ڈوبتا سندھ اور حکمرانوں کی مفاداتی جنگ

صوبہ سندھ 2 سالوں سے مسلسل قدرتی آفات کا شکار ہے، مجموعی طور پر 2 کروڑ سے زائد افراد بالواسطہ یا بلا واسطہ 2010ءکے سیلاب اور 2011ءکی تباہ کن بارشوں کا شکار ہوچکے ہیں۔ ابتدائی تخمینے کے مطابق صوبے میں مجموعی طور پر 11 کھرب سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے۔ 2010ءمیں ہونے والے نقصانات کا ازالہ ابھی ہوا ہی نہیں تھا کہ 2011ءمیں بارشوں نے ایک مرتبہ پھر ہر طرف تباہی مچادی۔ قدرتی آفات کا آنا یہ دنیا کے ہر ملک اور قوم میں ہے لیکن ان مشکل اوقات میں قوم کی قیادت اور عوام مل کر ان آفات سے متاثرین کو نکالنے اور ان کی مدد کے لئے کوشاں رہتی ہے لیکن ہم سندھ میں ہونے والی 2 سالہ تباہی اور عوام کی بے بسی کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمارے حکمران ہمیں صرف ذاتی مفادات کے حصول میں مصروف نظر آتے ہیں۔

ایک طرف سندھ کا نصف سے زیادہ حصہ مکمل طور پر ڈوبا ہوا ہے تو دوسری طرف حکمران اتحاد میں شامل جماعتیں اور قیادت من پسند وزارتوں کے حصول اور سیاسی جوڑ توڑ میں مصروف ہیں۔ حالیہ تباہ کن بارشوں کے متاثرین کی شاید یہ بدقسمتی تھی کہ پہلے ان پر ٹوٹنے والی قیامت کے دوران میڈیا اور قوم کی توجہ حکمران جماعتوں کے ہی لوگوں کے تند وتیز اور سنگین الزامات پر مشتمل بیانات پر مرکوز رہی۔ پھر چند دنوں کے لئے متاثرین سیلاب میڈیا اور عوام کی توجہ کا مرکز رہے لیکن اچانک پاک امریکہ کشیدگی نے انہیں ایک مرتبہ پھر پس منظر میں پھینک دیا۔ اس کشیدگی میں کچھ کمی کے بعد ایک مرتبہ پھر میڈیا اور لوگوں کی توجہ سیلاب متاثرین کی طرف مرکوز ہوئی ہی تھی کہ سپریم کورٹ کے فیصلے، حکمران جماعتوں کے مابین من پسند وزارتوں کے حصول کی دوڑ اور نئے جوڑ توڑ اورنے ایک مرتبہ پھر سندھ کے مظلوم اور محکوم عوام کو مکمل طور پر میڈیا اور قوم کی نظروں سے اوجھل کردیا۔ سندھ کے کئی اہم شہر اب بھی پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ حکومتی اعداد وشمار کے مطابق 43 ہزار سے زائد دیہات اور شہروں کے93 لاکھ سے زائد افرادمتاثر ہوئے اور ان کے سر سے چھت کا سایہ بھی چھن گیا۔ تقریباً 4 کھرب 90 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے لیکن دوسری طرف حکمران جماعتیں وزارتوں کی دوڑدھوپ میں ان محکوم اور مظلوم عوام کو بھول چکی ہیں۔

جون2011ءمیں متحدہ قومی موومنٹ کی حکومت سے علیحدگی کے بعدسے ہی اگرچہ پیپلز پارٹی اور متحدہ کے مابین چوہے بلی کا کھیل جاری تھا اور اس کا اختتام بظاہر 5 اکتوبر کو متحدہ کی دوبارہ حکومت میں شمولیت اور وزارتیں سنبھالنے کے اعلان پر ہوا، لیکن لگتا یہ ہے کہ معاملہ یہی پر ختم نہیں ہوا بلکہ اب اس میں مزید پیچیدگیاں پیدا ہوگئی ہیں۔ پیپلز پارٹی نے لوڈشیڈنگ پر سخت عوامی ردعمل اور مسلم لیگ (ن) کے ارکان پارلیمنٹ کا ایوان صدر کے باہر احتجاجی دھرناجس میں مسلم لیگ (ق)ہم خیال، جمعیت علماءاسلام (ف)، پیپلز پارٹی کے بعض ارکان سمیت دیگر جماعتوں کے ارکان کی شمولیت نے یقیناً پیپلز پارٹی بالخصوص ایوان صدر میں بیٹھے ہوئے صدر زرداری کو ایک مرتبہ جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ جس کا جواب انہوں نے ق لیگ کی عارضی ناراضگی کے خاتمے اور متحدہ کو دوبارہ حکومت میں شامل کرکے دیا ہے۔ اگرچہ بیشتر مبصرین دونوں اقدام کو 6 اکتوبر 2011ءکو کراچی ازخود نوٹس کیس کے سپریم کورٹ کے فیصلے سے جوڑتے ہیں لیکن بعض مبصرین زرداری کی اس برق رفتاری میں عوامی ردعمل اور ن لیگ کے احتجاج کو وجہ بتاتے ہیں۔صدر زرداری نے موجودہ حالات میں اپوزیشن جماعتوں کو مات دینے کےلئے متحدہ قومی موومنٹ کو تو حکومت میں آنے پر راضی کرلیا لیکن اس کے جواب میں ق لیگ اور مسلم لیگ (ف) ناراض دکھائی دیتی ہیں۔ اس ناراضگی کی بنیادی وجہ سندھ میں من پسند وزارتوں کا حصول اور تقسیم ہے۔ متحدہ کے حکومت میں شامل ہونے کے بعد وزراءکی مجموعی تعداد 50 جبکہ 7 مشیر اور 17 کے قریب معاونین خصوصی کی تعیناتی کے بعد فوج ظفر موج کی تعداد 77 توہوگئی ہے لیکن اصل اختلاف وزارتوں کے حصول پر ہے۔متحدہ کی حکومت سے علیحدگی کے بعد پیپلز پارٹی نے چار وزارتیں نئے اتحادیوں مسلم لیگ( ف) اور مسلم لیگ (ق) کو سونپ دی۔ اب متحدہ کی واپسی کے بعد ان سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ یہ وزارتیں انہیں واپس دی جائیں جبکہ متحدہ بھی بضد ہے کہ ان کو سابقہ وزارتیں ہی دی جائیں۔ ان حالات میں ق لیگ اور فنکشنل لیگ کی طرف سے سخت ردعمل دکھائی دے رہا ہے۔ ممکن ہے کہ ان سطور کی اشاعت تک اس کا کوئی اور عارضی حل تلاش کیا گیا ہو لیکن لگتا یہی ہے کہ حکومت بالخصوص پیپلز پارٹی مشکلات میں دھنستی جارہی ہے۔ فنکشنل لیگ کا کہنا ہے کہ ہم نے صوبے میں غیر مشروط پیپلز پارٹی کی حمایت کی تھی لیکن پیپلز پارٹی نے ازخود زبردستی ہمیں وزارتیں سونپ دیں اور اب ہم سے کہا جاتا ہے کہ وزارتیں چھوڑ دیں یہ انتہائی ناانصافی اور بددیانتی ہے جبکہ فنکشنل لیگ کے سربراہ پیر پگارا کا کہنا ہے کہ قربانی کی عید قریب ہے اس لئے اب پیپلز پارٹی کو ہی قربانی دے کر اپنے ہی عہدے متحدہ کو سونپنے چاہئیں۔ متحدہ کے حکومت میں شامل ہونے کے بعد اب سندھ اسمبلی میں میں تقریباً اپوزیشن کا وجود ختم ہوچکا ہے۔ 168 کے ایوان میں 164 ارکان حکومتی اتحاد کا حصہ جبکہ مسلم لیگ (ق)ہم خیال ارباب گروپ کے 4 ارکان اپوزیشن میں رہ گئے ہیں۔ اگر الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ جماعتوں کے حوالے سے جائزہ لیا جائے تو پھر سندھ میں اپوزیشن نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔

عوامی ردعمل کے بعد حکومت نے ملک میں بظاہر لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا اعلان تو کردیاہے لیکن عملاً ایسا نہیں ہے۔ اکثر شہروں میں اس وقت بھی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کا سلسلہ جاری ہے جبکہ حکومت کی 36 گھنٹے کے اندرکے اس اقدام نے حکومتی حیثیت کو مزید مشکوک بنادیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر حکومت 36 گھنٹوں میں ملک میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کرسکتی تھی تو پھر 3 سال تک قوم کو اس عذاب میں مبتلا کیوں رکھا؟۔ اس لوڈشیڈنگ کی وجہ سے قومی معیشت کو پہنچنے والے کھربوں روپے کے نقصانات کا ازالہ کون کرے گا؟ اور اس کے نقصان کا ذمہ دار کون ہے؟، توانائی کی قلت کے باعث ملک سے باہر منتقل ہونے والے سرمایے کی ذمہ داری کس پر عائد ہوگی؟۔ ملکی تجارت اور صنعت وحرفت میں بجلی کی لوڈشیڈنگ نے جو تباہی کی اس کا ذمہ دار کون ؟اور مزید یہ کہ اس عذاب کی وجہ سے مختلف اسپتالوں اور گھروں میں جاں بحق ہونے والے افراد کا خون کس کے سر ہوگا؟۔ یقیناً ان سب سوالات کا جواب صرف ”حکومت“ ہی ہے۔ اگر حالات کا جائزہ لیا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ حکومت کی جانب سے لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا اعلان عارضی ہے اور حکومت کسی نہ کسی طرح مارچ 2012ءتک اپنے وجود کو برقرار رکھنے کےلئے ہر جائز ناجائز اقدام کرنے پر مجبور ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ لوڈشیڈنگ کا عذاب کچھ عرصے میں ایک خوفناک شکل کا عفریت بن کر قوم پر نازل ہونے والا ہے کیونکہ لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے لئے عملی طور پر کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔ حکومتی اداروں اور ذمہ دار گزشتہ 4 سال سے دریائے سندھ پر گلگت بلتستان کے علاقے میں 50 ہزار جبکہ تھرکول کے ذریعے 10 ہزار میگا واٹ سے زیادہ بجلی پیدا کرنے کی گنجائش کی باتیں تو کرتے ہیں لیکن عملی طور پر اب تک حکمران 50ہزار کی جگہ ایک میگا واٹ بجلی بھی پیدا نہ کرسکے۔ اسی طرح تھرکول کے حوالے سے حکومت کی جو کارکردگی اب تک نظر آرہی ہے وہ بھی مایوس کن ہے۔ موجودہ حالات میں لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا اعلان دراصل عوامی غم وغصے کو کم کرنے اور اپوزیشن کو وقتی طور پر مات دینے کی ایک کوشش ہے۔ اس طرح کے اقدام وقتی طور پر لوگوں کو دھوکہ اور فریب تو دے سکتے ہیں لیکن کسی قوم کو بحران سے نکال نہیں سکتے۔

موجودہ حالات میں سندھ کے حوالے سے سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کیس کے فیصلے کو بھی بڑی اہمیت دی جارہی ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے 24 اگست 2011ءکو کراچی میں ٹارگٹ کلنگ پر ازخود نوٹس لیا جس کی سماعت 26 اگست سے شروع ہوئی اور 16 ستمبر تک جاری رہی۔ 6 اکتوبر 2011ءکو سپریم کورٹ نے اپنا حتمی فیصلہ سنایا۔ اگرچہ کئی مبصرین کا یہ کہنا ہے کہ اس فیصلے میں کراچی میں پائے جانے والے تنازعات اور مسائل کے حل کے حوالے سے کوئی واضح جواب موجود نہیں ہے لیکن مجموعی طور پر فیصلے کو مدنظر رکھا جائے تو کئی اہم اقدام بھی شامل ہیں جس میں ہائی کورٹ کی نگرانی میں مانیٹرنگ کا قیام سب سے اہمیت کا حامل ہے تاہم سپریم کورٹ کے فیصلے میں بعض مبصرین اس حوالے سے بھی تنقید کررہے ہیں کہ اس فیصلے میں کسی کو سزا دی گئی اور نہ ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ فیصلے کا بیشتر حصہ مختلف پارٹیوں کے وکلاءکے دلائل پر مشتمل ہے۔ فیصلے میں پیپلز پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ، عوامی نیشنل پارٹی، سنی تحریک اور جماعت اسلامی کا نام لے کر جبکہ کالعدم جماعتوں کا نام لئے بغیرکے بھتہ لینے کے حوالے سے بھی ذکر آیا ہے جبکہ مبصرین کا کہنا ہے کہ فیصلے میں چندہ اور بھتہ اور ایک جگہ جمع کرنا یقینا مثبت قدم نہیں ہے۔ جماعت اسلامی پر بھتہ لینے کا الزام اگرچہ انسانی حقوق کی عاصمہ جہانگیر نے عائد کیا تھا اور ایک فرد کی زاتی رنجش کو بنیاد بنا کر جماعت اسلامی کوبھی دیگرکی صف میں کھڑا کرنے پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ جماعت اسلامی سے شدید تحفظات اور اختلافات رکھنے والے بھی اس الزام کو ماننے کےلئے تیار نہیں ہیں۔ اس پر جماعت نے اپنے سخت ردعمل کا بھی اظہار کیا ہے۔ جماعت اسلامی پر بہت سارے الزامات تو لگائے جاسکتے ہیں لیکن بھتہ خوری کا الزام یقیناً ایک ناقابل یقین ہے اور انتہائی زیادتی ہے۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر سپریم کورٹ کو وکلاءکے انفرادی بیانات اور دلائل کو کورٹ کے فیصلے کا حصہ ہی بنانا تھا تو تمام فریقین کے وکلاءکے دلائل، تحفظات اور اعتراضات کو الگ الگ فیصلے کا حصہ بنایا جاتا ۔غالباً یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ فیصلے کے حوالے سے عوام کو جس طرح کی توقع تھی وہ پوری نہیں ہوئی ہے۔ بعض مبصرین تو اس حد تک کہتے ہیں کہ فیصلے کا نتیجہ ایک نئے تنازعہ کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے۔ فیصلے میں نئی حلقہ بندیوں کے اقدام کےلئے بھی کہا گیا ہے تاہم اگر دیکھا جائے تو کسی نہ کسی حد تک عوام کو اس فیصلے سے فائدہ ملے گا۔ اگرچہ فیصلے کے کچھ نکات پر خدشات اور تحفظات ہیں۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف نے اپنے مطالبے کو پھردہرایا ہے کہ عسکری ونگ رکھنے والی جماعتوں پر پابندی عائد کی جائے۔ نواز شریف حالیہ تباہ کن بارشوں کے بعد مسلسل سندھ کے دورے کررہے ہیں اور انہوں نے 6 اگست سے ہونے والی بارشوں کے بعد اب تک 4 مرتبہ سندھ کا دورہ کیا اور متاثرین کی دلجوئی کرنے کی کوشش کی ہے جبکہ ان کے بھائی نے سندھ کا دو مرتبہ دورہ کیا ہے۔ نواز شریف کے اس اقدام کو عوامی سطح پر سراہا جارہا ہے تاہم مجموعی طور پر نواز شریف کو بھی چاہئے کہ اب عوام کی ترجمانی کے حقیقی موقف کا ظاہری اور باطنی دونوں طریقے اظہار کریں۔جہاں تک بات ہے سندھ کے متاثرین کی تو منظر عام سے سندھ میں عوامی نمائندے ہونے کے دعوےدار غائب ہیں اور صدر آصف علی زرداری اپنے آبائی ضلع بےنظیر آباد (نواب شاہ) میں جانے کےلئے بھی تیار نہیں۔ ایسے موقع پر نواز شریف کی سندھ میں موجودگی یقیناً سندھ کے لوگوں کےلئے جہاں حوصلے کا باعث بن رہی ہے وہیں پر پیپلز پارٹی نے ایک سوالیہ نشان بھی ہے۔

جن لوگوں نے سندھ کے متاثرہ علاقوں کا جائزہ لیا ہے وہ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ نواب شاہ اور بدین کے علاوہ حکومت یا حکومتی جماعت نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی ہے جبکہ لاکھوں لوگ بے سرو سامانی کے عالم میں سڑکوں، ٹیلوں اور دیگر مقامات میں پڑے ہوئے ہیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ آج ان مظلوم، محروم اور محکوم لوگوں کے لئے کوئی مددگار ثابت ہو بھی رہا ہے تو یہ وہی لوگ ہیں کہ جن کومبینہ قومی نمائندہ ہونے کے دعوےدار انتہا پسند، دہشت گرد، ملا یا دیگر الزامات سے نوازتے ہیں۔ اگر متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا جائے تو یہی ملا اور دہشت گرد ہی متاثرین کی مدد میں سرگرم عمل نظر آئیں گے۔ عمل ریسکیو، ریلیف یا پھر بحالی کا ہو، ان ہی کا کردار ہے۔

حکومت نے فی متاثرہ خاندان پاکستان کارڈ کے ذریعے دو اقساط میں 20 ہزار روپے دینے کا اعلان تو کیا لیکن یہ کارڈ ان متاثرین کےلئے وبال جان بن گیا ہے۔ کارڈ کے ٹوکن کے حصول میں 24 سے 72 گھنٹے ،پاکستان کارڈ کے حصول کےلئے 20 سے 40 گھنٹے اور پھر رقم کو اے ٹی ایم کے ذریعے نکالنے میں غریبوں کے 10 سے 20 گھنٹے کی طویل قطاریں دیکھنے میں آتی ہیں۔ راقم نے 21 ستمبرسے 5 اکتوبر 2011ءتک سندھ کے ایک درجن کے قریب شدید متاثرہ اضلاع کا تفصیلی جائزہ لیا اور متاثرین سے آراءلی۔ ہر طرف مایوسی اور بے بسی چھائی ہوئی ہے۔ پاکستان کارڈ کے حوالے سے درج بالا باتیں کوئی قصہ یا کہانی نہیں بلکہ آنکھوں دیکھا حال اور مشاہدہ ہے۔ جب قوم اس حالت میں پڑی ہوئی اور حکمران من پسند وزارتوں اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں مصروف ہوں تو پھر ایسی قیادت کی عقل پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔ یہ بھی بہت بڑی بدقسمتی ہے کہ ان حالات کے باوجود بھی سندھ کے عوام اپنے ووٹ کی اہمیت کو سمجھنے کو اب بھی تیار نہیں ہیں۔ اگر ہماری سیاسی سوج بوجھ کا یہی عالم رہا تو پھر ہمارا مستقبل تابناک تو نہیں تاریک ضرور ہوسکتا ہے۔
Abdul Jabbar Nasir
About the Author: Abdul Jabbar Nasir Read More Articles by Abdul Jabbar Nasir: 136 Articles with 97608 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.