پھر قافلے چلے۔سفر نامہ حج۔ چھٹا حصہ

یو م النحر( ۰۱ذو الحج)
معزز قارئین! یہ سارے کام حج کی ٹریننگ لیتے وقت بہت آسان محسوس ہورہے تھے مگر اس وقت تو پہاڑ لگ رہے تھے خصوصاً اس قدر بوجھ کے ساتھ! یہ سب کچھ اس وجہ سے ہوا کہ ہم نے اپنا سامان منی ٰ میں نہیں چھوڑا مگر اس کی صورت حال تو ہم عرض کرہی چکے ہیں ۔اﷲمنتظمین کو نیک توفیق دے ! انہوں نے ہمیں بیسویں صدی میں کیے جانے والے حج کا مزہ چکھادیا۔”مشقت میں اجر ہے “کے خیال نے ہماری ہمتوں کو پست ہونے سے بچائے رکھا مگر شیطان کے حربے؟ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ یہاں اس کا کیا کام؟مگر یہاں تو وہ سب سے زیادہ حملہ آور ہونے کی کوشش کرتا ہے جیسے زخمی حیوان !

اب ہم نے مزدلفہ چھوڑنے کا سفر انہی حالات میں شروع کیا جن میں عرفات چھوڑا تھا ،یعنی کیچڑ اور گندگی! راستے میں فریش ہونے کے بعد چائے پی۔پھر تازہ دم ہوکر جانب منٰی ہوئے۔ نسبتاً صاف ستھرے علاقے میں پہنچ کر معلوم ہوا کہ ہم اپنی منزل کے قریب ہی ہیں ۔ اس موقع پر بھوک اور تھکن نے غالب آکر ہم سب کو مجبور کردیا کہ کچھ سستا کر اور کھاپی کر آگے بڑھیں ۔ یہ فیصلہ اس لیے نامنا سب رہا کہ اس چکر میں ہم بری طرح رش میں پھنس گئے۔ کافی جدوجہد کے اس سے نکلے تو پھر یہ طے کیا گیا کہ قریبی خیموں میں بیٹھیں اور ٹھہر کر آگے بڑھیں ! مناسب جگہ کی تلاش پہاڑ سر کرنے کے مترادف تھا اسلئے کہ خالی جگہوں میں لوگوں نے چھوٹے چھوٹے خیمے لگا رکھے تھے اور جو جگہ بچے وہاں کوڑا کرکٹ تھا ۔ اس ڈسپوزایبل کلچر نے انسان کو آسانیاں دے دی ہیں مگر زمین کا حال برا کردیا ہے! کھانے میں دال چاول کھا کر مزہ آگیا ۔وہی بنی اسرائیل کا سا حال کہ اپنی زبان کے ذائقے اور چٹخارے کے لیے بےتاب! فریش ہونے کے لیے قریبی خیموں کا رخ کیا مگر اجازت نہ پا کر ناکام لوٹے۔

ب ہم نے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا مگر اس سے پہلے سامان کو کسی محفوظ جگہ رکھنے کے لیے کا فی دور جانا پڑا۔ اس کے بعد ہلکے پھلکے ہوکر شیطان سے نبٹنے کو روانہ ہوئے۔ا س وقت تک رش کم ہوچکا تھا اور شیطان صبح سے مارکھا کھا کر تھک چکا تھا لہذا بآسانی ہم سے بھی کنکریاں کھالیں ۔ اب ہم ٹہلنے کے سے انداز میں واپس ہوئے۔ اس وقت بے ٹھکانہ تھے اور اپنے دائیں بائیں بارونق ، باوسائل خیموں UPDATاور ان میں موجود لوگوں کو دیکھ رہے تھے !مکتب نمبر ایک، جمرات سے بالکل قریب پاکستانی پرائیوٹ حاجی تھے جن کا آپریٹر ایک سا بقہ گلوکارہے مگر اب اﷲ کی توفیق سے تبلیغ کا کام کر رہا ہے ،جس کے بوتیک خصوصاً کُرتے نہا یت مہنگے داموں مگر ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے ہیں ! ان سے صرف اتنا عرض کر نا ہے کہ اللہ کم ازکم یہاں تو کلاس سسٹم سے باز رہیں! اس دربار میں تویہ تفریق نہ ہو!! آسائشوں بھرے پیکیج انسانوں کو ایک دوسرے سے کتنا دور کر دیتے ہیں؟آرائشی لائٹوں اورمحرابوں والے خیمے! حاجیوں کو گفٹ دینے والے !کتنا فرق ہے عوام اور خواص کے حج میں! ہم نے اردگرد نظر ڈالی، نہ جانے اپنے اپنے مقام پر کتنے ہیرے ہوں گے جواس وقت کنکریوں میں رل رہے تھے صرف اﷲکو راضی کرنے کے لیے!

چلتے چلتے مسجد خیف آگئے۔یہاں نماز ظہر ختم ہوچکی تھی ۔وضو کرنے ہم واش روم گئے تو نہانے اور کپڑے بدلنے کے لیے مناسب ماحول پایا ۔ سخت افسوس آیا کیو نکہ ہمارالباس تو اس ساما ن میں تھا جو ہم ابتدا میں جمع کرواچکے تھے۔ ظہر کی نماز ادا کرنے اندر پہنچے تو جگہ ندارد ! لوگ لمبے لمبے سو رہے تھے ۔ خیر کسی طرح تحیةالمسجد اور ظہر ادا کی ۔ اب ہمیں حلق کرناہے مگر اس سے پہلے قربانی کی خبر لیناہے۔ جن کے ذریعے ہورہی تھی وہ ہمارے رمی کرنے کے منتظر تھے لہذا اطلاع پاتے ہی ہم اس کام سے بھی فارغ ہوئے۔بے چارے ہمارے گروپ ممبران کئی گھنٹے پہلے ہی رمی کرچکے تھے مگر ظاہر ہے جب اجتماعی طور پر ہورہی تھی تو سب کی ہونے کے بعد ہی ہوسکتی تھی ۔( قربانی کرنے والے کا رابطہ صدیق بھائی سے تھا جو ہمارے ساتھ تھے) شیطان نے پھر اپناوار کیا اب کیسے فون کیا جا رہا ہے ؟کل سے توکوئی فکر نہیں تھی ہماری!! ( بعد میں پتہ چلا وہ لوگ خود بہت مشکلات میں تھے۔ )

اب ہمیں سامان حاصل کرکے مکہ جاناہے تاکہ طواف زیارت ( حج کا دوسرا بڑا رکن) کرسکیں ۔ اس میں دراصل پورا عمرہ کرنا ہے جیسا کہ قول نبیﷺہے کہ عمرہ آج حج میں داخل ہوگیاہے۔ سا مان کے حصول کے لیے پھر پیدل مارچ شروع کی۔ سامان لے کر گاڑی کی تلاش میں چلے ۔ کتناچلے؟۰۱، ۵۱کلومیٹر؟ پیمائش تو نہ کرسکے مگر جب جسم کے ہرخلیے نے جواب دیناشروع کر دیا تو ٹیکسی ملی۔ ڈھائی سو ریال میں! ہم پانچوں بمع سامان اس میں لدگئے ۔ عصر کی اذان ہوچکی تھی مگر ہوٹل پہنچ کر ادا کرنے کا فیصلہ ہوا۔ ٹیکسی ڈرائیورایک نوعمر چلبلا سا عربی تھا۔ بےحد رف ڈرائیونگ کے سا تھ اس نے جب اجنبی راستوں کا انتخاب کیا تو ہم سب خوفزدہ ہوگئے۔ توجہ دلانے پر اس نے اپنے موبائل پر کسی اردو جاننے والے سا تھی سے رابطہ کروایا تاکہ اس کو راستہ سمجھا سکیں ۔ دراصل حج کے دنوں میں کچھ لوگ آمدنی کے لیے یہ کام کرنے لگتے ہیں دوسرے یہ کہ رش کی وجہ سے نسبتاً دور کی سڑکوں پر جانے کی وجہ سے مشکل ہورہی تھی۔ خیر جب بلڈنگ نظر آئی تو جان میں جان آئی! اس نے بھی ہنستے ہوئے کچھ کہا جس کا مفہوم یہی تھا کہ آپ لوگ ناحق میری مہارت پر شک کر رہے تھے!

یہاں ہمارے گروپ لیڈرکے علاوہ ایک اور ممبرمعہ اہلیہ موجود تھے ۔ جلدی سے وضو کرکے نماز عصر پڑھی کیونکہ مغرب ہونے ہی والی تھی۔ غسل کرکے کپڑے تبدیل کیے۔ مرد حضرات کھانے کی تلاش میں نکلے کیونکہ ہر طرف سناٹا تھا ساری پبلک تو وادی منٰی میں موجود تھی۔ خیر جب تک کھانا آیا ہم سوچکے تھے۔ رات گیارہ بجے ہڑبڑا کر اٹھے کہ ہمیں تو حرم پہنچناہے کہ عمرے سے فارغ ہوکر فجر سے پہلے پہلے منٰی واپس ہوسکیں! نو افراد کا قافلہ حرم کی جانب روانہ ہوا۔

سعی کے دوران ہم تینوں بچھڑ گئے تھے چنانچہ یہ طے کیا کہ جو لوگ فارغ ہوچکے ہیں وہ چلے جائیں! اورجب ہم یکجا ہوئے توپھر روانہ ہوئے۔ تہجد کی ان گھڑیوں میں ہم منٰی کی جا نب رواں دواں تھے۔ کافی آگے آکر ایک گاڑی ملی ۔ اس میں ہمارے علاوہ ٹی وی ون کے رپورٹر معہ اہلیہ اور ایک لاہور کی فیملی بھی سوار ہوئی۔ رپورٹر صا حب نے یہاں کے انتظامات کے حوا لے سے اپنی رپورٹنگ کی کارکردگی کے بارے میں بتایا اورکرایہ پر ڈرائیور سے کافی بحث کی اور بالآخر اٹھارہ ریال فی فرد کے حساب سے ادائیگی ہوئی۔ گاڑی نے دور اتارا کیو نکہ آگے داخلہ منع تھا لہٰذا باقی راستہ پیدل طے کیا۔

جاری ہے
Farhat Tahir
About the Author: Farhat Tahir Read More Articles by Farhat Tahir: 72 Articles with 74723 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.