بٹیا! تمہارا قاتل کون ہے ؟

مادرِ جمہوریت پاکستان پیپلز پارٹی کی سابق چیئرمین نصرت بھٹو کو اُس کے نواسے بلاول بھٹو زرداری نے قبر میں اُتار کر سپردِخاک کر دیا ۔اُس نانی کو جو اُن کےساتھ اُن کے بچپن سے لڑکپن تک دوبئی کے ایک خوشنما جیل خانے میں زندگی کے غم اور خوشی سے بے نیاز ایک زندہ لاش تھی ۔بلاول بھٹو اور خاندان کے دوسرے خود پرست اُس کےساتھ اُس وقت تک تھے جب تک اُن کے پاس پاکستان میں اقتدار نہیں تھا ۔اقتدار کے انتظار میں سب وہاں موجود تھے لیکن نصرت بھٹو سب کو دیکھتے ہوئے بھی نہیں سمجھ پارہی تھیں کہ یہ کون لوگ ہیں ؟؟؟اُس کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں ،دل بھی دھڑک رہا تھا لیکن دھڑکنوں میں زندہ آنکھوں کے سامنے کھڑے چہروں کی پہچان سے قاصر تھیں اور کیوں نہ ہوتیں اس لیے کہ اُس کے چاہنے والے یہی چاہتے تھے کہ وہ زندہ تو رہے لیکن زندہ درگور رہے اس لیے کہ اُس کی باہوش زندگی اُس کےساتھ رہنے والوں کیلئے خطرہ تھی۔

نصرت بھٹو وہ بیوی تھی جس کا شوہر ایک آمر کے ہاتھوں دنیا سے رخصت ہوا وہ بے چاری اپنے سرتاج کا آخری دیدار تک نہ کرسکی تھی وہ ماں تھی جو اپنے دو بچوں کو اپنے سامنے سپرد ِخاک ہوتے دیکھ کر بھی معلوم نہ کرسکی کہ کون لوگ تھے جنہوں نے اُس کی گود اُجاڑدی ۔ایک بیٹا تو گھر کے سامنے اُس وقت گولیوں کانشانہ بنا جب اُس کی سگی بہن اپنے دیس کی وزیراعظم تھیں وہ تو اپنے اُس لاڈلے بیٹے کیساتھ اُس وقت مرچکی تھیں جب اُس کی سگی وزیراعظم بہن اُس کا آخری دیدار تک کرنے کیلئے وقت نہ نکال سکیں ۔ایسی مائیں زندہ رہ کر بھی زندہ کیسے رہ سکتی ہیں جو اپے ہی گھر کی آگ میں جھلس رہی ہوں ۔

مادر ِجمہوریت کو بعد از وفات اعزازات سے نوازا جارہا ہے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے کیا اُس کے پیارے دنیا کو بتاسکتے ہیں کہ مادر ِجمہوریت جب زندگی کی آنکھ ہسپتال میں بند کر رہی تھیں کون تھا اُس کے پاس ؟کون تھا اُس خاتون کے پاس جس نے اپنے شوہر ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت پر نعرہ لگایا تھا ”زندہ ہے بھٹو زندہ ہے “۔

یہ اعزاز اسی خاتون کو نصیب ہے جس نے اُس وقت بھٹو کو زندہ رکھا ۔جب بھٹو اور تحریک جمہوریت کو عوام کے دلوں سے نکالنے کیلئے اُس وقت کا آمر اور اُس کے حوار ی ظلم وجبر کا بازار گرم کیے ہوئے تھے ۔کون تھا اُس وقت بھٹو خاندان میں بولنے والا ؟ جو بولنے کے قابل تھے ۔وہ خاموش تھے جو معصوم تھے اُن کی آنکھوں میں بابا سے جدائی کے آنسو تھے ۔مادر ِجمہوریت کا خطاب تو پاکستان کی غیور عوام نے اُسی وقت نصرت بھٹو کو دے دیا تھا جب وہ ایک آمر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر عوام کیساتھ سڑکوں پر آمریت کے خلاف تحریک جمہوریت کو زندہ رکھے ہوئے تھیں ۔

نصرت بھٹو ،بھٹو خاندان میں ذوالفقار علی بھٹو کے بعد تحریک جمہوریت کی دوسری ”لڑی“ تھیں ۔اپنے گھر کے سامنے اپنے بیٹے کی المناک موت پر اُس نے اُس وقت کی وزیراعظم اور اپنی بیٹی بے نظیر بھٹو سے پوچھا تھا کہ تمہارے بھائی کو کس نے قتل کیا اور کیوں ؟؟یہی ایک سوال تھا جس کے جرم کی اُسے عبرتناک سزا دی گئی ۔بیٹی کی خاموشی پر وہ خاموش تو ہوگئی لیکن فکر وشعور نے ساتھ چھوڑ دیا اور پھر وہی ہوا بالکل ویسے ہی اُس کی وہی وزیراعظم بیٹی عوام کے جھرمٹ میں گولی کا نشانہ بنی لیکن نصرت بھٹو کو یہ پوچھنے کا ہوش تک نہیں تھا ورنہ وہ آکر اپنی سابق وزیراعظم بیٹی سے ضرور سوال کرتیں ،بٹیا !اپنے بھائی کے قاتل کو تو آپ باوجود وزیراعظم ہونے کے بے نقاب نہ کرسکیں لیکن یہ تو بتا !!!تمہیں کس نے قتل کر وایا ۔کون ہے تیرا قاتل؟؟؟؟لیکن بیگم صاحبہ کو تو یہ بھی علم نہ ہوسکا کہ میں کہاں ہوں اور میری بیٹی کہاں اور کیوں قتل ہوئی ؟
Subhan Gull
About the Author: Subhan Gull Read More Articles by Subhan Gull: 5 Articles with 4755 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.