امریکہ، حقانی نیٹ ورک اور پاکستان

امریکہ جب اپنا لاﺅ لشکر لے کے افغانستان میں اترا تھا تو اشرافیہ کی رائے جو بھی ہو عوام کی اکثریت کی رائے یہی تھی کہ یہ سارا میلہ ہمارا کمبل چرانے کے لئے سجایا جا رہا ہے۔جنرل پرویز مشرف نے جب اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ کولن پاول کی ٹیلی فون کال پہ اپنا مشہور عالم سجدہ داغا تو بعد میں اپنی خفت مٹانے کو وہ کبھی کبھی یہ دلیل دیا کرتے تھے کہ تیز آندھی میں جو پیڑ تن کے کھڑا رہتا ہے وہ بالآخر ٹوٹ جایا کرتا ہے۔بچتے وہی ہیں جو جھک جاتے ہیں ۔آندھی گ٠رنے کے بعد دوبارہ سینہ تان کے کھڑا ہوا جا سکتا ہے۔ہم اس وقت کے جھکے ابھی تک جھکے ہوئے ہیں۔ایک طرف سے امریکہ ہماری پشت پہ سوار ہے اور دوسری طرف سے امریکہ کے نام نہاد مخالفین نے مار مار کے ہمارے چہرہ بگاڑ دیا ہے۔نہ جائے ما ندن اور نہ پائے رفتن والا معاملہ ہے۔ اب امریکہ کو شاید ہمارے اوپر ترس آگیا ہے کہ بالآخر اس نے ہمیں لٹانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔مائیک مولن نے طبل جنگ بجا دیا ہے۔امریکیوں کے تیور بدل رہے ہیں۔وہ یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ان کا پیمانہ صبر لبریز ہونے کو ہے۔

سیدھے سبھاﺅ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم کوئی ایسا کام کر ضرور رہے ہیں جو امریکیوں کو پسند نہیں یا ان کے مفاد میں نہیں۔دوسرے لفظوں میں ایسا کوئی کام جو ہمارے اپنے مفاد میں ہے۔ہم امریکہ کے زبردستی کے اتحادی ہیں۔ہم غریب کی جورو ہیں جسے امریکہ نے زبردستی کی بھابھی بنایا ہوا ہے۔امریکہ ہمیں ڈالر دیتا ہے اور اس کے بدلے مں وہ ہم سے بجا طور پہ یہ توقع رکھتا ہے کہ ہم آنکھیں بند کر کے اس کا حکم بجا لائیں گے۔ہم کرتے بھی یہی ہیں لیکن کبھی کبھی غلاموں کو بھی اونگھ آجاتی ہے۔افغانستان میں امریکہ اسامہ بن لادن کو پکڑنے آیا تھا ۔اس نے اپنی معیشت کا ناس مار کے ،دنیا کے امن کو تہہ و بالا کر کے حاصل کیا کیا۔صرف کسی اچھے سکرپٹ رائٹر کی لکھی ہوئی ایک کہانی۔اگر ایبٹ آباد میں امریکی ہیلی کاپٹر نہ گرا کے جاتے تو کون یقین کرتا کہ امریکیوں نے ہی یہ آپریشن کیا ہے۔امریکی ایسے ہی ڈرامے باز ہیں۔اپنے مطلب اور مفاد کے حصول کے لئے وہ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ہاں پاکستان پہ حملہ بھی لیکن یہ حملہ اسی وقت ہو گا جب پاکستانی اشرافیہ وہی "کبوترانہ استدلال "اپنائے گی جو آج ملک کے ایک مشہور کالم نویس نے اپنایا ہے۔بین السطور ان کا کہنا ہے کہ امریکہ بہت بڑا ہے ہمیں فوراََ لیٹ جانا چاہئیے۔وہ ہمارا تیا پانچہ کر کے رکھ دے گا۔جیو ٹی وی کے پروگرام بھی تقریباََ یہی راہ دکھا رہے ہیں۔

ہاں امریکہ بلا شرکت غیرے ایک مستند سپر پاور ہے۔ہمیں اس سے جنگ مہنگی پڑے گی۔لیکن کیا یہ جنگ ہم کر رہے ہیں یا ہم کرنا چاہتے ہیں۔کیا عراق امریکہ سے جنگ چاہتا تھا۔کیا لیبیا کے معمر قذافی نے امریکہ سے جنگ چاہی تھی۔کیا افغانستان کے طالبان نے امریکہ کو اپنے ملک آنے کی دعوت دی تھی۔قطعاََ نہیں یہ امریکہ کے اپنے ہی منصوبے تھے۔کہیں پہ نام نہادبڑے پیمانے پہ تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کابہانہ تھا تو کہیں پہ اسامہ بن لادن کا فسانہ۔کہیں پہ اس کے پیٹ میں جمہوریت کے مروڑ اٹھتے ہیں تو کہیں آمریت اسے نہیں بھاتی۔حقانی نیٹ ورک تو اک بہانہ ہے یہ نہ ہوتا تو کوئی اور ہوتا۔امریکی افغانستان میں اپنے پنجے گاڑ چکے ہیں۔جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ امریکہ افغانستان سے واپس جا رہا ہے یہ ان کی خام خیالی ہے۔امریکہ افغانستان سے پاکستان جا رہا ہے۔پاکستان آکے وہ ایران کا مکو ٹھپے گا اور پھر یہیں رہ کے وہ اپنے اصل حریف چین کوزخمی کرے گا۔اصل منصوبہ یہی ہے اور چین سمیت سبھی یہ بات جانتے ہیں۔امریکہ پاکستان میں تشریف آوری سے پہلے یہ چاہتا ہے کہ اس کے راستے کے چھوٹے موٹے سب کانٹے پاکستان خود ہی صاف کر دے۔

مشکل گھڑی ہے لیکن کیا ہمیں ایک بار پھر جھک جانا چاہئیے۔ایک عشرے تک جھکے رہنے کے باوجود ہم نے کیا پایا۔الزام،طعنے،معیشت کی تباہی ،بدامنی۔ہمارے پاس اب لٹانے کو بچا ہی کیا ہے۔اس عاشقی میں عزت سادات کا جنازہ تو ہم اپنے ہی ہاتھوں نکال چکے۔مرنے اور ختم ہونے سے پہلے اپنے دامن پہ لگا بے غیرتی اور بے عزتی کا یہ داغ مٹانے کی ایک کوشش ہمیں ضرور کرنی چاہئیے۔ہمیں ہم آواز ہو کے امریکہ کو بتانا چاہئیے کہ مادر وطن کی حفاظت کے لئے ہم ایک ہیں۔اس دنیا میں کوئی ایسا اب تک نہیں آیا جسے موت نہ آئی ہو۔مرنا تو ویسے بھی ہے کیوں نہ اللہ کے دین کی سر بلندی کے لئے لڑا جائے۔باتھ روم میں گر کے مرنے سے بہتر نہیں کہ میدان جنگ میں سینے پہ گولی کھا کے مرا جائے۔مادر وطن کی حفاظت کے لئے لڑا جائے۔اپنی عزتوں اور عصمتوں کی حفاظت کے لئے لڑا جائے۔مرنا تو ویسے بھی ہے کیوں نہ تاریخ میں زندہ رہنے کی ایک کوشش کی جائے۔

میرا سلام اس شیر دل خاتون وزیر خارجہ کو جس نے بھیڑیوں کی کچھار میں بیٹھ کے انہیں آئینہ دکھایا۔وزیر اعظم اور آرمی چیف کو بھی جنہوں نے قومی موقف کی ترجمانی کی۔ ہمارے آپس کے لاکھ اختلافات سہی لیکن لڑنا پڑا تو ہم ایک ہو کے لڑیں گے۔ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔ زرداری ،نواز شریف،الطاف حسین ،عمران خان،گجرات کے چوہدری،اور تو اور اپنے مولنٰنا فضل الرحمٰن بھی۔قاضی حسین احمد اور باقی سب بھی۔یہ سب پاکستانی فوج کے شانہ بشانہ لڑیں گے اور مجھے یقین ہے کہ یہ سب لڑیں گے۔امریکہ کی مہربانی سے اور پاکستانی طالبان کے کرم سے اب تو ہماری قوم کا بچہ بچہ جنگجو ہے اور یہ بات امریکی بھی جانتے ہیں۔ میرے وطن کے پیارے لوگو!اور کوئی نہ بھی لڑا تو ہم لڑیں گے۔اس یقین کے ساتھ کہ کل کا مورخ جب تاریخ لکھے تو یہ ضرور لکھے کہ پاکستانی ایک بہادر قوم تھی جو اپنی عزت عصمت اور حرمت کے لئے لڑتی ہوئی ماری گئی۔ہمارے ہی ایک لیڈر نے کہا تھا کہ گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے۔گیدڑ یا شیر فیصلہ آپ نے کرنا ہے۔
Qalandar Awan
About the Author: Qalandar Awan Read More Articles by Qalandar Awan: 63 Articles with 54191 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.