سلام ٹیچر، لیکن ۔۔۔۔۔۔۔

زندگی کے اس موڑپر جب میں کامیابی کی منزل طے کرتاہوا آگے بڑھ رہاہوں یہ سب میرا اساتذہ کرام اور والدین کے مرہون منت ہے سچ کہاہے کسی نے کہ انسان کو اس کا باپ آسمان سے زمین پر لاتاہے اور اس کا استاد اس کو مدراج طے کرواتے ہوئے دوبارہ آسمان کی بلندیوں پر لے جاتاہے،میر ا یہ سفر جاری ہے کیونکہ میں سیکھنے کے عمل کو آخر تک جاری سمجھتا ہوں اور اس عمل پر ہمیں ہر پل ایک استاد کی ضرورت پڑتی ہے حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ ہر وہ شخض میرا استاد ہے جس نے مجھے ایک لفظ بھی سکھایا ہو،اسی طرح میری زندگی میں بھی بے شمار اساتذہ ہیں جنہوں نے شب و روز محنت کرکے تعلیم ہی نہیں دی بلکہ میرے کردار اور شخصیت کی تشکیل و تکمیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا ۔

5 اکتوبر کو پوری دنیا میں اساتذہ کا دن منایا جاتاہے ، اس کی عزت و عظمت کو سلام پیش کیاجاتاہے ،اس موقع پر بحثیت ایک سوشل ورکر اور قلم کار میرا یہ حق بنتا ہے کہ میں اس کے معاشرتی و سماجی مسائل اور تعلیمی مشکلات پر روشنی ڈالوں اور ان کے تعلیمی کردار پر ایک تنقیدی جائز ہ پیش کرسکوں۔

استاد کو قوم کا ممارکہا جاتاہے اسے روحانی والدین کا درجہ دیا جاتاہے یہ ایک ایسا پیشہ ہے جس کا تعلق پیغمبری پیشے سے ہے اس پیشے کا مقصد ہی انسان سازی ہے جو ایک صف کا درجہ رکھتاہے جس پر تمام صفات کا ہی نہیں ساری زندگی کا دارومدار ہے لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے معاشرے میں استاد کے بارے میں عموماغیر سنجیدہ قسم کی رائے رکھی جاتی ہے اور انہیں وہ مقام نہیں دیا جاتاجس کے وہ حقدار ہیں۔

ہمارے ہاںمجموعی صورتحال ،معاشرے اورحکومتی رویے پر نظر ڈالیں تو اساتذ ہ سب سے مظلوم اور پسماندہ طبقہ معلوم ہوتا ہے ،جس کی شنوائی نہیں ہے ،اس طبقے کی بے بسی کا کیا کہنا جنھیںیہ پڑھا لکھا کر کسی قابل بناتے ہیںوہ ان کی بات سننے سے انکاری ہوجاتے ہیں ،آج کل ہر طرف ،سیاست ،ریاست ،معشیت او رمعاشرت کی تباہی کا رونا رویا جاتاہے ہرکوئی پریشان ہے کہ ہم ہر شعبہ زندگی میں زوال کی طرف جارہے ہیں اس عمل میں ہمارے اساتذہ کرام کی اکثریت شدید کرب میں مبتلا ہے۔معاشرے میں رشوت ،اور سفارش کلچر اور تعلیمی عمل میں سیاست کے عمل دخل نے صورتحال کو یکسر تبدیل کردیا ہے ،اساتذہ سے تعلیمی مقاصد کے حصول کے لیے کام لینے کے بجائے مردم شماری اور ووٹر لسٹوں کا کام لینے کا عمل پہلے سے تباہ حال تعلیمی عمل کو متاثر کرنے کرنے کے ساتھ ساتھ اساتدہ کرام کے ساتھ بھی ایک بہت بڑی زیادتی ہیں ،سماجی سطح پر بڑھتے ہوئے مالی مسائل معاشرے کے دیگر طبقوں کی طرح اساتذہ کو بھی متاثر کررہے ہیں اور وہ ان مسائل کے حل کے لیے پہلے سے زیادہ سرگرداں اور کوشاں نظر آتے ہیں بقول اساتذہ کہ ہمیں جو خدمات کے بدلے میں انھیں جو معاوضہ دیا جاتاہے بڑھتی ہوئی مہنگائی کی نسبت سے وہ نہایت قلیل ہے ،حکومت کی جانب سے بنیاد ی حقوق سے محروم معماران قوم شدید ذہنی اذیت سے دوچار ہیں ۔ان نامناسب حالات میں بھی ہمارے کچھ اساتذہ نے تعلیم وتربیت کا بیڑا اٹھایا تو اس فرض کو بھرپور طریقے سے نبھایا کہ صرف پڑھایا ہی نہیں بلکہ اخلاقی طور پر مضبوط بھی کیا ،ہمیں صرف کتابی تعلیم ہی نہیں دی بلکہ دینی ،اخلاقی ،روحانی،جسمانی اور معاشرتی غرص ہر طرح کی تعلیم و تربیت سے ہم کنار کیا ،زمانے کے اتار چڑھاؤ سے لے کر اپنے احتساب تک ،ہماری کردار سازی میںانہوں نے اپنا پورا حق جو ادا کیا کہ بے اختیار ان کو خراج تحسین پیش کرنے کوجی چاہتاہے ،اور میں سلام پیش کرتاہوں ان استادوں کو جن کی محنت نے ان کے شاگروں کو زندگی کی کامیابیوں میں آسمان کی بلندیوں پر پہنچایا ، مگر دورحاضر میں مجھے کچھ اساتذہ کو سلام پیش کرتے ہوئے میرا قلم لڑکھڑا سا جاتاہے کیونکہ وہ اس پیغمبری پیشے سے مکمل انصاف نہیں کرپارہے ہیں،یعنی ایک تو وہ صر ف پیسوں کے لیے تعلیم دے رہے ہیں دوسرا یہ کہ وہ صرف کتابی تعلیم دے رہے ہیںیہ اٹل حقیت ہے کہ تربیت کے بغیر تعلیم اور تعلیم کے بغیر تربیت دونوں نامکمل ہیں،بدقسمتی سے ہمارے ہاں اساتذہ نے اپنے آپ کو صرف پیسہ کمانے کی مشین سمجھ لیا ہے اور ہمارے ہاں جو تعلیم دی بھی جارہی ہے اس میں بدقسمتی سے تربیت کا پہلو سرے سے غائب ہے تو اس صورتحال میں ہم سلجھا ہوا معاشرہ کہاں سے پیدا کرپائیں گے۔آج کی بات کریں تو آج کا استاد اپنی ذمہ داریوں اور فرائص سے عاری نظر آتاہے ،ہمارے ہاں تعلیم تباہی کے دھانے پر ہے ،کہتے ہیں کہ حکومتی پالیسی ناقص ہے مگر ایک سروے کے مطابق لسبیلہ کے نوئے فی صد اساتذہ اپنے علاقے یا قریب کے اسکولوں میں عرصہ درازسے تعینات ہیں صرف دس فی صد اساتذہ ایسے ہیں جو اپنے ہی ضلع کے علاقوں میں تعینات ہیں،مگر بدقسمتی سے انتظامی کمزوریوں کی وجہ سے بہت سارے اساتذہ جو کوئی سیاسی اثر رسوخ نہیں رکھتے وہ پندرہ سے بیس سالوں سے دوسرے شہروںمیں اسکولوں میں شدید مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے اپنے فرائص انجام دے رہے ہیں ،مگر اکثر قریبی اسکولوں میں تعینات اساتذہ جن کو کسی نہ کسی جگہ سے آشرواد حاصل ہے ساری زندگی وہی کے وہی تعینات ہوتے ہیں ۔اکثر ہمارے ہاں کہاں جاتاہے کہ اساتذہ کی تنخواہیں قلیل ہیں مگر سوال یہ ہے کہ سال کے نوماہ اسکول جانے والے اساتدہ جو ڈیلی صرف چھ گھنٹے ڈیوٹی کرے ا س میں پرائمری سطح کے اساتدہ کی اوسط تنخواہیں دس سے بیس ہزار اور مڈل سطح کے اساتدہ کی تنخواہ پندرہ سے پچیس اور ہائی سطح کے اساتذہ کی تنخواہیں اگر تیس ہزار سے پچاس ہزار ہو تو کیا یہ کم ہے ؟ جب کہ اس کے مقابلہ میں پرائیویٹ اسکولوں میں تعینات ٹیچرز کی تنخوائیں کہیں بھی آٹھ ہزار سے اوپر نہیں ہوتیں مگر ان اسکوں کا زرلٹ ہمارے گورنمنٹ اسکولوں سے ہمیشہ اچھا آتاہے ،ایسا کیوں ہے شاید اس کاجواب آپ کے پاس ہو،ہمارے ہاں حقوق کے حصول کے لیے ہر ادارے کے ملازمین یونین سازی کرتے ہیں ،میری نظر میں کرنا بھی چاہئیں کہ ان کا جمبوری حق ہے مگراساتذہ کی یونین سازی کا عمل بھی عجیب و غریب شکل میں موجود ہے ہماری ہاں یونین سازی کے الیکشن کو قومی الیکشن کی طرح لڑا جاتاہے اور اس کے اندر سیاست کو دا خل کرنا اس کے بعد ہر طرف ڈیڑھ انچ کی مسجد بنا کر مراعات کے لیے سال بھر احتجاجی تحریکیں اور ہڑتالیں کرنا اور فرائض منصبی سے غافل ہوکر ایک دوسرے کی کھینچا تانی کرنا بیان بازیاں کرنا جلسے جلوس کرنا۔ کیایہ ان بچوں کے ساتھ انصاف ہے جو اسکول میں تعلیم کے حصول کے لیے گھروں سے آتے ہیں،ان تمام حرکات سے ہمارا تعلیمی ڈھانچہ کھوکھلا ہورہاہے اور تدریسی عمل پوری طرح تباہ ہوگا ہے اور ہزاروں طلبہ و طالبات کا مستقبل داو پر لگ رہاہے ۔

آج کے دور کی بات کریں تو ہمارے ہاں طلباءو طالبات کی تعلیم کی بنیاد ہی نقل سے شروع کروائی جاتی ہے جب ہمارے کچھ اساتذہ تعلیمی عمل میں نقل کے خاتمے کے بجائے اس کے فروغ کا ذمہ دار بن جاتے ہیں ،امتحانات کے ایام میں اساتذہ بچوں کے لیے خود نقل تیارکرتے ہوئے نظر آتے ہیں،پرائمری سطح سے ہی تقل کلچر فروغ پا رہاہے اس طرح کے پاس ہونے والے پچوں سے آپ کیا امید رکھیں گے کہ وہ مقابلے کے دور میں کوئی بڑی تبدیلی لائیں گے ۔

حکومتی اور غیر سرکاری سطح پر اساتذہ کی کپسٹی بلڈنگ کے لیے مختلف اقدامات کیے جاتے ہیں مگر ہمارے ہاں اساتذہ سیکھنے کے عمل کو دیکھنے کے بجائے TA,DAکی قدر قیمت کو دیکھا جاتاہے ، ٹریننگ کو بجا ئے سیکھنے کے عمل کے اس کو اضافی کمائی کے طور پر سمجھا جاتاہے ۔ایک زمانہ تھا حب استاد اور شاگرد کا رشتہ بہت مضبوط ہوا کرتاتھا لیکن تیزی سے بدلتی قدروں نے اس تعلق کو بہت متاثر کیا ہے ،وہ روحانی تعلق کسی اور تعلق کی طرف جڑنے لگا ہے ، وہ تعلق روحانی تعلق سے نکل کردوستانہ اور یارانہ تعلق بنناجارہاہے اس صورتحال میں اساتذہ تعلیمی عمل میں تربیت کا عنصر سے کہاں سے پیداکریں گے میرے عقل سے یہ بات باہر ہے ،اساتدہ کے مسائل ،اس کے ساتھ حکومتی رویہ اور اساتذہ کی روز روز کی احتجاجی تحریکوں و ہڑتالیں اور تعلیمی عملی میں عدم دلچپسی نے عام غریب لوگوں کو سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ وہ اپنے تعلیمی کی تعلیمی عمل کے جاری رکھنے کے لیے کیااقدامات کریں کیونکہ موجودہ دور کی اس تعلیمی اداروں کو دیکھتے ہوئے بہتری کی امید نہیں کی جاسکتی شہری علاقوں میں اس وجہ سے پرائیوٹ اسکولو ں کا فروغ پارہاہے لیکن موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے ایسا لگ رہاہے کہ والدین مجبور ہوکر بچوں کو اسکول سے نکال دیں گے یا طلباءخود تعلیمی اداروں سے واک آؤٹ کریں گے موجودہ صورتحال میں اساتذہ اور کمیونٹی کے پائیدار تعلقات پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں جو صدیوں سے مثالی آرہے تھے ،کیونکہ موجودہ دور میں تعلیمی اداروں میں کمیونٹی کی شراکت برائے نام رہے گی ہے -

آج کا دن جو کہ پوری دنیا میں اساتدءکے نام پر منایا جارہاہے ،ہمارے اساتدہ بھی عہد کرئیں کہ وہ اپنے پیشے کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے طلباء کی تعلیم و تربیت کے عمل کو بھر پور طریقے سے ادا کرکے سرخرو ہوناہے تعلیمی اداروں سے طلباءکو بہت کچھ سیکھ کرنکلنا ہے لہذا کوشش کریں کہ معمارارن قوم کا کردار ادا کرتے ہوئے کردار سازی اور انسانیت سازی کی طرف بھرپور توجہ دیں اور نسل نوکی تربیت کرتے ہوئے ایک سلجھا ہوا معاشرہ پیدا کرنے میں اپنا حصہ ڈالیں دوسری طرف حکومت کو بھی اساتذہ کے جائز مسائل کے حل کے لیے بھرپور توجہ دے اور قومی ،صوبائی اور ضلعی سطح پر استاد کی خدمات کی مکمل حوصلہ افزائی کی جائے ۔

صوبا ئی اور ضلعی سطح پر تعلیمی اداروں کو سیاست سے پاک کرنے کی ضرورت ہے تاکہ تعلیمی آفیسران بغیر کسی دباﺅ کے تعلیمی بہتری کے لیے احس اقدامات کرسکیں نقل کے خاتمے کے لیے بھی ٹاسک فورس تشکیل دے کر نفل کے فروغ میں شامل کالی بھیڑوں کو امتحانات کے عمل سے دور رکھا جائے استاد کو وسائل مہیا کیے جائیں اور ساتھ ساتھ حکومتی سطح پر بھی طلباءکے دلوں میں اساتدہ کے احترام اور قدر قمیت سے آگاہی کے لیے مختلف پروگراموں کا انعقاد کرنا بھی وقت کا تقاضاہے جس سے تعلیمی اداروں طلباءاور کمیونٹی کے اندراساتدہ کی اہمیت کو احساس اجاگر کیاجاسکے ۔
Khalil Roonjah
About the Author: Khalil Roonjah Read More Articles by Khalil Roonjah: 6 Articles with 6795 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.