ہم تیار ہیں

ڈاکٹر فوزیہ چوہدری

اس میںتو کوئی شک نہیں کہ اس وقت پوری دنیا میں مسلمان مصیبت و آزار میں مبتلا ہیں اور کُفر الحاد کی تمام طاقتیں مسلمانوں کے درپے آزار ہیں اور وہ کسی بھی قیمت پر انہیں آگے بڑھنے ،ترقی کرنے اور پنپنے نہیں دے رہیں بلکہ اپنی تمام تر طاقتیں حق کو مٹانے اور باطل کو غلبہ دینے میں صرف کر رہی ہیں جب کہ اﷲ تعالیٰ کا فیصلہ اس کے بالکل برخلاف ہے کہ حق چھا جائے گا اور باطل مٹ جائے گااور اﷲ تعالیٰ کے فیصلے سچ ہوکر رہتے ہیں اس لیے یہ سچ ثابت ہونے کے سزاوار ہیں۔حق و باطل کی یہ جنگ ازل سے جاری ہے اور مرضی معبودِ حقیقی کے تابع جاری رہے گی۔

اسلام کی ساڑھے چودہ سوسالہ تاریخ پر نظر دوڑائیں تو مصائب و الام کے کئی ادوار ہمیں ایسے نظر آتے ہیں جہاں مسلمان مغلوب اور باطل قوتیں غالب رہی ہیں جو کہ یقیناہمارے اعمالِ بد کا نتیجہ تو تھا ہی لیکن مصلحت خداوندی سے خالی ہرگز نہ تھا۔چونکہ یہ دنیا عامل امکانات ہے یہاں ہر کام کے ظہور پذیر ہونے کا ایک طریقہ کار ہے۔جوکہ اﷲ تعالیٰ کے احکامات کے تابع ہوتا ہے۔اسلام نے اپنے ظہور کے بعد دنیا پر غلبے کے کئی طویل ادوار بھی دیکھے ہیں سپین پر غلبے کاساڑھے نو سو سالہ دور اور پھر برصغیر پاک و ہند پر تقریباََایک ہزار سالہ مسلمانوں کی انتہائی متمدن حکومت اورپھر پچھلے پینسٹھ سال سے ایک نظریاتی اسلامی ریاست کا قیام اور اسے دنیا بھر کی مسلمان ریاستوں پر پہلی نیوکلیئر پاور ہونے کی فوقیت کیا خالی از مصلحت ہوسکتیں ہیں۔۔۔؟یقیناکوئی بھی ذی شعور اس سے انکار نہیں کرسکتا۔

نائن الیون کے بعد حالات نے جو پلٹا کھایا اور جس طرح طاغونی طاقتوں نے اس واقعے کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا اور کر رہی ہیں اس سے عمومی طور پر پورا عالم اسلام اور خصوصی طور پر پاکستان ،افغانستان اور عراق بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔نائن الیون اور اس کے بعد وقوع پذیر ہونے والے واقعات سے وطن عزیز پاکستان جس بری طرح متاثر ہوا ہے اسے ہمارے مولوی حضرات تو ہمارے کھاتے ہی میں ڈال رہے ہیں اور انہیں ہماری بداعمالیوں کا نتیجہ گردانتے ہیں اور ان مصائب و الام کو اﷲ تعالیٰ کی پکڑ بتاتے ہیں۔یہاں بد اعمالیاں محلِ نظر ہیں۔کیا یہ بد اعمالیاں عوام کی ہیں یا پھر خواص کی اور خواص بھی عمّالِ حکومت۔۔۔؟یہ بحث طویل ہے کہ ہم میں کیاکیا اخلاقی اور معاشرتی برائیاں پائی جاتی ہیں کہ ہم ان حالات کا شکار ہیں اور کیا وہ ادوار جب مسلمانوں نے دنیا پر غلبہ حاصل کیا ان شخصی اور اجتماعی عیوب سے پاک صاف تھے جن میں ہم اب مبتلاءہیں۔

میرے خیال میں ایسا نہیں ہے اچھے برے لوگ ہر دور میں ہی موجود رہے ہیں اور انہی کے تناسب سے اچھائیاں اور برائیاں بھی ہمارے معاشروں میں موجود رہی ہیں۔کیونکہ خیر شر کا یہ کھیل ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا۔ہمارے مغلوب ہونے اور مغربی طاقتوں کے غالب آنے کی ایک منطقی وجہ جو میری سمجھ میں آرہی ہے وہ یہ ہے کہ ہم پچھلی چار پانچ دہائیوں سے انٹیلیکچوئل ہولیڈیز پر چل رہے ہیں اور ہم نے وہ محنت ،تگ و دو اور جستجو نہیں کی جو آگے بڑھنے ،ترقی کرنے اور دنیا کا ساتھ دینے کے لیے ضروری تھی بلکہ ہم اپنے حال ہی میں مست رہے اور اپنے اسلاف کے کارناموں پر فخر کرتے رہے اور یہ جاننے کی ہرگز کوشش نہ کی کہ زمانے کی ہوا کدھر جارہی ہے اور لوگ کیا کر رہے ہیں نیتجتاََ زمانہ ہم سے قیادت کی چال چل گیااور ہم اپنے سنہری ماضی میں ہی محو رہے ہم نے اپنے اسلاف کی وہ میراث ہی گنوادی جس پر انہوں نے ماضی میں عظمت کے مینار تعمیر کیے تھے۔دوسری طرف وہ اقوام جو مسلمانوں کے ہاتھوں مغلوب رہی تھیں انہوں نے غلبہ پانے کا وہ راز حاصل کرلیا اور اس راز کوحرزِجاں بنا کر ترقی اور سرفرازی کی منازل طے کرتی گئیں۔انہوں نے علم کی اہمیت کو پالیااور سائنس و ٹیکنالوجی میں دسترس بہم پہنچائی کہ ایک دنیا ان کی قائل ہوگئی اور صرف قائل ہی نہیں ہوئی بلکہ ان سے مستفیدبھی ہورہی ہے۔آج پوری دنیاآپ کی انگلی کے ایک اشارے پر ہے اور یہ سب کچھ سائنس و ٹیکنالوجی میں ترقی کی بناءپر ہی ہوا ہے۔

میں یہ کہہ کر اپنی قوم میں بددلی اور مایوسی پیدا کرنا نہیں چاہتی کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی میں ہم یورپ اور مغربی اقوام سے بہت پیچھے ہیں۔ہم نے دیکھا دیکھی یا پھر ضرورت کے تحت تھوڑی بہت ترقی ضرور کی ہے اور کامیابی بھی حاصل کی ہے لیکن اس تخلیق و جستجو میں ہم ان ترقی یافتہ اقوام سے ابھی بھی پیچھے ہیں جس کے لیے ہمیں ابھی مزید تعلیم ،تحقیق اور جستجو کی ضرورت ہے جس کی طرف مسلم اقوام اب متوجہ ہورہی ہیں۔

پاکستانی حکومت اور آرمی پر تنقید کرنے والا ایک گروہ ایسا بھی ہے جو اس بات پر معترض ہے کہ پاکستانی حکومت نے9/11کے بعد امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی بن کر انتہائی غلط کیا ہے اس وقت امریکہ کو سرخ جھنڈا دکھا دینا چاہیے تھا کہ سوری ہم آپ کا ساتھ نہیں دے سکتے۔مجھے اس معترض طبقے سے اس بارے میں شدید اختلاف ہے بلکہ میں اس بات کی حامی ہوں کہ اس وقت کے حکمرانوں نے امریکہ کے ساتھ جس طرح کی بھی ڈیل کی وہ صحیح تھی۔کیونکہ آج سے دس سال پہلے امریکہ اپنی طاقت کے نشے میں چور ایک بدمست ہاتھی کی مانند تھا اور اپنے راستے میں آئی ہر چیز سے ٹکرانے کی خواہش رکھتا تھا۔یہ بات تو ہر کوئی جانتا ہے کہ اس وقت امریکہ سے ٹکرانا خود کو سراسر ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف تھا جس کی اجازت نہ تو ہمیں ہمارا مذہب دیتا ہے اور نہ ہی کوئی اور۔۔۔طاقت کے اس عدم توازن کی کئی ایک مثالیں ہمیں خود ہمارے مذہب سے ملتی ہیں اور نبی کریمﷺ کے عمل سے ظاہر ہیں۔آپﷺ کی مکیّ زندگی کے ابتدائی تیرہ سال جب قریش مکہ نے مسلمانوں پر ظلم کی انتہا کردی اور نئے نئے مسلمان ہونے والے اپنے ہی بھائی بندوں پر انسانیت سوز ظلم ڈھائے لیکن اس وقت مسلمانوں کو قریش مکہ سے جنگ کا حکم نہیں دیا گیا کیونکہ قریش مسلمانوں سے برتر تھے اور مسلمان ان سے جنگ کا یارا نہ رکھتے تھے بلکہ مسلمانوں کو ظلم و ستم سے بچنے کے لیے ہجرت کا حکم دیا گیا تھا۔پھر جب مسلمانوں کی طاقت ایک تہائی ہوگئی یعنی ایک ہزار کفّار کے مقابلے میں تین سو تیرہ مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دی گئی اور وہ بھی صرف دفاعی نقطہ نظر سے۔صلح حدیبیہ کے موقع پر بھی مسلمانوں نے قریش کے ساتھ معاہدہ کرتے ہوئے بظاہر گھاٹے کا سودا کیا لیکن وہی معاہدہ جس پر اکثر جید صحابہ ؓ کو بھی دلی خوشی نہ تھی اور وہ متردّدتھے فتح مبین ثابت ہوا۔

میں سمجھتی ہوں کہ 9/11کے واقعے کے بعد پاکستانی حکومت نے امریکہ کے ساتھ جس طرح کی بھی ڈیل کی وہ اس وقت کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے کی تھی ورنہ کیا یہ لوگ جو حکومت کے اس فیصلے پر نالاں ہیں اپنا حال عراق اور افغانستان جیسا کروا کر خوش ہوجاتے یقینا نہیں یہ لوگ اس وقت بھی اسی طرح معترض ہوتے کہ حکومت کے غلط فیصلے نے ہمیں مروادیا ہے۔دراصل حکومتی اور عسکری ماہرین کے فیصلے دور رس نتائج رکھتے ہیں ان سے فوری نتائج کی توقع رکھنا عبث ہے۔اگر ہم ماضی پر نظر دوڑائیں تو ہمیں زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے روس نے جب افغانستان پرحملہ کیا تھا تو اس کی طاقت بھی اسی طرح بے محا با تھی اور روس کا افغانستان میں آجانا گویا پاکستان کی سرحد پر آجانا ہی تھا۔اس وقت بھی صورتحال کچھ مختلف نہ تھی۔یہ پاکستانی فوج ہی تھی جس کی حکمت عملی اور در پردہ امریکہ کی مالی معاونت سے یہ جنگلی ریچھ قابو میں آیا تھا نہ صرف قابو میں آیا بلکہ چاروں شانے چت گر گیا تھا۔دیکھا جائے تو اب پھر اسی سے ملتی جلتی صورتحال ہے صرف حریف مختلف ہے۔روس کے خلاف اگر امریکہ نے درپردہ پاکستان کی مدد کی تھی تو ہو سکتا ہے کہ اب امریکہ کے خلاف کوئی اور امریکہ جیسی طاقت جو سپر پاور بننے کی صلاحیت رکھتی ہوپھر پاکستان کی مدد کر رہی ہو۔یہ تو قدرت کے کھیل ہیں”ہر عروج ِرا زوالے“کے مصداق ہمیشہ ایک گروہ ہی عروج پر نہیں رہتا بلکہ اﷲ تعالیٰ مختلف اوقات میں قوموں کو عروج و زوال سے ہمکنار کرتا رہتا ہے۔امریکہ کی مثال ہمارے سامنے ہے امریکہ روس کو شکست دے کر کس چاﺅ سے یونی پولر بنا تھا لیکن صرف دس سال میں معاشی طور پر ہل کر رہ گیا ہے اور اس کی طاقت کا وہ زور ٹوٹ گیا ہے جس کے بل بوتے پر یہ دنیا بھر میں اپنی چودھراہٹ قائم کرنا چاہتا تھا۔

امریکہ کی حالیہ دھمکیوں اور ناجائز مطالبات سے جو صورتحال پیدا ہو ئی ہے اس کے بارے میں پاکستانی شدید غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں اور ہمارے وہ سیاسی لیڈر بھی جو حکومت سے باہر ہیں عوام کا خون گرمانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔دراصل امریکہ اور بھارت کے خلاف ہماری عوام کے جذبات ویسے بھی گرم اور بر انگیختہ رہتے ہیںاور انہیں کسی خاص مہینے کی ضرورت بھی نہیں رہتی۔ پاکستان نے امریکہ کو بڑے واضح لفظوں میں یہ پیغام دے دیا ہے کہ اگر یہ مشتعل عوام امریکہ کے اس روّیے سے بد دل ہوکر کسی انتہا پسند ملّاکے ہاتھ چڑھ گئے توانہیں کنٹرول کرنا مشکل ہوجائے گااور پھر انتہا پسندی کو پھیلنے سے کوئی بھی روک نہیں سکے گا۔

امریکہ کو پاکستان کے ساتھ تعلقات کا کچھ بھی پاس لحاظ نہیں ہے حالانکہ پاکستان نے امریکہ کے لیے دہشتگردی کی اس جنگ میں کیا کچھ نہیں کیا۔امریکہ کو فری لنچ کے طور پر تمام سہولیات بہم پہنچائیں۔اگر پاکستان چاہتا تو امریکہ اور نیٹو افوج کو رسد بہم پہنچانے کے عوض کیا کیا مطالبات منوا سکتا تھا ۔مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔یہ بات بھی ہر کوئی تسلیم کرتا ہے کہ پر امن افغانستان سب کے حق میں ہے۔تو پھر کیوں نہیں امریکہ افغانستان میں امن قائم کرنے کے لیے درست قدم اٹھاتا۔امریکہ جو کچھ بھی کرے ایک نہ ایک دن اسے بھی افغانستان سے جانا ہوگااور یہاں عملی طور پر امن قائم کرنا ہوگا ،یہی سب کے حق میں ہے اور یہ عالمی امن کے لیے بھی ضروری ہے اور اسی طرح ہم اپنی آئندہ نسلوں کو ایک پر امن معاشرہ دینے میں کامیاب ہوسکتے ہیں ۔بھارت کے ساتھ بھی یہی مسئلہ ہے جو پچھلے پینسٹھ سال سے چلا آرہا ہے اب بھارت اور امریکہ دونوں کو چاہیے کہ مسئلے کے قابل عمل حل کی طرف آئیں تاکہ بد اعتمادی کی فضا ختم ہو اور ہم اپنا وہ پیسہ جو ہائی سیکورٹی پر خرچ کر رہے ہیں عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کریں۔

مسلم اُمہ کو اس وقت ضیاع کا احساس ہوچکا ہے اور وہ یہود و نصاریٰ اور غیر اسلامی قوتوں کے ہتھکنڈوں سے بھی اچھی طرح واقف ہوگئی ہے۔الحمد اﷲ ہم نے اپنی سمت متعین کرلی ہے اور اپنا قبلہ درست کرلیاہے اب ہم نے صرف صبر اور برداشت سے کام لینا ہے تاکہ شدت پسندی سے اجتناب کیا جاسکے اور انٹیلیکچوئل ہولیڈیز گزارنے کے بعد ایک نئے حوصلے اور ولولے کے ساتھ اپنے کام میں لگ جانا ہے۔اور پھر انشاءاﷲتعالیٰ ربّ العزّت کی رحمتوں سے بہرہ مند ہونا ہے۔قوم میں نہ ہمت و طاقت کی کمی ہے اور نہ عزم و حوصلے کی بس ذرا سی مہنیز کی ضرورت ہے۔اس قوم کو خدا کا خوف بھی ہے اور یہ دردِدل بھی رکھتی ہے۔
Anwar Parween
About the Author: Anwar Parween Read More Articles by Anwar Parween: 59 Articles with 40333 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.