* میری یہ امت آپس میں تلوار زنی سے فنا ہوگی“

ایمان افروز معجزہ جو ہر مسلمان کو تڑپا کر رکھ دے گا

وہ اونٹ جس نے رسول اللہ ﷺ کے لئے چار دعائیں کی ،رسول خداﷺ نے جب اسکی تین دعاوں پر آمین کہا اور چوتھی پر آبدیدہ ہوگئے تو؟

دنیا کی سب سے مہربان ہستی رسول خدا ﷺ انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں کی دل جوئی بھی فرماتے ا ور انہیں انسانوں کے شر سے محفوظ رکھتے تھے ،یہ ایمان افروز معجزہ بھی ایک ایسے بوڑھے اونٹ سے منسوب ہے جو اپنے مالک کی شرپسندی سے عاجز آکر اللہ کے رسولﷺ کی پناہ میں آگیا تو سرکار دوعالم ﷺ نے اسکی جان بچا ئی جس پر اونٹ نے اللہ کے نبی ﷺ کے لئے چار دعائیں فرمائیں لیکن ان میں اسے ایک دعا ایسی تھی جس پر رسول اللہ ﷺ آبدیدہ ہوگئے تو صحابہؓ کرام تڑپ اٹھے تھے کہ ایسا کیا ماجرا ہوگیا کہ اللہ کے رسول ﷺ کی چشم مبارک سے آنسو بہہ نکلے ہیں ۔علامہ طاہر القادری نے کشف الاسرار میں اس حدیث مبارکہ کو بیان کیا ہے جس میں اس واقعہ کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں ۔ابن ماجہؒ نے اس حدیث مبارکہ کوحضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے ۔وہ فرماتے ہیں ’’ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں حاضر تھے کہ ایک اْونٹ بھاگتا ہوا آیا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سرِ انور کے پاس آکر کھڑا ہوگیا (جیسے کان میں کوئی بات کہہ رہا ہو)۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا’’اے اْونٹ! پُرسکون ہوجا۔ اگر تو سچا ہے تو تیرا سچ تجھے فائدہ دے گا اور اگر تو جھوٹا ہے تو تجھے اس جھوٹ کی سزا ملے گی۔ بے شک جو ہماری پناہ میں آجاتا ہے، اللہ تعالیٰ بھی اسے امان دے دیتا ہے اور ہمارے دامن میں پناہ لینے والا کبھی نامراد نہیں ہوتا‘‘ ہم نے عرض کیا’’ یارسول اللہ! یہ اونٹ کیا کہتا ہے؟ ‘‘آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا’’ اس اونٹ کے مالکوں نے اسے ذبح کرکے اس کا گوشت کھانے کا ارادہ کرلیا تھا۔ سو یہ ان کے پاس سے بھاگ آیا ہے اور اس نے تمہارے نبیﷺ کی بارگاہ میں استغاثہ کیا ہے‘‘ہم ابھی باہم اسی گفتگو میں مشغول تھے کہ اس اونٹ کے مالک بھاگتے ہوئے آئے۔ جب اونٹ نے ان کو آتے دیکھا تو وہ دوبارہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سر مبارک کے قریب ہوگیااور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پیچھے چھپنے لگا۔ ان مالکوں نے عرض کیا’’ یا رسول اللہ! ہمارا یہ اونٹ تین دن سے ہمارے پاس سے بھاگا ہوا ہے اور آج یہ ہمیں آپ کی خدمت میں ملا ہے‘‘ اس پر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا’’ یہ میرے سامنے شکایت کر رہا ہے اور یہ شکایت بہت ہی بری ہے‘‘انہوں نے عرض کیا’’ یا رسول اللہ! یہ کیا کہہ رہا ہے؟ ‘‘آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا’’ یہ کہتا ہے کہ یہ تمہاری پاس کئی سال تک پلا بڑھا۔ جب موسم گرما آتا تو تم گھاس اور چارے والے علاقوں کی طرف اس پر سوار ہوکر جاتے اور جب موسم سرما آتا تو اسی پر سوار ہوکر گرم علاقوں کی جانب کوچ کرتے۔ پھر جب اس کی عمر زیادہ ہوگئی تو تم نے اسے اپنی اونٹنیوں میں افزائش نسل کے لئے چھوڑ دیا۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس سے کئی صحت مند اونٹ عطا کئے۔ اب جبکہ یہ اس خستہ حالی کی عمر کو پہنچ گیا ہے تو تم نے اسے ذبح کر کے اس کا گوشت کھالینے کا منصوبہ بنالیا ہے‘‘ انہوں نے عرض کیا’’ خدا کی قسم، یا رسول اللہ! یہ بات من وعن اسی طرح ہے جیسے آپ نے بیان فرمائی‘‘ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا’’ ایک اچھے خدمت گزار کی اس کے مالکوں کی طرف سے کیا یہی جزا ہوتی ہے؟‘‘ وہ عرض گزار ہوئے ’’یا رسول اللہ! اب ہم نہ اسے بیچیں گے اور نہ ہی اسے ذبح کریں گے‘‘ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا’’ تم جھوٹ کہتے ہو۔ اس نے پہلے تم سے فریاد کی تھی مگر تم نے اس کی داد رسی نہیں کی اور میں تم سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والا ہوں۔ بے شک اللہ تعالیٰ نے منافقوں کے دلوں سے رحمت نکال لی ہے اور اسے مومنین کے دلوں میں رکھ دیا ہے‘‘ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس اونٹ کو ان سے ایک سو درہم میں خرید لیا اور پھر فرمایا’’ اے اونٹ! جا، تو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر آزاد ہے‘‘ اس اونٹ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سر مبارک کے پاس اپنا منہ لے جاکر کوئی آواز نکالی تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا’’ آمین‘‘ اس نے پھر دعا کی۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے پھر فرمایا’’ آمین‘‘ اس نے پھر دعا کی۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے پھر فرمایا’’ آمین‘‘ اس نے جب چوتھی مرتبہ دعا کی تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم آبدیدہ ہوگئے۔ ہم نے عرض کیا’’ یا رسول اللہ! یہ اونٹ کیا کہہ رہا ہے؟‘‘آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا’’ اس نے پہلی دفعہ کہا: اے نبی مکرم! اللہ تعالیٰ آپ کو اسلام اور قرآن کی طرف سے بہترین جزا عطا فرمائے‘‘ میں نے کہا’’ آمین‘‘ پھر اس نے کہا’’ اللہ تعالیٰ قیامت کے روز آپ کی امت سے اسی طرح خوف کو دور فرمائے جس طرح آپ نے مجھ سے خوف کو دور فرمایا ہے‘‘ میں نے کہا’’ آمین‘‘ پھر اس نے دعا کی’’ اللہ تعالیٰ دشمنوں سے آپ کی اْمت کے خون کو اسی طرح محفوظ رکھے جس طرح آپ نے میرا خون محفوظ فرمایا ہے‘‘ اس پر بھی میں نے آمین کہا۔ پھر اس نے کہا’’ اللہ تعالیٰ ان کے درمیان جنگ وجدال پیدا نہ ہونے دے ۔یہ سن کر مجھے رونا آگیا کیونکہ یہی دعائیں میں نے بھی اپنے ربّ سے مانگی تھیں تو اس نے پہلی تین تو قبول فرما لیں لیکن اس آخری دعا سے منع فرما دیا۔ جبرائیل نے مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر دی ہے کہ میری یہ امت آپس میں تلوار زنی سے فنا ہوگی۔ جو کچھ ہونے والا ہے قلم اسے لکھ چکا ہے۔‘‘
(الترغیب والترہیب ، 3 / 144 ، حدیث : 24ملخصاً)

انجینیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجینیر! شاہد صدیق خانزادہ Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.