انسان کے اندر چھپا ہوا بندر - قسط سوم

وردھا کے پولیس تھانے میں حوالدار عجیب سنگھ نے اپنی آنکھیں بند کیں تو ہم نےعافیت کی سانس لی اور اپنے چہیتے بندروں کی جانب دیکھا ۔نین سکھ بے تکان اپنا فیصلہ ٹائپ کر رہا تھا ۔ہمیں لگا جلد ہی یہ قلم کے بجائے کمپیوٹرکو توڑ دے گا ۔اب ہماری نگاہ نین سکھ کی جانب اٹھی تو دیکھا کہ وہ بھی کنکھیوں میں فیصلے کو پڑھ رہا ہے اور تان سین کے لبوں پر حسب ِ معمول مسکراہٹ رقص کررہی ہے۔ ہم نے بھی مسکرا کر جواب دیا تو وہ بولا صاحب عجیب سنگھ کے دوبارہ سونے کو غنیمت جانئے اور یہاں سے بھاگ چلئے ۔
کیوں کیا ہم کوئی چور ڈکیت ہیں جو تم ہمیں اس طرح سے ڈرا رہے ہو؟ نین سکھ بولا
کیا تم نہیں جانتے کہ جب دو بڑے لوگ بات کررہے ہوں تو درمیان میں ٹپک پڑنا بد اخلاقی میں شمار ہوتا ہے ۔تان سین نے اپنی لن ترانی جاری رکھی
دیکھو تان سین میں نے ایک سیدھا سا سوال کیا تھا جس کا جواب دینے کے بجائے تم کچھ اور ہی بکواس کرنے لگے
یہ بکواس نہیں حقیقت ہے تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ فی الحال ہم لوگ پولیس والوں کے نرغے میں ہیں ۔کسی بھی وقت کھڑک سنگھ وارد ہوسکتا ہے بلکہ دوبارہ عجیب سنگھ بیدار بھی ہو سکتا ہے ۔
ہوتا ہے تو ہوجائے اور آتا ہے تو آجائے ،ہمارے یہاں آنے مقصد ہی ان سے ملاقات کرنا ہے؟ہم نے جواب دیا
تان سین بولا صاحب ہمیں احتیاط و ہوشیاری سے کام لینا چاہئے
احتیاط کیسا احتیاط؟ہم لوگ پولیس تھانے میں ہیں یہاں کون سے خطرات ہو سکتے ہیں
اسی لئے تو احتیاط کی ضرورت ہے کہ ہم تھانے میں ہیں اس سے زیادہ خطرناک جگہ اور کون سی ہوسکتی ہے ؟
کیا مطلب ہم نے حیرت سے پوچھا؟
تان سین بولا صاحب آپ صحافی ہیں اخبار لکھتے ضرور ہیں لیکن انہیں پڑھنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتے ورنہ یہ سوال پیدا ہی نہیں ہوتا ۔آپکو پتہ بھی ہے کہ یہ پولیس والے عوام کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں؟
انہیں نہیں پتہ تو میں بتلائے دیتا ہوں نین سکھ بولا حالانکہ نہ میں اخبار پڑھ سکتا اور نہ ہی ٹی وی دیکھ سکتا ہوں
اوہو تم تو بڑے انتریامی ہوگئے ؟تان سین نے فقرہ کسا
اس میں انتریامی ہونے کی کیا بات ہے اگر انسان اپنے کان کھلے رکھے تو یہی کافی سے زیادہ ہے ۔ میں نے سنا ہے پچھلے دنوں پولیس والوں نے مدھیہ پردیش کے ضلع ستنا میں بیچ سڑک پر ایک نیم پاگل آدمی کو لاٹھیوں سے مار مار کر ہلاک کر دیا
اچھا تو گویا پولیس والوں نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ شخص اگر نیم پاگل ہے تو وہ مکمل طور پرپاگل ہیں تان سین نے پھر چٹکی لی
نین سکھ بولا تم عجیب آدمی ہو ایک معصوم انسان کی جان گئی اور تم اس سے مزہ لے رہے ہو۔تم بندر ہوکر بھی ان انسانوں سے گئے گزرے ہوگئے ہو جو وہاں تماش بین بن کر کھڑے ہوئے تھے
کو ن کہتا ہے کہ وہ خاموش تماش بین تھے ؟ میں نے تو سنا ہے اس ظلم کی ابتدا عوام ہی نے کی تھی پولیس نے تو صرف یہ کیا کہ اسے انتہا تک پہنچا دیا ۔ یہ بات مونی بابا نے اپنے فیصلے کے دوران سرخ رنگ میں لکھی اور ہمیں دکھلا کرمٹا دیا
تان سین بولا لیکن لوگ بیچارے کر ہی کیا سکتے تھے؟
ہم نے کہا کیسی باتیں کرتے ہو تان سین ہم جس ملک میں رہتے ہیں وہ ایک آزاد ملک ہے وہاں انسانی جان و مال کو دستوری تحفظ حاصل ہے بلکہ یہاں جمہوری نظام رائج ہے جو عوام کا اپنا ہے عوام کے ذریعہ قائم ہوتا ہے اور عوام کی خاطر چلایا جاتا ہے ۔
یہ آپ کس ملک اور کن لوگوں کی بات کر رہے ہیں یہ تو میں نہیں جا نتا لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ گزشتہ دنوں جب چار لوگ آندھرا پردیش کے ایس آر نگر میں ایک ایسے ہی قتل کی رپورٹ لکھوانے کیلئے تھانے پہونچےتو پولیس والوں نے انہیں کے خلاف مقدمہ درج کر لیااب بھلا ایسے میں کون پولیس کے خلاف زبان کھولنے کی جرأت کرسکتا ہے؟
ہم نے کہا آپ یہ سب اس عظیم ملک کو بدنام کرنے کی خاطر اڑائی جانے والی بے بنیاد خبریں ہیں ۔تم نہیں جانتے ہمارے ملک میں عوام کے سامنے بڑے بڑے رہنماؤں کو ہاتھ پسار کر آنا پڑتا ہے۔
یقیناً انتخاب سے پہلے ایسا ہوتا ہے لیکن اسکے بعد جب یہی عوام ہاتھ پسار کر اپنے حقوق کی خاطر میدان میں آتی ہے تو کیا ہوتا ہے ؟نین سکھ نے پوچھا
تان سین بولا اب تم ہی بتلاؤ کہ کیا ہوتا ہے ؟
میں کیا بتلاؤں تم خود ہی یو ٹیوب پر نالندہ میں خواتین مظاہرین پر ہونے والی پولیس والوں کی بہیمانہ لاٹھی چارج کا مشاہدہ کر لو
اچھا یہ تمہیں کیسے پتہ چل گیا تم بھی ان خواتین کے ساتھ زندہ باد مردہ باد کے نعرے لگارہےتھے ؟تان سین نے فقرہ کسا
نین سکھ بولا تم بھی انسانوں کی چاپلوسی کرتے کرتے بالکل عقل سے پیدل ہو گئے ہو میں نے خود یو ٹیوب پر اس فلم کودیکھا،نہیں معاف کرنا سنا ہے
فلم دیکھی جاتی ہے سنی جاتی ہے ؟تان سین نے پوچھا
دونوں ہی باتیں ہوتی ہیں مجھ جیسے اندھے اسے سنتے ہیں اور تم جیسے بہرے اسے دیکھتے ہیں
یہ کون دیکھنے اور سننے کی باتیں کررہا ہے ؟ عجیب سنگھ نیند ہی میں منمنایا
تینوں بندر پھدک کر پھر جھولے میں پہنچ گئے اور بولے صاحب نکل چلئے اس سے پہلے کہ یہ ہمیں نیند میں خلل کے سبب دہشت گرد بنا کرپوٹا کے تحت گرفتار کر لے ۔ اس کے بعد ہم دہشت گرد ہیں یا نہیں یہ ثابت کرنے کی ذمہ داری خود ہمارے ہی سر آن پڑے گی ۔ آپکی مدد کیلئے تو صحافیوں کی یو نین آجائیگی ہم بندروں کا کیا ہوگا ہمارے لئے تو اس کل یگ میں نہ بجرنگ بلی ہے اور نہ بجرنگی ۔ یہ مونی بابا بول رہا تھا گھبراہٹ کے مارے اس نے اپنا مون برت تو ڑ دیا تھا ۔
ہم بھی ان بندروں کے دلائل سے اچھے خاصے مرعوب بلکہ خوفزدہ ہو چکے تھے اس لئے پہلے تو باہر آئے پھر پوچھا اب جانا کہا ں ہے ؟
تان سین بولا کیوں آپ کا کوئی گھر نہیں ہے کیا ؟ اگر نہیں تو گاندھی جی کی طرح کوئی آشرم بنا لیجئے ورنہ وہیں چلئے ۔
ہم نے جھولےکے اندر ہاتھ ڈال کر اندازے سے تان سین کے سر پر ہاتھ پھیر کر اس کا شکریہ ادا کیا اور گھر آگئے ۔
دوسرے دن صبح جب ہم اپنے مہمان خانے میں پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ بندر تو غائب ہیں ان کی جگہ ایک باریش سوامی بھگوا وستر دھارن کئے بیٹھے ہیں ۔ سوامی جی کے بغل میں ایک مضحکہ خیز بزرگ سر پر گاندھی ٹوپی لگائے براجمان ہیں اور ایک کونے میں ایک شخص نصف آستین کا ڈیزائنرکرتا پہنے ہوئے اٹالین عینک میں فون پر گودھرا سے سالگرہ کی مبارکباد وصول کر رہا ہے ۔ہم نے سوچا یہ کون لوگ ہیں جو بلااجازت ہمارے گھر میں گھس آئے اور انہوں نے ہمارے بندروں کو کہاں بھگا دیا؟ ہم نے انہیں پرنام کیا اور پوچھا ۔ آپ لوگ کب ،کیوں اور کہاں سے یہاں آن پہنچے ؟
عینک والے صاحب نے اپنی خشخشی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا تم مجھے نہیں جانتے ۔ امریکی انتظامیہ نے مجھے ہندوستان کی وزارتِ عظمیٰ کیلئے مناسب ترین امیدوار قرار دیا ہے اور تم تو جانتے ہی ہوہندوستانی عوام امریکہ سے کس قدر مرعوب ہے ۔اب تو بس انتخاب کا انتظار ہے جب وہ میرے نام پر مہر لگائیں گے اور میں ہندوستا ن کے تخت طاؤس کو برطانیہ سے واپس لاکر اس پر براجمان ہو جاؤں گا ۔
عوام کوتو خیر بہلایا پھسلایا جاسکتا ہے لیکن تمہاری اپنی جماعت کے خواص کا کیا بنے گا؟ہم نے سوال کیا
بھئی دیگر خواص کی مانند ہمارے خواص بھی بکاؤ مال ہیں انہیں وزارت اور دولت کی قیمت پر خرید لیا جائے گا
وہ بھی ٹھیک ہے لیکن میرے وہ بندر کہاں چلےگئے ؟
حضور آپ نے مجھے نہیں پہچانا میں ہی توہوں آپ کا چہیتا تان سین
اچھا اور یہ دونوں حضرات کون ہیں ؟
یہ مونی بابا ہیں جو یوگا کرنے میں مصروف ہیں اوریہ گاندھی ٹوپی اپنے نین سکھ نے سر پر سجا لی ہے اس لئے آپ اسے پہچان نہیں پارہے ہیں
لیکن راتوں رات میں یہ سب کیا ہوگیا ۔ اس قدر انقلاباتِ زمانہ ایسی تیزی کے ساتھ پہلے تو برپا نہیں ہوتے تھے ؟ہم نے استفسار کیا
نین سکھ بولا آپ نے ٹھیک کہا زمانہ بدل گیا ہے ۔ یہ کل یگ ہے کل یگ۔ پہلے جس کام کو کرنے کیلئے صدیاں درکار ہوتی تھیں اب وہ کام منٹوں میں ہو جاتے ہیں زمانہ جمل کے بجائے جیٹ کی رفتار سے دوڑ رہا ہے ۔
وہ تو ٹھیک ہے لیکن راتوں رات داڑھی و چوٹی کا اگ آنا اور دم کا غائب ہوجانا مجھے تو یقین نہیں آتا کہ یہ سب کیسے ہو گیا ؟
ارے بھئی ڈارون نے اپنی مرگِ مفاجات کے فلسفے میں یہی تو کہا تھا کہ جس چیز کی ضرورت باقی نہیں رہتی وہ جھڑ جاتی ہے اور جس کی ضرورت پیدا ہوتی ہے وہ نمودار ہوجاتی ہے ۔
یہ سب فلسفے کی باتیں ہیں ان کا حقیقت سے کیا تعلق ؟ہم نے اپنی بے یقینی پر اصرار کیا
تعلق کیوں نہیں ؟ تان سین بولا پرانے لوگوں کوکتنے پہاڑے یاد ہوتے تھے اب کیلکولیٹر نے ان کی ضرورت کواس طرح ختم کیا کہ پہاڑ جیسے پہاڑے روئی کے گالےبن کر اڑ گئے ۔
نین سکھ نے پہلی مرتبہ تان سین کی تائید کی اوربولا جی ہاں اس میں کیا شک ہے آپ ہی بتلائیے کہ پہلے آپکواپنے دفتر ،گھر اور دوست واحباب کے تک کےٹیلی فون نمبر زبانی یاد ہوتےتھےجبکہ اب آپ کو اپنے موبائل کا نمبر بھی یاد نہیں رہتا جو آپ کا حقیقی شریکِ حیات بن گیا ہے ۔ گویا یادداشت کی ضرورت کم ہوئی تو اسے مشینوں نے نگل لیا ۔
بندروں کے دلائل کا قائل ہونے کے بعد ہم نے پوچھا لیکن یہ یوگی بابا تو بہت بولتے تھے اب انہیں کون سا سانپ سونگھ گیا جو مون برت رکھ لیا ۔
تان سین بولا آپ نے صحیح کہا جب آدمی بہت زیادہ بولنے لگے تو اس کی بولتی بند کر دی جاتی ہے ۔ان کے ساتھ بھی یہی ہوا ۔پہلے زمانے میں ہم لوگ بلیوں کو بانٹ کر اپنا کام چلاتے تھے لیکن آجکل ایک اطالوی بلی ہم لوگوں کو تگنی کا ناچ نچا رہی ہے۔ بابا ہندوستان کی سیاہ دولت کا شور مچاتے تھے جو بیرونِ ملک ہے ۔ بلی نے یہ کیا کہ ان سے ان کی سفید دولت کا حساب مانگ لیا جو ملک کے اندر ہے ۔پھر کیا تھا ان کے ہاتھوں سے طوطے اڑ گئے اور ایسے میں جب ان کا دستِ راست آگے آیا تو پتہ چلا کہ وہ نہ صرف نیپالی ہے بلکہ غیر قانونی طور پر ان کے آشرم میں عیش کررہا ہے ۔
تان سین کی باتیں سن کر مونی بابا کو غصہ تو بہت آیا لیکن وہ صبر کر گئے اوراپنے یوگ آسن سے باہر نہیں آئے سب کچھ چپ چاپ دیکھتے اور سنتے رہے لیکن کچھ نہیں بولے اب انہیں اس کی عادت ہو چکی تھی انہوں نے ازخود اپنی زبان پر قفل لگا لیا تھا لیکن نین سکھ اسے برداشت نہ کر سکا اور بولا تان سین تم کیسے غدار بندر ہو انسانوں کو خوش کرنے کیلئے خود اپنی برادری کو بدنام کرتے ہوئے تمہیں شرم آنی چاہئے
شرم مجھ کو نہیں تم لوگوں کو ان کاموں پرآنی چاہئے جس کے عیاں ہونے سے شرمندہ ہونا پڑتا ہے ۔تان سین نے ترکی بہ ترکی جواب دیا ۔ تم خود باتیں تو بڑی بڑی کرتے ہو لیکن اپنی آنکھوں پرسے اس زعفرانی پٹی کو نہیں ہٹاتے جو تمہارے حامیوں نے باندھ رکھی ہے ۔ وہ لوگ جو تم سے بولتے ہیں وہی تم لوگوں سے بولتے ہو ۔
ان الزامات کو سن کر ہمارا دل دہل گیا اس لئے کہ ہم خود نین سکھ کے ساتھ پاکستان اور امریکہ جانے کا منصوبہ بنا رہے تھے ۔ ہم نے پوچھا میرے پیارے تان سین ویسے تو تمہاری ہر بات مجھے صحیح لگتی ہےلیکن پھر بھی ان سنگین الزامات کو میں بغیر ثبوت کے تسلیم نہیں کر سکتا۔
تان سین بولا دیکھئے تو ثبوت بے شمار ہیں لیکن میں دو مثالیں دیتا ہوں ۔ اس نین سکھ نے پہلے حق ِمعلومات کی تحریک چلا کر اپنی شہرت بڑھائی اور پھر بدعنوانی کا محاذ کھول کر بیٹھ گیا ۔اس دوران خود اس کے ساتھ بدعنوانی کے خلاف شور شرابا کرنے کے بجائے عملاً کام کرنے والی شہلا مسعود کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا ۔اس بیچاری نے اسی کی شہ پر اپنی معلومات کا حق استعمال کر کے بدعنوانوں کو بے نقاب کرنے کی کوشش کی تھی ۔ لیکن اس نے شہلا کے بہیمانہ قتل پراتنا بھی احتجاج نہیں کیا جتنا کہ کیجریوال پر لگے حقیقی الزامات کی حمایت میں کیا تھا۔اس لئے کہ شہلا مسعود کے قتل کی سوئی زعفرانی ریاستی سرکار اور سنگھی رہنماؤں کی جانب مڑتی تھی ۔ اسے چدمبرم اور چوہان کی ترنگی بدعنوانی دکھلائی دیتی ہے لیکن ریڈی اورامراسے نظر نہیں آتے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ صرف بولتا اور سنتا ہے مگر دیکھتا اور سوچتا نہیں ہے ۔ اپنے دماغ کا استعمال نہیں کرتا یہ تو بس بھوپوں ہے بھوپوں ۔
تان سین کی لمبی تان سن کر نین سکھ تو بیچارہ بے ہوش ہوگیا لیکن مونی بابا نے اپنا برت توڑ دیا اور بولے اوئے تان سین میں نے تجھ جیسا نمک حرام نہیں دیکھا تو جس تھالی میں کھاتا ہے اسی میں سوراخ کرتا ہے ۔ سب سے پہلے تو نے کیشو کے پیر چھوئے اور پھر اسی کے قدم اکھاڑ دئے ۔ اس کے بعد توگاڑیہ کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور پھر اس کا گلا دبا دیا ۔اپنے بچپن کے دوست پنڈیا تک کو موت کے گھاٹ اتارنے سے تو نہیں ہچکچایا۔اڈوانی کی رتھ کامہا رتھی بنا اور اب اسی کی ہوا نکال دی ۔امیت شاہ کے ذریعہ ونجارہ سے فرضی انکاؤنٹر کرواتا رہا اور پھر دونوں کو بلی کا بکرہ بنا کر ٹھکانے لگا دیا ۔ تجھے مسلمانوں کا ووٹ بنک نظر آتا ہے لیکن عشرت جہاں اور سہراب الدین کے خون کے دھبے نہیں دکھلائی دیتے کل تک تومسلمانوں کےقتل عام کو جائز قرار دے کرہندوؤں کے ووٹ مانگتا رہا اور اب ان کی مسیحائی کا دم بھرنے لگا ہے ۔شرم تو تجھے آنی چاہئے بلکہ چلو بھر پانی میں تجھے ڈوب مرنا چاہئے ۔ تو صرف اپنے مفادات کو دیکھتا ہے اور اس کیلئے بے تکان بولتا ہے ۔ تجھے نہ تو فساد زدگان کی آہ وبکا سنائی دیتی ہے اور نہ ہی سنجیو بھٹ جیسے پولس افسر کے ضمیر کی آواز ۔تو سمجھتا ہے کہ ذرائع ابلاغ کی مدد سے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک دے گا لیکن یہ سب اس قدر آسان نہیں جتنا کے تو سمجھتا ہے ۔
یوگی بابا کی تقریر سن کر نین سکھ کی آنکھیں کھل گئیں انہوں نے اپنی آنکھوں پر لگی پٹی کو اتارا اور بولے یوگی بابا آپ نے میری آنکھ کھول دی دراصل ہم نے بنیادی غلطی یہ کی کہ ہم انسانوں سے مرعوب ہو گئے اور انسان بننے کی کوشش کرنے لگے یہی ہماری سب سے بڑٰی غلطی تھی یہ کہہ کر نین سکھ نے اپنی گاندھی ٹوپی کھڑکی سے باہر ہوا میں اچھال دی مونی بابا نے کہا تم نے صحیح کہا نین سکھ یہ چوٹی اور یہ چولہ یہ سب کچھ پاکھنڈ(منافقت) ہے ۔ یہ ہمیں نہیں انسانوں ہی کو زیب دیتا ہے ۔یوگی بابا نے جیسے ہی سر پر ہاتھ پھیراچوٹی غائب ہو گئی اور اندرسے وہی پرانا بندر نمودار ہوگیا جوچولے کی حاجت سے بے نیاز تھا ۔تان سین نے دودیرینہ ساتھیوں کو اپنی پرانی حالت میں جاتےدیکھا تو اس صدمے کو برداشت نہ کرسکا اور کھڑکی سے باہر کودگیا۔
دوسرے دن گلی کے نکڑ پر جہاں تان سین کی لاش ملی تھی ہنومان چالیسا کا پاٹھ ہو رہا تھا ماروتی کے نئے مندر کا سنگِ بنیاد رکھاجاچکا تھا اور بے شمار نئے اور پرانے بندر جمع ہوکر جئے بجرنگ بلی کا نعرہ بلند کر رہے تھے ۔
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2062 Articles with 1251084 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.