پی ایم کی دوڑ میں مودی اور آڈوانی کے سیاسی شو

نہ لال کرشن آڈوانی جی کی رتھ یاتراکرپشن کے خلاف ہے اور نہ نریندر بھائی مودی کا اپواس سدبھاﺅنا کی آوازہے۔ یہ دونوںسیاسی شو ’پی ایم‘ کی کرسی تک پہنچنے کی دوڑ ہے ۔ہرچند کہ آثار موہوم اور منزل دورہے مگر دعویداری کی دوڑ میں گرو اور چیلا ابھی سے اس لئے لگ گئے ہیں کہ انا ہزارے کی تحریک سے بدعنوانی کے خلاف عوام کے غم و غصہ کے اظہار کو بھاجپا اپنے لئے نیک شگون سمجھ بیٹھی حالانکہ وہ خود گلے گلے بدعنوانی میں غرق ہے۔ آڈوانی کے سابق مشیر خاص سدھیر کلکرنی کی ووٹ کے بدلے نوٹ معاملے میں گرفتاری، کرناٹک اور اترا کھنڈ میںبدعنوانی کے چلتے اس کے دو وزرائے اعلا کا زوال، سابق وزیر جناردھن ریڈی، ان کے بھائی اور دو سابق ممبران پارلیمنٹ کی گرفتاریاں اس کاکھلا ثبوت ہیں۔ مگر نہ جانے بھاجپا کیوں اس گمان میں مبتلا ہوگئی کہ بس اب وسط مدتی چناﺅ ہوجائیں گے اور اس کی قسمت جاگ جائیگی۔ وہ بھول گئی کہ چارریاستوں کیرلہ،تمل ناڈو،مغربی بنگال اور پانڈیچیری میں حالیہ اسمبلی چناﺅ میں اس کو ایک بھی سیٹ نہیں ملی۔ حتیٰ کہ گاندھی نگر کے بلدیاتی چناﺅ میں بھی ، جو آڈوانی جی کا پارلیامانی حلقہ اور گجرات کی راجدھانی ہے، وہ ہارگئی ہے۔

مودی کے ڈھائی روزہ اپواس پرسرکاری خزانے سے کروڑوں کا خرچہ ہوا۔ خیال یہ تھا وہ عرصہ تک موضوع بحث رہیں گے ، مگر سکم کے زلزلہ سے ان کی چرچا پراوس پڑگئی۔مودی رنجیدہ ضرور ہونگے مگر اب تو وہ بھی جان گئے ہیں کہ ’گاڈ از گریٹ‘۔ 11 اکتوبر کو آڈوانی جی یاترا پر نکلیں گے ۔بلاری سے سونیا گاندھی کے مقابلے سشما سوراج کا چناﺅ ریڈی بھائیوں نے لڑایا تھا ۔ وہ تو جیل میں ہیں۔ اس شو کےلئے رقم کہاں سے آئیگی، اس کا رنگ کالا ہوگا یا گورا،یہ کون دیکھے گا؟ اس یاترا کی زد ریاستی سرکاروں کے خزانوں پر پڑیگی۔حق غریبوں کا مارا جائےگا۔شہ مات کے اس کھیل میں ہرچند کہ مودی کی پشت پر سنگھ کا ہاتھ ہے، مگر آڈوانی جی کی دنیا اس امید پر قائم ہے کہ این ڈی اے میں مودی کی دال نہیں گلے گی۔لیکن ایک امکان یہ بھی ہے ان کی عمر کا حوالہ دیکر ان کو لوک سبھا کا ٹکٹ ہی نہ دیا جائے کہ وہ مودی کے مقابلے میں آسکیں۔ان کے حلقہ انتخاب گاندھی نگر میں پارٹی کے عدم مقبولیت بھی ان کے آڑے آسکتی ہے اور ان کی شکست دلوانا مودی کےلئے مشکل نہ ہوگا۔

آڈوانی کاقد قومی سطح مودی سے بہت بڑا ہے۔ ان کی ہی بدولت بھاجپا، جو 1984 صرف دو سیٹوں پر سمٹ کر رہ گئی تھی، مرکز میں مسند اقتدارتک پہنچ سکی۔مودی کا کارنامہ صرف یہ ہے کہ انہوں نے گجرات کو سنگھی نظریہ کے مطابق ہندتووا کی تجربہ گاہ بنا دیا ہے اورریاست میں ویسا ہی آمرانہ نظام قائم کرکے دکھا دیا ہے جیسا سنگھ پورے ملک میں قائم کرنا چاہتا ہے، جس میں دبے کچلوں اور اقلیتوں کی سننے والا کوئی نہیں ہوگا۔ اسی لئے وزیر اعظم کے منصب کےلئے سنگھ کی پہلی پسند مودی ہیں۔ دوسری طرف آڈوانی کی تعظیم تو کی جاسکتی ہے، ان کی تصویریںبھی دیواروں پرسجائی جاسکتی ہے لیکن قیادت کاحق نہیں دیا جاسکتا۔ یہ احسان ناشناسی اور ریاکاری اس فلسفہ کے عین مطابق ہے جس کا یہ ٹولہ علمبردار ہے۔آڈوانی جی کا ایک قصور شاید یہ ہے کہ نہ وہ مقامی ہیں،نہ برہمن ہیں بلکہ سندھی مہاجر ہیں۔اس پارٹی نے دو اور بڑے مہاجر لیڈروںمدن لال کھورانہ اور وجے کمار ملہوترہ کو کنارہ لگا دیا ہے۔

ایک زمانہ تھا جب آڈوانی جی سے ملاقات کرنے سنگھ رہنما ان کے در پر دستک دیتے تھے۔ اب خودان کو بھاگوت کا’ آشیرواد‘ لینے ناگپور جانا پڑا۔ ان کو یاترا کی اجازت تو مل گئی مگر شرطوں کے ساتھ۔ پہلی شرط یہ کہ یاترا وزیراعظم کےلئے ان کی دعویداری کی تائید نہیں سمجھی جائے گی۔ دوسری یہ کہ چالیس روزکے اس شو کے ہیرو تنہا وہ نہیں رہیں گے بلکہ ہر ریاست میں مقامی لیڈر رتھ میں اور ڈائس پران کے ساتھ رہیں گے تاکہ یہ یاترا ان کی سابق یاتراﺅں کی طرح ’ون مین شو‘ نہ بننے پائے۔

اس یاتر ا کو بہار کے وزیر اعلا نتیش کمارجے پرکاش نارائن کے آبائی گاﺅں سیتاب ڈیرا گاﺅں سے روانہ کریں گے۔ پہلے منصوبہ یہ تھا کہ یاترا گجرات میں سردار پٹیل کے گاﺅں کرمساڈ سے شروع ہو گی۔ مگر نہ تو مودی کو یہ منظور ہوا کہ ان کی ریاست میں ، جو بقول انا ہزارے کرپشن میں ڈوبی ہوئی ہے، کرپشن کے خلاف کوئی آواز اٹھے اور نہ آڈوانی جی نے یہ گوارا کیا کہ ان کی یاترا کا آغاز مودی کی موجودگی میں ہو۔مودی کے اپواس کے موقع پر نتیش کمار اور ان کی پارٹی جنتا دل (یو) نے یہ صاف کردیا تھا کہ مودی کی قیادت ان کو منظور نہیں۔پارٹی کے قومی ترجمان شوانند تواری نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ مودی کو تو ان کی پارٹی کے اندر ہی قبولیت حاصل نہیں،وہ دن میں ہی وزیراعظم بننے کے سپنے دیکھ رہے ہیں’اور یہ کہ’ ملک کے 120کروڑ عوام کی عقل اتنی نہیں ماری گئی کہ وہ ملک کی باگڈور ایسے شخص کے ہاتھوں میں دیدیں گے جو اپنی ریاست کے چھ کروڑ باشندوں کے ساتھ بھی انصاف کرنے اور راج دھرم نبھانے میں ناکام رہاہو۔‘ پارٹی کے اس واضح موقف کے بعد نتیش کمار نے اس یاترا کو روانہ کرنے کی دعوت قبول کرکے صاف کردیا ہے کہ این ڈی اے میں شریک دوسری سب سے بڑی پارٹی وقت آنے پر وزیر اعظم کے منصب کےلئے آڈوانی کی دعویداری تو قبول کرلیگی ، مودی کی نہیں۔ سنگھ کےلئے یہ تو مشکل نہیں کہ بھاجپا لیڈروں کو اپنے اشاروں پر نچالے اور جیسے اپنی پسند کا پارٹی صدر بنوایا ہے ویسے ہی پارلیمانی پارٹی کا لیڈر بھی چنوالے لیکن گمان یہی ہے کہ جے ڈی یو کو آمادہ کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ مودی کو لیڈر تسلیم کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ نتیش کمار خود کو بہار میں کمزور کرلیں۔ ان کے اقتدار کا دارومدار مسلم ووٹ پر ہی ہے۔

پارلیمنٹ میں انا ہزارے تحریک پربحث کےلئے پارٹی نے آڈوانی جی کا نام اپنی فہرست میں شامل نہیں کیا تھا۔اس کے باوجود جب وہ تقریر کےلئے کھڑے ہوئے تو اسپیکر نے روک دیا۔ جس سے آڈوانی جی کو سبکی محسوس ہوئی۔ چنانچہ انہوں نے اسی دن ’ بھرشٹاچار ورودھی رتھ یاترا‘کا اعلان کرکے پارٹی کو حیرت میں ڈالدیا۔ دراصل سیاست کا ساٹھ سالہ تجربہ رکھنے والے آڈوانی نے یاترا کے ایک تیر سے کئی شکار کرنے کی کوشش کی ہے۔ اپنی پارٹی کے پارلیمانی منتظمین کو جتا دیا ہے کہ لوک سبھا میں بولنے کا موقع نہ دینے سے ان کی آواز کو دبایا نہیںجایا سکتا۔ سرکار کویہ جتانا چاہا ہے کہ ہرچند سنگھ نے اور پارٹی نے ان کو ٹھنڈے بستے میں پہنچادیا مگر بجھی ہوئی راکھ میں ابھی کچھ چنگاریاں باقی ہیں۔ وہ اپنی اس یاترا کے ذریعہ شاید سابقہ یاتراﺅں کے اس گناہ کا پرائشچت بھی کردینا چاہتے ہیں جو انہوں نے ملک کو فرقہ پرستی کی آگ میںجھونک کر کیا ہے۔ 84سالہ بزرگ رہنما نے یہ بھی جتادیا:
گو ہاتھ میں جنبش نہیں ، آنکھوںمیںتو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر و مینا میرے آگے

آڈوانی جی ہندودھرم کے نقیب سمجھے جاتے ہیں۔ مگر انہوں نے ہی بات فراموش کردی کہ ہندودھرم میںیہ عمر دنیا سے سنیاس لینی کی ہوتی ہے ،راج پاٹ اور سر پر تاج رکھوانے کی نہیں ہوتی۔ اب اس دھارمکتاکو کیا کہا جائے ؟ حقیقت یا چھلاوا؟ ان کا ہی کیا پورے سنگھ پریوار کا یہی حال ہے۔’ بغل میں کٹاری، رام نام کا جپ جاری‘۔ المیہ یہ بھی ہے اس عمر میں، گھر کاآرام چھوڑ کر یاترا کی مشقت تووہ جھیلیں گے اور فائدہ دوسرے اٹھائیں گے۔ کیوں کہ سنگھ قیادت نے ان کو بتادیا ہے پیڑ تم بیشک لگاﺅ، مگر پھل کی آس نہیں رکھنا۔اس انجام کی طرف اشارہ انہوںنے خود ہی سرسنگھ چالک مسٹر بھاگوت سے ملاقات کے بعد ان یاس انگیز الفاظ میں کردیا ہے: ’پارٹی اور دیش نے مجھے اتنا دیا ہے جو وزیر اعظم کی منصب سے بڑھ کر ہے۔‘

افسوس کہ آڈوانی جی کی حالت بڑی قابل رحم ہے۔ 2004 کے چناﺅسے پہلے جب وزیراعظم اٹل بہاری باجپئی غیرملکی دورے پر تھے تو اس وقت پارٹی صدر ونکیا نائڈو نے باجپئی کی ہمسری میں انکا نام بھی اچھالا تھا اور کہا تھا:ہم آئندہ الیکشن میں باجپئی جی کو وکاس پرش(ترقی کا علم بردار) اوران کے ساتھ آڈوانی جی کو ’لوہ پرش‘ (فولادی قائد) کے طور پر پیش کریں گے۔‘ اس پر باجپئی جی کا دھوبی پاٹ کسے یاد نہ ہوگا۔واپسی پران کے ’کامیاب دورے‘ پر تہنیتی جلسہ ہواان کے ایک جملہ نے ساری بساط الٹ دی: ’آڈوانی جی کی قیادت میں وجئے رتھ کا پرستھان‘۔ یہ ایک الگ کہانی ہے کہ اس چناﺅ میںخلاف توقع عوام نے این ڈی اے کو اس کے ’شائنگ انڈیا‘ کے نعرے کے ساتھ مسترد کردیا۔ نہ لوہ پرش کی آرزو بر آئی اور نہ وکاس پرش کی۔ الزام دونوں کے سر آیا کہ چھ سالہ دور اقتدار میں ’رام مندر‘ کےلئے کچھ نہیں کیا اس لئے ہارے۔ اس شکست کے بعد باجپئی جی کے گھٹنے توبالکل ہی جواب دے گئے۔ چنانچہ 2009 کے چناﺅ سے قبل ہی آڈوانی جی کا راستہ صاف ہوگیا۔ این ڈی اے نے ان کو وزیر اعظم کے منصب کےلئے پیش کیا۔خو د انہوںنے ڈاکٹر من موہن سنگھ کو ’کمزور لیڈر‘ قراردیکر اپنی دعویداری کو مضبوط کرنا چاہا۔ چناﺅ سے عین قبل 7فروری 2009 کو ناگپور میں پارٹی کی قومی کونسل میںاور جون 2008 میںدہلی میں مجلس عاملہ کی میٹنگ میںپارٹی صدر راجناتھ سنگھ نے بڑے وثوق سے مسٹرآڈوانی کے وزیر اعظم بن جانے کا اعلان کردیا مگر قسمت نے ساتھ نہیں دیا اور خواب بکھر گیا۔اس شکست کے بعدسمجھا یہ گیا تھا کہ اب پی ایم بن جانے کا خیال خواب میں بھی ان کو نہیں ستائے گا۔ اس قیاس کو اسلئے اور تقویت ملی کہ سنگھ کے اشارے پران کو کنارے لگایادیا گیا۔ پہلے پارٹی صدر کے منصب سے ہٹنا پڑا، پھر پارلیمنٹ میں اپوزیشن لیڈر کے منصب سے بھی ہٹا دیا گیا ۔اور آڈوانی جی پریہ مثال صادق آنے لگی:
اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی
پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں

آڈوانی جی کی رتھ یاترا کے اعلان کے بعد مودی نے ’شانتی اور سدبھاﺅنا‘ کے نام پر جو اپواس کیا اس سے کچھ لوگوں کو، جن میں اردو صحافی بھی شامل ہیں یہ مغالطہ ہوگیا کہ مودی مسلم دشمن شبیہ کوبدلنا چاہتے ہیں۔حالانکہ ان کی یہی شبیہ سنگھ قیادت کی وجہ پسند ہے۔یہ مغالطہ ان کے اس خط سے ہوا جوقبل اپواس اخباروں میں بصورت اشتہار چھپا اور جس میںیہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ وہ اب عوام کے درد کو محسوس کرنے لگے ہیں۔مگر ان کی اختتامی تقریر میں ایک لفظ بھی ایسا نہیںملاجس سے اس گمان کی تائید ہوتی ہوکہ ان کا منشا فساد زدگان کی دلجوئی ہے۔ مودی کے اقتدار کی بنیاد گجراتی مسلمانوں کی لاشوں پر رکھی ہوئی ہے۔ اگلے سال اسمبلی چناﺅ ہونے والے ہیں۔ وہ اس شبیہ کو چھوڑ دیں گے تو ان کے پاس بچے گا کیا؟ مودی ہندتوواکے نظریہ کی جانب مائل ہی نہیںبلکہ اس پر عامل بھی ہیں اور انہوں نے وہ کردکھایا ہے جو سنگھ کے بانی کیشو بلی رام ہیڈ گیوار اور ان کے جانشین مادھو راﺅ سدا شو راﺅگوروگوالکر چاہتے تھے۔اس نظریہ کا اساسی اصول یہ ہے کہ مسلمان اصلاً حملہ آور اور غاصب ہیں، اس ملک کے مالک صرف ہندو ہیں۔بالفاظ دیگر یہ ہندو راشٹرا ہے۔ اس لئے مسلمانوں کوہندوﺅں کے برابر شہری حقوق نہیں دئے جاسکتے ۔ سیکولرزم ہندوﺅں کےلئے زہر ہے۔ چنانچہ سیکولرآئینی نظام کالعدم اور اس کی جگہ خالص منووادی ہندو راشٹرا قائم ہونا چاہئے۔ مسلمانوں اور عیسائیوں کو اگر یہاں رہنا ہے تو غلاموں کی طرح رہنا ہوگا۔ نماز روزہ بیشک کرلیں مگررہن سہن، تہذیب وتہوار سب مقامی ہندوﺅں کے اپنانے ہونگے۔ ان کو یہ بھول جانا ہوگا کہ ان کا کوئی رشتہ محمد عربی اور ان کے اصحاب ؓ سے بھی ہے۔ان کی جگہ دیومالائی کہانیوں کے کرداروں کو اپنا آئیڈیل ماننا ہوگا۔ اپنی گھریلو زندگی میں ، شادی اور طلاق میں اور ورثہ کی تقسیم میں شرعی قوانین کے بجائے یکساں سول کوڈ پر چلنا ہوگا۔ اب جب کہ ان کی نظر میں مسلمان برابرکا شہری ہی نہیں تو پھر فساد زدگان کی دادرسی کا کیا سوال؟مسلم دشمن شبیہ بدلنے کی کیا ضرورت؟

تاہم وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ مسلم دشمن شبیہ کے ساتھ وہ وزیر اعظم نہیں بن سکتے۔ چنانچہ عین ممکن ہے 2014کے چناﺅ سے پہلے فساد زدگان سے معافی مانگ لیں اور ان کے زخموں پر کچھ مرہم بھی رکھدیں۔ اس تدبیر سے مسلم عوام کو دھوکہ دینا کچھ مشکل نہیں ۔ ایسے ’مسلم دانشور‘ بھی مل جائیں گے جو باجپئی حمایت کمیٹی کے طرز پر مودی حمایت کمیٹی بنالیں اور مودی وہ ٹوپی پہن لیںجسے بوہرہ مولوی سید امام سے لینے سے انکار کردیا تھا ۔ آخر باجپئی اور آڈوانی نے بھی ووٹ کی خاطر ٹوپی سر پر رکھ لی تھی۔کیا مسلمان اس عیاری سے دھوکہ کھاجائیں گے؟ اس سوال کا جواب ہی مودی کا سیاسی مستقبل طے کریگا۔(ختم)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 164113 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.