پانی کے بحران پر کمر کسی دہلی سرکار نے

یوں تو کرہ ارض پر محض ایک تہائی خشکی اور دوتہائی پانی کی مقدار پائی جاتی ہے لیکن یہ پانی سمندر کا ہے جو روزمرہ کی انسانی ضروریات پوری کرنے پر قدرت نہیں رکھتا۔ایسے میں بڑھتی ہوئی آبادی اور دنیا کے پانی کے وسائل بمقابلہ انسانی مانگ کی وجہ سے پانی کا بحران وجود میں آیا ہے۔ پانی کا بحران اصطلاح کا اطلاق اقوام متحدہ اور دیگر عالمی تنظیموں نے کیا جبکہ دینا کے بہت سے حصوں میں تازہ پانی ‘خاص طور پر پینے کے قابل پانی کی قلت ہے۔ آبادی اور فی کس استعمال میں اضافے اور عالمی حدت کی وجہ سے بہت سے ممالک میں پانی کی شدید قلت ہونے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ اس مسئلہ پر مستقبل میں جنگیں ہونے کا بھی خدشہ ہے۔ ماہرین کی مانیں توپانی کی قلت مستقبل میں عالمی تنازعوں کا موجب بن سکتی ہے۔ایسی ہی تنبیہوں کے پیش نظر دہلی ملک میں نوی ممبئی سے ہی نہیں بلکہ بیرون ملک میں لندن‘سنگاپور‘پیرس‘بلجیم‘ایمسٹرڈم کی ہم پلہ ہونے والی ہے۔وہ دن دور نہیں جب دہلی میںپانی کے بحران سے بچنے کیلئے مذکورہ مقامات کی طرح ڈیول پائپ سسٹم ضروری ہوجائے گا جو پورے ملک کیلئے ہی نہیں بلکہ پورے عالم کیلئے شاندار مثال ثابت ہوگا۔

غور طلب ہے کہ ہندوستان کی آبادی ایک ارب سے زیادہ ہے اور توقع کی جارہی ہے کہ اکیسویں صدی کے وسط تک یہ چین کی آبادی سے بڑھ جائے گی۔اس کے ساتھ’ٹائم‘ جریدے کی حالیہ رپورٹ کے مطابق دہلی کی آبادی پوری دنیا کے شہروں کے مقابل میں تیز ترین رفتار سے بڑھ رہی ہے۔ دونوں ممالک یعنی ہندوستان اور چین کوہ ہمالیہ کے سلسلے سے نکلنے والے پانی کے بڑے ذرائع پر انحصار کرتے ہیں۔ ان دریاؤں میں ایک دریائے برہم پترا ہے جو تبت اور اروناچل پردیش سے ہو کر گزرتا ہے۔ہندوستانی عہدے دار اس دریا پر ایک ہائیڈرو الیکٹرک ڈیم تعمیر کرنے کے چینی منصوبے کا بغور جائزہ لے رہے ہیںجبکہ گذشتہ برس کے آخر میں ہندوستان اور چین کے درمیان ایک سربراہ کانفرنس میں بیجنگ نے یقین دہانی کروائی تھی کہ اس سے پانی کی ترسیل متاثر نہیں ہوگی لیکن یہ امر کشیدگی میں اضافہ کرتا ہے کہ چین اروناچل پردیش پر ہندوستان کی خودمختاری کو مکمل طور پر تسلیم نہیں کرتا۔ چینی نقشوں میں اسے جنوبی تبت بتایا گیا ہے۔دوسری جانب ہندوستان کے کروڑوں باشندوں کیلئے پانی کی قلت آبادی کا نہیں بلکہ پانی کی ترسیل کیلئے زیریں ڈھانچے کی کمی اور پانی کی صفائی کا انتظام نہ ہونا ہے۔

اس سلسلے میں امریکی انٹیلی جنس عہدے دار نے رواں سال کے دوران23مارچ کو جاری بیان میں آگاہ کیا تھا کہ پانی کی قلت مستقبل میں عالمی تنازعوں کے ایک بڑے محرک کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔امریکہ میں انٹیلی جنس کے عہدے داروں کا خیال تھاکہ پانی کی قلت مستقبل میں عالمی تنازعوں کے ایک بڑے محرک کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔ہندوستان میں سابق امریکی سفیر ٹموتھی روئمر امریکی کانگریس کی انٹیلی جنس کمیٹی میں بارہ برس سے شامل ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ تنازعاتی امور سے متعلق رپورٹوں تک ان کی براہِ راست رسائی ہے جن کے بارے میں امریکی عہدے دار سمجھتے ہیں کہ وہ جنگ کی شکل اختیار کر سکتے ہیںجبکہ پانی کے مسائل ان رپورٹوں میں 1990کی دہائی کے بعد ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ہم نے دیکھا کہ فہرست میں ٹیکنالوجی اور پانی جیسے مسائل دسویں یا گیارہویں نمبر پر تھے حالانکہ اندازوں کی رپورٹ میں پانی اولین مسائل میں شامل تھا۔

ہندوستان کے وزیرماحولیات جے رام رامیش نے اس سلسلے میں کہہ چکے ہیں کہ ہندوستان میں اکثریت کو حفظان صحت کی سہولتیں اور پانی کی ترسیل میں درپیش چیلنج کی جزوی وجہ ماحولیاتی غربت ہے جبکہ صنعتی اور تکنیکی اعتبار سے ہندوستان تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ان کی مانیں تو’ہندوستان کو ماحولیات پر سنجیدگی سے کیوں غور کرنا چاہئے‘۔اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگوں کی صحت کا سنگین مسئلہ بنتا جارہا ہے اور عام صحت کا مسئلہ امراءیا اوسط طبقے کے لوگوں کیلئے نہیں بلکہ غرباءکیلئے بھی ہے۔‘رامیش کے مطابق ہندوستان نے ایک دس سالہ پروگرام شروع کرنا ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جائے کہ صنعتی طور پر آلودہ یا شہروں کی سیوریج کا پانی صاف کئے بغیر ملک کے بڑے دریا گنگا میں نہ ڈالا جائے۔بقول ان کے ہندوستان کے زیر زمین پانی پر کروڑوں ہندوستانی روزانہ زراعت کیلئے انحصار کرتے ہیں اور انسان ہی اسے آلودہ کر رہے ہیںجبکہ پانی کی کوالٹی بے حد ضروری ہے اور ہمیں ان مسائل پر اس سے کہیں زیادہ منظم طریقے سے توجہ دینی ہوگی جتنی کہ ہم اس وقت دے رہے ہیں۔اس کے علاوہ مغربی بنگال میں جو ادپور یونیورسٹی میں ماحولیاتی علوم کے ڈائریکٹر دیپانکر چکرورتی وہ شخصیت ہیں جنھوں نے دسیوںسال قبل مغربی بنگال اور بنگلہ دیش کے زیر زمین پانی میں آرسینک کی آلائش کے بارے میں آگاہ کیا تھا۔چکرورتی نے خبردارکیا تھا کہ آرسینک کی آلودگی شمال مشرقی ہندوستان یا بنگلہ دیش تک محدود نہیں رہے گی بلکہ آئندہ دہائیوں میں گنگا کے میدانی علاقوں اور دیگر عبوری آبی گزرگاہوں تک بھی پہنچ جائے گی۔واضح رہے کہ ہند- پاک تعلقات کے سلسلے میںپاکستانی مبصرین کا الزام ہے کہ ہندوستان سندھ طاس معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان جانے والے دریاو ¿ں کا پانی روک کر آبی جارحیت کا مرتکب ہے جبکہ کشمیر میں متعدد نئے بند تعمیرکئے جانے کا بھی الزام ہے۔ حتی کہ پاکستان نے اقوام متحدہ کی مدد سے ہندوستانی بند پر توجہ مبذول کروائی ہے۔

اگر کوئی یہ پوچھے کہ دہلی نے اس سلسلے میں کیا کیاتو اس کا سیدھا سا جواب ہے کہ آنے والے دنوں میں دہلی میں جو بھی گھر بنیں گے ‘ ان میں پانی کے دو نل ہوں گے ۔ایک نل سے پینے کا پانی ملے گا جبکہ دوسرے نل کے پانی کا استعمال فلش ، فرش یا کار دھونے میں استعمال ہوگا۔ دہلی کی حکومت نے 12 ویں پانچ سالہ منصوبہ میں اس مقصد کے تحت تجویز پیش کی ہے۔اس تجویز کے مطابق گھروں میں ڈیول پائپ سسٹم یاپانی کی دو لائنیں ہونے کے بعد ہی مکانوں کے نقشو ں کو منظوری ملے گی۔دہلی جل بورڈ کا کہنا ہے کہ پوری دہلی میں جو بھی پانی سپلائی ہوتا ہے ‘ وہ پوری طرح پینے کے قابل ہے لیکن لوگ اسی پانی کا استعمال کار دھونے ‘ باغبانی حتی کہ صفائی تک میں کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دہلی میں پانی کی مانگ مسلسل بڑھتی جا رہی ہے جبکہ بعض علاقوں میں پانی کی قلت رہتی ہے۔لہٰذا حکومت نے کہا ہے کہ دہلی میں جو بھی نئے مکان خاص طور پر ہاؤسنگ سوسائٹیوں اور نئی اربن سٹی میں بنیں گے ‘ ان مکانات میں ڈیول پائپ سسٹم لگانا لازم کیا جائے ۔ماسٹر پلان 2021 میں بھی اس طرح کا بند و بست ہے لیکن ابھی تک اسے پوری طرح نافذ نہیں کیا گیا ہے۔سوال یہ پیدا ہوا ہے کہ کیا ہے ڈیول پائپ لائن سسٹم؟دراصل گھروں کے باتھ روم سے نکلنے والے پانی کو ہاؤسنگ سوسائٹی کے بےسمےٹ میں بنی ہوئی حوضی میں جمع کیا جاتا ہے۔ اس پانی کو پرائمری ٹریٹمنٹ کے بعد چھتوں میں لگی ٹنکیوں تک موٹر پمپ کے ذریعے پہنچایا جاتا ہے اور اس ٹنکی سے منسلک پائپوں کو گھروں میں پہنچایا جاتا ہے۔ اسی پانی کو ٹوائلٹ کی فلش ، فرش یا کار دھونے یا پودوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس سے 7 کروڑ لیٹر پانی بچے گا جبکہ دہلی میں پانی کی فی کس کھپت 50 گیلن یومیہ ہے۔ اس میں سے 30 گےلن پینے کا پانی کیلئے استعمال کیا جاتا ہے جبکہ 10 گیلن واشنگ اورکلیننگ نیز 10 گیلن پانی ٹایلیٹ اورفلشنگ پر خرچ ہوتا ہے جبکہ دہلی میں اگلے کچھ برسوں میں تقریبا 70 لاکھ لوگوں کے رہنے کا انتظام کیا جانا ہے یعنی تقریبا 7 کروڑ گیلن پانی کی بچت کی جا سکتی ہے۔عجیب با ت تو یہ ہے کہ دہلی میں صاف پانی کا استعمال غسل خانوں اور بیت الخلاءمیںبھی کر دیا جاتا ہے جبکہ ملحقہ این سی آرکے شہروں میں اتنا صاف پانی پینے کو بھی میسر نہیں ہے۔
S A Sagar
About the Author: S A Sagar Read More Articles by S A Sagar: 147 Articles with 116552 views Reading and Writing;
Relie on facts and researches deep in to what I am writing about.
Columnist, Free Launce Journalist
http://sagarurdutahzeeb.bl
.. View More