اہل اقتدار سے ایک سوال تعلیم اور پاکستان

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں تعلیم اور اعلیٰ ترین تعلیم کی صورتِ حال کسی باشعور( اب تو بے شعور کو بھی معلوم ہے تعلیم کی اہمیت) سے چھپی ہوئی نہیں ہمارے ملک میں معیار تو ایک طرف حصولِ علم کا کم تر درجہ بھی ایک خواب بن گیا۔ چہ جائیکہ کہ بہترین معیار، دوسری طرف صورتِ حال ایسی ابتر اور بگڑی ہوئی نہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ پاکستان اعلیٰ تعلیم کے فروغ میں سنہری باب رکھتا تھا۔۔۔۔ جس کا اعتراف عالمی سطح پر بھی کیا جاتا تھا۔ بہت سے نئے ارادے، اکیڈمیاں، یونیورسٹیز اور کالج کی سطح پر کھولے گئے۔۔۔ بیرون ملک وظائف قاہر ممکن فروغ ہوا۔۔۔ ساتھ ساتھ اداروں کو خاص کر بڑی کے وسائل میں حیران کن اضافہ ہوا۔۔۔ اور ادارے اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے لگے۔۔۔ مگر! پاکستان میں تعلیمی شعبہ کبھی بھی حکمرانوں کی خصوصی توجہ کا مستحق نہیں رہا۔۔۔ آج سے نصف صدی پہلے تک تو حالت زاریہ تھی کہ کابینہ کی تشکیل کے وقت کوئی شخص وزیر تعلیم کا قلمدان سنبھالنے پر تیار ہی نہ ہوتا تھا۔۔۔ جس ملک میں تعلیم کا شعبہ قابل ذکر اور قابل توجہ نہ ہو وہاں نصابِ تعلیم کی کیا اہمیت ہو سکتی ہے۔۔۔ سوال اوپن ہے، مگر سوچنے کی فرصت کس کو ہے؟ جس ملک میں کروڑوں افراد بنیادی ضرورت(روٹی کپڑا مکان) سے محروم ہوں۔۔۔ خودکشی عام ہو، تعلیم کیا اُن کا پیٹ بھر سکتی ہے۔ ایسے میں تو الف اللہ کو بھی بھول کر مجبور حرام موت کو زندگی پر ترجیح دیتے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم کا مختص بجٹ کہیں اور استعمال کیا جاتا ہے۔ جس سے حق دار محروم رہتے ہیں۔ سفینۂ علم بھنور میں ہلکورے لے رہا ہے۔ زرخیز دل زمین رکھنے والے تارہ خون کی بجائے اپنے جسم میں زہر ناکی تو پھیلا رہے ہیں اور اس کی جڑیں ان کے وجود کو کھوکھلا کر رہی ہیں۔۔۔ نسل برباد ہو رہی ہے۔ زرخیز زمین کی تخلیقات ہی ترقی کی بنیاد بنتی ہیں بنجر دل و دماغ تو تباہی و بربادی کا راستہ دکھاتے ہیں۔۔۔ اب بھی اگر اربابِ اختیار نے تعلیم اور اُس بہترین پالیسی کی طرف توجہ نہ دی تو بے سحت مسافر بھی منزل رک نہ پہنچ سکیں گے۔۔۔ آج سے دس برس پہلے ہماری اعلیٰ تعلیم کی رسائی23فیصد تھی۔ جو اب 45فیصد تک ہو گئی ہے۔ جب کہ ہمسایہ ملک میں 22فیصد سے 68فیصد تک ہے۔۔۔ ہمارے پیارے ملک کی تقریباً 2کروڑ کے قریب نوجوان نسل جنگل میں بھٹکتی پھر رہی ہے۔ قیمتی سرمایہ کروڑوں کے مول بھی کوئی لینے کو تیار نہیں۔

مملکت خداداد پاکستان کی تعلیم کی صورت حال پر دل خون کے آنسو رورہا ہے۔ ہمارے اعلیٰ ترین رہنما۔۔۔ سیاستدان، دانشور قلمکار، مذہبی رہنما۔۔۔ مدبر اساتذہ کرام وفاقی و صوبائی حکومتیں محکمہ تعلیم ٹیکسٹ بک بورڈ اور نصابی کمیٹیاں۔۔۔ کس کس کا ذکر کروں آوے کا آوا بگڑا پڑا ہے۔ یا رب العالمین ہمارے چرواہے کو سیدھا راستہ دکھا۔۔۔ تاکہ ہم منزل مراد پاسکیں۔ ایک قومی نصب العین کی پیروی کرنے کے قابل ہو سکیں۔۔۔ الگ الگ قومی اور صوبائی لاگرنہ الاپیں، ایک سیدھی لائن کا انتخاب کریں۔ ایک نصاب پر اکتفا کریں۔ چار نظام ہائے تعلیم سینر کیمرج، اردو میڈیم، انگلش میڈیم درس نظامی کے نتائج نے قوم کو اپاہج بنادیا۔۔۔ قومی انتشار میں مبتلا کردیا۔ اور ذہنی خلفشار نے فشارخون بڑھادیا۔۔۔ کس سے مدد مانگیں کہ تعلیم ہمیں صحیح علم کی راہ دکھا سکے۔۔۔ کون بڑھے گا آگے۔۔۔ اہلِ ارباب و قتدار بڑھو آگے کہیں ناخواندگی کا سیلاب تمہاری طرف نہ بڑھ جائے۔۔۔ بچے کچے عزیز وطن کی اینٹ سے اینٹ پھر جوڑ دو۔ کہیں رسوائی کا طوق ذلیل و خوانہ کردے۔۔۔ اقتدار نہیں ملک بچاؤ اور ملک بچانے کا واحد راستہ تعلیم پر توجہ دو۔۔۔ خدارا۔۔۔ توجہ دو۔

اربابِ اقتدار کو Reverse Gair لگاتا ہوگا۔۔۔ کہ مغرب کے اندھا دُھند تقلید صرف تباہی کا گڑھا ہے اور کچھ نہیں۔۔۔ محروم وبے بس لگوں کی دادرسی کرنا ہوگی۔۔۔میرا طالب علمی کا زمانہ بہت پرانا نہیں۔۔۔ مگر جو بھی تھا سرکاری سکول اس قدر معیاری تعلیم دے رہے تھے کہ مجھے آج قلم اُٹھانا ہی پڑا کہ معیار اپنا اظہار ضرور کرتا ہے اور اپنے بزرگوں اور والدین کے زمانے کو دیکھوں تو کیا ہی بات کہ آج بھی اُن کی نسل کے لوگ سیاسی، سرکاری، تعلیمی، سائنسی، صنعتی، عدالتی اور ادبی بلکہ سبیط آسمان پر اب بھی مانندِ ستارہ چمک رہے ہیں۔ ان کی طویل فہرست انہی اداروں کی تربیت یافتہ ہے۔ کاش حکمران اپنی علمی عمارتوں کو کھنڈر بنتا نہ دیکھیں ان کی مضبوط بنیادوں کو پانی کی ضرورت ہے ان کے حصے کا پانی انہیں دے دیں ورن کوئی سیلات زدہ پانی انہیں سٹور کام بنا دے گا(اب بھی کتنی ہی عمارتیں سٹور بن چکی ہیں) ان کی کھوئی ہوئی عظمت خداراہ واپس بحال کرو۔۔۔ غریب کی مذمت کی شمع اگر دل دل میں روشن ہے تو یہ روشنی، نور کا بہترین ذریعہ ہے۔

تعلیم منور کرنے کے لیے صرف جذبے کی ضرورت ہے اور وہ جذبہ جگالیجئے یاد رہے کینوس پر خالی رنگ پھینک دینے سے خوبصورت نہیں بنتا کوئی مکمل شکل اُسکی خوبصورتی کا اظہار کرتی ہے!۔۔۔ فرائض کی ادائیگی میں چوٹ کھایئے پھر اُس زخم کی لذت دیکھئے انجام بخیر ہوگا۔
خدا رحم کرتا نہیں اس بشر پر
نہ ہو درد کی چوٹ جس کے جگر پر
پروفیسر میڈم نعیمہ راؤ
About the Author: پروفیسر میڈم نعیمہ راؤ Read More Articles by پروفیسر میڈم نعیمہ راؤ: 17 Articles with 12948 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.