“ کیا مشرقِ وسطیٰ کی لڑائی اب بلوچستان بھی پہنچ گئی ہے”

اسلامی جمہوریہ ایران کی طرف سے منگل کی رات ( بقول ایرانی میڈیا کے جیش العدل نامی شدت پسند تنظیم ) کے پنجگور میں مبینہ ٹھکانوں پر حملہ کیا گیا جبکہ اس کے 36 گھنٹوں کے اندر پاکستانی طیاروں کی جانب سے ایران کے صوبے سیستان و بلوچستان کے نزدیک سرحد میں کاروائی کی گئی۔ پاکستان اور ایران کے بلوچ آبادی والے صوبے بلوچستان (پاکستان) اور سیستان و بلوچستان (ایران) طویل عرصے سے بدامنی اور شورش کا ہمیشہ سے شکار رہے ہیں۔

ماضی میں بھی ایران کی جانب سے آئے دن پاکستان پر یہ الزام عائد کرتا رہا ہے کہ ایران میں شدت پسندی کی کاروائیوں میں ملوث گروہوں کے خفیہ ٹھکانے پاکستان کے سرحدی علاقوں میں موجود ہیں۔ جبکہ دوسری جانب گذشتہ چند سالوں کے دوران بلوچستان کے مکران ڈویژن کے تین اضلاع میں عسکریت پسندوں کی کاروائیوں پر پاکستانی حکام کی جانب سے بھی آئے دن یہ الزام عائد کیا جاتا رہا کہ ان کاروائیوں میں ملوث مسلح کالعدم بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کے ٹھکانے ایران میں موجود ہیں۔

کئی دہائیوں سے دونوں یہ اسلامی مُمالک اپنے اپنے ملک میں ہونے والی تخریبی کارروائیوں کے بعد ایک دوسرے پر الزامات عائد کرتے رہے ہیں اور ایک دوسرے کے سفارتی عملے کی طلبی جیسے اقدامات کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے رہے. مگر ان حالیہ دو دن میں پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ دونوں ممالک کی سکیورٹی فورسز نے ایک دوسرے کے علاقائی حدود میں حملے کیے ہیں۔
پاکستان کی سرحدی سیکورٹی کی طرف سے یہ بیان آیا کہ یہ کارروائی ایران میں کالعدم بلوچ لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) اور کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے مبینہ ٹھکانوں ( تخریبی سینٹر) کے خلاف کی گئی۔ تاہم دونوں کالعدم تنظیموں نے ایران میں اپنے ٹھکانوں کی موجودگی کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ایران میں پاکستان نے عام بلوچوں کو نشانہ بنایا۔
اس وقت پاکستان اور ایران کے درمیان جو سرحد ہے. یہ برطانیہ کے دور حکومت میں اس کو سرحد کے طور پر سنہ 1871 میں اس علاقے ایک انگریز افسر گولڈ سمتھ کی سربراہی میں کیا گیا جس کے باعث قیامِ پاکستان سے قبل یہ سرحد ’گولڈ سمتھ لائن‘ کے نام سے پہچانی جاتی تھی۔

قیامِ پاکستان کے بعد ایران اور پاکستان کے درمیان سرحدی حدود میں کافی تبدیلی کی گئی جس کے باعث گولڈ سمتھ لائن کے متعدد حصے ایران کی حدود میں چلے گئے جن میں میرجاوہ کا علاقہ بھی شامل تھا۔ ان دونوں ملکوں کی سرحدوں کے دونوں اطراف بلوچ قبائل سے تعلق رکھنے والے لوگ آباد ہیں۔

پاکستان اور ایران دونوں ممالک کے بلوچ آبادی والے علاقوں میں موجود علیحدگی پسند گروہ اس سرحد کو تسلیم نہیں کرتے اور قیامِ پاکستان کے بعد سے ایسی تنظیمیں دونوں ممالک میں تخریب کاری کرتی رہی ہیں۔ جبکہ کئی سال قبل 1970 میں بلوچستان میں اٹھنے والی شورش کو کچلنے کے لیے اُس وقت کے شہنشاہ ایران نے بھی پاکستان کا ساتھ دیا تھا۔ کیونکہ ’شہنشاہ ایران کو بھی یہ خطرہ تھا کہ سرحد کے اُس پار جو شورش ہے وہ ایران کی طرف بھی پھیل سکتی ہے، اسی لیے انھوں نے پاکستان کی ہر طرح سے مدد کی تھی۔دونوں مُمالک کے درمیان سرحد 900 کلو میٹر سے بھی زیادہ طویل ہے جس پر پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے پانچ اضلاع واقع ہیں۔ ان اضلاع میں چاغی، واشک، پنجگور، کیچ اور ساحلی ضلع گوادر شامل ہیں۔ جبکہ ایران میں سیستان و بلوچستان کا ہیڈکوارٹر زاہدان ہے جبکہ اس کے دیگر معروف علاقوں میں سراوان اور چاہ بہار شامل ہیں۔

ایران اور ان اضلاع کے بیچ میں جو سرحدی علاقے بہت دشوارگزار کہلائے جاتے ہیں ان سرحدی علاقوں پر مشتمل ہیں۔ بدنام زمانہ منشیات کے بین الاقوامی اسمگلرز انہی دشوار گزار راستوں کو افغانستان سے منشیات کی اسمگلنگ کے لیے استعمال کرتے ہیں جبکہ پاکستان اور افغانستان سے جو لوگ غیر قانونی طور پر بیرونی ممالک جاتے ہیں وہ بھی انہی اضلاع کے سرحدی علاقوں سے ایران میں داخل ہوتے ہیں۔
پنجگور سمیت ایران کی سرحد سے متصل بلوچستان کے تمام اضلاع کی آبادی مختلف بلوچ قبائل پر مشتمل ہے۔ ان اضلاع میں سے پنجگور، کیچ اور گوادر بلوچستان کے انتظامی لحاظ سے مکران ڈویژن کا حصہ ہیں۔
یہ تینوں اضلاع بلوچستان میں حالات کی خرابی کے بعد سے شورش سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں لیکن یہ کسی مذہبی شدت پسند تنظیم کی وجہ سے نہیں بلکہ علیحدگی پسند تنظیموں کی کارروائیوں کی وجہ سے متاثر ہیں۔

ایران کی جانب سے بیشتر یہ الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ ایران میں شدت پسندی میں ملوث کالعدم تنظیم جیش العدل اور بعض دیگر تنظیموں کے ٹھکانے پاکستان کے صوبے بلوچستان میں ہیں تاہم پاکستانی حکام کی جانب سے ان الزامات کو مسترد کیا جاتا رہا ہے، ایران کو یہی کہتا رہا کہ پاکستان اور بلوچستان کے اکثر شہر خود دہشت گردوں کا ٹارگٹ بنا ہوا ہے اور ان کی پشت پناہی سرحد کے پار سے ہوتی رہی ہے.
پاکستان کے سابق صدر پرویز مشرف کے ادوار میں بھی حالات کی خرابی کے بعد سے بلوچستان میں کالعدم عسکریت پسند تنظیموں کی کاروائیوں کے مراکز بلوچستان کے وسطی اور مشرقی علاقے تھے لیکن 2010 کے بعد جنوب میں مکران ڈویژن میں ان تنظیموں کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا۔

تاہم بعض دیگر سکیورٹی ماہرین اور پاکستانی حکام کا یہی ہمیشہ سے موقف ہے کہ چونکہ چین، پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کا مرکز مکران ڈویژن کے نہ صرف ضلع گوادر میں ہے بلکہ اس کو ملک سے ملانے والی شاہراہیں بھی مکران ڈویژن سے ہی نکلیں گی، اسی لیے کالعدم تنظیموں نے ایک منصوبہ بندی کے تحت اپنی کارروائیوں کو مکران ڈویژن منتقل کیا ہے تاکہ سی پیک کے منصوبے کو سبوتاژ کیا جا سکے۔ جبکہ سی پیک سے حالیہ ادوار کا اقتصادی منصوبہ ہے جبکہ بلوچستان اور ایران اور پاکستان کے سرحدی علاقہ تو 1970 سے دہشت گردی کا نشانہ بنے ہوئے ہیں.
جبکہ بلوچستان کی کچھ علیحدگی پسند تنظیموں کے علاوہ قوم پرست جماعتوں کا کہنا ہے کہ سی پیک ایک ’استحصالی منصوبہ‘ ہے اور اس کے ذریعے بلوچستان کے نہ صرف ’وسائل کا استحصال‘ کیا جائے گا بلکہ گوادر میں دوسرے صوبوں سے لوگوں کو منتقل کرکے بلوچوں کی آبادی کو اقلیت میں تبدیل کیا جائے گا۔
)
تاہم سرکاری حکام ان الزامات کو مسترد کرتے رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ سی پیک سے بلوچستان کی پسماندگی کے خاتمے میں مدد ملے گی۔ ( جبکہ تیسری دنیا کے مُمالک میں ترقی نہ ہونے کی وجہ یہی سوچ ان کو آگے نہیں جانے دے رہی ہے. جس کی وجہ سے ہم یورپ کیا ایک دن بنگلہ دیش جیسے مُلکوں سے بھی مقابلہ نہیں کرسکیں گے). اگر اس طرح کی سوچ پروان رہی.
بلوچستان میں عسکریت پسند تنظیموں کی مضبوطی کی ایک وجہ بلوچوں کی قیادت میں تبدیلی کو قرار دیتے ہیں جو قبائلی سرداروں سے عام پڑھے لکھے نوجوانوں میں منتقل ہوئی۔ جبکہ “ پہلے یہ قیادت سرداروں کے ہاتھ میں تھی لیکن اب یہ پڑھے لکھے نوجوانوں کے پاس ہے۔ چونکہ مکران میں نہ صرف تعلیم کی شرح زیادہ ہے بلکہ وہاں کی آبادی بھی زیادہ ہے اس لیے وہاں عسکریت تنظیمیں دوسرے علاقوں کے مقابلے میں زیادہ مضبوط ہیں۔”
آج کل پاکستان کا صوبہ بلوچستان عسکریت پسندوں کی دہشت گرد کارروائیوں سے متاثر ہے وہیں دوسری جانب ایران میں سیستان وبلوچستان بھی شدت پسندی کی کاروائیاں ہوتی رہی ہیں۔
آج سے تقریباً 20 سال قبل ایران میں شدت پسندی کی کارروائیوں کی ذمہ داری جنداللہ نامی تنظیم کی جانب سے قبول کی جاتی تھی۔ اور ایران کی جانب سے ماضی میں یہ الزام عائد کیا جاتا رہا کہ جنداللہ کے سربراہ عبدالمالک ریگی بلوچ بلوچستان میں مقیم تھے اور ایران حکام کی جانب سے ان کی حوالگی کا مطالبہ اکثر ہوتا رہا تھا۔
کچھ عرصہ بعد میں ایرانی حکام نے ایک ہوائی سفر کے دوران ایرانی حدود سے گزرنے والے طیارے کو اتار کر عبدالمالک ریگی کو گرفتار کیا اور انھیں بعد میں تختہ دار پر لٹکادیا تھا. عبدالمالک ریگی کی پھانسی کے بعد سے ایرانی علاقوں میں ہونے والی شدت پسندی کی کارروائیوں میں اضافہ بڑھ گیا تھا اور ان کی ذمہ داری کالعدم سنی تنظیم جیش العدل کی جانب سے قبول کی جاتی رہیں ہیں.
ایران کے بلوچ آبادی والے علاقوں میں کارروائی کرنے والی تنظیمیں مذہبی شدت پسندی کی حامل ہیں جبکہ پاکستان کے بلوچستان میں کارروائیاں کرنے والی تنظیمیں سیکولرازم اور بلوچ قوم پرستی کے علمبردار کہلائی جاتیں ہیں.
حکومتِ پاکستان کی جانب سے ماضی میں بیشتر نہ صرف سفارتی سطح پر ایرانی حدود سے پاکستان مخالف عسکریت پسندوں کی کارروائیوں پر ایران سے سفارتی سطح پر احتجاج کیا جاتا رہا ہے بلکہ ایرانی حکام سے ان کے وہاں ٹھکانوں کے خلاف کاروائی کا مطالبہ بھی کیا جاتا رہا ہے۔ اس وقت جو پاکستان میں جو کارروائیاں کی جارہی ہیں وہ دراصل ’انٹیلیجینس ڈرون وار‘ ہے جس کی قیادت انڈین خفیہ ایجنسی را کررہی ہے.
“ یہ جو کچھ ہورہا ہے ان کو پراکسی وار کہلائی جاتیں ہیں. پراکسی وار دوسرے ملکوں کے لیے لڑی جاتیں ہیں . وہ اسی طرح کی جنگ لڑتی ہیں۔ مختلف علاقوں میں ان کے لیے محفوظ ٹھکانے ڈھونڈے جاتے ہیں، یہ کبھی افغانستان اور کبھی ایران میں ہوتی چلی آئی ہیں”
جبکہ حالیہ ادوار میاں بی ایل ایف کے سربراہ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ ایک حملے میں زخمی ہوئے اور ان کا علاج ایران میں ہوا تھا۔
اس وقت دونوں ممالک کی جانب سے ایک دوسرے کے حدود میں عسکریت پسندوں کے خلاف براہِ راست کاروائیاں کب تک جاری رہیں گے اور ان کے آنے والے دنوں میں کیا نتائج برآمد ہوں گے وہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن اس سے دونوں ہمسایہ ممالک نیں جو دلیرانہ بھائی چارگی, دوستی کو کاری ضرب لگی اور اسکا نقصان کب تک ہوئیگا.
اگر ہمارے حُکمراں اس کو وسیع تر تناظر میں دیکھیں کے کہیں یہ تو نہیں کہ مشرقِ وسطیٰ کی لڑائی اب بلوچستان بھی پہنچ گئی ہے۔ سب سے زیادہ نقصان کی بات ہے تو وہ تو سرحد کے دونوں اطراف آباد بلوچوں کا ہورہا ہوگا ۔ “ اس سے بلوچوں کی معیشت سمیت ہر چیز پر منفی اثرات مرتب ہوں گے . دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوتا ہے تو اس کے اثرات خطے میں تجارتی سمیت دیگر سرگرمیوں پر بھی مرتب ہوں گے۔

اس لیے دونوں طرف کے حکمرانوں کو اس خطے کو دہشت گردی, تخریبی کارائیوں سے بچانے کے لیے فورا سخت سے اقدامات کیے جایں. دشمنوں کی چالاکیوں و مکروہ سازشی عناصر کو اپنی ہمالیہ سے مضبوط دوستی اور اسلامی بھائی چارگی سے اس سازش کو ناکام بنایں اس ہی امن و چارگی سے ہی اس خطہ کی کامیابی ہے.

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 291 Articles with 98981 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.