نتائجوں کا برہمن - نویں قسط

نواب صاحب کی دلچسپی کو مد نظر رکھتے ہوئے کلکٹر صاحب نے بات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے کہا، عیسائی مناظرے میں تو مسلمانوں سے کبھی بھی جیت نہیں سکتے لہذا یہ جو علماءیہاں سے تیار ہو رہے ہیں یہ پہلے آپس میں مناظرہ کرتے ہیں جیسے اسکولوں میں ڈبیٹ ہوتی ہے ایک موضوع چُن کر دو ٹیمیں مقابلہ کرتی ہیں ایک موافق اور دوسری مخالفت میں بولتی ہے پھر جس کی دلیلیں وزنی ہوں اُس کو فاتح قرار دے کر ایک سرٹیفکیٹ دیا جاتا ہے چاہے وہ موافق ہو یا مخالف ،اسی طرح یہاں بھی مقابلہ میں جو کامیاب ہوتا ہے اُسے جامعہ اظہر کی سند سے نواز کر مشرقِ وسطی یا کسی بھی مسلمان ملک میں بھیج دیا جاتا ہے جہاں وہ کسی مسجد یا مدرسے میں صرف کھانے اور رہائش کی سہولت پر خدمات پیش کرتا ہے اور اپنی دلیلوں سے نوجوانوں کو قائل کر کے اپنے مقصد کے لیے استعمال کرتا ہے، ۔

یہ جو آجکل خودکُش حملے ہو رہے ہیں یہ اسی گناﺅنی منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے جس میں بظاہر بھولے بھالے مسلم نوجوانوں کو امریکہ کی حمائتی حکومت سے جہاد پر اکسا کر جنت کا لالچ دے کر اپنے ہی بے گناہ مسلمان بھائیوں پر حملے کروائے جاتے ہیں جو کسی طور پر بھی جائز نہیں ، یہ سب کچھ انگریز مکر اور چالبازی اور ساتھ ساتھ پیسے کے زور سے کروا رہا ہے ، جیسے پہلے طالبان کو مجاہد بنا کر روس سے لڑوایا پھر جب اپنا مطلب نکل گیا تو انہیی کو ٹیروریسٹ کہہ دیا،

میری باتوں سے حق صاحب جو دوسرے ہندوستانیوں کی طرح پاکستانیوں کو دہشت گرد سمجھ کر دل ہی دل میں بُرا بھلا کہتے رہتے ہیں اُن کے چہرے کے تاثرات میں کچھ تبدیلی سی ظاہر ہونے لگی تو میں نے ذرا زور دیتے ہوئے کہا ، حق صاحب میری بات غور سے سنئیے،
آگ تب تک نہیں لگتی جب تک کوئی لگانے والا نہ ہو،
انسان کبھی نہیں بہکتا جب تک کوئی بہکانے والا نہ ہو،

حق صاحب میری اس تک بندی پر واہ واہ کر اٹھے ،ہنستے ہوئے فرمانے لگے ، واہ صاحب آپ نے تو قافیہ ملا دیا کیا بات ہے، ویسے ہے یہ بات سولہ آنہ صحیح کہ اگر شیطان نہ بہکاتا تو باوا آدم بھی جنت سے نہ نکلتے، یہ آپ نے بڑی سہی بات کی اسی بات پر ایک چائے کا دور ہو جائے، میں نے انہیں منع کرتے ہوئے کہا نہیں بھائی میں تو آپ کی پریشانی کا سن کر رہ نہ سکا ، سنا ہے آپ کے ساتھ یہاں بہت بڑا فراڈ ہوا ہے، حالانکہ یہاں کے لوگ ایسے نہیں ہیں ! آپ کے ساتھ ایسا کیونکر ہوا ؟

اس پر حق صاحب نے ایک لمبی اور ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے اپنے مخصوص کلکتے والے لہجے میں کہنا شروع کیا، ارے بھائی میاں کیا بتائیں یقین تو ہم کو بھی نہ آوے ہے مگر سُسرا پیسہ ایسی چیز ہے نہ کہ بڑے بڑوں کا ایمان خراب کر دیوے ہے۔

میں نے مزید کریدتے ہوئے پوچھا بہت بڑی رقم تھی کیا ؟ انہوں نے اسی انداز میں لاپرواہی سے کہا، ارے صاحب رقم کو مارو گولی سالی عزت کا جو جلوس نکل گیا، حالانکہ جس برمی عورت سے میں پانچ سال سے کام کرتا آ رہا ہوں اُس نے کبھی میرے ساتھ ایک پائی کی ہیرا پھیری نہیں کی اس دفعہ اُس کو بھی کوئی چونہ لگا گیا ، وہ اب بھی میرے پاس آکر تسلی دیتی رہتی ہے کہ آپ کا مال ملے گا مجھ سے دھوکہ کر کے کوئی برما میں نہیں رہ سکتا ، میری پہنچ بہت اوپر تک ہے اور اسی تسلی پر یہاں رُکا ہوا ہوں ورنہ کب کا واپس چلا گیا ہوتا، میں نے تجسس بھرے لہجے میں کہا، اچھا دھوکے کی بات پر مجھے یاد آیا کہ آپ ہیرے کی پہچان کیسے کرتے ہو اس میں بھی تو دھوکہ ہو سکتا ہے ؟ اس پر حق صاحب نے ہنستے ہوئے کہا، نہ نہ صاحب اس معاملے میں ہمیں کوئی نہیں بنا سکتا ہمارے گرو نے ہم کو اتنا پکا کیا ہوا ہے کہ ہم ہیرے کو دور ہی سے دیکھ کر بتا دیں گے کہ یہ اصلی ہے یا نقلی ! مجھے دراصل خود بھی کچھ اس بارے میں سمجھنا تھا اس لیے میں نے تفصیل جاننے کے لیے ان سے درخوست کی کہ ذرا مجھے بھی اس کے بارے میں بتائیں کہ اصلی ہیرے کی پہچان کیا ہے ؟

اس پرانہوں نے مسکراتے ہوئے کہا بھائی یہ گُر سیکھنے میں ہمیں بڑی مشقت اٹھانی پڑی تھی، استادوں کی مار کھائی تب جا کرکچھ حاصل ہوا اور آپ کو ایسے ہی بتا دیں ؟ پھر خود ہی مسکرا کر کہنے لگے اچھا آپ بھی کیا یاد کریں گے کہ کسی کلکتے کے مسلمان بھائی سے ملاقات ہوئی تھی ، آپ کو صرف ایک نقطہ بتا دیتے ہیں جس سے ہیرے کے اصلی یا نقلی ہونے کا پتہ تو چل جائے گا مگر اس مالیت کو جاننے کے لیے کسی گرو کی خدمات حاصل کرنی پڑے گی ، میں نے اپنے اشتیاق کو چھپانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے کہا ، بس بس اتنا ہی کافی ہے باقی کا جاننے کے لیے آپ سے رجوع کریں گے۔

انہوں نے اپنا چشمہ درست کرتے ہوئے بڑے نپے تلے انداز میں کہنا شروع کیا، آپ کے پاس اگر کوئی ہیرا لے کر آئے تو آپ اسے اپنی چٹکی میں پکڑ کر سورج کے سامنے کریں، اگر رات ہو تو موم بتی جلا کر اُس کے سامنے کریں اگر اس کے اندر روشنی دائرے میں حرکت کرتی ہوئی نظر آئے تو سمجھ لیں کہ یہ زندہ پتھر ہے اور اگر روشنی ساکت ہو تو سمجھیں کہ پتھر مردہ ہے یا نقلی ہے ، یہ ایک بنیادی نقطہ ہے پہچان کا باقی اس کی گہرائی میں جانے کے لیے بہت کاریگری کی ضرورت ہے۔

اتنا کہہ کر حق صاحب خاموش ہو گئے ادھر کافی رات ہو چکی تھی اس لیے میں ایک نئی دریافت کے ساتھ ہنسی خوشی ان سے رخصت لے کر اپنے کمرے میں آ کر سوچنے لگا ، اللہ ہی جانے انہوں نے کس مروت کے مارے یہ نقطہ مجھے بتا دیا ورنہ تو ہیروں کے سوداگر کبھی کسی کو ایسی راز کی باتیں آسانی سے نہیں بتاتے ۔

حق صاحب کا ذکر تو کہانی میں ضمناً آگیا اصل تو مجھے نتائجوں جا کر اپنے ملا کی تیاری دیکھنی تھی کی رام بابو برہمن جس کو میں مقرر کر کے آیا تھا اس نے کہاں تک کام کی دیکھ بھال کی یا پھر اپنی شادی کی فکر میں کام کو بھول گیا۔

خیر سلیم بھائی جو اپنے گھر واپس جا چکے تھے اُن کو میں نے کہہ تو دیا تھا کہ رام بابو کے لیے وہاں کوئی برہمن رشتہ ہو تو اس بیچارے کے ہاتھ پیلے کرنے کا جتن کرنا ورنہ تو برما میں بوڑھے بوڑھے کنوارے بہت نظر آتے ہیں جن میں اکثریت مسلمانوں کی ہے، میں جس ہوٹل میں کھانا کھانے یا چائے پینے جاتا تھا وہ ایک گوجرانوالہ کے بشیر صاحب کی ملکیت ہے جو تیس نمبر گلی کی نکڑ پر ہے اور جسے بشیر صاحب کے دوجوان بیٹے چلاتے ہیں ویسے تو بشیر صاحب سے بھی کبھی کبھی دعا سلام ہو جاتی اکثر مسجد میں یا ان کا ایک اور بھی ہوٹل جو بتیس نمبر گلی میں تھا انہیں کی نسبت اُن کے بیٹے جو تھوڑی بہت اردو جانتے تھے بڑی آﺅ بھگت کرتے ، پہلے پہل جب انہوں نے چائے کے پیسے لینے سے انکار کیا تو میں دھمکی دی کہ میں تمہارے ہوٹل آنا بند کردوں گا تو انہوں نے پھر ضد نہیں کی، وہیں ایک بڑھیا جس کی عمر تقریباً اسی پچاسی سال ہوگی چائے پینے یا کھانا کھانے آتی تھی ایک دن وہ میری ٹیبل پر آکر اردو میں بولی ، کیا آپ پاکستانی ہو ؟ میں نے کہا جی ماں جی ، وہ میرے سامنے بیٹھ گئی میں نے اخلاقاً کہا کیا ماں جی چائے پئیں گی ؟ انہوں نے بے تکلفی سے کہا ہاں ساتھ میں ایک پراٹھا بھی کھاﺅں گی ! میں نے آرڈر دیا تو انہوں نے بات بڑھانے کے لیے پوچھا پاکستان میں کس شہر سے ہو، میں نے انہیں غور سے دیکھا اچھی خاصی گوری رنگت چہرے پر جھُریوں کی جگہ سلوٹیں پڑ چکی تھیں یہ دبلی پتلی بھوری آنکھوں والی عورت مجھے دیکھنے میں کوئی میمن فیملی سے معلوم ہوئی ،میں نے ان کی بات کے جواب میں ذرا زور دے کر کہالاہور سے“، اور آپ ؟ میرے سوال پر وہ ہنستے ہوئے بولی ، میں ادھر ہی کی ہوں ۔ میں آگے بات کرنے کی ہمت نہ پاتے ہوئے خاموشی میں بہتری سمجھ کرچائے پیتے ہوئے سوچنے لگا، اللہ جانے یہ کوئی پاگل بُڑھیا ہے جو اتنی بے تکلفی سے میری ٹیبل پر آ کر بیٹھ گئی ہے، اسی دوران میں نے دیکھا بشیر صاحب کا بیٹا جو کیش پر بیٹھا تھا وہ ہماری طرف مسکراتی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔
H.A.Latif
About the Author: H.A.Latif Read More Articles by H.A.Latif: 58 Articles with 77149 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.