10برس میں8 لاکھ ہلاکتیں؛کیوں آتے ہیں یہ زلزلے؟

زمانے میں جب کہیں سے یہ اطلاع آتی تھی کہ فلاں جگہ زلزلہ آیا ہے اور اتنے لوگ اسکے نتیجے میں لقمہ اجل بن گئے ہیں تو خوف خدا رکھنے والے دیندار لوگ توبہ استغفار کرنے لگتے تھے لیکن گزشتہ دہائی کے دوران دنیا بھر میں زلزلوں کے نتیجے میں 7 لاکھ 80 ہزار سے زائد انسانوں کی ہلاکت کے باوجودیہ کیفیت عنقاءہے جبکہ یہ تعداد اسی عرصے کے دوران قدرتی آفات کے وجہ سے انسانی ہلاکتوں کی مجموعی تعداد کا قریب 60 فیصد بنتی ہے۔آجکل روزانہ ہی کہیں نہ کہیں زلزلے نمودار ہو رہے ہیں اور انکے نتیجے میں جانی اور مالی خسائروقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں مگر لوگوں کے دلوں میں اس بات کا خوف جانگزین نہیں ہوتا کہ زلزلوں کا اس شدت کے ساتھ آنا قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے بلکہ دلوں پر خوف کی جگہ ایک بے حسی کی کیفیت طاری ہو چکی ہے اور نصیحت حاصل کرنے کی بجائے نہ صرف تجاہل سے کام لیا جانے لگا ہے بلکہ سائنسدانوں نے اس کی منطقی وجہ اور اسباب بھی تلاش کر لئے ہیں۔ دریں اثناءپیرس سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق مذکورہ اعداد و شمار معروف تحقیقی جریدے’دی لینسیٹ‘ The Lancetکے تازہ شمارے میں شائع کئے گئے ہیں۔ اس طبی اور سائنسی تحقیقی جریدے کے مطابق ان 10برسوں کے دوران زلزلوں سے اتنی ہلاکتوں کے ساتھ ساتھ دو بلین انسان براہ راست متاثر بھی ہوئے۔

حقائق بتاتے ہیں کہ 2001 اور 2011 کے درمیان سب سے ہلاکت خیز زلزلہ گزشتہ برس 12 جنوری کو ہیٹی میں آیاجو3 لاکھ 16 ہزار انسانوں کی موت کی وجہ ثابت ہوا۔ دوسرے نمبر پر سب سے تباہ کن زلزلہ 26 دسمبر 2004 کو آنے والی وہ آفت تھی جو کچھ ہی دیر بعد سونامی لہروں کا باعث بھی بنی۔ بحر ہند کے علاقے میں یہ تباہ کن سونامی لہریں ریکٹر اسکیل پر 9.1 کی شدت سے آنے والے زلزلے کے بعد پیدا ہوئی تھیں۔ اس زلزلے اور پھر سونامی لہروں کے ہاتھوں بحر ہند کے ساحلوں پر واقع کئی ملکوں میں مجموعی طور پر 2 لاکھ 27 ہزار انسان موت کے منہ میں چلے گئے تھے۔گذشتہ10 برس کے دوران تیسرا سب سے ہلاکت خیز زلزلہ جنوب مغربی چینی صوبے سیچوان میں آیا تھا جس نے 87 ہزار 500 شہریوں کی جان لے لی۔ دی لینسیٹ میں شائع ہونے والے ان اعداد و شمار کا مقصد پالیسی ساز اداروں اور ہنگامی بنیادوں پر امدادی کارروائیاں کرنے والی تنظیموں اور ان کے کارکنوں پر یہ واضح کرنا ہے کہ زلزلوں جیسی آفات کے بعد فوری امدادی سرگرمیاں بھی انسانوں کی صحت سے متعلق ترجیحات ہی کا حصہ ہیں۔

دی لینسیٹ میں اس بارے میں یہ تفصیلات شائع کرنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ڈاکٹروں پر واضح کر دیا جائے کہ اس طرح کی آفات کے بعد زخمی انسانوں میں کس طرح کی چوٹیں سب سے زیادہ دیکھنے میں آتی ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ دہائی کے دوران دنیا میں چھوٹے بڑے جتنے بھی زلزلے آئے‘ ان میں سب سے بری طرح متاثر ہونے والے انسانی گروہوں میں بچے سب سے زیادہ تھے۔ ان زلزلوں کے باعث جتنے بھی لوگ زخمی ہوئے، ان میں سے 25 فیصد سے لے کر 53 فیصد تک بچے تھے۔اس رپورٹ کے مطابق زلزلے صرف جانی نقصان اور مادی تباہی کی وجہ ہی نہیں بنتے۔ طویل المدتی بنیادوں پر ان کا متاثرہ انسانوں کی ذہنی صحت پر بھی برا اثر پڑتا ہے۔ اکثر متاثرین اس وجہ سے ڈپریشن کا شکار بھی ہو جاتے ہیں۔یہ مطالعاتی رپورٹ گزشتہ 10برس کے اعداد و شمار کی بنیاد پر امریکی شہر بوسٹن میں خواتین کے ایک اسپتال اور بوسٹن ہی کے ایک پبلک میڈیکل سینٹر کی طرف سے مشترکہ طور پر تیار کی گئی ہے۔

اس سلسلے میں سائنسدانوں نے مختلف تماثیل کے زریعے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح سورج کی تمازت سے سمندر کا پانی بخارات میں تبدیل ہوتا ہے اور کس طرح وہ بادلوں کی شکل اختیار کرتا ہے اور کیسے بارش برستی ہے۔ قدیم زمانے میں جب سائنس اور ٹکنالوجی کا وجود نہیں تھااور تحقیق کے باب نہیں کھلے تھے تو مختلف ادوار میں مختلف اقوام زلزلوں سے متعلق عجیب و غریب نظریات رکھتی تھی۔کسی قوم کا یہ نظریہ تھا کہ ایک طویل وعریض چھپکلی زمین کو اپنی پشت پر اٹھائے ہوئے ہے اور اسکی حرکت کرنے کی وجہ سے زمین ہلتی ہے۔مذہبی عقیدے کی حامل قوم کا یہ خیال تھا کہ خدا اپنے نافرمان بندوں کوزمین ہلا کر ڈراتا ہے۔ اسی طرح ہندوں دیو مالائی تصور یہ تھا کہ زمین کو ایک گائے نے اپنے سینگوں پر اٹھا رکھا ہے اور جب وہ تھک کر سینگ بدلتی ہے تو اسکے نتیجے میں زمین ہلتی ہے جبکہ ارسطو اور افلاطون کے نظریات کچھ ملتے جلتے تھے جنکے مطابق زمین کی تہوں میں موجو د ہوا جب گرم ہوکر زمین کے پرتوں کو توڑ کر باہر آنے کی کوشش کرتی ہے توزلزلے آتے ہیں لیکن سائنس کی ترقی کے ساتھ ساتھ علمی تحقیق کے دروازے کھلتے چلے گئے اوراسطرح ہر نئے سا نحے کے بعد اسکے اسباب کے بارے میں جاننے کی جستجونے پرانے نظریات کی نفی کردی ۔

یوں تو بہت سی قدرتی آفات کے ظہور پذیر ہونے سے پہلے پیشگی اطلا ع فراہم ہوجاتی ہو او ر احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے باعث کافی بڑے جانی و مالی نقصانات سے بچا جاسکتا ہے۔مثلا سمندر میں بننے والے خطرناک طوفانوں ، انکی شدت اور انکے زمین سے ٹکرانے کی مدت کا تعین نہ صرف سیٹ لائٹ کے ذریعے کیا جاسکتا ہے بلکہ اس سے بچاؤ کی تدابیر بروقت اختیار کی جاسکتی ہیں لیکن زلزلے کی آمد نہایت خاموشی سے ہوتی ہے اور پتہ اس وقت چلتا ہے جب وہ اپنے پیچھے تباہی اور بربادی کی ایک داستان رقم کرکے جاچکا ہوتا ہے جبکہ مینڈک زلزے کی آہٹ بھانپ لیتے ہیں۔بظاہر ایک ادنی سی زمین پر رینگنی والی مخلوق جسے لوگ قابل توجہ بھی نہیں سمجھتے بلکہ موسم گرما میں اگرکوئی شخص کسی تالاب وغیرہ کے قریب سو رہا ہو تو اس کی ٹر ٹر کی آواز اس کو ناگوار لگتی ہے مگر یہی مینڈک زلزے کے آنے سے بہت پہلے اس کی آہٹ کو بھانپ لیتے ہیں اور خود کو بچانے اپنی پناہ گاہوں سے دور نکل کھڑے ہوتے ہیں۔یہ مشاہدہ اٹلی میں کیا گیا ہے جہاں دو ہزار نو میں لا اقلیہ میں آنے والے زلزلے کے وقت یہ مشاہدہ کیا گیا کہ مینڈک زلزلہ آنے سے تین دن پہلے اپنی رہنے کی جگہوں سے دور نکل گئے تھے۔علم حیوانات کے ایک جریدے میں ماہرین نے لکھا ہے کہ جس مقام سے مینڈکوں کی برداری فرار ہوئی تھی وہ زلزے کے مرکز سے محض 74 کلو میٹر دور تھا۔اٹلی میں گزشتہ برس جس وقت یہ زلزلہ آیا جس کی شدت ریکٹرسکیل پر3.6 تھی۔ ان دنوں لندن میں ملٹن کینز کی یونورسٹی کی ایک ماہر حیاتیات ڈاکٹر ریچل گرانٹ وسطی اٹلی میں سان رفیلو جھیل کے علاقے میں مینڈکوں کی سرگرمیوں کا مشاہدہ کررہے تھیں۔ ڈاکٹر گرانٹ کا کہنا ہے کہ زلزلے سے پانچ دن قبل مینڈکوں کی افزائش کی پناہ گاہوں میں نر مینڈک آنے کی کی تعداد 96 فیصد کم ہوگئی۔حالانکہ یہ کہنا ذرا مشکل ہے کہ آخر مینڈک زلزے کی آمد سے پہلے زمین کی پر توں میں پیدا ہونے والی سرسراہٹ کا کیسے پتہ چلا لیتے ہیں لیکن مینڈکوں کے دسیوں جوڑے یعنی نر اور مادہ مینڈک اپنی پناہ گاہیں چھوڑ بھاگے۔ماہر حیوانات کا کہنا ہے کہ زلزلے کیو نکہ بہت تواتر سے ہونے والی کوئی سرگرمی نہیں ہے اس لئے زلزلے کی آمد سے پہلے جا نوروں کا اس کے بارے میں رد عمل کا درست اندازہ کرنا مشکل ہے۔کچھ طلبا ءنے گھریلو جانوروں کے رد عمل کا مشاہدہ تو کیا ہے تاہم جنگلی جانوروں کے رویوں کا مشاہدہ نہایت دشوار ہے۔یہ بھی دیکھا گیا کہ زلزلے سے پہلے مچھلیاں اپنی جگہیں اور سانپ اپنی بل چھوڑ دیتے ہیں لیکن وہ ایسا کچھ دن قبل نہیں محض کچھ دیر پہلے کرتے ہیں۔ڈاکٹر ریچل کہتی ہیں کہ لا اقیلہ میں زلزلہ آنے سے پانچ دن پہلے مینڈکوں نے انڈے دینے بند کردئے۔ زلزے سے تین دن قبل نر اور مادہ مینڈک جوڑے اپنی پناہ گاہوں سے غائب ہونے شروع ہوگئے۔ان کا کہنا ہے کہ نر مینڈکوں کی خصائص کو دیکھتے ہوئے یہ ایک بہت ہی غیر معمولی سرگرمی تھی جو دیکھنے میں آئی۔ کیونکہ نر مینڈک انڈے دینے کے کافی عرصہ بعد تک اسی پناہ گاہ میں رہتے ہیں۔ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ مینڈک کسی ایسے اونچے مقام کی جانب چلے گئے ہونگے جہاں چٹانیں گرنے یا پانی میں ڈوبنے کا خطرہ کم ہو۔مینڈکوں کی برادری کے رویوں میں تبدیلی کا موازنہ ماحول میں آنے والی تبدیلیوں سے کیا گیا ہے جن کے بارے میں سائنسدانوں کا مشاہدہ ہے کہ زلزلے کے آنے سے پہلے کرہ ارض کی اتلی سطحوں میں تبدیلیاں ریکارڈ ہونی شروع ہوجاتی ہیں۔ جیسے کہ گیسوں کا غیر معمولی اخراج یا فضا میں مقناطیسی ذرات کا زیادہ ہوناوغیرہ وغیرہ۔ ماحولیات میں آنے والی ایسی تبدیلیوں کو سائنسداں زلزلے کے پیشگی خبردار کرنے والے نظام میں استعمال کرتے ہیں۔ایک اور تحقیق کے مطابق کے زمین پر رینگنے والے دوسرے کیڑے مکوڑوں میں ایسی حس نہیں پائی جاتی۔ مثال کے طور پر کیلفورنیا کے ’صحرائے موجاوے ‘ میں انیس 1992 میں شدید زلزلہ آیا تاہم اس سے پہلے چینٹیوں کے رویے میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں دیکھی گئی۔

بیشک ایسے آلات ایجاد ہوچکے ہیں جو زلزلے گزرنے کے بعد انکی شدت، انکے مرکزاورآفٹر شاکس کے بارے میں معلومات فراہم کردیتے ہیں؛ ماہرین ارضیات نے زلزلوں کی دو بنیادی وجوہات بیان کی ہیں ایک وجہ زیر زمیں پلیٹوں (فالٹس) میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل ہے اور دوسری آتش فشاں کا پھٹنا بتایا گیا ہے۔ زمین کی بیرونی سطح کے اندر مختلف گہرائیوں میں زمینی پلیٹیں ہوتی ہیں جنہیں ٹیکٹونک پلیٹس کہتے ہیں۔ ان پلیٹوں کے نیچے ایک پگھلا ہوامادہ جسے میگما کہتے ہیں موجود ہوتا ہے ۔میگما کی حرارت کی زیادتی کے باعث زمین کی اندرونی سطح میں کرنٹ پیدا ہوتا ہے جس سے ان پلیٹوں میں حرکت پیداہوتی ہے اور وہ شدید ٹوٹ پھوت کا شکار ہوجاتی ہیں۔ٹوٹنے کے بعد پلیٹوں کا کچھ حصہ میگما میں دہنس جاتا ہو اور کچھ اوپر کو ابھر جاتا ہے جس سے زمیں پر بسنے والی مخلوق سطح پر ارتعاش محسوس کرتی ہے۔ زلزلے کی شدت اور دورانیہ کا انحصار میگما کی حرارت اور اسکے نتیجے میں پلیٹوں میں ٹوٹ پھوٹ کے عمل پر منحصر ہے اسی طرح جب آ تش فشا پھٹتے ہیں تو لاوا پوری شدت سے زمین کی گہرائیوں سے سطح زمیں کی بیرونی تہوں کو پھاڑتا ہوخارج ہوتا ہے جس سے زمیں کی اندرونی پلیٹوں میں شدید قسم کی لہریں پیدا ہوتی ہیں۔یہ لہریں زیر زمین تین سے پندرہ کلومیٹر فی سیکنڈ کے حساب سے سفر کرتی ہیں اور ماہیت کے حساب سے چار اقسام میں انکی درجہ بندی کی گئی ہے۔ دو لہریں زمیں کی سطح کے ساتھ ساتھ سفر کرتی ہیں جبکہ دیگر دو لہریں جن میں سے ایک پرائمری ویو اور دوسری سیکنڈری ویو ہے زیر زمین سفر کرتی ہیں۔پرائمری لہریں آواز کی لہروں کی مانند سفرکرتی ہوئی زیر زمین چٹانوں اور مائعات سے گزر جاتی ہیں جبکہ سیکنڈری ویوز کی رفتار پرائمری ویوز کے مقابلے میں کم ہوتی ہے اور وہ صرف زیر زمین چٹانوں سے گزر سکتی ہے ۔ سیکنڈری ویوز زمینی مائعات میں بے اثر ہوتی ہیں مگر وہ جب چٹانوں سے گزرتی ہے توایل ویوز بنکر ایپی سینٹر یعنی مرکز کو متحرک کردیتی ہیں اور زلزلے کا سبب بنتی ہیں۔ ایل ویوز جتنی شدید ہونگی اتنی ہی شدت کا زلزلہ زمین پر محسوس ہوگا۔ زلزلے اگر زیر سمندر آتے ہیں تو انکی قوت سے پانی میں شدید تلاتم او ر لہروں میں ارتعاش پیدا ہوتا ہے اور کافی طاقتور اور اونچی لہریں پیدا ہوتی ہیں جو سطح سمندر پر پانچ سو سے ایک ہزار کلومیٹر کی رفتار سے بغیر اپنی قوت اور رفتار توڑے ہزاروں میل دور خشکی تک پہنچ کر ناقابل یقین تباہی پھیلاتی ہے جسکی مثال 2004کے انڈونیشیا کے زلزلے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سونامی ہے جس کی لہروں نے ہندوستان اور سری لنکا جیسے دور دراز ملکوں کے ساحلی علاقوں میں شدید تباہی پھیلائی تھی جس کی گونج آج بھی متاثرہ علاقوں میں سنائی دیتی ہے۔ ا ب اس سے کچھ کمتر درجے کے جاپان کی تاریخ کے سب سے بڑے زلزلے کابھی ذکر کر لیا جائے جو11 مارچ کوجاپان کے شمال مشرق میں تباہی اوربربادی کی نئی داستانیں رقم کر گیا اور جس نے2004میں آنے والے انڈونیشیا کے زلزلے اور سونامی کی یاد تازہ کردی ہے ۔آٹھ اعشاریہ نو8.9 قوت کے اس زلزلے نے جسکا مرکز ٹوکیو سے 72 کلومیٹر دور بحر الکاہل میں تھا‘جاپان کے متعلقہ اداروں کو سونامی وارننگ جاری کرنے پر مجبو ر کردیا۔زلزلے اور اسکے نتیجے میں آنے والے سونامی نے جاپان کے شمال مشرقی حصے میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلائی ہے۔ ابتک کی غیرمصدقہ اطلاعات کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کر گئی ہے جبکہ سینکڑوں افرادلاپتہ ہیں۔ مالی نقصانات کا تخمینہ اس مرحلے پر لگانا ایک مشکل امر ہے۔ زلزلے کے نتیجے میں ایک ایٹمی ریکٹر میں لگنے والی آگ کے نتیجے میں قریبا40 افراد ہلاک ہوئے اور کولنگ سسٹم کے کام نہ کرے کی وجہ سے تابکاری کے اخراج کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔زلزلے کے بعد متاثرہ علاقوں میں واقع تمام ۱ ۱ ایٹمی ریکٹر زفوری طور پر بند کر دئے گئے ہیں تاکہ مزید نقصان سے بچا جا سکے جبکہ کسی امکانی خطرے کے پیش نظر ریکٹر کے قرب وجوار میں رہنے والے ہزاروں لوگوں کا انخلاءعمل میں لایا جارہا ہے۔ جاپان کے انسٹیٹیوٹ آف انرجی اکنامکس کے نیوکلیئر انرجی گروپ کی لیڈر ٹوموکو موراکامی کی کہنا ہے کہ زلزلے کے نتیجے میں تابکاری کے فوری اخراج کا کوئی خدشہ نہیں ہے۔ اگر فیول راڈز منکشف بھی ہوجاتے ہیں تب بھی و ہ فوری طور پر نہیں پگھلیں گے۔ ان کی مانیں تواگر فیول راڈز پگھل بھی گئے اور ریکٹر کا اندرونی دباؤ بڑھ بھی گیا تب بھی اس وقت تک تابکاری کے اخراج کا کوئی خطرہ نہیں ہے جبتک ریکٹر کے کنٹینر درست کام کار رہے ہوں۔ دوسری جانب کارنیگی وقف برائے بین الاقوامی امن کے جوہری توانائی کے ایک ماہرمارک ہبس نے زلزلے کے بعد جاپان میں ایٹمی ریکٹروں کے حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ حالات قابو سے باہر ہونے کی صورت میں سنگین موڑ اختیار کر سکتے ہیں۔ایک یا ایک سے زیادہ ایمرجنسی ڈیزل جنریٹرز جو کہ ریکٹر کے کولنگ سسٹم کو بجلی سپلائی کرتے ہیں انکے کام نہ کرنے کی غیر مصدقہ اطلاعات کے حوالے سے انہوں نے کہا تھاکہ یہ کوئی مذاق نہیں ہے بلکہ جاپان کے لئے یہ تشویش کی بات ہے کہ ریکٹرزکے کولنگ سسٹم کی فعالیت کو برقرار رکھتے ہوئے ریکٹر کی حرارت کو اعتدال پر رکھا جائے ۔ اگر ایسا نہیں ہوتا اوربڑھتی ہوئی حرارت پر قابو نہیں پایا جاتا تو بنیادی ایٹمی ایندھن حرارت کی زیادتی کے باعث پگھل کر نقصان کا باعث بن سکتے ہیں جسکے نتیجے میں تابکاری کے اخراج کو نظر انداز نہیں جاسکتا۔ اس بات کی بھی پیشنگوئی ہے کہ آفٹرشاکس کا سلسلہ ایک ماہ تک جاری رہنے کا امکان ہے اور سات درجے تک کے جھٹکے جاپان کے شہروں خصوصا شمال مشرقی حصے کو جھنجھوڑتے رہیں گے جس کے نتیجے میں مزید کتنی تباہی جاپان کے اور جاپانیوں کے مقدر میں لکھی جاچکی ہے یہ توآنے والا وقت ہی بتا سکتا ہے ۔ ریکٹر کا معاملہ اگر قابو سے باہر ہوگیا اور تابکاری پھیلی تو اس کے نتیجے میں کتنے لوگ متاثر ہوتے ہیں ‘یہ غیر مبہم ہے تاہم سونامی تباہی کی علامت بن کرکہاں تک پہنچتی ہے اور اسکے نتیجے میں دنیا کے کتنے ملکوں میں مزید کتنا جانی و مالی نقصان ہوتا ہے‘ یہ تووقت ہی بتائے گا۔
S A Sagar
About the Author: S A Sagar Read More Articles by S A Sagar: 147 Articles with 116549 views Reading and Writing;
Relie on facts and researches deep in to what I am writing about.
Columnist, Free Launce Journalist
http://sagarurdutahzeeb.bl
.. View More