چیف جسٹس کا ملزم گرفتار

پولیس ذرائع کے مطابق ثاقب نامی شخص چیف جسٹس عدالت العالیہ آزادکشمیر جسٹس غلام مصطفیٰ مغل پر مبینہ طور پر قاتلانہ حملہ کرنے کے الزام میں گرفتار کر کے اس سے تفتیش شروع کر دی گئی ہے ۔ گرفتار ہونے والے ملزم ثاقب علی سے دریافتی بیانات کے مطابق اس نے چیف جسٹس پر اس بنیاد پر قاتلانہ حملہ کیا کہ عدالت العالیہ نے اس کا مقدمہ خارج کیا اور اسے انصاف نہیں ملا ۔ ملزم کے مطابق وہ پولیس میں بھرتی ہونا چاہتا تھا ۔ متعدد بار انٹر ویودیا مگر ناکامی ہوئی۔ اسے بھرتی نہیں کیا گیا ۔ جس پر رٹ دائر کی گئی تھی ۔ مگر رٹ کو خارج کر دیا گیا ۔ دوسری طرف آزاد کشمیر عدالت العالیہ کے ریکارڈ کے مطابق رٹ اس وجہ سے خارج ہوئی کہ اس کا ریکارڈ نا مکمل ہونے کے علاوہ فیصلے کے خلاف اپیل سپریم کورٹ میں بھی زیر سماعت تھی جس کے باعث رٹ خارج ہوئی ۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ سائل ملزم کے حق میں فیصلہ ہو چکا تھا مگر عدالت العالیہ کے فیصلے پر ڈی آئی جی ڈاکٹر لیاقت نے عمل در آمد نہیں کیا جس پر سائل ملزم نے ڈی آئی جی کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کی جو کہ سپریم کورٹ میں کیس زیر سماعت ہونے کے باعث خارج ہوئی ۔ مذکورہ تمام تر صورتحال کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو کہانی میں کوئی صداقت کا پہلو واضح نظر نہیں آ رہا ہے ۔ عدالت العالیہ سے درخواست کا خارج ہونا یا درخواست کا قبول ہونا نئی بات نہیں ۔ ریکارڈ نامکمل ہونے کی صورت میں درخواست خارج کرنے کی جسٹس غلام مصطفیٰ مغل نے کوئی نئی روایت قائم نہیں کی بلکہ یہ تو حاصل اختیارات اور آئین کے مطابق اقدام ہے ۔ جس کو چیف جسٹس غلام مصطفیٰ سے قبل کے تمام چیف جسٹس صاحبان استعمال کیا اور اس قانون کے ضابطہ کے مطابق عوام کو انصاف فراہم ہوتا رہا ہے ۔ ایسی صورت میں اگر سابق ادوار میں درخواستیں خارج ہونے پر کسی چیف جسٹس پر حملہ نہیں ہوا تو پھرچیف جسٹس غلام مصطفی پر قاتلانہ حملہ کیوں؟؟؟؟دیکھئے اگر عدالتیں ہی درخواست کا جائزہ نہیں لیں گی اور درخواستوں کی صورت میں سائل اور قانون کی منشاءکا جائزہ نہیں لیں گی تو پھر انصاف کی منشاءدنیا کی دوسری کون سی طاقت پورا کرے گی؟ معاشرے کے اندر اس بات پر بھی زور دیا جاتا ہے کہ عدالتیں انصاف کریں تو ملک کے اندر استحکام آسکتا ہے ۔ عدالتی عدل کے قیام کے بعد کوئی طاقتور کمزور انسان کا حق تلف نہیں کر سکتا ۔ آئین کی حکمرانی اور قانون کی بالا دستی ہی کے نتیجے میں معاشرتی نظام ترقی کی منزل کی طرف گامزن رہ سکتا ہے ۔ انصاف کے بغیر کسی بھی معاشرے کے اندر کمزور اور لاچار انسان کا زندہ رہنا ایسے ہی ہے جیسے مچھلی پانی کے بغیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان تمام حقائق کو انصاف کے ترازو میں اگر رکھا جائے تو آزاد کشمیر کا عدالتی نظام سر خرو ہے ۔ نا مساعد حالات ، کم وسائل کے باوجود عدالتیں انصاف فراہم کر رہی ہیں ۔ تو پھر سازش کیوں؟؟؟؟یہ سازش صرف حقیقت کی نظر میں نہیں بلکہ آزاد کشمیر بھر کے اندر تمام وکلا ءسمیت سول سوسائٹی کے لوگ اس بات پر پوری غیر جانبدارئی کے ساتھ متفق ہیں کہ ثاقب نامی شخص پر چیف جسٹس غلام مصطفی مغل پرمبینہ قاتلانہ حملے کا کیس ڈالنا حقائق اورانتظامی امورکا انحراف ہے اور انتظامیہ و پولیس اصل حقائق یا پھر اصل سازش کو چھپانے کے درپے ہے ۔ میرپور بار اور مظفر آباد کے صدور و عہدیداران کے مطابق اور بالخصوص میرپور بار کے صدر کا مران نے حکومت اور انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ چیف جسٹس پر قاتلانہ حملے کے اصل حقائق کو سامنے لایا جائے ۔مطلب وکلاءگرفتار ملزم کی گرفتاری کی حد تک مطمئن نہیں ۔ دوسری جانب قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ اگر اصل حقائق کو سامنے لانے میں تھوڑی سی بھی بھی غفلت کا مظاہرہ کیا گیا ۔ تو پاکستان کی دیگر عدالتوں کے یرغمالی نظام کی طرح کل لوگ آزاد کشمیر کے عدالتی نظام کے یرغمال نظام ہونے کی مثالیں دیں گے جوکہ ریاستی عدالتی نظام کی آزادی کےساتھ ساتھ ریاستی ترقی کیلئے بہتر نہیں اندریں حالات منا سب ہو گا کہ حکومت وقت اس معاملے کو انتہائی اہم اور اہم و احساس قرار دیتے ہوئے اس کی جوڈیشل انکوائری قائم کرے پس پردہ حقائق کو سامنے لائے ۔۔۔۔۔۔
Mumtaz Ali Khaksar
About the Author: Mumtaz Ali Khaksar Read More Articles by Mumtaz Ali Khaksar: 49 Articles with 34309 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.