جا دیکھا تیرا، امریکا

جب ہمارے والد کی لاش تابوت میں آئے تو ہمیں ایک گھنٹے تک اپنے والد کے تابوت کے ساتھ اکیلا رہنے دیا جائے ہم بہن بھائی اپنی والدہ کے ساتھ تنہائی میں اُس عظیم انسان سے بات کرنا چاہیں گے ،جس نے اپنی زندگی کے سکون کا ہر لمحہ ہمارے تابناک مستقبل کے لئے ہم پر قربان کر دیا ۔اپنے خاندان کی اجتماعی مسرتوں کے لئے جس نے پردیس کی تنہائی کو سینے سے لگائے رکھا ۔ہم اس عالیشان مکان میں اُن سے ملیں گے جو انہوں نے 35لاکھ روپے میں تعمیر کروا دیا ،لیکن اس میں انہیں رہنا نصیب نہ ہوا، یہ خواہش تھی اُن بچوں کی جو اپنے والد کے شفقت بھرے ہاتھوں کی لمس کو ترس گئے تھے ان بچوں کو یاد بھی نہیں کہ وہ ان کی گود میں کھیلے،کیسے اُن کی انگلی پکڑ کر چلنا سیکھا ۔کیسے اُن کے کندھے پر بیٹھ کر بازار گئے کس کس چیز کے خریدنے کیلئے انہوں نے ضد کی ،کن خواہشات کی تکمیل پر وہ پاﺅں زمین پر پٹختے ہوئے ہلکاں ہوتے رہے ، یہ افسوسناک کہانی ہے ،دینہ کے جہانگیر اعوان کی جو 1990ءمیں اپنے گھر گلشن دیس مٹی کی خوشبو اور خونی رشتوں کی بہاریں چھو ڑ کر سیاحت کے ویزے پر امریکہ آیا ۔اور اپنے پسینے سے خاندان کا مستقبل سیراب کرنے لگا۔

تنہائی میں ساکن خاموش دیواروں اور چھت سے باتیں کرنے والے عام طور پر کئی ایک موذی امراض کو سینے میں بسا لیتے ہیں اور جب تنہائی اپنوں سے دور پردیس میں ہو تو اور بھی جان لیوا ہوتی ہے جہانگیر اعوان بھی تنہائی کا روگ دل پر محسوس کر رہا تھا لیکن چہر ے پر مسرت اور زبان کی شادابی میں کسی نے اُن کے اندر کا دکھ محسوس نہیں کیا ۔اس لیے کہ وہ پردیس کا قیدی تو تھا ۔لیکن اپنے خونی رشتوں کی خوشحالی کیلئے اپنے فرائض اور پسینے کا حق ادا کر رہا تھا۔دل تو اس کا چاہتا تھا کہ وطن جا کر اپنے پیاروں کو دیکھ آئے ،لیکن وہ جا کر واپس امریکہ نہیں آسکتا تھا ۔خواب ادھورے رہ جاتے اس لئے زندگی کی بہاریں خزاں کے روپ میں دیکھے جارہا تھا ۔جہانگیر اعوان کے دوبیٹے ایک بیٹی اور شریک حیات مل کر انکی واپسی کیلئے زندگی کے دن گن رہے تھے جب کہ جہانگیر اعوان خاندان کے روشن مستقبل اور زندگی کی ضرورتوں کے لئے خود کو بھو ل گیا تھا ۔اُس نے اپنے خاندان کی ہر ضرورت کے چہر ے پر ڈالروں کے سہر ے سجادیے بچوں کی تعلیم اور اُن کی ہر خواہش کو پور ا کر دیا تھا ۔ بچوں اور شریک حیات نے وطن واپسی کا تقاضہ شروع کر دیا ۔بچے جوانی کے دہلیز پر تھے بیٹی کی رخصتی ضروری تھی۔ دو بہو رانیوں اور اُن کے بچوں سے گھر کا آنگن سجاناتھا۔ اس لیے اُس نے وطن واپسی کا فیصلہ کر لیا ۔ اُس نے پاسپورٹ بنوایا۔اور اپنے 20سالہ پردیس کی زندگی کو سمیٹنے لگا اُس کے چہرے پر وطن واپسی کی مسرت کھیل رہی تھی ۔

زندگی کچھ تو احساس کر لیا ہوتا،ایک بار دیکھتی آنکھوںسے اپنے پیاروں کے گلنار چہرے دیکھنے کا موقع تو دے دیا ہوتا،اگرپچپن سال تک اپنے جسم کے قالب میں تجھے پناہ دے کر تیری ہر خوشی کیلئے تجھے اپنا سب کچھ دیدیا تھا ۔تو صرف ایک ماہ کی توبات تھی دل دھڑکنوں کو پُر مسرت چہروں سے ملاقات میں لطف اندوز تو ہو لینے دیتی ،تیری بے وفائی پر تو ایسا یقین ہے ،جیسے خدا واحد کی ذات پر ،تجھے جانا تو تھا ہی ،لیکن ایسی بھی کیا جلدی تھی۔

جانے کونسا اذیت ناک لمحہ تھا ، جانے وہ کون سی خوشی تھی،جو 20سال تک پر دیس میں اُس کے وجود میں دھڑکنے والا دل برداشت نہ کر سکا ،دل نے دھڑکنا بند کر دیا ،گھر میں اکیلا تھاکون جانے وہ کس اذیت میں رہا ہو گا۔حسرت بھرے جنگل میں اُس کی جان نکلی ہو گی شاید زندگی اور دل بدبخت نے اُسے مدد کیلئے فون پر کسی سے رابطے کا موقع نہیں دیا ہوگااورجب اُس کا دوست کا م پر سے واپس آیا ۔تو اُسے جہانگیرا عوان کی بے جان لاش کی کھلی آنکھوں میں پاکستان نظر آرہا تھا ۔
Gul Bakshalwi
About the Author: Gul Bakshalwi Read More Articles by Gul Bakshalwi: 5 Articles with 4792 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.