کشمیر،آر پار کرپشن

بھارتی سپریم کورٹ نے نیشنل کانفرنس کے صدر اور مقبوضہ جموں وکشمیر کے وزیراعلیٰ عمر عبداللہ حکومت کو سید محمد یوسف کی ہلاکت کے معاملہ کی اعلیٰ سطحی تحقیقات کے لئے دو ہفتے کی مہلت دی ہے ۔سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ جموں میں قائم پینتھر پارٹی کے سربراہ پروفیسر بھیم سنگھ کی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے دیا ۔بھیم سنگھ نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ نیشنل کانفرنس کے سینئر رکن سید محمد یوسف کے قتل کی تحقیقات بھارتی تفتیشی ادارے ”سی بی آئی “سے کرائی جائے ۔اس واقعہ کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ 30 ستمبر 2011ءکو مقبوضہ کشمیر کے وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے حکمران جماعت نیشنل کانفرنس کے سینئر رکن سید محمد یوسف شاہ کو اپنی رہائش گاہ پر طلب کیا ۔اس موقع پر نیشنل کانفرنس کے گاندر بل سے تعلق رکھنے والے دو مقامی رہنماﺅں محمد یوسف بٹ اور سلام ریشی نے کہا کہ سید محمد یوسف نے ممبر قانون ساز کونسل یا وزیر مملکت برائے تعمیرات عامہ بنوانے کے لئے ان سے بالترتیب 34لاکھ اور 85لاکھ(ایک کروڑ انیس لاکھ )روپے لئے تھے لیکن پیسے دینے کے باوجود انہیں مطلوبہ عہدے نہیں دیئے گئے ۔عمر عبداللہ کے کہنے پر عبدالسلام ریشی کو پیسے واپس کیئے گئے لیکن یوسف بٹ کے پیسے اس نے واپس نہیں دیئے ۔اس دوران وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے ڈی آئی جی کرائمز کو بھی بلا لیا جس نے الگ کمرے میں سید محمد یوسف سے تفتیش کی ۔اطلاعات کے مطابق اسی دوران سید محمد یوسف کی طبیعت خراب ہو گئی ۔سیٹوں کے لئے رقم دینے والے یوسف بٹ ،عبدالسلام ریشی اور پیسے لینے والے نیشنل کانفرنسی سید محمد یوسف کو وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے کرائم برانچ پولیس کے حوالے کردیا جنہوں نے شام 6بجے سے رات بارہ بجے تک ان سے الگ الگ تفتیش کی ۔کرائم برانچ کی عمارت میں ہی سید محمد یوسف حالت خراب ہونے پر زمین پر گر گیا ۔اگلی صبح یوسف بٹ اور عبدالسلام ریشی کو جانے کی اجازت ملی اور اس کے بعد معلوم ہوا کہ سید محمد یوسف ہلاک ہو گیا ہے ۔

پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے اس واقعہ پر کہا کہ سید محمد یوسف عبداللہ خاندان کا نہایت قریبی اور اعتمادی آدمی تھا ۔محبوبہ مفتی نے کہا کہ نہ صرف عمر عبداللہ بلکہ پورا شیخ خاندان رشوت ستانی میں ملوث ہے ۔ہلاک ہونے والے نیشنل کانفرنسی کے لواحقین نے کہا کہ سید محمد یوسف کو تشدد کر کے ہلاک کیا گیا ہے اور ان کے جسم پر تشدد کے واضح نشانات ملے ہیں ۔لواحقین کا یہ بھی کہنا ہے کہ وزیر مملکت برائے امور داخلہ اسلم وانی بھی وزیراعلیٰ کی رہائش گاہ پہ موجود تھے اور ان کی سید محمد یوسف سے سخت تلخ کلامی بھی ہوئی تھی ۔

اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھی ہماری طرح پیسے لے کر ممبری اور عہدے تقسیم کیئے جاتے ہیں اور کئی افراد پیسے دینے کے باوجود ممبری اور عہدے حاصل کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں ۔آزاد کشمیر میں گذشتہ عرصے میں عدلیہ بحران کے دوران ایک وفاقی وزیر اور وفاقی حکومت کی ایک اعلیٰ شخصیت کے بیٹے پر پیسے لینے کی اطلاعات اخبار کی زینت بنیں ۔آزادکشمیر اسمبلی کے حالیہ انتخابات کے دوران بھی پیسے لے کر پارٹی ٹکٹ جاری کرنے اور پیسے لے کر حکومتی عہدے بانٹنے کی اطلاعات عام ہوئیں ۔لیکن آفرین ان افراد پر جو پیسے دینے کے باوجود ناکام رہے اور خاموش بھی ہیں ۔

عمر عبداللہ نے پیسے دے کر کام نہ ہونے والوں کو بھی کرائم برانچ کے حوالے کرکے پیسے دینے والے باقی افراد کو متنبہ کیا ہے کہ سیاستدانوں سے پیسے واپس مانگنا آگ سے کھیلنے والی بات ہے ۔ ایک سیاسی مبصر کے مطابق پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت کے چندافراد نے آزادکشمیر پیپلز پارٹی کے دولت مندوں سے خوب وصولیاں کی ہیں ۔بہر طور اگر اس معاملے میں بھی مقبوضہ کشمیر اور آزادکشمیر کا مقابلہ کیا جائے تو آزادکشمیر اس دوڑ میں بہت آگے نظر آتا ہے ۔آزاد کشمیر میں اس حوالے سے ہونے والے لین دین کی رقومات سے اگر مقبوضہ کشمیر کے لوگ واقف ہو جائیں تو وہ حیران وپریشان رہ جائیں گے کہ مقبوضہ کشمیر میں ممبری ،حکومتی عہدے کی اتنی کم قیمت ؟اس کا سہرا پیپلز پارٹی کو نہ دینا زیادتی ہو گی جس نے لاکھوں کے سیاسی ریٹس کو کروڑوں تک پہنچا دیا ہے۔اب یہ فیصلہ بھی کسی عالمی ادارہ کو ہی کرنا پڑے گا کہ بھارتی زیر انتظام کشمیر اور پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں کرپشن میں کون آگے ہے۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 770 Articles with 620010 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More