب سفر سے واپس آئے تو سب سے پہلے مسجد گئے . دو رکعت نماز پڑھی، پھر لوگوں کے ساتھ مجلس کی. اب جنگ میں شریک نہ ہونے والے آ آ کر عذر و معذرت کرنے لگے اور قسمیں کھانے لگے. ایسے لوگوں کی تعداد اسی(80) سے کچھ اوپر تھی. نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم بحکم ظاہر ان کی بات قبول کیے جارہے تھے اور ان کی کوتاہیوں کے لئے طلب مغفرت کر رہے تھے. میری باری آئی میں نے آکر سلام عرض کیا. نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہاں آؤ، میں سامنے جا بیٹھا. مجھ سے فرمایا : تم کیوں رکے رہے؟ کیا تم نے تیاری جہاد کیلئے خریداری نہیں کرلی تھی؟ میں نے کہا: یا رسول اﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم ! اگر میں اس وقت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے سوا کسی اور سے بات کرتا تو صاف صاف بری ہوجاتا کیوں کہ مجھے بحث و تکرار اورمعذرت کرنا خوب آتا ہے لیکن اﷲ کی قسم میں جانتا ہوں کہ اس وقت تو جھوٹی بات بنا کر میںنبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو راضی کر لوں گا. لیکن بہت جلد ہی اﷲ آپ کو مجھ سے ناراض کر دے گا اور اگر میں سچ سچ کہہ دیا تو حسین عاقبت کی مجھے اﷲ کی طرف سے امید ہوسکتی ہے.یا رسول اﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم ! ﷲ کی قسم میں کوئی معقول عذر نہیں رکھتا تھا. میرے پاس عدم شرکت جنگ کا درحقیقت کوئی حیلہ نہیں . تو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ! ہاں یہ تو سچ کہتاہے. اچھا اب تم چلے جاؤ اور انتظار کرو کہ اﷲ تعالیٰ تمہارے بارے میں کیا حکم فرماتا ہے چنانچہ میں چلا گیا. بنی سلمہ کے لوگ بھی میرے ساتھ اٹھے اور ساتھ ہولئے. اور کہنے لگے : اﷲ کی قسم ہم نے تمہیں پہلے کوئی خطا کرتے نہیں دیکھا ہے دوسرے لوگوں نے جیسے عذرات پیش کردئیے تم نےنبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے کچھ بھی عذر نہیں کیا. ورنہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے دوسروں کیلئے جیسے استغفار کیا تھا تمہارے لئے بھی نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا یہ استغفار کافی ہوتا. غرض کہ لوگوں نے اس بات پر اس قدر زور دیا کہ میں نے ایک بار یہ ارادہ کرہی لیا کہ پھر واپس جاؤں اور کوئی عذر تراش دوں . لیکن میں نے لوگوں سے دریافت کیا کہ میری طرح کیا کسی اور کی بھی صورت حال ہے . کہاہاں تمہاری طرح کے اور دو آدمی ہیں. جنہوں نے سچ سچ کہہ دیا ہے میں نے پوچھا وہ کون ہیں؟ کہا گیا مرارہ بن الربیع العامری اور ہلال بن امیہ الواقفی .کہا گیا یہ دونوں مرد صالح ہیں ،بدر میں شریک تھے . اب میرے سامنے ان کا نقش قدم تھا اسے لئے میں دوبارہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے پاس نہ گیا. اب معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ہم تینوں سے سلام کلام کرنے سے لوگوں کو ممانعت کر دی ہے اور لوگوں نے ہمارا بالکل بائیکاٹ کردیا ہے اور ہم ایسے بدل گئے کہ زمین پر رہنا ہمیں بوجھ معلوم ہونے لگا. ہم پر اس ترک تعلقات کے پچاس دن گزر گئے ان دونوں نے تو منہ چھپا کر خانہ نشینی ہی اختیار کرلی ، روتے پیٹتے رہے میں ذرا سخت مزاج تھا. قوت برداشت تھی ، جاکر جماعت کے ساتھ برابر نماز پڑھتا تھا. بازاروں میں گھومتا تھا لیکن مجھ سے کوئی بولتا نہ تھا. نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آتا. نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما رہتے . میں سلام کرتا اور دیکھتا کہ جواب سلام کے لئے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ہونٹ ہلتے کہ نہیں ، پھر نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے قریب ہی نماز پڑھ لیتا. کنکھیوں سے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھتا، میں نماز پڑھنے لگتا تو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم مجھے دیکھتے .میں نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی طرف متوجہ ہو جاتا تو نظر پھیر لیتے . جب اس بائیکاٹ کی مدت لمبی ہوتی گئی تو میں ابو قتادہ رضی اﷲ عنہ کے باغ کی دیوار پھاند کر ان کے یہاں گیاوہ میرے چچا زاد بھائی تھے . میں انہیں بہت چاہتا تھا. سلام کیا واﷲ انہوں نے جواب نہ دیا. میں نے کہا اے ابوقتادہ ! تمہیں اﷲ کی قسم کیا تم نہیں جانتے میں ﷲ کو اور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو دوست رکھتا ہوں . وہ سن کر خاموش ہوگئے. میں نے اﷲ کی قسم دے کر بات کی پھر کچھ نہ بولے، میں نے پھر قسم دی کچھ بھی نہ کہا، لیکن انجان پن سے بولے .اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو علم ہے میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا . پھر دیوار پھاند کر واپس ہوگیا.
ایک دن بازار مدینہ میں گھوم رہا تھا کہ شام کا ایک قبطی جو مدینہ کے بازار میں کھانے کی کچھ چیزیں بیچ رہا تھا، لوگوں سے کہنے لگا کہ کعب بن مالک رضی اﷲ عنہ کا کوئی پتہ دے. لوگوں نے میری طرف اشارہ کردیا وہ میرے پاس آیا اور شاہ غسان کا ایک مکتوب میرے حوالے کیا . چونکہ میں پڑھا لکھا تھا ، پڑھا تو لکھاتھا کہ: '' ہمیں اطلاع ملی ہے کہ تمہارے آقا (نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم) نے تم پر سختی کی ہے. اﷲ نے تمہیں کوئی معمولی آدمی تو نہیں بنایا ہے. تم کوئی گرے پڑے نہیں ہو . تم ہمارے پاس آجاؤ ، ہم تمہیں نواز دیں گے.''

میں نے یہ پڑھ کر کہا: میرے ﷲ! یہ تو نئی مصیبت آپڑی. میں نے اس مکتوب کو آگ میں جھونک دیا اور جب پچاس میں چالیس دن گزر گئے تو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا ایک قاصد میرے پاس آیا اور کہا نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ اپنی عورت سے علیحدہ ہو. میں نے پوچھا کیا حکم ہے کہ طلاق دوں؟ کہا نہیں صرف الگ رہو، قربت نہ کرنا ، کہا کہ دوسرے دونوں کے بارے میں بھی یہی حکم ہوا ہے. چنانچہ میں نے اپنی عورت سے کہہ دیا کہ میکے چلی جاؤ حتی کہ ﷲ کا کوئی حکم پہنچے. ہلال بن امیہ رضی اﷲ عنہ کی بیوی نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئی اور عرض کرنے لگی یا رسول اﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم! ہلال ایک شیخ ضعیف ہے اس کی خدمت کیلئے کوئی آدمی نہیں . اگر میں ان کی خدمت میں لگی رہوں تو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نامنظور تو نہ کریں گے. نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا لیکن وہ تم سے قربت نہ کرے کہنے لگی اس غریب کو تو ہلنا جلنا مشکل ہوگیا ہے . نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی ناراضی کے دن سے آج تک لگاتار روتا رہتاہے . میرے گھر والوں میں سے ایک نے کہا تم بھی نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے اپنی بیوی سے خدمت لینے کی اجازت حاصل کرلو جیسے کہ ہلال کو اجازت مل گئی. میں نے کہا اﷲ کی قسم میں اس بات کی نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے درخواست نہ کروں گا. نہ معلوم نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کیا فرمائیں گے ، میں نوجوان آدمی ہوں مجھے کسی سے درخواست لینے کی ضرورت نہیں. اب ہم نے مزید دس دن گزارے اور لوگوں کے قطع تعلق کو پچاس دن گزر گئے. پچاسویں دن کی صبح اپنے گھر کی چھت پر صبح کی نماز پڑھ کر میں اس حال میں بیٹھا ہوا تھا جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے کلام مجید میں فرمایا ہے یعنی میری جان مجھ پر بھاری معلوم ہورہی تھی .یہ وسیع دنیا مجھے تنگ محسوس ہورہی تھی کہ سلع پہاڑی پر سے ایک پکارنے والے کی آواز میرے کان میں پڑی کہ وہ بلند آواز میں چیخ رہا تھا کہ '' اے کعب بن مالک ! خوش ہوجاؤ.'' یہ سنتے ہی میں سجدے میں گر پڑا اور سمجھ گیا کہ ﷲ نے میری توبہ قبول کرلی . مصیبت کا زمانہ گزر گیا.صبح کی نماز پڑھنے کے بعد نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اطلاع سنا دی، کہ ﷲ تعالیٰ نے ان تینوں کی توبہ قبول کرلی ہے. لوگ ہمیں خوشخبری دینے کیلئے دوڑے. ان دونوں کے پاس بھی گئے اور میرے پاس بھی ایک سوار تیز گھوڑا دوڑاتا ہوا آیا. لیکن پہاڑی پر چڑھ کر آواز دینے والازیادہ کامیاب رہا کہ جلد تر مجھے خبر مل گئی کیوں کہ گھوڑے کی رفتار سے آواز کی رفتار تیز تر ہوتی ہے . چنانچہ جب وہ شخص مجھ سے ملا جس کی آواز میں نے سنی تھی تو اس خوشخبری دینے کے صلے میں اپنے کپڑے اتار کر میں نے اسے پہنا دئیے. واﷲ میرے پاس اس وقت دوسرا جوڑا نہیں تھا میں نے اپنے لئے مستعار(تیار شدہ) کپڑے لے کر پہن لئے. میں نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جانے کے ارادے سے نکلا. لوگ مجھے راہ میں جوق در جوق ملتے اور مبارک باد دیتے جاتے. میں مسجد میں داخل ہوا تو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے. مجھے دیکھتے ہی طلحہ بن عبیداﷲدوڑ پڑے ،مجھ سے مصافحہ کرکے مبارک باد دی . مہاجرین میں سے کسی نے ان کے سوا یہ اقدام نہیں کیا. کعب رضی اﷲ عنہ نے طلحہ رضی اﷲ عنہ کے اس خلوص کو کبھی فراموش نہیں کیا. میں نے آکر نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو سلام کیا. نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ(مبارک) خوشی سے چمک اٹھا. کہنے لگے: خوش ہوجاؤ جب سے تم پیدا ہوئے ایسی خوشی کا دن تم پر نہ آیا ہوگا. میں نے پوچھا یا رسول اﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم! یہ بشارت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے یا اﷲ کی طرف سے ؟ فرمانے لگے اﷲ کی طرف سے . نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم خوش ہوجاتے تونبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ(مبارک ) چمک اٹھتا تھا. گویا چاند کا ٹکڑا ہے اور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی خوشنودی آپکے چہرہ (مبارک ) ہی سے ظاہر ہوجاتی. میں نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کی یارسول اﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم میری قبولیت توبہ کی یہ برکت ہونی چاہیے کہ میں اپنا سارا مال و متاع اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی راہ میں لٹا دوں. نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ایسا نہیں کچھ رکھو اور کچھ صدقہ کردو. یہی بہتر صورت ہے میں نے کہا خیبر سے جو حصہ مجھے ملاتھا وہ میں اپنے لئے رکھ لیتا ہوں. یا رسول اﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم سچائی کی برکتوں کے سبب ﷲ نے مجھے نجات بخشی. اﷲکی قسم میں نے جب سے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے راست گئی کا ذکر کیا پھر کبھی جھوٹ نہیں بولا . اﷲ سے دعا ہے کہ وہ آئندہ بھی کبھی مجھ سے جھوٹ نہ بلوائے.
بخاری شریف
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1297372 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.