اردو میں مکتوب نگاری

اردو زبان میں مکتوب نگاری کو بہ طور صنف ادب متعارف کرانے میں اولیت کا اعزاز مرزا رجب علی بیگ سرور کو ملتا ہے ۔تاریخ ادب اردو میں اگرچہ یہ خطوط اپنی قدامت اور اولیت کی بدولت قابل ذکر ہیں لیکن تخلیقی اعتبار سے یہ خطوط اسلوب کی چاشنی اور موضوعاتی تنوع کا کوئی قابل قدر پہلو سامنے نہ لا سکے ۔تاریخ ادب اردو سے دلچسپی رکھنے والے قارئین ادب اس حقیقت سے بہ خوبی آگاہ ہیں کہ اردو زبان میں مکتوب نگاری کو بہ حیثیت ایک ہر دل عزیز صنف ادب متعارف کرانے کا سہرا مرزا اسداللہ خان غالب(1797-1869) کے سر ہے ۔مرزا اسداللہ خان غالب کے مکاتیب گلشن اردو میں تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئے ،جن کی عطر بیزی سے صحن چمن مہک اٹھا اور اس صنف ادب کی مہک سے آج بھی قریہ ءجاں معطر ہے ۔ غالب نے اردو میںمکتوب نگاری کا آغاز 1846 یا1848کے دوران کیا ۔اس طرح اردو زبان کو اس مکتوب نگاری کے اعجاز سے نئے آفاق تک رسائی کی نوید ملی ۔غالب کی مکتوب نگاری اردو نثر کے فروغ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے ۔اپنے دلکش اسلوب سے غالب نے مراسلے کو مکالمہ بنا دیا۔مشاہیر کے مکاتیب تاریخ ،تہذیب ،ثقافت اور درخشاں اقدار و روایات کے امین ہوتے ہیں ۔غالب نے اپنے مکاتیب میں اپنی دلی کیفیات ،سچے جذبات اور حقیقی احساسات کے اظہار کے لیے جس طرز خاص کا انتخاب کیا وہ بعد میں آنے والوں کے لائق تقلید بن گئی ۔یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ ہر صنف ادب میں رنگ ،خوشبو اور حسن و خوبی کے بے شمار استعارے،لاتعداد رنگینیاں،رعنائیاں ،دلچسپیاں اور دلکشیا ں موجود ہوتی ہیں ۔ہر زیرک تخلیق کار جب قلم تھام کر مائل بہ تخلیق ہوتا ہے تو اپنے افکار کی جولانیوں سے وہ مسحور کن فضا پیدا کرتا ہے جس کا کرشمہ دامن دل کھینچتا ہے۔ مطالعہ ادب سے کار زار ہستی کے بارے میں متعدد نئے امکانات ،ارتعاشات اور ممکنات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ادب کے وسیلے سے راحتیں ،چاہتیں ،وفا اور جفا ،ہجر و فراق ،منزلیں اور راستے ،نشیب و فراز اور طرز فغاں کے متعلق لا شعور کی توانائی کو متشکل کرنے میں مددملتی ہے۔ہر صنف ادب کی دلکشی اپنی جگہ لیکن جو تاثیر ،بے تکلفی اور مسحورکن اثر آفرینی مکاتیب میں پنہاں ہے اس میں کوئی اور صنف ادب اس کی شریک و سہیم نہیں ۔صالحہ عابد حسین نے لکھا ہے : ”ادب میں سیکڑوں دلکشیاں ہیں۔اس کی بے شمار راہیں اور ان گنت نگاہیں ہیں لیکن خطوں میں جو جادو ہے (بشرطیکہ لکھنا آتا ہو )وہ اس کی کسی ادا میں نہیں۔“(1) زبان و بیان پر خلاقانہ دسترس رکھنے والاہر دور میں غالب کے مکاتیب کی نثر کو اپنے اسلوب کی اساس بنائے گا۔اگر اردو زبان و ادب کے شیدائی یہ چاہتے ہیں کہ اردو کی ایسی تحریروں کا مطالعہ کریں جن کی شگفتگی ہجوم یاس میں دل کو سنبھالنے اور مسکراتے ہوئے کٹھن حالات کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرنے پر مائل کرے تو انھیں بلا تامل غالب کے مکاتیب کا مطالعہ کرنا چاہیے ۔مکاتیب کے سحر سے بچنا محال ہے ایک با صلاحیت مکتوب نگار ذاتی اور شخصی رویے کو جس فنی مہارت سے آفاقی نہج عطا کرتا ہے وہ اسے ابد آشنا بنا نے کا وسیلہ ہے ۔مرزا اسداللہ خان غالب کے بعدجن مشاہیر ادب نے مکتوب نگاری پر توجہ دی ان میںسر سید احمد خان ،مولانا محمد حسین آزاد ،خواجہ الطاف حسین حالی ،علامہ شبلی نعمانی ،محسن الملک ،وقار الملک ،ڈپٹی نذیر احمد ،سید اکبر حسین اکبر ا لہ آبادی ،،داغ دہلوی،امیر مینائی ،ریاض خیر آبادی اور سید علی ناصر کے نا قابل ذکر ہیں ۔اردو میں مکتوب نگاری کو ایک مضبوط ،مستحکم اور درخشاں روایت کا درجہ حاصل ہو گیا ۔اس کے ابتدائی نقوش تو غالب کے ہاں ملتے ہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتے ساتھ اس میں متعد نئے لکھنے والے شامل ہوتے چلے گئے۔اردو مکتوب نگاری کی روایت کو استحکام دینے اور مکاتیب کے ذریعے اردو زبان و ادب کی ثروت میں اضافہ کرنے کے سلسلے میں بعد میں جن نامور ادیبوں نے حصہ لیا ان میں ابوالکلام آزاد،علامہ محمد اقبال ،مہدی افادی ،مولوی عبدالحق ،سید سلیمان ندوی ،نیاز فتح پوری ،مولانا محمد علی جوہر ،خواجہ حسن نظامی ،عبدالماجد دریا بادی اور محمد علی ردولوی کی خدمات تار یخ ادب میں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی ۔اردو مکتوب نگاری کے ارتقا میں ان تمام مشاہیر اد ب نے خون بن کر رگ سنگ میں اترنے کی جو سعی کی وہ تاریخ ادب میں آب زر سے لکھنے کے قابل ہے ۔

ترقی پسند تحریک جو 1936میں شروع ہوئی اس کے زیر اثر فکر و نظر میں ایک واضح تبدیلی دیکھنے میں آئی۔برصغیر میں افکار تازہ کے وسیلے سے جہان تازہ تک رسائی کے امکانات کا جائزہ لیا جانے لگا۔اردو زبان کے ادیبوں نے جدید علوم اور تصورات پر توجہ دی ۔اس زمانے میں نفسیات کے زیر اثر حقیقت نگار ی اور فطرت نگاری کا عمیق مطالعہ تخلیقی عمل کی اساس بن گیا ۔اردو مکتوب نگاری پر اس کے دور رس اثرات مرتب ہوئے۔تخلیق ادب کے نئے رجحانات سامنے آئے ان کے زیر اثر اردو کے جن نابغہ روزگار ادیبوں نے مکتوب نگاری کے ذریعے تزکیہ نفس کے امکانات سامنے لانے کی سعی کی ان میں جو ش ملیح آبادی ،فراق گورکھ پوری ،سید سجاد ظہیر ،صفیہ اختر ،اور ڈاکٹر ایم ۔ڈی تاثیر کے نام ممتاز حیثیت کے حامل ہیں ۔اردو ادب میں مکتوب نگاری کو ہمیشہ کلیدی اہمیت کی حامل صنف ادب سمجھا جاتا رہاہے ۔اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ بر صغیر کے اعلیٰ معیار کے ادبی مجلات نے مختلف اوقات میں جو مکاتیب نمبر شائع کیے انھیں بے حد پذیرائی ملی ۔ان میں سے کچھ حسب ذیل ہیں :
1۔ادبی مجلہ ایشیا،مکاتیب نمبر ،بمبئی،1941
2۔ادبی مجلہ آج کل ،خطوط نمبر،دہلی ،1954
3۔ادبی مجلہ نقوش،مکاتیب نمبر ،لاہور ،جلد اول ,1957
4۔ادبی مجلہ نقوش،مکاتیب نمبر ،لاہور ،جلد دوم ،1968

بادی النظر میں یہ حقیقت واضح ہے کہ مکتوب نگار کو اپنے جذبات ،احساسات اور داخلی کیفیات کو صفحہ قرطاس پر منتقل کرنے کے جو مواقع میسر ہوتے ہیں ان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دل کی بات قلم و قرطاس کے معتبر حوالے سے بلا خوف و خطر کر سکتا ہے ۔مراسلہ ایک طرح کا مکالمہ بن جاتا ہے اور اس تخلیقی عمل کے معجز نما اثر سے مکتوب نگار اپنی افتاد طبع کے مطابق مکتوب الیہ سے بہ زبان قلم باتیں کر کے جانگسل تنہائیوں کے کرب سے نجات حاصل کر سکتا ہے۔اگر مکتوب نگاری میں خلوص اور دردمندی کا عنصر شامل ہو تو مکتوب نگار ہجر و فراق کی عقوبت سے بچ کر خط کے ذریعے وصال کے نشاط آمیز لمحات سے فیض یاب ہو سکتا ہے ۔ نفسیاتی اعتبار سے تحلیل نفسی کے سلسلے میں کسی بھی شخصیت کی داخلی کیفیات ،ہیجانات اور طور طریقوں کے جملہ اسرار و رموز کی تفہیم میں مکتوبات بہت اہمیت رکھتے ہیں ۔مکاتیب ہی دراصل مکتوب نگار کی شخصیت کے سر بستہ رازوں کی کلید ہیں۔شخصیت کی تمام گتھیاں سلجھانے میں خطوط کا بڑا اہم کردار ہے۔یہ مکاتیب ہی ہیں جو کسی شخصیت کی زندگی کے پنہاں پہلو سامنے لانے میں ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں۔یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ مکتوب نگار اپنی زندگی کے تمام نشیب و فراز ،جذباتی میلانات،مستقبل کے اندیشہ ہائے دور دراز اور اس جہاں کے کار دراز کے متعلق مکتوب کی سطور کے ذریعے جو کچھ پیغام ارسال کرتا ہے وہ نوائے سروش کی صورت میں مکتوب الیہ تک پہنچ جاتا ہے ۔مکتوب نگاری ایک ایسافن ہے جو زندگی کی کلیت پر محیط ہے ۔ حیات و کائنات کے تمام پہلو مکاتیب کا موضوع بن سکتے ہیں یہی ان کی مقبولیت کا راز ہے ۔یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ مکاتیب زندگی کی حرکت و حرارت کے آئینہ دار ہوتے ہیں ۔مکاتیب کا زندگی کے حقائق سے گہرا تعلق ہے ۔ڈاکٹر خورشیدالاسلام نے لکھا ہے: ” زندگی اپنی راہیں خود بنا لیتی ہے ۔خط اپنی باتیں خود پیدا کر لیتا ہے ۔۔۔زندہ رہنے کے لیے اور خط لکھنے کے لیے زندگی کا احترام ضروری ہے ۔“(2)

انسانی زندگی میں مدوجزر کی کیفیت ہمیشہ بر قرار رہتی ہے ۔ایک تخلیق کار کا رویہ عجیب ہوتا ہے کبھی سوز و ساز رومی تو کبھی پیچ و تاب رازی والا معاملہ دکھائی دیتا ہے ۔ایسے متعدد عوامل ہوتے ہیں جو کہ تخلیق کار کی زندگی میں اس کااوڑھنا بچھونا بن کر اسے ہمہ وقت اپنی گرفت میں لیے رکھتے ہیں ۔اس کے بعد ایسا بھی ہوتا ہے تما م حقیقتیں خیال و خواب بن جاتی ہیں اور جنھیں ہم دیکھ کر جیتے ہیں وہی لوگ آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں ۔صداقتوں پر سراب کا گمان گزرتا ہے لیکن دراصل یہ سب سیل زماں کے تھپیڑوں کی زد میں آ کر پس منظر میں چلی جاتی ہیں اور اس طرح وہ بالآخر ہمارے اجتماعی لا شعور کا حصہ بن جاتی ہیں ۔اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ اجتماعی لا شعور کا حصہ بن جانے کے باوجود پس منظر میں چلی جانے والی صداقتیں ایک لمحے کے لیے بھی غائب نہیں ہوتیں بلکہ ہمیشہ اپنے وجود کا اثبات کرتی رہتی ہیں۔مکاتیب بھی اس کی ایک صورت پیش کرتے ہیں ۔ان کی اساسی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اگرچہ ان کا تعلق ایک فرد کی نجی زندگی سے ہوتا ہے لیکن یہ اس انداز سے زندگی کی کلیت اور جامعیت کی عکاسی کرتے ہیں کہ پڑھنے والے کو ان میں اپنی زندگی کے تمام موسم اترتے محسوس ہوتے ہیں ۔دل سے جو بات نکلتی ہے اس کی اثر آفرینی بہ ہر حال مسلمہ ہے ۔مکتوب نگار کی تاب سخن کے اعجاز سے فکر و نظر کے متعدد نئے دریچے وا ہوتے چلے جاتے ہیں اور قلب و روح کی اتھاہ گہرائیوں سے نکلنے والے پر خلوص جذبات کا یہ سیل رواں آلام روزگار کو خس وخاشاک کے مانند بہا لے جاتا ہے ۔پر خلوص جذبات سے مزین مکاتیب کی صدا پوری انسانیت کے مسائل کی ترجمانی پر قادر ہے ۔مکتوب نگار اپنے شعوری غور وفکر کو اپنے اسلوب کی اساس بناتا ہے ۔بادی النظر میں مکتوب نگاری کی حدیں جذبہ ءانسانیت نوازی سے ملتی ہیں ۔ان دونوں میں مقاصد کی ہم آہنگی فکر و نظر کے متعدد نئے دریچے وا کرتی چلی جاتی ہے ۔مکتوب نگارجہاں اپنی داخلی کیفیات کو صفحہ ءقرطاس پر منتقل کرتا ہے وہاں زندگی کے تلخ حقا ئق کو بھی منصہ شہود پر لاتا ہے ۔یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ مکتوب نگار تخلیق ادب کے حوالے سے زندگی کی حرکت و حرارت کی عکاسی کرنے والے جملہ پہلو سامنے لاتا ہے اور اس طرح زندگی کی جدلیاتی حرکت کے بارے میں کوئی ابہام نہیں رہتا ۔وہ جانتاہے کہ خزاں بہار کے آنے جانے سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ فرد کی زندگی اور قلب و روح پر اترنے والے تمام موسم دل کے کھلنے اور مر جھانے سے عبارت ہیں ۔مکتوب نگاری ذوق سلیم کی مظہر ہے۔ایک زیرک اور با شعور مکتوب نگار اپنے اسلوب کے ذریعے دلوں کو مسخر کر لیتا ہے ۔مرزا اسداللہ خان غالب نے اپنے ذوق مکتوب نگاری کے متعلق ایک شعر میں صراحت کی ہے ۔
یہ جانتا ہوں کہ تو اور پاسخ مکتوب
ستم زدہ ہوں مگر ذوق خامہ فرسا کا

اردو ادب میں مکتوب نگاری نے اب ایک مضبوط اور مستحکم روایت کی صورت اختیار کر لی ہے ۔مرزا اسدللہ خان غالب سے لے کر عہد حاضر تک اردو ادیبوں نے اپنے خطوط کے وسیلے سے مثبت شعور و آگہی کو پروان چڑھانے کی مقدور بھر سعی کی ہے ۔سادگی و سلاست ،خلوص و دردمندی اور انسانی ہمدردی خطوط کا امتیازی وصف قرار دیا جاتا ہے ۔مکتوب نگاری میں تکلف ،تصنع ،مافوق الفطرت عناصر ،ریاکاری اور موقع پرستی کی کوئی گنجائش نہیں ۔مراسلے کو مکالمہ بناتے وقت دل کی بات قلم کے وسیلے سے صفحہءقرطاس پر منتقل کرنا ایک کٹھن مر حلہ ہے ۔حرف صداقت لکھنا اس تخلیقی عمل کے لیے نا گزیر ہے ۔یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ خط کے مندرجات اور موضوعات کا تعلق براہ راست زندگی سے ہوتا ہے ۔جس طرح زندگی کے تلخ حقائق سے چشم پوشی ممکن نہیں اسی طرح مکاتیب کی اثرآفرینی سے شپرانہ چشم پوشی احسان فراموشی کے مترادف ہے ۔مکتوب نگار اپنی ذات کو پس منظر میں رکھتے ہوئے حالات کی اس مسحور کن انداز میں عکاسی کرتا ہے کہ قاری پر تمام حقائق خود بہ خود منکشف ہوتے چلے جاتے ہیں ۔خطوط کے ذریعے احساس ،ادراک ،وجدان اور عرفان کی جو متاع بے بہا نصیب ہوتی ہے کوئی اور صنف ادب اس کی برابری نہیں کر سکتی ۔تخلیق کار ،اس کے تخلیقی عمل اور اس کے پس پردہ کارفرما لاشعوری محرکات کی اساس پر جب تحلیل نفسی کا مرحلہ آتا ہے تو نقاد کو تخلیق کار کے مکاتیب کا سہارا لینا پڑتا ہے ۔جب بھی کسی تخلیق کار کی حیات و خدمات پر تحقیقی کام کا آغاز ہوتا ہے تو محقق اس کے مکاتیب کو اولین ماخذ کے طور پر اپنے تحقیقی کام کی اساس بناتا ہے ۔مکاتیب میں شگفتگی ،شائستگی ،صداقت ،خلوص،دردمندی اور انسانی ہمدردی ان کے مﺅثر ابلاغ کو یقینی بنانے والے عناصر ہیں۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اقدار و روایات کے معائر بدلتے رہتے ہیں لیکن مکاتیب کی دلکشی اور دل پذیری کا معیار ہر دور میں مسلمہ رہا ہے ۔محبتوں ،چاہتوں،قربتوں اور عہد و پیماں کے امین خطوط کی اہمیت ہر دور میں موجود رہے گی ۔دور جدید میں برقی ذرائع ابلاغ نے حالات کی کایا پلٹ دی ہے ۔ای میل ،ایس ۔ایم ۔ایس ،ٹیلی فون اور فیکس نے فاصلو ں کی طنابیں کھینچ دی ہیں ۔اس کے باوجود خطوط کی ترسیل کا سلسلہ جاری ہے ۔اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک جذبوں کی صداقت کا بھرم قائم ہے ۔
خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہیں
ہم تو عاشق ہیں تمھارے نام کے
Dr.Ghulam Shabbir Rana <Mustafa Abad Jhang city Post Code 35204 Phone 0477622002.

مآخذ
(1)صالحہ عابد حسین :یاد گار حالی ،آئینہءادب ،لاہور ، 1966،صفحہ 310۔
(2)بہ حوالہ فرمان فتح پوری ڈاکٹر :اردو نثر کا فنی ارتقا،الوقار پبلی کیشنز ،لاہور ،1997،صفحہ 396۔
Dr. Ghulam Shabbir Rana
About the Author: Dr. Ghulam Shabbir Rana Read More Articles by Dr. Ghulam Shabbir Rana: 8 Articles with 27504 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.