ُٓمنشیات اور ہماری نوجوان نسل

پا کستان میں سیاسی ،معاشی مسائل تیزی سے پروان چڑھ رہے ہیں اوران کے نتائج سے ملک وقوم دونوں بُری طرح متاثر ہورہے ہیں وہ اپنی جگہ اہم ہیں ان مسائل کے ساتھ وہ مسائل بھی بہت اہم ہیں جن کا بظاہر سیاست یا معیشت سے تو اتنا گہرا نہیں تعلق نہیں ہے البتہ معاشرے اور معاشرت سے بہت گہرا تعلق ہے،ان مسائل میں سے ایک مسئلہ منشیات کا بھی ہے بے شک منشیات کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے منشیات کا استعمال انسانوں میں ہر دور میں کسی نا کسی طرح ،کسی نا کسی شکل میں رہا ۔۔۔۔۔۔۔۔قدیم یونان سے لے کر آج کے جدید معاشرہ تک یہ کہیں تسکین وراحت کا ذریعہ ہے تو کہیں طب کے توسط سے مسیحا۔۔۔۔۔۔۔۔!!لیکن منشیات کی لت (addiction)انسان کو دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے اور اس کے مدافعتی نظام کو کھوکھلا کر دیتی ہے بد قسمتی سے پاکستان کا شمار چند ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں منشیات کا استعمال تیزی سے نوجوان نسل میں پھیل رہا ہے تو دوسری طرف پاکستان میں منشیات کا کاروبار بڑے پیمانے پر کیا جا رہا ہے اور منشیات کی وسیع مارکیٹ موجود ہے جہاں سے منشیات دوسرے ممالک کو بھی اسمگل کی جاتی ہے اور اگر ہم پاکستان کو منشیات کا ایک بڑا (exporter)کہیں تو غلط نہ ہوگا!!

منشیات کا پاکستان میں آغاز سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کے نتیجے میں پناہ لینے والے افغان مہاجرین کے ذریعہ ہوا،اس سے قبل پاکستان کی آبادی کی غالب اکثریت ہیروئن نام کی چیز سے اجنبی تھی۔لیکن آج ہر ایک اس سے واقفیت رکھتا ہے اس کی وجہ مقامی طور پر مضبوط ڈرگز مافیا کی موجودگی بھی ہے گذشتہ تیس سالوں کے دوران ڈرگ production اورaddiction میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے منشیات میں ہیروئن،افیم،بھنگ،چرس،حشیش اور شراب کے علاوہ بھی دیگر اقسام کا استعمال ہو رہا ہے پاکستان میں افیم 80%ہمسائیہ ممالک سے آتی ہے اور پاکستان کی بالغ آبادی کا تقریباََ 5 %سے6%تک منشیات کا ستعمال کر رہا ہے۔منشیات abuserمیں زیادہ تناسب میں ہیروئن صارفین ہے۔پاکستان میں منشیات کے پھیلاﺅ کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہاں مقامی طور پر یہ تیار کی جاتی ہے اور بآسانی ہر چھوٹے بڑے علاقے میں دستیاب ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی سستی اور زیادہ معیاری (خالص)بھی ہے ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ملنے والی ہیروئن سے انسان تین یا چار دن میں اس کا عادی ہو سکتا ہے جبکہ امریکہ جیسے ممالک میں نا خالص ہونے کی وجہ سے اور بہتر معیارِ زندگی کی وجہ سے اتنی جلدی اس لت کا شکار نہیں ہو پاتا،آپ وہاں ڈرگز استعمال کرنے والے کو عام حالت میں شناخت نہیں کر سکتے یا یہ آپ کے لئے خاصا پیچیدہ عمل ہوگاجبکہ پاکستان میں منشیات کے عادی افراد کی شناخت بآسانی ہو جاتی ہے کیونکہ ان کی گرتی صحت ،کمزوری و نقاہت کے ساتھ پست معیارِ زندگی اُسے بہت جلد بھیانک انجام تک پہنچا دیتی ہے۔پاکستان میں اگر ہم منشیات کے بڑھتے رجحان کے اسباب کا جائزہ لیں تو ہمیں سرِفہرست غربت وافلاس،پست معیارِ زندگی،استحصال،طبقاتی ناہمواری،بے روزگاری،بنیادی سہولتوں کا فقدان کے ساتھ مثبت سرگرمیوں کی عدم موجودگی نظر آتی ہے،ان سب کے ساتھ میں ڈرگ مافیا کو سب سے بڑا سبب سمجھتی ہوں جو چند روپوں کی ہوس میں مستقبل کے معماروں،پاکستان کی افرادی قوت کو اپاہچ کر رہا ہے ان کو بند گلی میں دھکیل رہا ہے جہاں انسانی صلاحیتوں کی پامالی کے سوا کچھ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!آپ کو پتہ ہے چین ایک عرصے تک اس بیماری کا شکار رہا اس لت سے اسے مفلوج کر چھوڑا تھا کیا ہم بھی پاکستان مفلوج دیکھنا چاہیں گے؟؟جبکہ سیاسی اور معاشی طور پر ہم پہلے ہی بیساکھیوں پر کھڑے ہیں۔۔۔سوچئیے گا!! اکثر چھوٹے چھوٹے بچوں کو کچڑا چونتے آپ نے بارہاں دیکھا ہوگا اور ایک لمحے کو آپ ان پر ترس بھری نگاہ بھی ڈالتے ہوں لیکن ان میں سے اکثریت ایسے بچوں کی ہوتی ہے جو اس لت کے کسی نہ کسی اسٹیج پرعادی ہوتے ہے اور منشیات abusersمیں ٹین ایجر بچوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے جن میں 7سے11سال تک کے بچوں کو آپ بآسانی گندے نالوں،کچرے کے ڈھیروں پر نشہ آور سیگریٹ سلگاتے اور انجکشن لگاتے دیکھ سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان بچوں کا تعلق انتہائی غربت زدہ خاندانوں سے ہوتا ہے جن کے پاس ان کو کھلانے کے لئے دو وقت کی روٹی ،تعلیم کے لیے کچھ نہیں ہوتا اور ناہی ان کی تربیت کا ہی تکلف کیا جاتا۔۔گویا یہ بچے خود رُو قسم کے پودوں کی طرح ہوتے ہیں ،یہی بچے غلط کام کرنے والوں کے لئے ،ڈرگز مافیا کے لئے سونے کی چڑیا کی طرح ہوتے ہیں ان کے ذریعے منشیات سے لے کر دوسرے بہت سے غلط کام سہولت سے کر لیتے ہیں عام طور پر ان بچوں پر شک بھی نہیں کیا جا سکتا۔۔!جبکہ یہی بچے بڑے ہوکر ڈرگ مافیا کو طاقت دینے کے ساتھ معاشرے کا ناسور بن جاتے ہیں۔اس میں قصور کس کا ہے؟؟آپ کا؟؟میرا؟؟ یا معاشرے کا؟؟یا ان ماں باپ کا جو ان کو پیدا کر کے لاوارث چھوڑ دیتے ہیں؟؟میرا خیال ہے سب سے زیادہ قصور ہمارا ہے جو وہ بچے غلط ہاتھوں میں ضائع ہو جاتے ہیں ہم اپنے بچوں کی طرح انھیں نہیں سمجھتے،ہم ان پر ترس کھا سکتے ہیں لیکن ان کو بچا نہیں سکتے۔۔!!کراچی میں25000 بچے سڑکوں پر رہتے ہیں اور ان میں سے 74%بچے منشیات سے متاثر ہوتے ہیں اور ان میں سے بہت سے HIVٰٓٓایڈز کا بھی شکار دیکھے گئے ہیں جس کی وجہ بے راہ وروی اور جنس پرستی ہے۔اس کے ساتھ ایک بات بیان کرنا ضروری ہے وہ یہ کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں بھی ایسے ہاتھ موجود ہوتے ہیں جو نوجوان نسل کو اس طرف کھینچتے ہیں اور اکثر انتظامیہ کے ملوث ہونے کے ثبوت ملے ہیں،کراچی میں منشیات فروشی اور ڈرگ مافیا بہت اسڑونگ ہے اور اس کی سرپرستی کرنے والوں میں بڑے بڑے ہاتھ شامل ہے پولیس منشیات فروشوں سے ملی ہوتی ہے تھوڑی سی رشوت لے کر اس گھناﺅنے کام کو پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔کراچی شہر میں گلی محلوں سے بڑی بڑی شاہراہوں،فٹ پاتھوں پر مشکوک لوگ منشیات بیچتے نظر آتے ہیںجس طرح بھیگ مانگنے والوں کے علاقے مخصوص ہوتے ہیں اسی طرح ڈرگ مافیا کے اپنے اپنے علاقے ہوتے ہیں اوراس کی خلاف ورزی پر گروہوں میں زبردست تصادم بھی ہوتا ہے۔

نوجوانوں کی اچھی تعلیم و تربیت کے ساتھ ان کی سرگرمیوں کو مثبت سمت دینا ہم سب کا فرض ہے اور اس فرض سے مزید غفلت ہمیں اس سرمائے سے محروم کر دے گی۔حکومت کو چاہیے کہ نوجوانوں کو روزگار کے بہتر مواقع دے تاکہ وہ ملک کی تعمیر میں اپنا پورا حصہ ڈال سکیں،منشیات کے بارے میں شعور پیدا کرے،اور ڈرگ مافیا کی سرپرستی کرنے والے ہاتھ کاٹے جب تک وہ ہاتھ موجود رہینگے یہ ناسور ہماری نسل کی رگوں سے خودی اور عمل کی تاثیر کونگلتا رہے گا۔۔۔۔۔۔!آخر میں ایک واقعہ شیئر کرنا چاہونگی مغرب کے وقت عموماََ بچے باہر کھیل رہے ہوتے ہیں ایک چار پانچ سال کا بہت کیوئٹ سا بچہ اپنے ہجوم سے الگ ہو کر کچڑے پر نشہ آور انجکشن لگا تے ایک چرسی کے پاس جا کھڑا ہوا وہ اس کے سارے عمل کو بڑی حیرت اور دلچسپی سے دیکھ رہا تھا جب اس نے انجکشن اپنے بازو میں لگایا تو بچے نے ”سی“ کی آواز نکالی ،تکلیف اس کے معصوم سے چہرے پر عود آئی جیسے وہ سوئی اس کے اپنے بازو میں لگی ہو،وہ شخص اپنے کام میں مگن تھا بچے نے اس کہا”انکل سوئی لگاتے ہیں تو درد ہوتی ہے ناں؟؟“اس نے کہا” ہاں بہت!!“میں صرف اتنا کہنا چاہتی ہوں کہ معصوم بچے جب اپنے ارد گرد ایسے مناظر دیکھیں گے تو اس کا اثر بھی لینگے۔۔۔۔۔۔۔۔!ہمیں اپنی نوجوان نسل کو اور ان کے مستقبل کو اس اثر سے بچا نا ہے!!

اللہ آپ سب کا حامی و ناصر ہو!!
Sumaira Malik
About the Author: Sumaira Malik Read More Articles by Sumaira Malik: 24 Articles with 26552 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.