نصرت بھٹواور مادر ِجمہوریت کا خطاب

نصرت بھٹوپاکستان کے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی شریک حیات تھیں۔ایک اور وزیر اعظم بے نظیر بھٹوکی والدہ اور مملکت خداداد پاکستان کے موجودہ صدر کی خوشدامن تھیں۔وہ بہت عرصے سے ایسی علیل تھیں کہ انہیں دنیا کی کوئی خبر نہ تھی۔اس غیر ملکی خاتون نے اپنے میاں سے خوب نبھائی او ر جہاں اس نے دنیا کی ہر نعمت سے حظ اٹھایا،وہیں ہر مشرقی عورت کی طرح دکھ اور تکلیف میںمیاں کا ساتھ بھی دیا۔بھٹو کی پھانسی سے پہلے شاید وہ واحد ہستی تھیں جو دل و جان سے بھٹوکی جان بخشی چاہتی تھیں۔ورنہ اقتدار کے بھوکے بھیڑئیے تو صرف اقتدار کی لذتوں سے آشنا تھے۔مشکل وقت میں تو سارے کے سارے شیر چوہے بن کے اپنے اپنے بلوں مں دبک گئے تھے۔کوئی بھی ایسا نہیں تھا جو اس وقت دل سے بھٹو کے ساتھ کھڑا ہوا ہو۔جیالوں کی بات اور ہے۔بھٹو کے شیدائی اور اس پہ جان دینے والے تو لاکھوں نہیں کروڑوں کی تعداد میں تھے۔ یہ وہی تھے جنہوں نے خود سوزیاں بھی کیں اور بھٹو کی زندگی بچانے کو ہر جتن بھی کیا لیکن ان میں شخصیت کوئی بھی نہیں تھا۔وہ غریب تو اقتدار کے ایوانوں میں زمین تلے روندی جانی والی گھاس تھے ۔اس لئے ان کی سب قربانیاں پاﺅں تلے روند کے ایک ڈکٹیٹر نے بھٹو کو پھانسی چڑھا دیا۔بھٹو کی پھانسی پہ ہمالیہ تو نہ رویا لیکن نصرت بھٹوا اس لاش پہ بین کرنے والی واحد شخصیت تھیں۔

بھٹو نے اپنے ترکے میں اتنا کچھ چھوڑا تھا کہ نصرت بھٹو چاہتیں تو ساری زندگی موج کر سکتی تھیں۔وہ سیاست کی پرخار وادی کو چھوڑ کے کوئی اور جائے اماں تلاش کر سکتی تھیں۔وہ اپنی پنکی اور اس کے چھوٹے بہن بھائیوں کو لے کے کہیں بھی جا سکتی تھیں۔اس وقت اس خاتون نے شاید یہ سوچا ہو گاکہ پاکستان کی گلیوں میں روتے ،اپنے آپ کو بھٹو کے غم میں آگے لگاتے بچے بھی تو بھٹو کی میراث ہیں۔اگر اس وقت میں نے انہیں چھوڑ دیا تو ان کے سر پہ ہاتھ کون رکھے گا۔یہی سوچ کے شاید یہ خاتون باہر نکلی اور اس نے اقتدار کے ایوانوں میں زلزلہ بپا کر دیا۔سر پہ لا ٹھیاں کھائیں،ریاستی ظلم اور جبرکا مقابلہ کیا،انہیں ملک چھوڑنے پہ مجبور کیا گیا۔لیکن اس آہنی ارادوں والی خاتون نے اپنی جدوجہد ترک کرنے سے انکار کر دیا۔اسی جدوجہد کا نتیجہ تھا کہ بے نظیر جب لوٹ کے وطن کو آئیں تو پنجاب کے دل لاہور میں انسانوں کا سمندر ان کے استقبال کو امڈ آیا۔اس جلوس میں صرف جیالے ہی شامل نہیں تھے ہر وہ شخص شامل تھا جو اس ملک میں جبر کی حکومت کے خلاف تھا۔پاکستان کی نئی طرز سیاست میں بے نظیر کی اس شاندار انٹری کی ماسٹر مائینڈ دراصل نصرت بھٹو ہی تھیں۔جس نے اپنے میاں کے سیاسی ورثے کو بڑی حکمت سے اپنی اولاد کومنتقل کر دیا تھا۔بے نظیر بھٹو ذوالفقار بھٹو کا چہرہ تھیں۔نصرت بڑی سیاستدان نہ سہی بھٹو کی ہمدم و ہمراز تھیں۔ انہوں نے بھٹو تو گنوا دیا تھا لیکن بھٹوز کو بچا لیا تھا۔

اقتدار کا کھیل ازل ہی سے بد لحاظ اور سفاکانہ رہا ہے۔کہتے ہیں کہ نصرت تو اسی دن مر گئی تھیں جب انہیں پارٹی کی سربراہی سے علیحدہ کر دیا گیا تھا۔ بظاہر وہ اس دکھ کو بھی یونہی سہہ گئیں جیسے انہوں نے اپنے لاکھوں میں ایک میاں کی جدائی کا غم برداشت کیا تھا۔لیکن غیروں کے زخم وقت کے ساتھ مندمل ہو جاتے ہیں ،اپنوں کے دئیے زخم سدا ہرے رہتے اور طوفان مچائے رکھتے ہیں۔نصرت نے بھی اس ناقدری کو قسمت کا لکھا سمجھ کے قبول کیااور دامے درمے سخنے بے نظیر کی مدد اور ہمت افزائی کرتی رہیں۔بے نظیر نے باپ کو یاد رکھا کہاس کا نام اقتدار تک پہنچنے کی کلید تھا لیکن اپنے پرانے بوسیدہ انکلز کی طرح انہوں نے اپنی اس ماں کو جس کی حکمت عملی نےبے نظیر کو کروڑوں دلوں کی دھڑکن بنا دیا تھانمائشی بت بنا کے ایک کونے میں سجا دیا۔انسانی جبلت ہے کہ وہ ظلم و نا انصافی کو ایک حد تک ہی برداشت کر سکتا ہے۔(اس سٹیٹمنٹ کا اطلاق پاکستانیوں پر ہر گز نہیں ہوتاکہ اس مخلوق کے لئے شاید اللہ کریم نے ذلت کی کوئی حد ہی مقرر نہیں کی)اسی اثناءمیں اس زخم خوردہ خاتون کو ایک اور امتحان کا سامنا کرنا پڑا۔جب اس کا بیٹا اپنی ساری تخریبی تاریخ سمیت وطن لوٹ آیا۔وہ دہشت گرد شہزادے کے نام سے مشہور تھا۔بے نظیر جہاں ملکی قانون اور اپنے ماں کے ہاتھوں مجبور تھی وہاں اقتدار میں حصہ داری بھی اسے منظور نہ تھی۔اس لئے مرتضیٰ ائیر پورٹ سے سیدھا جل گیا۔پاکستان میں قانون تو ہمیشہ ہی سے حکمرانوں کی جیب میں رہا ہے۔مرتضیٰ کو کیسے روک پاتا۔مرتضیٰ ایک دن رہا ہو کے گھر لوٹ آیا۔اور پھر اقتدار کے بھوکوں کے درمیان ایک نئی لڑائی کا آغاز ہو گیا۔ماں غریب بیٹی کے ہاتھوں پہلے ہی کی ڈسی ہوئی تھی۔سکہ رائج الوقت اور زمانے کے دستور کے حساب سے ویسے بھی باپ کی میراث پہ بیٹے کا حق زیادہ سمجھا جاتا ہے۔ماں نے بیٹے کی طرفداری کرنا چاہی۔اس کا ساتھ دینا چاہا تو بہن کی حکومت میں بھائی کی لاش سڑک پہ تڑپتی نظر آئی۔دکھیاری ماں کے لئے یہ لمحہ موت سے بھی بدتر تھا۔اس کے ہوش وحواس جاتے رہے۔وہ چونکہ کھیل کے سارے کرداروں سے واقف تھی بے چاری سدھ بدھ کھو بیٹھی۔اس کا سدھ بدھ کھونا ہی دراصل اس کی نجات کا ذریعہ بن گیا۔اسے پاگل قرار دے کے قید کر لیا گیا اور پھر مر کے ہی اس غریب کو اس قید سے رہائی نصیب ہو سکی۔

آج اس کی محنت اور اس کے میاں کے ورثے کے وارث وہ ہیں جن کا بھٹو کی فلاسفی سے اتنا ہی تعلق ہے جتنا سینما میں ٹکٹ بلیک کرنے والے اور وزیر ثقافت کے درمیان ہو سکتا ہے۔آج اس غریب و بے نوا عورت کے لئے نشان امتیاز اور ہلال پاکستان کا اعلان ہو رہا ہے۔اسے ان نشانوں کا کیا فائدہ۔ہاں ان نشانوں کے ساتھ ملنے والی اگر کوئی زمین یا رقم بھی ہے تو وہ ان وارثوں کو ضرور ملے گی جو دھکے سے بھٹو بن بیٹھے ہیں۔رہا مادر جمہوریت کا خطاب تو چلو اچھا ہے اس غریب کو کسی کی ماں ہونے کا اعزاز تو نصیب ہوا کہ وہ دکھیاری تو اپنی زندگی میں ان کی بھی ماں نہ بن سکی جنہیں اس نے اپنی کھوکھ سے جنم دیا تھا۔مں سوچتا ہوں کہ اگلے جہان میں جب بھٹو نے اپنی محبوب بیوی کے لئے بانہیں وا کی ہوں گی تو وہاں شاہنواز،مرتضیٰ کے ساتھ بے نظیر کو دیکھ کے اس نے زبردستی بھٹو بن جانے والے خاندان کے بارے بھٹو سے کیا کیا نہ کہا ہو گا اور بے نظیر کو کیا کیا ملامت نہ کی ہو گی۔بے نظیر ان لوگوں کی وجہ سے وہاں بھی اپنے باپ کے سامنے کتنی شرمندہ ہوگی۔اللہ کریم اس دکھوں کی ماری ماں کو اس دنیا میں جھیلے جانے والے دکھوں کی بنا پہ اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔آمین۔

نصرت اس دنیا میں کیا نصیب لے کے آئیں تھیں کہ انہوں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ لاشے اٹھاتے گذارا۔وہ انتہائی بد قسمت ماں تھیں۔ سوائے صنم بھٹو کے ان کی ساری اولاد ان کی زندگی میں ہی راہی ملک عدم ہو گئی۔اب انہیں جمہوریت کی ماں کا خطاب دے دیا گیا ہے جس میں اس بد نصیب کا کوئی قصور نہیںلیکن میری دعا ہے کہ اللہ اب جمہوریت کی خود ہی حفاظت کرے۔
Qalandar Awan
About the Author: Qalandar Awan Read More Articles by Qalandar Awan: 63 Articles with 54190 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.