”موسٹ فیورٹ نیشن“ ، ”کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک“

وفاقی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے قومی اسمبلی کو حکومت کی طرف سے مطلع کیا ہے کہ بھارت کو تجارت کے لئے پسندیدہ ملک قرار دینے کا اصولی فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ بھارت کے ساتھ دو طرفہ مکمل تعلقات کی بحالی چاہتے ہیں۔ملک کی پہلی خاتون وزیر خارجہ نے کہا کہ تاریخ میںپہلی مرتبہ بھارت کے وزیر خارجہ نے نیویارک میں پاکستانی وزیر خارجہ کی دعوت قبول کی ۔انہوں نے کہا کہ دوسالہ تعطل کے بعد مذاکرات شروع ہوئے ہیں اور کہا کہ اولین ترجیح مذاکرات میں تعطل نہ آنے دینا ہے تا کہ بنیادی مسئلہ کشمیر حل ہو سکے۔وزیر خارجہ نے کہا کہ بھارت کے ساتھ تنازعات میں مثبت اشارے مل رہے ہیں۔مذاکراتی عمل میں کشمیریوں کو بھی شامل کر نا چاہتے ہیں۔

دو مال قبل سے ہی پاکستان کی طرف سے اس بات کے اشارے دیئے جا رہے تھے کہ 2011ءکا سال ختم ہونے سے پہلے بھارت کو ”موسٹ فیورٹ نیشن “ کا درجہ دے دیا جائے گا۔ وفاقی وزیر تجارت مخدوم امین فہیم کے دورہ بھارت کے موقع پر بھارتی کامرس وزیر آنند شرما کے ساتھ ملاقات میں اس کا باقاعدہ اعلان کریں گے اور یہ کہ وفاقی سکیرٹری کامرس ظفر محمود اپنے بھارتی ہم منصب راہول کھلار کے ساتھ اس پر کام کر رہے ہیں۔پاکستان کی طرف سے بھارت کو ”پسندیدہ ملک “ قرار دینے سے بھارت کو ’لوئر ٹیرف ‘پر ’ ہائیر امپورٹ ‘ کوٹہ حاصل ہو جائے گا ۔جبکہ پاکستان نے جوابی طور پر بھارت سے ’نان ٹیرف ‘ پابندیاں اٹھانے کو کہا ہے ۔2009-10ءمیں پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارت کا حجم1.85بلین ڈالر رہا جس میں بھارتی برآمدات 1.70بلین ڈالر رہی ۔یعنی پاکستان کی برآمدات صرف.70بلین ڈالررہی۔

اس حقیقت کا اعتراف وفاقی وزیر خارجہ نے بھی کیا کہ ابھی پاکستان اور بھارت کے درمیان دو طرفہ مکمل تعلقات بحال نہیں ہیں۔دونوں ملکوں میں عوام کے آنے جانے پر سخت پابندیاں دونوں ملکوں کے درمیان فاصلے قائم رکھنے کی پالیسیوں کا اظہار ہے۔ایسی صورتحال میں بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینا کیا معنی رکھتا ہے خصوصا اس صورت کہ پاکستان بھارتی مصنوعات کی ایک بڑی منڈی بن جائے گا اور پاکستان بمشکل چند اشیاءہی بمشکل بھارت برآمد کر سکے گا۔واضح رہے کہ بھارتی وزیر اعظم لاہور مینار پاکستان آئے لیکن نواز شریف نے بھارت کو پسندیدہ ملک کا درجہ نہیں دیا۔سابق مشرف حکومت نے مذاکرات کے لئے بھارتی شرائط کو تیزی سے تسلیم کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ مسئلہ کشمیر کا حل تقریبا تیار کر ہی لیا تھا لیکن اس آمر حکومت نے بھی بھارت کو تجارت کے لئے پسندیدہ ملک قرار نہیں دیا۔

وفاقی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ یہ سب اس لئے کیا جا رہا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان مکمل تعلقات بحال ہو جائیں اور اس سے مسئلہ کشمیر کے حل کی کوئی راہ نکلے گی۔ مسئلہ کشمیر کا حل تو دور کی بات کشمیریوں کو فوج اور خصوصی ظالما نہ ملکی قوانین سے جبر کا نشانہ بنانے کی بھارتی پالیسی بدستور جاری ہے۔ وزیر خارجہ کے اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان سابق مشرف حکومت کی طرح مذاکرات جاری رکھنے کے لئے بھارت کی تمام شرائط کو تسلیم کر رہا ہے۔ مذاکرات کے لئے بھارت کی شرائط تسلیم کرتے کرتے ہم کہاں پہنچ جائیں گے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ پاکستانی حکومت کے اس نئے سٹینڈ کہ بھارت سے مکمل تعلقات کی بحالی پر مسئلہ کشمیر کے حل کی کوئی راہ نکل آئے گی، سے مجھے2004ءمیں نئی دہلی میں انڈین کانگریس کے چند دانشوروں سے ڈائیلاگ کی طویل نشست یاد آگئی۔کانگریسی دانشوروں سے ہماری گزارش یہی تھی کہ اگر بھارت حقیقی طور پر پاکستان کے ساتھ اچھے ہمسائے کے دوستانہ تعلقات کا قیام چاہتا ہے تو وہ کشمیر کو ہی دوستی کا پل بنا لے۔جبکہ ان کے دلائل،طویل گفتگو اسی نکتے کے گرد گھومتی رہی کہ بھارت اور پاکستان مختلف شعبوں میں اچھے تعلقات قائم کرنے پر توجہ دیں،مسئلہ کشمیر کو بھول جائیں،ایک وقت آئے گا کہ مسئلہ کشمیر ہی بے معنی ہو جائے گا۔یہ ہے بھارت کی وہ سوچ جو اس کی پالیسی میں بھی نظرآتی ہے اور ایک ہمارے ارباب اختیار ہیں جو ’انڈین مائینڈ‘ کو ’انڈر سٹینڈ‘ نہیں کرتے۔ ملک میںاپنی بداعمالیوں کے نتائج لئے بھارت کی ہر شرط کے پیچھے چلنے کو تیار ہیں جس سے بھارت مذاکرات جاری رکھنے پر راضی رہے۔مذاکرات کی تعطلی کا خوف پاکستانی اسٹیبلشمنٹ پر حاوی نظر آتا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ جنوبی ایشیاءکے مفلوک عوام کو ترقی خوشحالی کی ضرورت ہے اور تمام خطہ پاکستان اور بھارت کی دوستی کی صورت بے مثال ترقی کر سکتا ہے ۔لیکن جس طرح تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی اسی طرح پاکستان کی طرف سے ہر شرط کو قبول کر لینا کمزوری اور پسپائی کا واضح اظہار ہے۔بھارت کی طرف سے ابھی تک اس طرح کے کوئی اشارہ نہیں کہ وہ پاکستان کے ساتھ سنگین تنازعات بشمول مسئلہ کشمیر منصفانہ اور انسانی بنیادوں پر حل کرنے کا خواہاں ہے۔ہاں بھارت مسئلہ کشمیر حل کرنا چاہتا ہے لیکن اپنی شرائط پر۔پاکستان نے سندھ طاس معاہدہ کرتے ہوئے کشمیر کے دریاﺅں کی بندر بانٹ سے کشمیر پر بھارتی قبضے کو بلواسطہ تسلیم کر لیا تھا۔اب بھارت کو تجارت کے لئے پسندیدہ ملک قرار دیتے ہوئے یہ بھارت پر ہی چھوڑ ا جا رہا ہے کہ وہ کشمیر کا مسئلہ کس انداز میں حل کرنا پسند کرتا ہے۔بھارت سے اس طرح کے معاہدے ریاست کشمیر کے مسئلے کو موجودہ تقسیم کی بنیاد پر ہی حل کرنے کے اشارے دیتے ہیں۔ ہاں کشمیر پر موقف میں کوئی تبدیلی نہ آنے ،اقوام متحدہ کی کشمیر سے متعلق قراردادوں پر کابند رہنے اور مذاکرات میں کشمیریوں کو شامل کرنے کے بیانات پر مبنی وزارت خارجہ کے ”لالی پاپ“ عوام کو بے خبر رکھنے اور مطمن کرنے کے لئے کافی ہیں۔یہ پاکستان کی ایک ایسی کمزور بدعنوان حکومت کا اقدام ہے جس کی کارکردگی ملکی سطح پر ناکامیوں اور تباہی سے عبارت ہے،حکومت کا یہ فیصلہ سندھ طاس معاہدے کی طرح پاکستان اور کشمیریوں کے لئے طویل المدتی اور ناقابل تلافی نقصانات پر منتج ہو سکتا ہے۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 770 Articles with 620057 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More