بے ضرر جانور

بظاہر خطرناک نظر آنے والے جانور درحقیقت بالکل بے ضرر ہیں۔
تحریر: عتیق احمد عزمی

ہمارے اردگرد ایسے بہت سے جانور اور حشرات ہیں جن کے بارے میں ہمیں بچپن ہی سے یہ باور کرایا جاتا ہے کہ ان سے دور رہا جائے بلکہ موقع ملے تو انہیں مار دیا جائے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے ان مبینہ خطرناک جانداروں میں سے بیشتر بے ضرر اور معصوم ہیں محض ان کا انداز اور خدوخال انہیں خطرناک ظاہر کرتا ہے جب کہ فطرتا یہ امن پسند جاندار ہوتے ہیں آئیے ان میں سے کچھ ایسے ہی بے ضرر اور معصوم جانوروں اور حشرات کے بارے میں آگاہی حاصل کرتے ہیں جو دیکھنے میں خطرناک لگتے ہیں۔

خونی چمگادڑیں
Vampire bats
ہر ڈراؤنی کہانی یا ڈرامے کے اہم ترین ڈراؤنے منظر میں اچانک نمودار ہونے والی چمگادڑیں لازمی ہوتی ہیں یہ خون آشام چمگادڑیں اندھیرے غاروں، گھاٹیوں یادرختوں کے کھوکھلے تنوں میں الٹی لٹکی رات کا انتظار کررہی ہوتی ہیں کہ جیسے ہی رات ہو تو خون پینے جا نکلیں تاہم حقیقت یہ ہے کہ خون پینے والی چمگادڑیں ضرور ہوتی ہیں لیکن یہ صرف اپنی غذا کے حصول کے لئے مویشیوں اور پرندوں پر حملہ آور ہوتی ہیں اور انسانوں کے خون سے شاذونادر ہی شغل کرتی ہیں بل کہ انسانوں کو دیکھ کر راہ فرار اختیار کرلیتی ہیں کیوں کہ بہرحال یہ چمگادڑیں انسان دوست نہیں ہوتی یاد رہے خونی یا ویمپائر چمگادڑیں چمگادڑوں کی ایک ایسی قسم ہے جس کا زیادہ وقت انسانوں سے دور بیابانوں میں گذرتا ہے خوف و دہشت کی علامت بنا کر پیش کی جانے والی ویمپائر چمگادڑوں کے حوالے سے ماہرین کاکہنا ہے کہ پوری دنیا میں پائی جانے والی مختلف النوع چمگادڑوں میں ویمپائر چمگادڑیں وہ واحد قسم ہے جو اپنی نسل کی بقا کا بھرپور احساس رکھتی ہے اور اگر کوئی چمگادڑ مر جائے یا کسی اور مسئلے کا شکار ہوجائے تو دوسری چمگادڑ اس کے بچے کو پال پوس کر بڑا کرتی ہے۔

جالوت مکڑی
Goliath birdeater
جالوت مکڑی اپنے حجم اور جسامت کے باعث دنیا کی سب سے بڑی مکڑی کا اعزازرکھتی ہے جس کی تقریبا گیارہ انچ تک پھیلاؤ رکھنے والی ٹانگیں ہوتی ہیں ا ور جسم کی لمبائی پانچ انچ پر محیط ہوتی ہے پورے جسم پر ریشہ دار بال ہوتے ہیں جنوبی امریکہ کے بارانی جنگلات میں بہ کثرت پائی جاتی ہے عام طور پر اتنی بڑی مکڑی دیکھتے ہی اس سے خوف آنا فطری امر ہے تاہم یہ انسانوں کے لئے بالکل بے ضرر ہے اور اگر کسی انسان کو کاٹ بھی لے تو برائے نام تکلیف ہوتی ہے یاد رہے اسے انگریزی میں ”برڈ ایٹر“ یا پرندہ خور کہا جاتا ہے مگر حقیقت میں یہ پرندے نہیں کھاتی تاہم اٹھارویں صدی کی ہاتھ سے بنائی گئی ایک تصویر میں جالوت مکڑی کو ایک چھوٹا سا پرندہ ہمنگ برڈ کھاتے ہوئے دکھایا گیا ہے جب سے اس مکڑی کا نام”پرندہ خور مکڑی“ پڑ گیا ہے جب کہ مکڑیوں میں سب سے بڑے قدوقامت کا ہونے کے باعث اسے جالوت سے نسبت دی گئی ہے(جالوت حضرت داؤد علیہ سلام کے دور کا ایک لحیم شحیم بادشاہ تھا) دلچسپ بات یہ کہ بظاہر خوف و دہشت سمجھی جانے والی جالوت مکڑی کو جنوبی امریکہ میں بھون کر شوق سے کھایا جاتا ہے اور اسے دنیا بھر میں کیڑے مکوڑے پالنے کے شوقین حضرات بطور پالتو کیڑے کے بھی اپنے گھروں میں رکھتے ہیں۔

باسکنگ شارک
Basking sharks
شارک کا نام سنتے ہی پسینے چھوٹ جاتے ہیں وہیل مچھلی کے بعد دوسری سب سے بڑی سمندری مخلوق باسکنگ شارک ہے جو بیس سے چھبیس فٹ کی لمبائی میں پائی جاتی ہے باسکنگ شارک اپنی چوڑے منہ اور جبڑے کے باعث انتہائی خطرناک دکھائی دیتی ہے لیکن وہ لوگ جنہیں باسکنگ شارک سے واسطہ پڑا ہے وہ اسے ایک پرامن مچھلی قرار دیتے ہیں جو کسی پر بھی حملہ آور نہیں ہوتی بلکہ ان کے ساتھ موج مستی کرنے کی کوشش کرتی ہے یاد رہے اپنے دیگر بھائی بند گوشت خورشارک مچھلیوں کے برعکس باسکنگ شارک کی خوراک سمندر میں پائے جانے والے چھوٹے چھوٹے حشرات اور نباتات ہوتے ہیں جنہیں ”پلینک ٹون“ کہا جاتا ہے۔
باکسنگ شارک کی جلد بھوری مائل سرمئی رنگت پر مشتمل ہوتی ہے جس پر اسی رنگت کے دھبے ہوتے ہیں جب کہ مضبوط دم اور توازن قائم رکھنے والے ہلالی انداز کے پر یا بازو بھی باسکنگ شارک کو اس نوع کی دوسری مچھلیوں سے ممتاز بناتے ہیں اکثر و بیشتر سطح پر نظر آنی والی باسکنگ شارک تقریبا دنیا کے تمام گرم پانیوں پر مشتمل سمندروں میں پائی جاتی ہے تاہم اسے تین ہزار فٹ نیچے گہرے سمندر میں بھی دیکھا گیا ہے بھاری جسامت کے باوجود بعض مواقعوں پر سطح سمندر سے مکمل باہر نکل کر ڈبکی لگانے والی باسکنگ شارک کو ماہرین نے ایک سست مچھلی قرار دیا ہے جو کشتی یا چھوٹے بحری جہازوں کو دیکھ کر بھی اپنا رخ نہیں بدلتی بدقسمتی سے اپنی اسی سستی یا کاہلی کے باعث یہ باآسانی شکار ہوجاتی ہے دوسری جانب اس کے گوشت، پراور جسم میں موجود وسیع جگر اور اس میں موجود مخصوص تیل کی بھی بہت طلب ہے جس کے باعث باسکنگ شارک کا ماضی میں بے تحاشا شکار کیا گیا اور یہی وجہ ہے کہ آج باسکنگ شارک بھی تیزی سے معدومیت کے خطرے سے دوچار ہے۔

جسیم افریقی ہزار پا
Giant African millipede
ایک فٹ سے زائد طوالت والے اس ہزار پا کو دیکھتے ہی کراہیت کا احساس ہوتا ہے اور ہر کوئی اس سے ڈرتا ہے تقریبا چار انچ موٹائی والے اس ہزار پا کی دوسو تریپن ٹانگیں ہوتی ہیں اور جس وقت یہ چلتا ہے تو ان ٹانگوں کی حرکت دیکھنے والے کو مہبوت کرکے رکھ دیتی ہے واضح رہے اگر کوئی ہزارپا کو تنگ کرتا ہے تو یہ اپنی حفاظت کے لئے اپنے جسم کو سخت کرلیتا ہے اور اپنی ٹانگیں جسم کے گرد لپیٹ کر گولائی میں تبدیل ہوجاتا ہے لیکن حملہ آور پر کوئی جارحانہ ردعمل نہیں کرتا مشرقی افریقہ کے ممالک کینیا اور موزمبیق سے تعلق رکھنے والے اس جسیم افریقی ہزارپا کو ان ممالک میں بطور پالتو حشرات کے بھی پالا جاتا ہے۔

آئی آئی
Aye-aye
بحر ہند میں واقع مڈغاسکر کے جزائر میں پایا جانے والا یہ لنگور دیکھنے میں خطرناک نظر آتا ہے لنگوروں کی مختصر جسامت والی نسل لیمور سے تعلق رکھنے والا یہ جانور بلا کا پھرتیلا اور شاطر ہوتا ہے مگر خوں خوار نہیں ہے چوں کہ آئی آئی کی زرد رنگت کی آنکھیں بڑی بڑی اور پھٹی ہوئی ہوتی ہیں لہذا اسے دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ سخت غصے میں ہے یا حملہ آور ہوا چاہتا ہے مگر ایسا نہیں ہے اسی طرح آئی آئی کی ہاتھ کی درمیانی انگلی تمام انگلیوں سے بڑی ہوتی ہے اور سخت نوکدار ناخن پر مشتمل ہوتی ہے مگر آئی آئی اس انگلی سے کسی کو نقصان پہچانے کے بجائے درختوں کے تنوں میں سوراخ کرکے اپنی غذا حاصل کرتا ہے نوکیلے دانت رکھنے والے آئی آئی کی جسامت عموما تین فٹ سے زائد ہوتی ہے اور حیرت انگیز طور پر آئی آئی کی دم اس کی جسم سے بھی بڑی ہوتی ہے آئی آئی کے حوالے سے ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ صرف رات کو کیڑے مکوڑے شکار کرتاہے اور دن بھر درختوں کی شاخوں پر سوتا رہتا ہے بدقسمتی سے مقامی لوگ آئی آئی کے بارے میں یہ منفی رائے رکھتے ہیں کہ جس شخص کو یہ جانور نظر آتا ہے اور وہ اسے نہ مارے تو اس شخص کی جلد ہی موت واقع ہوجاتی ہے حتی کہ وہ اس کا نام بھی نہیں لیتے شاید یہی وجہ ہے کے مقامی باشندوں نے اس جانور کا نام مالاغاسی زبان میں آئی آئی رکھا ہے جس کے معنی ”مجھے نہیں معلوم“ کہ ہیں اس غلط اور منفی سوچ کے باعث آئی آئی کی نسل تیزی سے ناپید ہورہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ قدرتی وسائل کے تحفظ کی بین الااقوامی تنظیم نے آئی آئی کو خطرناک حد تک معدومیت کا شکار ہونے والے جانوروں کے زمرے میں شامل کر رکھا ہے۔
Vulturesگدھ
مردار کھا کر زندہ رہنے والا گدھ بھی ناپسندیدہ پرندوں میں شمار کیا جاتا ہے خمیدہ نوکدار چونچ،وسیع پر، چھری کی مانند تیرزدھار پنجے اور تیز بینائی رکھنے والا یہ پرندہ منحوسیت اور یاسیت کی علامت سمجھا جاتا ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے بلند پہاڑوں،گھاٹیوں اور ویرانوں میں سکونت رکھنے والا یہ پرندہ پرندوں کی اس نسل سے تعلق رکھتا ہے جو انتہائی پرامن اور اپنے کام سے کام رکھنے میں مشغول رہتے ہیں پرندوں کی عادات کا مطالعہ کرنے والے ماہرین کا کہناہے کہ یہ ایک ایسا پرندہ ہے جس کے قریب جاتے ہوئے ڈر لگتا ہے مگر آپ نہ صرف اس کے قریب جاسکتے ہیں بلکہ موقع ملے تو باآسانی اس کو چپت بھی لگا سکتے ہیں گدھ کی جانب سے قطعی جارحانہ ردعمل نہیں آئے گا حالاں کہ یہ ایک بہترین شکاری پرندہ سمجھا جاتا ہے لیکن چوں کہ گدھ مردار خور پرندہ ہے لہذا یہ عموما کمزور اور لاغر جانوروں پر ہی حملہ آور ہوتا ہے اوردم توڑتے جانوروں کے بیرونی اعضاء کے ساتھ ساتھ اندرونی اعضا ء جیسے جگر، آنتیں، دل وغیرہ بھی کھا جاتا ہے شاید یہی وجہ ہے کہ انسانوں کو گدھوں سے کراہیت آتی ہے صفائی کرنے والے پرندے کی عرفیت سے بھی معروف اس پرندے کی قوت شامہ غضب کی ہوتی ہے اور یہ بلندی پر دوران پرواز مردار کی بو سونگھ کر اسے چٹ کرنے کے لئے زمین پر غول کی شکل میں اترتے ہیں تاہم جنگلات اور ویرانوں کی کمیابی کے باعث گدھ کی نسل بھی بہت تیزی سے ختم ہوتی جارہی ہے۔

گھڑیال
Gharial
مگرمچھ کے خاندان سے تعلق رکھنے والا یہ جانور بھی انسانوں کے لئے بے ضرر شمار کیا جاتا ہے گھڑیال دیکھنے میں مکمل طور پر مگرمچھ ہوتا ہے تاہم اس کی لمبی تھوتھنی اسے خوں خوار مگرمچھوں سے علیحدہ کرتی ہے اگرچہ اس تھوتھنی میں موجود جبڑے میں ایک سو دس نوکیلے دانت ہوتے ہیں لیکن چوں کہ یہ تھوتھنی پتلی اور نالی نما ہوتی ہے لہذا گھڑیال کسی بڑے جانور یا انسان کو نہیں کھا سکتا چناں اس کی خوراک عموما چھوٹی مچھلیاں، مینڈک اور آبی کیڑے وغیرہ ہوتے ہیں دراصل ایک بالغ گھڑیال کی تھوتھنی کے سرے پر اوپری جانب ایک چھوٹا سا گول ابھار ہوتا ہے جو دیکھنے میں بظاہر مٹی کا مٹکا یا گھڑا نظر آتا ہے اسی مماثلت کے باعث برصغیر میں اسے گھڑیال کہا جانے لگا اور یہی نام انگریزی زبان میں بھی استعمال ہورہا ہے آج سے چالیس پچاس سال قبل گھڑیا ل برصغیر کے تمام دریائی نظامو ں میں ہزاروں کی تعداد میں پایا جاتا تھا تاہم بدقسمتی سے موجودہ وقت میں گھڑیالوں کی تعداد سینکڑوں میں ر ہے گئی ہے اس کمی کی بنیادی وجہ گھڑیال کی کھال اور اس کے اعضاء کا روائتی دوائیوں میں استعمال ہے جس کے حصول کیلئے گھڑیال کا بے تحاشا شکار کیا گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ قدرتی وسائل کے تحفظ کی بین الااقوامی تنظیم نے گھڑیال کو انتہائی خطرناک حد تک معدومیت کا شکار ہونے والے جانوروں کے زمرے میں رکھا ہے۔
جسیم مکڑی
Giant arachnids
اس بڑی جسامت والی مکڑی کو کیمل مکڑی اور اسکارپین مکڑی بھی کہا جاتا ہے جائنٹ آراچنڈس کے انگریزی نام سے منسوب اس مکڑی کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ انسانوں سے لیکر اونٹ تک کو کھا جاتی ہے یہ محض ایک مفروضہ ہے بلکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ مشرق وسطی کے ریگستانوں میں اس مکڑی کی وجہ سے بہت سے زہریلے حشرات بھاگ جاتے ہیں کیوں کہ صحرائی حشرات اس مکڑی کا پسندیدہ کھانا ہیں یہی وجہ ہے کہ مشرق وسطی میں تعینات امریکی فوجی جائنٹ آراچنڈس کی موجودگی کو اپنے لئے نعمت سمجھتے ہیں چھے انچ کی جسامت والی یہ مکڑی دس میل فی گھنٹے کی رفتار سے دوڑنے کی بھی صلاحیت رکھتی ہے یاد رہے ماہرین حشرات کے نزدیک یہ مکڑی کے بجائے حشرات کے علیحدہ خاندان ”سولی فیوجے“ سے تعلق رکھتی ہے تاہم ظاہری شکل و صورت میں مکڑی سے مماثلت کے باعث اسے مکڑی ہی سمجھا جاتا ہے۔

دودھ والا سانپ
Milk Snake
انسانی فطرت میں سانپو ں سے خوف کوٹ کوٹ کر بھرا ہے اور چوں کہ سرخ اور سیاہ دھاری والا”ملک سانپ“ دیکھنے میں انتہائی زہریلے ”کورل سانپ“سے مماثلت رکھتا ہے لہذا اسے دیکھتے ہی مارنے کی تیاری شروع کردی جاتی ہے جب کہ دونوں کی فطرت میں زمین آسمان کا فرق ہے ملک یا دودھ والاسانپ بالکل بے ضرر ہوتا ہے اور کسی بھی صورت میں انسان پر حملہ آور نہیں ہوتا سانپ کی اس قسمکا نام دودھ والا سانپ رکھنے کی وجہ وہ خیالی توجیہ ہے جس کے مطابق یہ سانپ گائے کے تھنوں سے دودھ پینے پر قادر ہے تاہم اس بات میں بالکل صداقت نہیں ہے دراصل یہ سانپ ٹھنڈک اور اندھیرے کی تلاش میں مویشیوں کے باڑوں اور خوراک کے لئے اناج کے گوداموں کے اطراف میں زیادہ پایا جاتا ہے اور ان جگہوں پر پائے جانے کے باعث مقامی افراد نے ا س کا نام ”ملک سانپ“ رکھ دیاہے کینیڈا سے لے کر امریکہ، وینزویلا اور ایکواڈور میں پائے جانے والے ملک سانپ کو ان ممالک کے باشندے دوست سانپ سمجھتے ہیں کیوں کہ ملک سانپ فصلوں کو نقصان پہچانے والے رینگنے والے جانوروں بل خصوص چوہوں کا سخت دشمن ہے۔

منتا رے مچھلی
Manta ray
منفرد شکل وصورت والی مچھلی منتارے کا تعلق شارک مچھلی کے خاندان سے ہے اپنی وسیع جسامت کے باعث عام طور پر لوگ اس کے قریب جانے سے کتراتے ہیں واضح رہے ایک بالغ منتا رے مچھلی کے پروں کا پھیلاؤ تیس سے پچیس فٹ تک ہوتا ہے جو چادر کی طرح پھیلا ہوتا ہے اور چوں کہ ہسپانوی اور پرتگالی زبان میں ”منتا“ کے معنی چادر کے ہیں لہذا اسی نسبت سے یہاں کے ماہی گیروں نے اس مچھلی کانام منتارے مچھلی رکھ دیا ہے منتارے مچھلی کے منہ کے آگے دو سینگ نما نوکیں نکلی ہوتی ہیں جیسے جن بھوت کے سر پر ہوتی ہیں ان سینگوں کی وجہ سے اس مچھلی کو ”ڈیول فش“ یا بھوت مچھلی بھی کہا جاتا ہے تاہم اپنی وسیع اور پرہول جسامت کے باوجود منتارے مچھلی انسان دوست مچھلی میں شمار کی جاتی ہے یاد رہے اس کی خوراک بھی باسکنگ شارک کی مانند سمندر میں پائے جانے والے چھوٹے چھوٹے حشرات اور نباتات ہوتے ہیں جنہیں ”پلینک ٹون“ کہا جاتا ہے تکونی ہیئت والی منتارے مچھلی کی ایک اور قسم ”اسٹنگ رے“ ہے جو سامنے آنے والی ہر شے کو ڈنگ مارتی ہے تاہم منتارے مچھلی میں ڈنگ نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ کسی پر حملہ آور ہوتی ہے لیکن اسٹنگ رے سے مماثلت کے باعث شوقیہ غوطہ خور منتارے مچھلی کے نہ صرف قریب جانے سے ڈرتے ہیں بل کہ موقع ملتے ہی اسے نقصان پہچانے کی کوشش بھی کرتے ہیں جس کے باعث منتارے مچھلی بھی اب کھلے سمندروں میں خال خال نظر آتی ہے تاہم جزائر بہاماس، فجی،تھائی لینڈ، انڈونیشیا، ہوائی، مغربی آسٹریلیا اور مالدیپ وغیرہ میں سیاحتی نقطہ نظر سے منتارے مچھلیوں کی افزائش اور دیکھ بھال پر کافی توجہ دی جارہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان علاقوں میں زیر آب غوطہ خوری کے شوقین افراد منتارے مچھلیوں سے خوب موج مستی کرتے نظر آتے ہیں۔
ATEEQ AHMED AZMI
About the Author: ATEEQ AHMED AZMI Read More Articles by ATEEQ AHMED AZMI: 26 Articles with 109910 views I'm freelance feature essayist and self-employed translator... View More