چیف جسٹس پر قاتلانہ حملہ اور قانونی بے بسی

چیف جسٹس ہائی کورٹ آزادکشمیر جسٹس غلام مصطفی مغل پر قاتلانہ حملے کی خبر مظفرآباد کے علاوہ پورے آزاد کشمیر کے کونے کونے میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی تھی جس کو سننے کے بعد مجھے یقین نہیں آیاکہ ایسا ہو نہیں سکتا اور اگر ہو گیا ہے تو ہوا کیوں؟ حالانکہ چیف جسٹس غلام مصطفی مغل نے جس قدر آزاد کشمیر کے عوام کو سستا اور فوری انصاف فراہم کیا اور جس تیزی سے مقدمات کو یکسو کیا عدالتی تاری میں شاید ہی کوئی مثال ہو ریاستی انصاف کے ایوانوں کے حواے سے ماضی میں خود ساختہ مثالیں شاہد زیادہ ہوں مگر حقیقت یہی ہے کہ آپ نے ریاستی عوام کو انصاف کی فراہمی کیلئے انتہائی اہم اور قابل ذکر کردار ادا کیا ہے آپ تشہیراورشہرت کے بالکل قائل نہیں غیر ضروری تقریبات میں شامل ہوناآ پ بالکل پسند نہیں کرتے عدل کی بے مثال اور عظیم کر سی پر بیٹھ کر آپ ہر شہری کو مساوی نظر سے دیکھتے ہیں برادری ،قبیلے اور سیاسی وابستگی کا دباﺅ آپ کی انصافی بے پناہ صلاحیتوں کو بالکل متاثر نہیں کر سکا دفتر سے گھر اور گھر سے دفتر تک کے فاصلے تک آپ کسی سے رابطہ کرنا پسند نہیں کرتے کیونکہ جب رابطہ ہو جائے تو اس وقت انصاف کے ایوانوں کی بازار تجارت میں خرید و فروخت شروع ہو جاتی ہے یقینا آپ نے انصاف کے ایوانوں کی سرحدوں کا جس قدر ممکن ہو سکا دفاع کیااورانصاف کے ایوانوں کو بیوپاریوں کے ہتھے چڑھنے سے بچایا یہی وجہ تھی کہ آپ پر قاتلانہ حملہ کی خبر ایک عام اور بے غرض آدمی تک پہنچی تووہ بھی تڑپ اٹھا اور آپ کی عیادت کیلئے آپ کی عیادت کیلئے CMHمظفرآباد پہنچ گیا اور آپ کی عیادت کرنے کیلئے لمبی لمبی قطاروں میں کھڑا ہو ا گیا خبر سنتے ہی نا چیز بھی26اکتوبر کو مظفرآباد CMHہسپتال پہنچ گیا جہاں پر آپ کو چاہنے والے سینکڑوں کی تعداد میں کھڑے تھے آپ کو دیکھنے کے بعد دل کو تسلی ہوئی اور مزید خیریت آپ کے جانثار بھائی غلام بشیر مغل سے دریافت کی انہوں نے بتایاکہ قاتلانہ حملے کی وجہ دریافت کرنے کے علاوہ حملہ آور کی گرفتاری کیلئے بھی مختلف قانونی طریقو ں سے جائزہ لیا جا رہا ہے غلام بشر مغل جب یہ بات بتا رہے تھے تو آپ کے چہرے کی اداسی کے پیچھے ایک گہرا غم اور بہت سارے سوالات چھپے ہوئے تھے ان کے تمام ان کے تمام سوالات کا تعلق آزاد کشمیر کے قانون نافذ کرنے والے ااداروں کے ساتھ ہے آج چیف جسٹس پر قاتلانہ حملے کے بعد آزاد کشمیر کے لوگ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے متعلق یہ رائے قائم کرنے میںپوری طرح حق بجانب ہیں کہ ریاستی عوام کی جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری جن کندھوں پر ہے وہ کندھے کمزور ہو چکے ہیں جن کی کمزوری کا فائدہ چھ فٹ کانوجوان حملہ آور اٹھا گیا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اس کمزوری نے پاکستان کے دیگر صوبوں کے عوام کو دہشت گردوں،خود کش حملہ آوروں کے سامنے بے بس کیا ہوا ہے اور خدا نخواستہ اگر آزاد کشمیر کے قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی مراعات اور عیاشیوں کے چکروں میں رہے اور اپنے اصل مقصدیعنی عوام کو قانونی تحفظ دینے میں ناکام رہے تو یہ رائے قائم کرنے میں کوئی دشواری نہیں کہ آزاد کشمیر کا امن بھی خود کش حملہ آور اور ٹارگٹ کیلر تباہ کر سکتے ہیں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو پوری غیر جانبداری کے ساتھ تمام وجوہات کا جائزہ لیکر اصل حقائق کو سامنے لاکر حملہ آور کو گرفتار کرنا ہو گا خدانخواستہ اگر ریاستی پولیس ایسا کرنے میں ناکا م رہی تو آزاد کشمیر کے لوگوں کو انصاف فراہم کرنے کا بے دریغ اور بے مثال سلسلہ منقطع ہونے کے علاوہ عوام کا قانون نافذ کرنے والے اداروں سے اعتماد مزید اٹھ جائے گا جو کہ ریاستی وقار، تحفظ اور سلامتی کے بالکل خلاف بات ہے چھوٹے سے خطے کے اندر اگر چیف جسٹس لیول کے لوگ بھی غیر محفوظ ہو گے اور ان پر حملہ آور گرفتار نہ ہوئے تو عام آدمی کو قانونی تحفظ کی گارنٹی کون دے گا؟گذشتہ دنوں الشفاءہسپتال میں آپ کی خیریت دریافت کرنے کادوبارہ اعزاز حاصل ہوا تو وہاں پر حکومتی شخصیات کا آنا جانا معمول کے مطابق روائتی انداز میں بدستور قائم تھا مگر یہ سب کچھ کافی نہیں ہے اگر حملہ آور گرفتار نہ ہوا اور حملہ کی وجوہات سامنے نہ آئی تو یہ واقعی حکومتی ناکامی کے علاوہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بھی ناکامی ہے ۔۔۔۔۔بات بڑی واضح ہے25اکتوبر کا حملہ صرف چیف جسٹس غلام مصطفٰی مغل پر نہیں تھا بلکہ حملہ آور نے اس حملے کے ذریعے ریاستی انصاف کے ایوانوں میں بیٹھے والے تمام انصاف کے علمبرداروں کو بھی للکار دیا ہے۔۔۔۔۔۔اگر اس للکار کا انسپکٹر جنرل پولیس نے نوٹس نہ لیا تو اس للکار کی زد میں انسپکٹر جنرل پولیس خود بھی اسکتے ہیں کیونکہ گولی پر کسی کانام نہیں لکھا ہوتا۔۔۔۔۔۔
Mumtaz Ali Khaksar
About the Author: Mumtaz Ali Khaksar Read More Articles by Mumtaz Ali Khaksar: 49 Articles with 34312 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.