خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کے فضائل و مناقب۔اَلاَحَادِيْثُ النَّبَوِيَۃُ کی روشنی میں۔۔حصہ اول

1. عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رضي اﷲ عنهما يَقُوْلُ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : خَيْرُ أُمَّتِي قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِيْنَ يَلُوْنَهُمْ. ثُمَّ الَّذِيْنَ يَلُوْنَهُمْ، قَالَ عِمْرَانُ : فَلَا أًدْرِي : أَذَکَرَ بَعْدَ قَرْنِه قَرْنَيْنِ أَوْ ثَلَاثاً. ثُمَّ إِنَّ بَعْدَکُمْ قَوْمًا يَشْهَدُوْنَ وَلَا يُسْتَشْهَدُوْنَ، وَيَخُوْنُوْنَ وَلَا يُؤْتَمَنُوْنَ، وَيَنْذُرُوْنَ وَلَا يَفُوْنَ، وَيَظْهَرُ فِيْهِمُ السِّمَنُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

1 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب فضائل أصحاب النبي صلی الله عليه وآله وسلم ، 3 / 1335، الرقم : 3450، ومسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب فضل الصحابة ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم، 4 / 1964، الرقم : 5235.

’’حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری بہترین امت میرے زمانہ کی ہے پھر ان کے زمانہ کے بعد کے لوگ اور پھر ان کے زمانہ کے بعد کے لوگ (حضرت عمران رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے یاد نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے زمانہ کے بعد دو زمانوں کا ذکر فرمایا یا تین زمانوں کا). (فرمایا:) پھر تمہارے بعد ایسی قوم آئے گی کہ وہ گواہی دیں گے حالانکہ ان سے گواہی طلب نہیں کی جائے گی. وہ خیانت کریں گے اور ان پر اعتماد نہیں کیا جائے گا. وہ نذریں مانیں گے مگر ان کو پورا نہیں کریں گے اور ان میں موٹاپا ظاہر ہو گا. ‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے.

2. عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ رضی الله عنه قَالَ : وَعَظَنَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَوْمًا بَعْدَ صَلَاةِ الْغَدَاةِ مَوْعِظَةً بَلِيْغَةً ذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُوْنُ وَوَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوْبُ، فَقَالَ رَجُلٌ : إِنَّ هٰذِه مَوْعِظَةُ مُوَدِّعٍ فَمَاذَا تَعْهَدُ إِلَيْنَا يَا رَسُوْلَ اﷲِ؟ قَالَ : أُوْصِيْکُمْ بِتَقْوَی اﷲِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ وَإِنْ عَبْدٌ حَبَشِيٌّ، فَإِنَّه مَنْ يَعِشْ مِنْکُمْ يَرَی اخْتِلَافًا کَثِيْرًا، وَإِيَاکُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْاُمُوْرِ، فَإِنَّهَا ضَلَالَةٌ، فَمَنْ أَدْرَکَ ذَالِکَ مِنْکُمْ، فَعَلَيْکُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَائِ الرَّاشِدِيْنَ الْمَهْدِيِّيْنَ، عَضُّوْا عَلَيْهَا بَالنَّوَاجِذِ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَه وَأَحْمَدُ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. وَقَالَ الْحَاکِمُ : هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ لَيْسَ لَه عِلَّةٌ.

2 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب العلم، باب ما جاء في الأخذ بالسنة واجتناب البدع، 5 / 44، الرقم : 2676، وأبو داود في السنن، کتاب السنة، باب في لزوم السنة، 4 / 200، الرقم : 4607، وابن ماجه في السنن، المقدمه، باب اتباع سنة الخلفاء الراشدين المهديين، 1 / 15، الرقم : 42، واحمد بن حنبل في المسند، 4 / 126، والحاکم في المستدرک، 1 / 174، الرقم : 329.

’’حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فجر کی نماز کے بعد ہمیں نہایت فصیح و بلیغ وعظ فرمایا، جس سے آنکھوں میں آنسو جاری ہو گئے اور دل کانپنے لگے. ایک شخص نے کہا : یہ تو الوداع ہونے والے شخص کے وعظ جیسا (خطاب) ہے. یا رسول اﷲ! آپ ہمیں کیا وصیت فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں تمہیں پرہیزگاری اور سننے اور ماننے کی وصیت کرتا ہوں، خواہ تمہارا حاکم حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو. اس لیے کہ تم میں سے جو زندہ رہے گا وہ بہت سے اختلاف دیکھے گا. خبردار (شریعت کے خلاف) نئی باتوں سے بچنا کیوں کہ یہ گمراہی کا راستہ ہے لہٰذا تم میں سے جو یہ زمانہ پائے تو وہ میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کو اختیار کر لے، تم لوگ (میری سنت کو) دانتوں سے مضبوطی سے پکڑ لینا (یعنی اس پر سختی سے کاربند رہنا).‘‘

اس حدیث کو امام ترمذی، ابو داود، ابن ماجہ اور احمد نے روایت کیا ہے. امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن صحیح ہے. اور امام حاکم نے فرمایا : یہ حدیث صحیح ہے اور اس میں کوئی علت نہیں ہے.

3. عَنْ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ رضی الله عنه يَقُوْلُ : وَعَظَنَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم مَوْعِظَةً ذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُوْنُ وَوَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوْبُ فَقُلْنَا : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِنَّ هٰذِه لَمَوْعِظَةُ مُوَدِّعٍ فَمَاذَا تَعْهَدُ إِلَيْنَا؟ قَالَ : قَدْ تَرَکْتُکُمْ عَلَی الْبَيْضَائِ لَيْلُهَا کَنَهَارِهَا لَا يَزِيْغُ عنها بَعْدِي إِلَّا هَالِکٌ مَنْ يَعِشْ مِنْکُمْ فَسَيَرَی اخْتِلَافًا کَثِيْرًا فَعَلَيْکُمْ بِمَا عَرَفْتُمْ مِنْ سُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَائِ الرَّاشِدِيْنَ الْمَهْدِيِّيْنَ عَضُّوْا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ وَعَلَيْکُمْ بِالطَّاعَةِ وَإِنْ عَبْدًا حَبَشِيًّا فَإِنَّمَا الْمُؤْمِنُ کَالْجَمَلِ الْاَنِفِ حَيْثُمَا قِيْدَ انْقَادَ.

رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَأَحْمَدُ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ وَالْحَاکِمُ، وَقَالَا : وَهٰذَا حَدِيْثٌ جَيِّدٌ مِنْ صَحِيْحِ حَدِيْثِ الشَّامِيِّيْنِ.

3 : أخرجه ابن ماجه في السنن، المقدمه، باب اتباع سنة الخلفاء الراشدين المهديين، 1 / 16، الرقم : 43، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 126، الرقم : 17182، وأبو نعيم في المسند المستخرج، 1 / 35-36، الرقم : 2، والحاکم في المستدرک، 1 / 175، الرقم : 331، والطبراني في المعجم الکبير، 18 / 247، الرقم : 619.

’’حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں ایسی نصیحت فرمائی جس سے لوگوں کی آنکھیں بہنے لگیں اور دل دہل گئے، ہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ نے تو ہمیں ایسی نصیحت فرمائی جیسے آپ ہمیں رخصت فرما رہے ہوں. ہم سے کوئی عہد بھی لے لیجیے. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں تمہیں ایسے منور دین پر چھوڑے جا رہا ہوں جس کے شب و روز برابر ہیں، اس دین سے وہی رُوگردانی کرے گا جس کی قسمت میں بربادی ہے، تم میں سے جو لوگ میرے بعد زندہ رہیں گے وہ ایک زبردست اختلاف دیکھیں گے تو تم میری سنت اور خلفائے راشدین کی سنت کو پہچان کر دانتوں سے مضبوط پکڑ لینا اور اطاعت کو اپنے اوپر لازم کر لینا اگرچہ تمہارا امیر ایک حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو، کیوں کہ مومن کی مثال اونٹ کی طرح ہے کہ جس کے ہاتھ اس کی نکیل ہو اس کا مطیع فرمانبردار ہوتا ہے.‘‘

اس حدیث کو امام ابن ماجہ، احمد، ابو نعیم اور حاکم نے روایت کیا ہے. امام حاکم اور ابو نعیم نے اس کے رواۃ کو ثقات کہا ہے اور اس حدیث کو شامیوں کی صحیح روایات میں سے جید قرار دیا.

4. عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : إِنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم صَعِدَ اُحُدًا، وَاَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ، فَرَجَفَ بِهِمْ، فَقَالَ : اثْبُتْ اُحُدُ، فَإِنَّمَا عَلَيْکَ نَبِيٌّ وَصِدِّيْقٌ، وَشَهِيْدَانِ.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاَبُوْ دَاوُدَ.

4 : اخرجه البخاري في الصحيح، کتاب فضائل اصحاب النبي صلی الله عليه وآله وسلم ، باب فضائل أبي بکر، 3 / 1344، الرقم : 3472، والترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب في مناقب عثمان بن عفان، 5 / 624، الرقم : 3697، وابو داود في السنن، کتاب السنة، باب في الخلفاء، 4 / 212، الرقم : 4651.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جبلِ اُحد پر تشریف لے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) بھی تھے، اچانک پہاڑ اُن (کی آمد) کے باعث (جوشِ مسرت سے) جھومنے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے اُحد! ٹھہر جا، تیرے اوپر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہیں.‘‘

اسے امام بخاری، ترمذی اور ابوداود نے روایت کیا ہے.

5. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲُ عنهما قَالَ : إِنِّي لَوَاقِفٌ فِي قَوْمٍ فَدَعَوا اﷲَ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ وَقَدْ وُضِعَ عَلٰی سَرِيْرِه، إِذًا رَجُلٌ مِنْ خَلْفِي قَدْ وَضَعَ مِرْفَقَه عَلٰی مَنْکِبِي يَقُوْلُ : رَحِمَکَ اﷲُ، إِنْ کُنْتُ لَارْجُوْ انْ يَجْعَلَکَ اﷲُ مَعَ صَاحِبَيْکَ، لِانِّي کَثِيْرًا مِمَّا کُنْتُ اسْمَعُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : کُنْتُ وَابُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ، وَفَعَلْتُ وَابُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ، وَانْطَلَقْتُ وَابُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ فَإِنْ کُنْتُ لَارْجُوْ انْ يَجْعَلَکَ اﷲُ مَعَهُمَا، فَالْتَفَتُّ فَإِذَا هُوَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

5 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المناقب، باب قول النبي صلی الله عليه وآله وسلم : لو کنت متخذا خلیلا، 3 / 1345، الرقم : 3474، ومسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل عمر ص، 4 / 1858، الرقم : 2389.

’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا : (حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد) میں لوگوں کے ہمراہ کھڑا تھا جنہوں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے لیے اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کی. اس وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ (کی میت) کو چارپائی پر رکھا جا چکا تھا، اچانک ایک شخص میرے پیچھے سے آیا اور اپنی کہنی میرے کندھے پر رکھ کر (حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو میت سے مخاطب ہو کر) کہنے لگا : اﷲ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے، میں امید کرتا تھا کہ اﷲ تعالیٰ آپ کو اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ رکھے گا کیوں کہ میں اکثر سنتا تھا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے : میں، ابو بکر اور عمر تھے، اور میں نے ابو بکر اور عمر نے (فلاں کام)کیا، میں، ابو بکر اور عمر (فلاں جگہ) گئے. مجھے امیدِ واثق ہے کہ اﷲ تعالیٰ آپ کو اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ رکھے گا. (حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ) میں اُس شخص کی طرف متوجہ ہوا تو ( کیا دیکھتا ہوں) وہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ تھے.‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے.

6. عَنْ أَبِي مُوْسَی الْاشْعَرِيِّ رضی الله عنه قَالَ : بَيْنَمَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فِي حَائِطٍ مِنْ حَائِطِ الْمَدِيْنَةِ، هُوَ مُتَّکِيئٌ يَرْکُزُ بِعُوْدٍ مَعَه بَيْنَ الْمَائِ وَالطِّيْنِ، إِذَا اسْتَفْتَحَ رَجُلٌ. فَقَالَ : افْتَحْ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ قَالَ : فَإِذَا أَبُوْ بَکْرٍ. فَفَتَحْتُ لَه وَبَشَّرْتُه بِالْجَنَّةِ. قَالَ : ثُمَّ اسْتَفْتَحَ رَجُلٌ آخَرُ. فَقَالَ : افْتَحْ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ، قَالَ : فَذَهَبْتُ فَإِذَا هُوَ عُمَرُ. فَفَتَحْتُ لَه وَبَشَّرْتُه بِالْجَنَّةِ. ثُمَّ اسْتَفْتَحَ رَجُلٌ آخَرُ. قَالَ : فَجَلَسَ النَّبِيّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ : افْتَحْ وَبَشِّرْه بِالْجَنَّةِ عَلٰی بَلْوٰی تَکُوْنُ قَالَ : فَذَهَبْتُ فَإِذَا هُوَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ. قَالَ : فَفَتَحْتُ وَبَشَّرْتُه بِالْجَنَّةِ. قَالَ : وَقُلْتُ الَّذِي قَالَ : فَقَالَ : اَللّٰهُمَّ، صَبْرًا. أَوِ اﷲُ الْمُسْتَعَانُ.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ.

6 : اخرجه البخاري في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب عمر بن الخطاب ص، 3 / 1350، الرقم : 3490، ومسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة ث، باب من فضائل عثمان بن عفان ص، 4 / 1867، الرقم : 2403.

’’حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ کے ایک باغ میں تکیہ لگا کر بیٹھے ہوئے تھے، اور ایک لکڑی سے گیلی مٹی کھرچ رہے تھے، ایک شخص نے دروازہ پر دستک دی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : دروازہ کھول کر اس (آنے والے) کو جنت کی بشارت دے دو، حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کہا : آنے والے حضرت ابوبکر تھے، میں نے دروازہ کھول کر ان کو جنت کی بشارت دے دی. پھر ایک شخص نے دروازہ پر دستک دی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : دروازہ کھول کر اس (آنے والے) کو (بھی) جنت کی بشارت دے دو، حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں گیا تو وہ حضرت عمر تھے، میں نے دروازہ کھول کر ان کو بھی جنت کی بشارت دے دی، پھر ایک شخص نے دروازہ پر دستک دی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیٹھ گئے اور فرمایا دروازہ کھول دو اور اس (آنے والے) کو مصیبتوں کے ساتھ جنت کی بشارت دے دو، میں نے جاکر دروازہ کھولا تو وہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ تھے، میں نے دروازہ کھولا اور ان کو جنت کی بشارت دی، اور جو کچھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا وہ بھی کہہ دیا تو انہوں نے کہا : اے اللہ صبر عطا فرما، یا اللہ تجھ ہی سے مدد طلب کی گئی ہے.‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے اور مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں.

7. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما انَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : ارِيْتُ فِي الْمَنَامِ انِّي انْزِعُ بِدَلْوِ بَکْرَةٍ عَلٰی قَلِيْبٍ فَجَائَ ابُوْ بَکْرٍ فَنَزَعَ ذَنُوْبًا اوْ ذَنُوْبَيْنِ نَزْعًا ضَعِيْفًا وَاﷲُ يَغْفِرُ لَهُ، ثُمَّ جَائَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَاسْتَحَالَتْ غَرْبًا فَلَمْ ارَ عَبْقَرِيًّا يَفْرِي فَرِيَهُ حَتّٰی رَوِيَ النَّاسُ وَضَرَبُوْا بِعَطَنٍ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

7 : اخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المناقب، مناقب عمر بن الخطاب ص، 3 / 1347، الرقم : 3479، ومسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل عمر ص، 4 / 1860.

’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : خواب میں مجھے دکھایا گیا کہ میں ایسے کنوئیں سے ڈول کے ساتھ پانی نکال رہا ہوں، جس پر چرخی لگی ہوئی ہے. پھر ابوبکر آئے اور انہوں نے ایک یا دو ڈول نکالے لیکن کمزوری کے ساتھ، اللہ تعالیٰ انہیں معاف فرمائے. اس کے بعد عمر بن خطاب آئے تو وہ ڈول ایک بڑے ڈول میں بدل گیا اور میں نے کسی بھی جوان مرد کو اس طرح کام کرتے ہوئے نہیں دیکھا یہاں تک کہ تمام لوگ جانوروں کو سیراب کر کے ان کے ٹھکانے پر لے گئے.‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے.

8. عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَنَفِيَةِ قَالَ : قُلْتُ لِابِي : ايُّ النَّاسِ خَيْرٌ بَعْدَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ؟ قَالَ : ابُوْ بَکْرٍ، قُلْتُ : ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ : ثُمَّ عُمَرُ. وَخَشِيْتُ أَنْ يَقُوْلَ عُثْمَانُ، قُلْتُ : ثُمَّ انْتَ؟ قَالَ : مَا انَا إِلَّا رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَابُوْ دَاوُدَ وَأَحْمَدُ.

8 : اخرجه البخاري في الصحيح، کتاب أصحاب النبي صلی الله عليه وآله وسلم ، باب قول النبي صلی الله عليه وآله وسلم : لو کنت متخذا خلیلا، 3 / 1342، الرقم : 3468، وابو داود في السنن، کتاب السنة، باب في التفضیل، 4 / 206، الرقم : 4629، وأحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 1 / 321، الرقم : 445.

’’حضرت محمد بن حنفیہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا : میں نے اپنے والد (حضرت علی رضی اللہ عنہ) سے دریافت کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سب سے بہتر کون شخص ہے؟ انہوں نے فرمایا : ابوبکر رضی اللہ عنہ پھر میں نے کہا : ان کے بعد؟ انہوں نے فرمایا : عمر رضی اللہ عنہ. تو میں نے اس خوف سے کہ اب وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا نام لیں گے خود ہی کہہ دیا کہ پھر آپ ہیں؟ آپ رضی اللہ عنہ نے (بطور عاجزی) فرمایا : نہیں میں تو مسلمانوں میں سے ایک عام مسلمان ہوں.‘‘

اس حدیث کو امام بخاری، ابوداود اور احمد نے روایت کیا ہے.

9. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي اﷲُ عنهما قَالَ : کُنَّا نَقُوْلُ فِي زَمَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم لَا نَعْدِلُ بِأَبِي بَکْرٍ أَحَدًا ثُمَّ عُمَرَ ثُمَّ عُثمَانَ ثُمَّ نَتْرُکُ أَصْحَابَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم لَا نُفَاضِلُ بَيْنَهُمْ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَابُوْدَاوُدَ.

9 : اخرجه البخاري في الصحيح، کتاب فضائل أصحاب النبي صلی الله عليه وآله وسلم ، باب مناقب عثمان بن عفان، 3 / 1352، الرقم : 3494، وابو داود في السنن، کتاب السنة، باب في التفضيل، 4 / 206، الرقم : 4627.

’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنھما سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا : ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہِ اقدس میں حضرت ابو بکر کے برابر کسی کو شمار نہیں کرتے تھے. پھر اُن کے بعد حضرت عمر کو، پھر ان کے بعد حضرت عثمان کو اُن کے بعد ہم باقی اصحابِ رسول کو ایک دوسرے پر فضیلت نہیں دیتے تھے.‘‘

اس حدیث کو امام بخاری اور ابوداود نے روایت کیا ہے.

10. عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ رضی الله عنه أَنَّ رَجُلًا قَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِنِّي رَأَيْتُ کَأَنَّ دَلْوًا دُلِّيَ مِنَ السَّمَائِ فَجَائَ أَبُوْ بَکْرٍ فَأَخَذَ بِعَرَاقِيْهَا، فَشَرِبَ شُرْبًا ضَعِيْفًاَ ثُمَّ جَائَ عُمَرُ فَاخَذَ بِعَرَاقِيْهَا، فَشَرِبَ حَتّٰی تَضَلَّعَ، ثُمَّ جَائَ عُثْمَانُ فَاخَذَ بِعَرَاقِيْهَا، فَشَرِبَ حَتّٰی تَضَلَّعَ، ثُمَّ جَائَ عَلِيٌّ فَأَخَذَ بِعَرَاقِيْهَا فَانْتَشَطَتْ وَانْتَضَحَ عَلَيْهِ مِنْهَا شَيئٌ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَابُوْ دَاوُدَ وَاللَّفْظُ لَه وَأَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.

10 : اخرجه مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة ث، باب من فضائل عمر ص، 4 / 1861، الرقم : 2392، وابو داود في السنن، کتاب السنة، باب في الخلفاء، 4 / 208، الرقم : 4637، واحمد بن حنبل في المسند، 5 / 21، الرقم : 23873، وابن ابي شیبۃ في المصنف، 6 / 356، الرقم : 32001.

’’حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض گزار ہوا : یا رسول اﷲ! میں نے (خواب میں) دیکھا کہ گویا ایک ڈول آسمان سے لٹکایا گیا ہے. پس حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے اور اس کو کناروں سے پکڑ کر بمشکل پیا. (مراد ان کے دور خلافت کی مشکلات ہیں). پھر حضرت عمرصآئے اور اسے کناروں سے پکڑ کر پیا یہاں تک کہ خوب شکم سیر ہو گئے. پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ آئے اور اس کوکناروں سے پکڑ کر پیا. پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ آئے تو انہوں نے اسے کناروں سے پکڑا تو وہ ہل گیا اور اس میں سے کچھ پانی ان کے اوپر گر گیا.‘‘
اس حدیث کو امام مسلم، ابوداود، احمد اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے مذکورہ الفاظ ابوداود کے ہیں.