غیر ملکی ناقص کاروباری پالیسی سے معیشت پر منفی اثرات

کھلونے بنانے والے چھوٹے اور درمیانے صنعتکاروں نے شکایت کی ہے کہ کھلونوں کابازار تیزی سے سمٹ رہاہے۔ہماچل پردیش کے سیب پیدا کرنے والے باغبان مناسب قیمت نہ ملنے پر سیب کی فروخت میں در پیش رکاوٹوں سے عاجزہیں۔کینسر مریضوں کی تنظیموں نے کینسر بالخصوص لیو کیمیا کی زندگی بچانے والی دواؤں کی قیمت میں ممکنہ اضافہ کے بارے میں متنبہ کیا ہے ۔یہ تینوں خبریں بظاہر مختلف شعبہ ہائے زندگی کی ہیں لیکن ان میں ایک قدر مشترک پائی جاتی ہے جسے غیر ملکی کا روبارمیں غلط فیصلوں سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔کھلونوں کے بازارمیں تیزی کے دوران بازار سے دیسی مصنوعات غائب ہوگئی ہیں جبکہ چین سے درآمد شدہ کھلونے حاوی ہوگئے ہیں۔کیونکہ عالمی کاروباری ورڈ ٹریڈ آرگنائزیشن یاڈبلیو ٹی او کی تشکیل کے بعد تجارت کے جوضوابط بنائے گئے ہیں ان کے تحت درآمدات فیس کو کافی کم کرنا پڑا جبکہ ثقافتی نقطہءنظر سے بچوں کے کھلونوں کا مقامی خطہ سے وابستہ ہونا نہایت ضروری ہوتا ہے۔لیکن غیر ملکی کاروبار کے ضوابط اس طرح کے بنے ہیں کہ ان میں معاشرتی اور ثقافتی اقدار کی کوئی جگہ نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ مختصر وقفہ میں کھلونوں کے بازار پر چین کا قبضہ ہوگیا ہے۔شاید اسی لئے چین کے وزیراعظم وین جیاباؤ نے گذشتہ دنوں کہاتھا کہ عالمی معاشی بحران چینی معیشت پر اثر اندازہوا تاہم طویل المدت اقتصادی ترقی کو یقینی بنانے کیلئے اٹھائے گئے اقدامات کی بدولت چین اس بحران سے باہر آنے والا پہلا ملک بن گیا۔ نیشنل پیپلز کانگریس کے سالانہ اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاتھا کہ حکومت نے بحران کے اثرات سے نمٹنے کیلئے سرمایہ کاری میں اضافہ کیا ، ٹیکس کی شرح میں کٹوتی ، سوشل سیکیورٹی سسٹم کو بہتر اور تجارتی شعبہ میں اہم ڈھانچہ جاتی اصلاحات کی گئیں جبکہ بحالی کے یہ اقدامات مختصرمدت کے مسائل سے نمٹنے کیساتھ ساتھ طویل المدت ترقی کویقینی بنانے کیلئے اٹھائے گئے۔ انہوں نے کہا کہ معاشی بحران کے باعث عالمی طلب میں کمی سے چینی صنعتیں متاثرہوئیں، جی ڈی پی میں کمی آئی، کئی کاروبار بند ہوگئے اور مختلف ممالک سے آئے ہوئے محنت کشوں کو اپنے وطن واپس جانا پڑا۔جبکہ امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے نیویارک کے اکنامک کلب میں عالمی معیشت پر اپنے ایک اہم خطاب میں کہا تھا کہ چین عالمی تجارتی نظام سے کھیلتے ہوئے اسے اپنے مفاد میں استعمال کررہا ہے۔اپنی تقریر میں اور سوال جواب کے وقفے میں ہیلری کلنٹن نے چین کی تجارتی پالیسی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ چین نے اپنی کرنسی کی قدر مصنوعی طور پر کم رکھ کر امریکہ اور دنیا کی دیگر معیشتوں کو سخت نقصان پہنچایا ہے اور ہماری برآمدات کو مہنگا کردیا ہے۔ نیویارک میں اکنامک کلب میں ایک اہم تقریر میں ہلری کلنٹن کاروباری شخصیات کو بتایاتھا کہ امریکہ کو ایسی دنیا کا سامنا ہے جہاں طاقت کا تعین اقتصادیات پر ہوگا نہ کہ عسکری قوت پر۔ انکا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکہ کو یوروپ کے ساتھ بڑھائے گئے اپنے تعلقات کا طریقہ ایشیا پر بھی اپنانا ہوگا جبکہ بینجنگ کی سینگہوا یونیورسٹی میں اقتصادیات کے پروفیسر پیٹرک شوانک نے میڈیاسے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ چین کی معاشی حیثیت میں اضافے اور پیسیفک خطے میں اس کے عزائم کے تناظر میں ہلری کلنٹن کے مجوزہ تاثرات ایشیا پر امریکہ کی توجہ کی عکاسی کرتے ہیں۔

اسی طرح کی سیب کی پیداوار بھی ڈبلیو ٹی او کے ضوابط سے وابستہ ہے جس کے تحت درآمدت پر عائد پابندی کو موقوف کردیا گیا ہے بلکہ برآمدات فیس کی حد بھی متعین کردی گئی ہے۔ اس سلسلے میں بتاتے چلیں کہ نیوزی لینڈ سے سیب کی درآمد پر پابندی کے حوالے سے ڈبلیوٹی او کے فیصلے کے خلاف آسٹریلیاکے اپیل کرنے کی اطلاعات بھی منظر عام پر آئی تھیں۔ ڈبلیو ٹی او کے ایک ترجمان نے کہا تھا کہ نیوزی لینڈ نے آسٹریلیا کی طرف سے سیب کی درآمد پر پابندی کے فیصلے کو عالمی تجارتی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا تھا جس پر ڈبلیوٹی او کے ماہرین نے بھی اپنا فیصلہ دیدیا تھا لیکن آسٹریلیا اب ڈبلیو ٹی او کے فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کے بارے میں غور کرنے کو کہا تھا۔ کینسر کے مریضوں اور ان کے اعزاءکی تشویش بھی ایک طرح سے ڈبلیو ٹی او کی ناقص پالیسی کانتیجہ ہے کیونکہ ایک مخصوص قسم کے مرض لیو کیمیاکے لئے ضروری دوا پرایک کثیرالاقوامی کمپنی پیٹنٹ حقوق حاصل کرنا چاہتی ہے اور اس کیلئے اسے ڈبلیو ٹی او کے قرب وجوار نیز متعلقہ ٹریس معاہدے پیٹنٹ رائٹس ایگری منٹ سے مدد مل رہی ہے ۔اگر اس ملٹی نیشنل کمپنی نے یہ مقدمہ جیت لیا تو اس زندگی بچانے والی دوا کااسے تن تنہا حق مل جائے گا جبکہ یہ کمپنی دیگر کمپنیوں کے مقابلے میں اس دوا کو 12گنازیادہ قیمت پر فروخت کرتی ہے۔اتنی مہنگی دوا بہت سے مریض خرید نہیں سکیں گے اور ان کی فوری موت کے خدشات بڑھ جائیں گے۔

یہ سبھی اندیشے ڈبلیو ٹی او کے قیام کے دوران ہی سامنے آگئے تھے۔حالانکہ عام لوگوں میں اس معاہدے کی معلومات واضح طورپر منتقل نہیں ہو سکی تھیں جسکی وجہ سے اس کے خلاف رائے عامہ ہموار نہیں ہوسکی۔لیکن اب وقت گزرنے کے ساتھ متعدد دشواریوں اور مسائل سے عوام کونبرد آزما ہوناپڑ رہا ہے اور اس بارے میں عام رائے قائم ہورہی ہے کہ بین الاقوامی کاروباری معاہدوں کی جن شقوں میں خوراک کے ذریعہ تحفظ حیات،صحت اور زندگی گزارنے وغیرہ مفادعامہ پر ضرب پڑتی ہے انھیں مستثنیٰ رکھاجائے گا۔شاہد یہی وجہ ہے کہ دوحہ مذاکرات کے دوران غیر ملکوں کے اپنے مفادات کے تحفظ کی کوششوں کے خلاف ہندستان سمیت متعدد ترقی پذیر ملکوں نے آواز بلند کی ہے جسکی وجہ سے امریکہ اور یوروپی یونین کی چودھراہٹ یہاں اتنی نہیں چل سکتی جتنی کہ وہ توقع کئے بیٹھے تھے حالانکہ ابھی تک ان کی کوششیں جاری ہیں کہ ہندستان جیسے ترقی پزیرملکوں کو دباؤ میں لیکر وہ اپنے مفادات کو آگے بڑھائیںلیکن دوسری جانب مداخلت سے آزاد معاہدوں کی شکل میں ایک نیا بحران پیدا ہوگیاہے۔اس سلسلے میں عوامی بیداری ایک اہم چیزہے۔ویسے بھی زیادہ تر آزاد کاروباری معاہدے خفیہ طورپر ہورہے ہیں۔غالباً یہی وجہ ہے کہ جاپان،جنوبی کوریا،ملیشیا،سنگاپور جسے کئی اہم ممالک سے ہندستان کے آزاد کاروباری معاہدے ہوگئے ہیں مگر ان پر مذاکر ہ بہت کم ہواہے۔ان میں سب سے اہم معاہدہ یوروپی یونین کے ساتھ زیرغور ہے جس کے سلسلے میں زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔
S A Sagar
About the Author: S A Sagar Read More Articles by S A Sagar: 147 Articles with 116452 views Reading and Writing;
Relie on facts and researches deep in to what I am writing about.
Columnist, Free Launce Journalist
http://sagarurdutahzeeb.bl
.. View More