“ اس نے اپنے شعور میں بیٹھا لیا کہ ابھی مرنا نہیں ہے”

دنیا میں روزانہ لاکھوں بچے پیدا ہوتے ہیں. ان صحت مند بچوں کی پیدائش سے والدین و خاندان والے تو خوش ہوتے ہی ہیں. مگر کچھ بچے جو دوران پیدائش معزور پیدا ہوتے ہیں اُن کے والدین پر کیا گزرتی ہے یہ تو وہی جانتے ہیں ان میں کچھ والدین تو قدرت کی طرف سے آزمائش سمجھ کر قبول کرلیتے ہیں . اور اکثر لوگ ان معزور بچوں کو ان کو حوصلہ دینے کے بجائے ان کو اپنے رویہ ، احساس وغیرہ سے احساس محرومی کی دلدل میں جینے کے کیے چھوڑ دیتے ہیں. جبکہ کچھ ماں باپ ان کی معزوری کو ان کی کمزوری کے بجائے ان میں جینے کی اُمنگ پیدا کرتے ہیں ایسا ہی ایک بچہ جو 8 نومبر 1848 کو ایک آئرش خاندان کے ہاں ایک بچے کی پیدائش ہوئی، جوں جوں وقت گزرتا گیا تو اس بچے کے والدین کو محسوس ہونا شروع ہوگیا کہ بچے کے ساتھ کچھ عجیب ہے، کوئی سنگین پیدائشی بیماری ہے شاید جس کے باعث وہ دوسرے بچوں جیسا نارمل نہیں دکھائی دیتا.

ڈاکٹروں نے ممکن حد تک تشخیص کرنے کی کوشش کی تو وہ فقط اتنا جان پائے کہ اس بچے کے خون میں کوئی خرابی ہے مگر وہ اس بیماری کو مکمل طور پر سمجھنے میں ناکام رہے. ہر گزرتے دن کے ساتھ بچے کی عمر تو بڑھتی رہی مگر اس کی جسمانی نقل و حرکت بڑھنے کی بجائے محدود ہوتی گئی، اور ایک وقت ایسا آیا کہ وہ ہر طرح کی جسمانی حرکت سے معذور ہوگیا.

جب ڈاکٹروں نے لاعلاج قرار دے کر کہہ دیا کہ یہ بچہ شاید چند دنوں کا مہمان ہے تو اسی حالت میں وہ بچہ جو بچپن سے نکل کر لڑکپن میں داخل ہو رہا تھا اس نے اپنی زندگی کے سات سال بستر پر بے حس و حرکت پڑے پڑے گزار دیئے.

وہ گردن ہلا سکتا تھا اور اس کے باپ نے اس کی خاطر اس کا بستر کمرے کے اندر اس دیوار کے پاس لگا دیا جس میں ایک کھڑکی تھی جو باہر گلی میں کھلتی تھی.

وہ وہاں لیٹا رہتا اور موسموں کو دیکھتا رہتا، لوگوں کی آوازیں سنتا اور جن چیزوں کو نہ دیکھ سکتا ان کے متعلق خود ہی تصور قائم کر لیتا رہا.
اس کی ماں نہایت ہی شاندار خاتون تھی جسے آئرش ادب اور تاریخ پر قدرے عبور حاصل تھا، وہ آئرش تاریخ، تاریخی ہیروز کی کہانیاں اور لوک داستانیں اسے سناتی رہتی اور وہ ان افسانوی یا سچی داستانوں پر اپنا تصور باندھتا رہتا.

اس نے کہانیاں سن کر یہ نتیجہ نکالا کہ قبل از وقت موت بہت بری بلا جیسی ہوتی ہے لہٰذا اس نے اپنے شعور کے اندر بٹھا لیا کہ ابھی مرنا نہیں ہے، وہ اپنے ذہن میں ہمیشہ ایک تخیل رکھتا تھا کہ میں اس بستر سے کسی کے سہارے کے بغیر اٹھ کر زندگی ضرور جیوں گا،
اور پھر جب اس نے مرنے سے انکار کر دیا تو آہستہ آہستہ اس کے اندر زندگی نے لوٹنا شروع کر دیا.

جب وہ صحت یاب ہوکر زندگی کی طرف پلٹ آیا تو اس نے کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کی، تو قصہ گو بنا، ایتھلیٹ بنا، ہیوی ویٹ لفٹر بنا، غرض اس نے ہر اس چیز کو اپنے ارادوں سے تسخیر کیا جس کے متعلق وہ ماں سے سن کر، اور گلی میں کھلنے والی کھڑکی سے دیکھ کر تخیل میں دنیا بساتا رہا تھا مگر جسمانی طور پر کرنے سے معذور تھا.

پھر اس کی زندگی میں ایک دن ایسا آیا جب اس نے ایک ایسا شہکار ناول لکھا مارا جو اپنی مثال آپ تھا، تاریخ میں اس سے پہلے گوتھک ژانرا میں اس طرز کا ڈرامہ، فلم، تھیٹر، ناول کچھ بھی نہیں تھا، وہ اس ناول کے ساتھ اس نئی طرز کا موجد بھی تھا. اسی کے ناول سے کئی قلمکاروں اور فلم سازوں کو Vampire کا آئیڈیا ملا.

اس کے ناول کا نام 'ڈریکولا' تھا جو ڈیڑھ سو سال گزرنے کے باوجود آج تک لازوال شہکار ہے. اپنی ابتدائی اشاعت میں ناول کی کہانی اتنی طاقتور اور حقیقت سے قریب تر تھی کہ برطانوی اور آئرش حکومتوں اور وہاں کے اہل مذہب نے کہا اگر اس ناول کو مارکیٹ میں برقرار رکھنا ہے تو اس کے پہلے 101 صفحات مکمل طور پر پر حذف کرنے کے ساتھ اس کے کئی الفاظ کو دھندلا اور کئی الفاظ کو کاٹنا ہوگا، ان کا خیال تھا کہ ناول کا ابتدائیہ اتنا اثر انگیز ہے کہ یہ لوگوں کے عقائد و نظریات کو بدل کر رکھ دینے کی طاقت رکھتا ہے. لہٰذا اس کی تخلیق کو کانٹ چھانٹ دیا گیا، مگر وہ اپنے حصے کا کام مکمل کر چکا تھا.

ڈریکولا کے مصنف کا نام برام سٹوکر Bram Stoker تھا.

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 284 Articles with 93808 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.