جنت میں کیا ہو رہا ہے؟

مجھے ایک فکرانگیز ای میل موصول ہوئی ہے، جو میں اپنے قارئین کی نذر کر رہا ہوں۔ اس واقع میں کتنی صداقت ہے، کچھ نہیں کہہ سکتا تاہم اس کے مندرجات سے آپ سب اتفاق کریں گے اور آپ کو بہت کچھ سوچنے، سمجھنے اور اپنے رویئے درست کرنے میں مدد ملے گی۔

ایک رات میں نے خواب میں دیکھا کہ میں جنت میں موجود ہوں اور ایک فرشتہ راہبر کے طور پرمجھے جنت کے مختلف مقامات سے متعارف کروا رہا ہے۔عمومی تعارف کے بعد میں اس کے پیچھے چلنے لگا، وہ ایک بہت بڑے کمرے کے سامنے رُک گیا، اس نے بتایا کہ یہاں انسانوں کی طرف سے مانگی گئی تمام دعائیں وصول کی جاتی ہیں۔ میں نے اندر جھانکا تو حد نگاہ تک فرشتوں کا ایک ہجوم کام میں مصروف تھا، دنیا بھر سے انسانوں کی دعائیں اور حاجات جو اللہ تعالیٰ سے کی گئیں تھیں ان کی چھانٹی کی جارہی تھی اور انہیں ترتیب سے رکھا جا رہا تھا۔ہر فرشتہ ہمہ تن مصروف تھا، درخواستوں کا اندراج ایک بہت طویل کاغذ پر کیا جا رہا تھا، یوں لگتا تھا کہ پوری کائنات کا ریکارڈ مرتب ہو رہا ہے۔ اس کے بعد ہم آگے چلے تو فرشتہ ایک جگہ پھر رکا میں نے کمرے میں جھانکا تو یہاں بھی حد نگاہ تک فرشتوں کا ایک لشکر کام میں مصروف تھا، چھوٹے بڑے پیکٹ بنائے جارہے تھے، خوبصورت پیکنگ کے ڈھیر لگائے ہوئے تھے، کہیں پیکنگ ہو رہی تھی اور کہیں پیک شدہ میٹیریل کو ڈیلیوری کے لیے جمع کیا جا رہا تھا۔ مجھے بتایا گیا کہ یہ ڈیلیوری اور پیکنگ روم ہے، جہاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور نعمتیں مانگنے والوں کو عطا کی جاتی ہیں۔ یہاں بھی کام کا بہت رش تھا اور فرشتوں کی ایک بہت بڑی ٹیم اپنے فرائض انجام دے رہی تھی۔ محنت او ر فرائض کی ادائیگی کا ایک عمدہ نمونہ دیکھنے کو ملا اور اندازہ ہوا کہ فرض اور اس کی ادائیگی کس طرح ہوتی ہے۔

ہم وہاں سے نکل کر آگے بڑھے، ایک طویل راہداری سے گزرنے کے بعد مجھے ایک چھوٹے سے کمرے کے سامنے روکا گیا، اندر جھانکا تو ایک فرشتہ بالکل فارغ ، جیسے کسی کام کی انتظار میں ہو، اپنے دفتر میں بیٹھا تھا۔میں حیران ہوگیا کہ ایک طرف لاکھوں کی تعداد میں فرشتے کوئی لمحہ ضائع کیے بغیر مسلسل کام میں مصروف ہیں اور دوسری طرف ایک فرشتہ فارغ کیوں ہے۔ کیا یہاں بھی وقت گزاری کے لیے دفاتر کھلتے ہیں۔ میرے گائیڈ فرشتے نے مجھے بتایا کہ یہ دفتر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں کو بھیجی گئی نعمتوں اور رحمتوں کے جوابات حاصل کرنے کا ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں فرشتے لمحہ بہ لمحہ جو کچھ انسانوں کی طرف بھیج رہے ہیں، انسانوں کی طرف سے اپنے رب کو جو وصولی کی رسیدیں موصول ہوتی ہیں، یہ فرشتہ ان کی انتظار میں ہے، جو کچھ موصول ہوتا ہے اس کا ریکارڈ مرتب کرتا ہے۔ میں حیران تھا کہ لاکھوں کے تعدا د میں رحمتیں اور نعمتیں ہر لمحہ انسانوں کی طرف بھیجی جارہی ہیں لیکن انسانوں کی طرف سے یہ سب کچھ وصول کرکے رسید دینے کا عمل اتنا سست کیوں ہے۔ میں نے فرشتے سے پوچھا کہ انسان یہ رسید کیسے دیتا ہے تو اس نے بتایا کہ بس جب کسی کو اللہ کی طرف سے کوئی نعمت موصول ہو اور وہ الحمداللہ کہہ دے تو اس کا ریکارڈ اس کمرے میں مرتب ہو جاتا رہتا ہے۔یعنی جو انسان اللہ کی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرے تو اس طرح وہ ان نعمتوں کی رسید دے دیتا ہے۔

اس فرشتے نے مجھے بتایا کہ اگر تمہارے فریج میں آج کے کھانے کا سامان موجود ہے، تمہارے جسم پر کپڑے اور سونے کی محفوظ جگہ ہے تو تم دنیا میں 75فیصدلوگوں سے زیادہ امیر کبیر ہو۔اگر آپ کے بینک میں کچھ بچت اور آپ کے پاس کچھ نقدی موجود ہے تو آپ دنیا کے ان 8 فیصد لوگوں میں شمار ہوتے ہیں، جو آج کی ضروریات پوری کرنے کے بعد کل کے لیے بھی کچھ بچا رکھتے ہیں نیز اگر آپ کے پاس کمپیوٹر ہے اور ای میل موصول کر رہے ہیں تو آپ کا شماردنیا کے صرف ایک فیصد میں ہوتا ہے۔ اگر آپ نے پوری صحت اور توانائی کے ساتھ صبح کا آغاز کیا تو ان سے زیادہ نعمت یافتہ ہو جو آج کے دن زندگی کی بازی ہار گئے یا بیماری کی وجہ سے گھر سے باہر نہیں نکل سکے۔اگر آپ کو جنگ میں مرنے، قید میں رہنے اور بھوک سے مرنے کا خوف لاحق نہیں، اگر آپ بغیر کسی خوف کے مساجد میں نماز ادا کرلیتے ہیں تو پھر دنیا کے تین ارب انسانوں سے زیادہ خوش قسمت ہیں۔اگر آپ کے والدین زندہ ہیں اور اکٹھے رہتے ہیں تو پھر بھی آپ دنیا کے چند ایک خوش نصیب لوگوں میں سے ہیں۔

اگر آپ کو اللہ تعالیٰ کی پہچان، اس کے رسولوں کا تعارف، اللہ کی کتابوں کا علم، فرشتوں کے بارے میں معلومات، مرنے کے بعد حساب کتاب اور اچھے برے عمل کا اجر اور عذاب کے بارے میں مکمل معلومات ہیں اور آپ ان پر یقین بھی رکھتے ہیں تو پھر آپ کا شمار دنیا کے پانچ فیصد با شعور لوگوں میں ہوتا ہے، جو کائنات کی سب سے بڑی حقیقت سے متعارف ہیں اور اسے دل و جان سے قبول بھی کرتے ہیں۔اگر ہم سب لوگ اس قدر باشعور بھی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی نعمتیں اور برکتیں بھی حاصل ہیں تو پھر ہم اس کا شکر کیوں نہیں ادا کرے؟

آخری بات یہ کہ ہم میں سے ہر انسان یہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی دعائیں بروقت سنے ،رحمت فرمائے اور بروقت ہمارے مسائل حل کرے تو پھر ہم میں سے کتنے ہیں جو بروقت اللہ تعالیٰ کی پکار پر لبیک کہتے ہیں اور نماز کے لیے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اللہ کے حضور حاضری دیتے ہیں؟
Atta ur Rahman Chohan
About the Author: Atta ur Rahman Chohan Read More Articles by Atta ur Rahman Chohan: 129 Articles with 106413 views عام شہری ہوں، لکھنے پڑھنے کا شوق ہے۔ روزنامہ جموں کشمیر مظفرآباد۔۔ اسلام آباد میں مستقل کالم لکھتا ہوں۔ مقصد صرف یہی ہے کہ ایک پاکیزہ معاشرے کی تشکیل .. View More