کیوں دلبرداشتہ ہیں معاوضے سے مالا مال کاشتکار

دور اندیشی اور معقول افہام و تفہیم کے سبب کرکٹ سے شروع ہوکر کرکٹ پر ختم ہو جانے والے ملک فارمولا ون ریسنگ کے دوران زمین پرتنازع جاری ہے ۔ حکومت اور کمپنیاں اپنے نت نئے چونچلوں اور صنعتی منصوبوں کیلئے زمین ایکوئر کرنا چاہتے ہیں۔رہی سہی کسرہندوستان میں موجودہ حصول اراضی قانون 1894 نے پوری کردی جو حکومت کو اسپتال ، سڑک اورا سکول جیسی مفادعامہ کاموں کے لئے زمین حاصل کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ نامناسب طریقے سے ان کی زمینیں لی جا رہی ہیں جبکہ کاروباری دنیا کا کہنا ہے کہ مقامی لوگوں کو روزگار کے موقع دینے والی منصوبوں میں غیر ضروری اڑنگے لگائے جا رہے ہیں۔ 2009 میں آئی ایک رپورٹ کے مطابق زمین سے وابستہ تنازعات کی وجہ سے ملک میں 133 منصوبے رکے پڑے ہیں جس کی وجہ سے 100 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری معلق ہیں جبکہ گریٹر نوئیڈا کے فارمولا ون ریس کابدھ انٹرنیشنل سرکٹ بنانے کیلئے اپنی زمین دینے والے سینکڑوں کسان درس عبرت بن گئے ہیں۔ یہ کاشتکار مالا مال تو ہو گئے لیکن پیسہ آنے کے باوجود اپنی زندگی میں آئی تبدیلیوں سے زیادہ تر کسان خوش نہیں ہیں۔آٹھ گاؤں کے کسانوں نے اتوار کو پنچایت کرکے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانے کا فیصلہ کیاہے۔ یہ آٹھ گاؤں ساقی پور‘ رسول پور رائے ‘جیت پور ‘ بروڑی ‘ ڈابرا ‘ عجائب پور ‘ متھراپور ‘ گھوڑی بچھیڑا ہیں۔بادل پور گاؤں کے بی ڈی سی راجندرکی مانیں تو ہائی کورٹ نے اتھارٹی کے حق میں فیصلہ دیا ہے۔ کسان اس فیصلے سے مطمئن نہیں ہیں‘ لہٰذا کسانوں نے اجتماعی طور پر سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ کیا ہے۔گذشتہ روزبادل پورمیںمنعقد پنچایت میں جگدیش نمبردار ، پردھان چاہت ، بیر سنگھ ناگر ، ببلی ناگر ، راجندر بھاٹی وغیرہ کسان شامل تھے۔ وہیں ساکی پور گاوں میں کسانوں نے نہرو انٹر کالج میں پنچایت کی۔پنچایت میں دھن سنگھ کا مؤقف تھا کہ کسان ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے۔ پنچایت میں بجیدر بھاٹی، راج سنگھ ، برہمن پال ، سندیپ چودھری ، راج بیر وغیرہ شامل تھے۔ وہیں ڈابرا گاؤں میں پنچایت میں کسانوں نے سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ کیا ہے۔

زیادہ عرصہ نہیں گزرا ہے جب گوتم بدھ نگر ضلع کے دنکور سرلارپر گاؤں میں رہنے والے سنجے سنگھ کیلئے زندگی مشکل تھی لیکن سیدھی سادی تھی۔ ان کے خاندان کے تمام چھ ارکان اپنی چھوٹی سی زمین میں ہی کام کرتے تھے جس پر وہ کھیرا ، سبزی اور دوسری فصلیں اگاتے تھے لیکن دارالحکومت دہلی کے نزدیک 35 کروڑ ڈالر کی لاگت سے بننے والے ٹریک نے ان کی زندگی کو پوری طرح بدل دیا ہے۔ 49 سالہ سنجے سنگھ زمین کے عوض میں ملی معاوضے کی رقم کا انکشاف نہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ہمیں معاوضے میں پیسہ ملا لیکن یہ کوئی زیادہ منافع والا سودا نہیں تھاجبکہ گاؤں کے ایک اعلیٰ اہلکار کے مطابق یہ رقم 50 لاکھ روپے کے قریب ہو سکتی ہے۔خودسنجے سنگھ کے الفاظ میں’ ہم نیا گھر بنا رہے ہیں اور اب ہمارے پاس کار بھی ہے لیکن ہم خوش نہیں ہیں کیونکہ ہماری روزی روٹی توکھےتی باڑی تھی جو ہم سے چھین لی گئی ہے۔ گاؤں کے لوگوں میں حسداور چھین جھپٹ جاری ہے۔ تاریک مسقبل سے بے خبر خاندانوں میں بیٹے اپنے حصے کے پیسوں کیلئے لڑ رہے ہیں۔ انہوں نے پڑھائی چھوڑ دی ہے کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ اب تو زندگی بھر کیلئے پیسہ آ گیا ہے۔ وہ دن بیئر پی کرگھومتے ہیں اور لڑائی جھگڑے کرتے ہیں۔

دنکور سرلارپور گاؤں کے لوگوں نے دکھا گیا ہے کہ وقت پر اچھا خاصا معاوضہ ملنے کے بعد بھی ناخواندہ کسانوں کے پاس مستقبل کا کوئی معقول ذریعہ نہیں ہے جبکہ زمین سے جدا ئی پر وہ غیر مطمئن ہیں۔ 22 سالہ مکیش نے کالج کی پڑھائی بیچ میں ہی چھوڑ دی۔متبادل روزگار نہ ہونے کی وجہ سے کچھ عرصہ ریسنگ ٹریک پر سیکورٹی گارڈ کے عارضی کام کے بعدوہ تشویش میں مبتلا ہیں کہ اس کے بعد کیا ہوگاجبکہ حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ کم سے کم خاندان کے ایک رکن کو ملازمت دی جائے گی ، لیکن ایسا ہوا نہیں۔ بہتر ہوتا کہ بینک کے کھاتوں میں پیسے ڈالنے کی بجائے ہمیں نوکری دی جاتی۔ٹریک کو بنانے والی کمپنی جے دیپ گروپ کا کہنا ہے کہ زمین باہمی رضامندی سے طے ہوئے معاوضے کی ادائیگی کے بعد ہی لی گئی ہے۔دوسری جانب ان علاقوں میں نوجوان نسل نئی طرز زندگی سے مطابقت نہیں قائم کرپا رہی ہے۔اسپتال‘ سڑکوں ، کھلی ہوئی نالیوں ، جلدی جلدی بجلی جانے اور اچھے اسکول نہ ہونے سے پریشان نظر آتے ہیں۔ستو دیوی ایک بڑے گھر میں رہتی ہیں جہاں نئی چمچماتی کار کے قریب ہی بھینسیں بندھی ہوئی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم نے نیا ڈش انٹینا لگوایا ہے جس سے 200 سے زیادہ چینل آتے ہیں لیکن پریشانی یہ ہے کہ ہم کچھ دیکھ نہیں پاتے کیونکہ بجلی تو محض 3 سے 4 گھنٹے کیلئے آتی ہے۔ کاروں کی ریس پرحکومت نے اتنا خرچہ کروایا لیکن گاؤںوالو ں کیلئے تو اس نے کچھ نہیں کیا۔ کچھ عرصہ بعد پیسہ ختم ہو جائے گا اس کے بعد ہم کیا کریں گے۔ ہم سڑکوں پر بھیک مانگ رہے ہوں گے اور حکومت تماشہ دیکھ رہی ہوگی۔
S A Sagar
About the Author: S A Sagar Read More Articles by S A Sagar: 147 Articles with 116412 views Reading and Writing;
Relie on facts and researches deep in to what I am writing about.
Columnist, Free Launce Journalist
http://sagarurdutahzeeb.bl
.. View More