جنسی طور پر پاگل افراد کی تعداد میںخطرناک حد تک اضافہ


پشاور کے علاقے ہشتنگری سمیت شہر کے مختلف علاقوں میں جنسی طور پر ذہنی بیمار افراد کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور اس میں بعض اوقات بیشتر اپنے آپ کو پاگل ظاہر کرکے لوگوں کی مار سے جان چھڑاتے ہیں اس بات کی تصدیق گذشتہ روز راقم کیساتھ پیش آنیوالے ایک واقعے سے ہوگئی ہیں منگل کی صبح ایک ساتھی نے ساڑھے آٹھ بجے کا وقت دیا تھا کیونکہ اس کے ساتھ ایک جگہ پر کوریج کیلئے جانا تھا تاہم وہ سوا نو بجے پہنچے ، راقم کی مجبوری وقت کی پابندی ہے اس لئے اپنے وقت پر پہنچ گیا تھا ، اور ہشتنگری سٹاپ پر اس دوست کا انتظار کررہا تھا ہشتنگری بازار پشاور شہر کا ایسا بازار ہے جیسے کہ راولپنڈی کا راجہ بازار ، یا پھر اسلام آباد کی کراچی کمپنی ، جہاں پر ہر وقت مسافروں کی آمد رہتی ہیں ، ہشتنگری سٹاپ پر روزانہ ہزاروں کی تعداد میں طلباءو طالبات ، مرد و خواتین روزگار ، کالجز او ریونیورسٹی جانے کیلئے کھڑے ہوتے ہیں اور یہاں پر ہر وقت رش ہوتی ہیں.

راقم سڑک کنارے کھڑا تھا اسی دوران ایک شخص جس کی عمر کم و بیش چالیس سال سے اوپر تھی، کے پیچھے سے گزرا اور اس نے چند مخصوص جملے جو کہ `جنسی ہراسمنٹ کے زمرے میں " آتے ہیں اور یہاں پر لکھے بھی نہیں جاسکتے ، جملے کس دئیے ، راقم نے جب یہ سنا تو فورا اس کے پیچھے دوڑا کہ تم نے کیا بکواس کی ہے ، دوبارہ کہو ، جس پر متعلقہ شخص نے ہاتھ میں ڈنڈا دکھا کر کہا کہ میں اس پر تمھیں ماروں گا ، راقم نے فوری طور پر ہاتھ میں پکڑے منی پاڈ کے حصے الگ الگ کرکے اسے لمبا کرکے اس کے سامنا کردیا اور اس کے جسم کے رکھ کر دوبارہ پوچھا کہ کیا بکواس کی ہے ، دوبارہ کہہ دو ، جس پر متعلقہ شخص کا رنگ زرد ہوگیا اور اس وہ ڈنڈا ہاتھ میں لیکر بتانے لگا کہ وہ راقم پر حملہ کرے گا اسی دوران کچھ لوگ درمیان میں آگئے اور راقم کو کہا کہ یہ پاگل ہے اسے چھوڑ دو ، اسی دوران راقم کی منہ سے گالی نکل گئی ، جس پر متعلقہ شخص یکدم غصے میں آگیا اور کہنے لگا کہ مجھے گالی دیتے ہو، بکواس کرنے والے شخص کو چائے کے ہوٹل کیساتھ کام کرنے والے شخص نے سائیڈ پر کرلیا اور یہ کہہ دیا کہ یہ پاگل ہے اسے چھوڑ دو ، راقم نے اس چائے والے کو کہہ دیا کہ اسے یہ سمجھ آتی ہے کہ اسے گالی دی گئی ہیں سردی میں اس نے اپنے آپ کو کور کرلیا ہے چادر پہنی ہے لیکن جب جنسی طور پر ہراسمنٹ کے حوالے سے بکواس کرتا ہے تو تم لوگ کہتے ہو کہ یہ پاگل ہے.حالانکہ یہ پاگل پن کا ڈرامہ کررہا ہے.

راقم کے سخت رد عمل پر بکواس کرنے والا شخص تو چلا گیا لیکن اسی ہشتنگری سٹاپ پر راقم کھڑا یہ سوچ رہا تھا کہ اس سٹاپ پر روزانہ ہزاروں کی تعداد میں خواتین ، بچیاں ، طالبات ، کم عمر بچے گزرتے ہیں اگر اس طرح کی بکواس یہ شخص ان سے کرتا ہوگا تو پھر وہ کیا سوچتے ہوں گے.کیسی ان کے احساسات ہونگے ، گھروں سے روزگار کیلئے نکلنے والی خواتین مستی میں نہیں نکلتی 99.9 فیصد خواتین ، بچیاںمجبوری میں گھروں سے نکلتی ہیں اور پختون معاشرے میں خواتین ہی نشانہ بنتی ہیں ایسے میں اگر کوئی اس طرح کا شخص کسی خاتون ، بچی یا بچے کیساتھ اس طرح کی بکواس کرے ، یا حرکت کرے اور موقع پر پکڑا جائے تو لوگ یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ پاگل ہے لیکن اس پاگل شخص کی وجہ سے روزانہ ہشتنگری سٹاپ پر کتنے افراد کو ذہنی کوفت ہوتی ہوگی ، کچھ لوگ شرم کے مارے بات نہیں کرتے ، لیکن گالی کو سمجھنے والا ، سردی میں اپنے آپ کو گرم رکھنے والا شخص صرف جنسی طور پر بکواس کرتے ہوئے پاگل ہے اس کی سمجھ راقم کو نہیں آرہی تھی .

راقم اس سٹاپ پر کم و بیش آدھ گھنٹے انتظار کرتا رہا ، کم و بیش بیس منٹ بعد وہی شخص ہاتھ میں لوہے کا راڈ لیکر آرہا تھا اور اس کی کوشش تھی کہ راقم پر حملہ کرے لیکن اسے دیکھتے ہی راقم نے منی پاڈ کے حصے کھول دئیے کہ اگر یہ نزدیک آتا ہے تو پھر اس کی پٹائی کرنی ہے لیکن جب اس شخص نے دیکھا کہ راقم بھی پوری طرح تیار کھڑا ہے تو وہ فردوس سٹاپ جسے اب بی آر ٹی کی وجہ سے ملک سعد سٹاپ کہا جاتا ہے کی طرف چلا گیا .راقم اسے جاتا دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ اس طرح کا بکوا س روزانہ وہ کتنے افراد کیساتھ کرتا ہوگا ، کتنی خواتین اس کا نشانہ بنتی ہوگی لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں.

راقم کے سفید بال اور داڑھی کے ہوتے ہوئے ایک شخص جنسی طور پر ہراسمنٹ والے الفاظ کہہ سکتا ہے تو یہ شخص کسی بچی ، طالبہ یا خاتون یا کم عمر بچے کے حوالے سے کیا نہیں کہہ سکتا یہ وہ سوال ہیں جو اس معاشرے میں صاحب اختیار لوگوں سے کرنے کا ہے جنہیں اللہ نے آنکھیں اور کان دئیے ہیںمگر وہ نہ اس پر دیکھ سکتے ہیں اور نہ ہی سن سکتے ہیں کیا کسی نے پشاور شہر کے مختلف علاقوں بشمول ہشتنگری ، فردوس ، فقیر آباد ، دلہ زاک روڈ ، گھنٹہ گھر ، خیبر بازار ، اندرون شہر ، گلبہار ، سیٹھی ٹاﺅن میں سڑک کنارے پڑے ان افراد کے بارے میں جاننے کی کوشش کی ہے کہ ان میں کتنے حقیقی معنوں میں پاگل ہے اور کتنی جنسی طور پر پاگل اور کتنوں نے اپنے آپ کو پاگل بنا کر رکھا ہے ، کیا کوئی ادارہ اس حوالے سے کام بھی کررہا ہے یا نہیں ،کیا کسی تھانے کی حدود میں ایسے افراد کا کوئی ڈیٹا کسی کے پاس ہے کہ کتنے ایسے لوگ ہیں جو ان کی حدود میں ہیں ، کیا کسی این جی او کے پاس کوئی ڈیٹا ہے کہ کتنے افراد ذہنی طور پر پاگل ہے یا پھر جنسی طور پر پاگل پن کا شکار ہیں یا پھر کسی نے ان کے علاج کیلئے کوئی کوشش بھی کی ہیں یا نہیں .

دلچسپ اور حیران کن امر یہ ہے کہ زیادہ تر پاگل اور ننگ دھڑنے ہسپتال یا پھر کسی کالج کے باہر یا بازار میں ہی پائے جاتے ہیں ، جس کی طرف ہر کوئی توجہ نہیں دیتا ،اور کبھی کسی تھانے کے اہلکار نے سڑک کنارے کمپیوٹر رکھے ان افراد کا ڈیٹا چیک کرنے کی کوشش کی ہے جس میں وہ ہر قسم کا جنسی مواد ایک سو روپے کے عوض لوگوں کو یو ایس بی میں ڈال رہے ہیں ، کبھی ڈراموں کے نام پر کبھی فلموں کے نام پر اور یہ سب کچھ ہمارے نوجوان نسل کیساتھ ہورہا ہے لیکن اس کی طرف کسی کی توجہ ہی نہیں. خدارا . اس طرف توجہ دیں ورنہ پھر لوگوں کا خصوصا خواتین اور بچیوں کا سڑکوں پر چلنا محال ہوگا.

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 590 Articles with 421675 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More