نواز شریف کو اقتدار میں لایا جارہا ہے کیا پاکستان کی جمہوریت کا سیاہ باب کہلائے گا؟”

نواز شریف کو جس طرح سے پاکستان کی اسٹیبلیشمنٹ اقتدار کی کرسی پر بیٹھانے کی کوشش کی جارہی ہے. پاکستان کے جمہوری حلقوں میں پاکستان کی جمہوری اقتدار کا ایک سیاہ باب بن کر سامنے آئیگا.

حالیہ دنوں میں پاکستان کے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی ایک تقریب میں شرکت کرتے ہوئے نواز شریف سے سخت اختلاف کرتے ہوئے خاقان عباسی جو نواز کے قریب ترین دوستوں میں شمار کے جاتے ہیں وہ بھی اپنے قائدین پر ہی برس ہڑے کہ اسٹیبلیشمنٹ کے 100 کے بجائے 30 نشستوں پر آجائیں مگر قوم کا مورال ڈاؤن نہ کریں یہ ہی پاکستان کی جمہوریت کے لیے صیح سمت ہوئیگی. اس وقت پاکستان کے سارے سوالات اور مسائل کا حل آئین میں موجود ہے۔ جو پاکستان کے طاقتور حلقے ہیں اُن کے اختیارات کا بھی آئین میں بتایا گیا ہے۔اب نیا آئین بنانے کے بجائے اب قواعد بنانے کی ضرورت ہے۔ اس وقت پاکستان بھر میں مختلف مبصرین اور سیاسی رہنما یہ سنگین الزام عائد کر رہے ہیں کہ نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے ایک مرتبہ پھر اقتدار میں آنا چاہتے ہیں۔

دیکھا جائے تو اس وقت پاکستان کے ہر شعبے میں اصلاحات کی ضرورت ہے اور اصلاحات کے ذریعے ہی تمام مسائل حل کیے جاسکتے ہیں۔ پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر میثاق جمہوریت کو دوبارہ زندہ کرنا چاہیے. اور اسہی پر ہر سیاسی جماعت کو عہد کرنا چاہیے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت پاکستان کے مسائل کا حل ایک دن میں نہیں نکال سکتی۔ پاکستان کی سیاسی قیادت کو بیٹھ کر بات کرنی چاہیے اور مسائل کے حل کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ میثاق جمہوریت پر چلنے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر آکر حلف اُٹھانا چاہیے. آئندہ اس مُلک میں کسی بھی سیاسی جماعت کے حکمران کے خلاف سازش میں شریک سفر نہ بنیں گے. ملک میں اب کوئی ایجیٹیشن کی سیاست کا حصہ نہیں بنیں گے. اب مُلک کو ترقی کی طرف لیکر جائینگے.

پاکستان کی بدنصیبی کہلو کہ آجکل پاکستان میں لیڈر شپ کا نہ ہونے کے برابر ہے۔ خواہ وہ سیاسی لیڈر شپ ہو، عدلیہ یا ادارہ کی لیڈر شپ۔ جس کی وجہ سے مُلک میں داخلی اور خارجی سطح پر ہم کوئی کردار ادا نہیں کر پارہے ہیں. جس کی اس وقت اشد ضرورت محسوس کی جارہی ہے. اور ہم او آئی سی، سارک ، کامن ویلتھ، اقوام متحدہ وغیرہ میں اب ہم برائے نام جیسے ملکوں کی کیٹیگری میں کسی دن آجائینگے

پاکستان حالیہ انتخابات تو کیا اس مُلک میں کتنے انتخابات بھی کروالیں. پاکستان کے پیچیدہ مسائل کا حل نہیں کرسکتے کیونکہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں اِس بارے اپنا کوئی پروگرام مرتب نہیں کرپائیں ہیں اور تمام سیاسی جماعتیں کچھ آگے کرنے کا ان میں ویزن بھی نظر نہیں آرہا ہے. یہ انتخابات لگتا ہے صرف برائے نام ہی ہوئینگے بس نئے چہرے لاکر آگے کا دیا ہوا پروگرام مرتب کردیا جائیگا، ان انتخابات میں ایسا کوئی مقبوضہ کشمیر فتح ہوتا ہوا کچھ نظر نہیں آرہا ہے.

اس وقت پاکستان کو کون لیڈ کررہا ہے ملک میں گوماگوں کی سی کیفیت ہے. یعنی کاکڑ صاحب کا کردار حقیقت میں کہیں نظر نہیں آرہا ہے. کون کس کو چلارہا ہے؟ اس مُلک میں آئین تو ہے لیکن اس کی پاسداری کیوں نہیں کی جاتی یہی پاکستان کی جمہوریت کا سب سے بڑا المیہ ہے. اس آئین کی میڈیا، علما، سیاست دان اور دیگر ادارے آئین کی پاسداری کیوں نہیں کرتے۔اس پر سب ایک دوسرے پر الزام تو لگادینگے مگر اس کا کوئی مثبت حل نہ نکالیں گے اور نہ ہی اس پر بات کرنے کو تیار ہے.

ہمارا تو یہ حال ہے کہ اگر پاکستان میں جو بھی حکومت آتی ہے وہ اپنی پالیسیاں بنا کر آتی ہے لیکن جب ان پالیسیوں پر عمل کا وقت آتا ہے تو سول و بیوروکریسی درمیان میں آجاتی ہے۔ جس کی وجہ سے ہر اچھے فیصلے مُلک کی بہتری کے کام پر تاخیر پر تاخیر ہوجاتی ہے جو کام لاکھ میں ہونا چاہیے تھا وہ پھر کروڑوں میں پھر اس ہی طرح ہر ترقیاتی کام کے اخراجات بڑھ جاتے ہیں. پاکستان کا بیوروکریسی سسٹم نو آبادیاتی نظام جیسا لگتا ہے.

جبکہ ملک میں کرپشن کی شرح آئے دن اس میں بہت اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اگر پوسٹنگ یا ٹرانسفر پوسٹ پر بھی ( قائداعظم والی تصویر ) کے کاغذ چل رہے ہوتے ہیں . اس وقت کسی سیاسی قائدین کو اخلاقی جرات نہیں ان پر کُھل کر اظہار کرسکے تو پھر ایسے سیاست دان کو سیاست کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ پاکستان میں اس وقت کرسی کی کوئی طاقت نہیں ہوتی۔

جتنے بھی پاکستان کے وزیراعظم بنے یا بنائے گئے وہ برائے نام وزیرِ اعظم تھے بلکہ انہیں کنٹریکٹ بیس پر ملازمت پر رکھا جاتا ہے. جب انہیں ختم کرنا ہوتا ہے تو یہ کنٹریکٹ پر دوسرے کو ترجیح بنیادوں پر اُس کو لگادیا جاتا ہے. جیسا آجکل قیدی نمبر 804 کے ساتھ ہوا ہے.

پاکستان کی سن 1971 سے 2024 تک کی تاریخ میں صرف چار لیڈر آئے ہیں جن میں ذوالفقار علی بھٹو، بینظیر بھٹو، نواز شریف اور عمران خان شامل ہیں۔ لیڈر وہ ہوتا ہے جس کے کہنے پر عوام ووٹ ڈالتی ہے.

نیب کے خاتمے کے لیے جتنے بھی حکمران آئے ہر حزب اختلاف جماعتوں نے ایسے ختم کرانے کی ہر دور کے وزیراعظم سے درخواست کی کئی بار کہا کیوں کہ نیب سیاست دانوں کو کچھ زیادہ ہی تنگ کرتا رہا ہے۔ اِس پر کمیٹی بھی بنی جو تین سال تک کام کرتی رہی مگر کچھ نہ ہو سکا۔ جس سے انصاف، انصاف نظر نہیں آرہا ہے. سوائے مخالف فریق کو پابند سلاسل کرکے تنگ کرنا ہے.
اگر پاکستان کی جمہوریت اور ان سیاسی جماعتوں کا طرز عمل اس ہی طرح رہا تو پاکستان ابھی بنگلہ دیش سے تو معاشی اعتبار سے تو ٹریک سے اُتر گیا ہے. اگر اب بھی سنجیدگی نہ دیکھائی تو سارک ملکوں کے غریب ممالک کی صف سے بھی باہر نہ ہوجائے. ابھی وقت گزرا نہیں ہماری سیاسی جماعتوں اور ان کے لیڈران کو اب اپنی طاقت پر الیکشن جیتنے ہوئینگے. آج سے یہ عہد کریں کہ کسی کے مرہون منت اقتدار کے سنگساسن پر نہیں بیٹھیں گے. اگر اس اصول پر ایک دفعہ آگے تو پھر پاکستان کی ترقی دور نہیں.

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 288 Articles with 96899 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.