حضرت حسن بن علی رضی اللّٰہ

حضرت حسنؓ صورت وسیرت دونوں میں آنحضرت ﷺ سے مشابہ تھے خصوصا ًصورت میں بالکل ہم شبیہ تھے۔
سنہ ہجری کے تیسرے سال رمضان المبارک کے مہینہ میں معدنِ نبوت کا یہ گوہر شب چراغ استغنا وبے نیازی کی اقلیم کا تاجدار، صلح و مسالمت کی پرسکون مملکت کا شہنشاہ، عرشِ خلافت کا مسند نشین،دوشِ نبوت کا سوار، فتنہ و فساد کا بیخ کن ،سردارِ دو عالم کی بشارت کا پورا کرنے والا، امتِ مسلمہ کا محسنِ اعظم، نور افزائے عالمِ
حضرت حسن بن علی بن ابی طالب رضی اللّٰہ کی پیدائش (621ء میں حضرت علی بن ابی طالب رضی اللّٰہ اور محمد ﷺ کی لاڈلی بیٹی حضرت فاطمہؓ کے ہاں ہوئی ،

آنحضرتﷺ کو ولادت باسعادت کی خبر ہوئی توحضرت فاطمہؓ کے گھر تشریف لائے،اورفرمایا :
میرے بچے کو دکھانا،کیا نام رکھا گیا، عرض کیا گیا، حرب، فرمایا نہیں ،اس کا نام حسنؓ ہے،پیدائش کے ساتویں دن عقیقہ کیا اور دو مینڈھوں کی قربانی کرکے سر کے بال اتروائے اوران کے ہم وزن چاندی خیرات کی ۔
عہد نبویﷺ میں آنحضرتﷺ کو حضرت حسنؓ کے ساتھ جو غیر معمولی محبت تھی وہ کم خوش قسمتوں کے حصّہ میں آئی،بڑے نازونعم سے پرورش فرمائی،کبھی آغوشِ شفقت میں لیے ، کبھی دوشِ مبارک پر سوار کیے ہوئے، ادنی ادنی تکلیف پر بے قرار ہوجاتے، حسنؓ کو دیکھنے کے لیے روزانہ فاطمہ زہراؓ کے گھر تشریف لے جاتے، کبھی نماز کی حالت میں پشتِ مبارک پر چڑھ کے بیٹھ جاتے کبھی رکوع میں ٹانگوں کے درمیان گھس جاتے،کبھی ریش مبارک سے کھیلتے،ان طفلانہ شوخیوں کو برداشت کرتے اورکبھی تادیباً بھی نہ جھڑکتے؛بلکہ ہنس دیا کرتے تھے،ابھی حضرت حسنؓ آٹھ ہی سال کے تھے کہ یہ بابرکت سایہ سر سے اٹھ گیا۔
عہد صدیقیؓ میں حضرت ابوبکرؓ مسند نشین خلافت ہوئے تو بھی ذاتِ نبویﷺ کے تعلق کی وجہ سے حضرت حسنؓ کے ساتھ بڑی محبت فرماتے تھے،ایک مرتبہ حضرت ابوبکرؓ عصر کی نماز پڑھ کر نکلے، حضرت علیؓ بھی ساتھ تھے،راستہ میں حضرت حسنؓ کھیل رہے تھے،حضرت ابوبکرؓ نے اٹھا کر کندھے پر بٹھا لیا، اورفرمانے لگے، قسم ہے یہ نبیﷺ کے مشابہ ہے،علیؓ کےمشابہ نہیں ہے، حضرت علیؓ یہ سن کر ہنسنے لگے۔
عہد فاروقیؓ میں حضرت عمرؓ نے بھی اپنے زمانہ میں دونوں بھائیوں کے ساتھ ایسا ہی محبت آمیز برتاؤ رکھا، چنانچہ جب آپ نے کبارصحابہؓ کے وظائف مقرر کیے،توگو حضرت حسنؓ اس صف میں نہ آتے تھے،لیکن آپ کا بھی پانچ ہزار ماہانہ مقرر فرمایا۔
عہد عثمانیؓ میں حضرت عثمانؓ نے بھی اپنے زمانہ میں ایسا ہی شفقت آمیز طرزِ عمل رکھا،صدیقیؓ اور فاروقیؓ دور میں حضرت حسنؓ اپنی کمسنی کے باعث کسی کام میں حصہ نہ لے سکتے تھے، حضرت عثمانؓ کے عہد میں پورے جوان ہوچکے تھے؛چنانچہ اسی زمانہ سے حضرت حسنؓ کی عملی زندگی کا آغاز ہوتا ہے،اس سلسلہ میں سب سے اول طبرستان کی فوج کشی میں مجاہدانہ شریک ہوئے،یہ فوج کشی سعید بن العاص کی ماتحتی میں ہوئی تھی۔(ابن اثیر:3/84،طبع یورپ)
جب حضرت عثمانؓ کے خلاف فتنہ اٹھا اورباغیوں نے قصِر خلافت کا محاصرہ کر لیا،تو حضرت حسنؓ کو حضرت عثمان ؓ کی حفاظت کے لیے بھیج دیا، اس خطرہ کی حالت میں نہایت شجاعت و بہادری کے ساتھ حملہ آوروں کی مدافعت کی اور باغیوں کو اندر گھسنے سے روک رکھا، اس مدافعت میں خود بھی بہت زخمی ہوئے،سارا بدن خون سے رنگین ہو گیا؛ لیکن حفاظت کی یہ تمام تدبیریں ناکام ثابت ہوئیں اور باغی چھت پر چڑھ کر اندر گھس گئے اورحضرت عثمانؓ کو شہید کر دیا، حضرت علیؓ کو شہادت کی خبر ہوئی تو جوش غضب میں حضرت حسنؓ کو طمانچہ مارا کہ کیسی حفاظت کی کہ باغیوں نے اندر گھس کر عثمانؓ کو شہید کرڈالا۔
حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد جب مسندِ خلافت خالی ہو گئی اورمسلمانوں کی نگاہِ انتخاب حضرت علیؓ پر پڑی اورانہوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔دوسری طرف حضرت عثمانؓ کے قصاص میں ان کے قاتلوں سے بدلہ لینے کے لیے آواز بلند ہوئی،حضرت علیؓ نے بھی مقابلہ کی تیاریاں شروع کر دیں،
چنانچہ والد بزرگوار کے حکم کے مطابق حضرت عمار بن یاسرؓ کے ہمراہ اہل کوفہ کو ان کی امداد پر آمادہ کرنے کے لیے کوفہ تشریف لے گئے۔
جمل کے بعد صفین کا قیامت خیز معرکہ ہوا اس میں بھی اپنے والد کے ساتھ تھے اور التوائے جنگ پر جو عہد نامہ مرتب ہوا تھا اس میں شاہد تھے۔
خلافت کے پانچویں سال ابن ملجم نے حضرت علیؓ پر قاتلانہ حملہ کیا زخم کاری تھا اس لیے نقل وحرکت سے معذور ہو گئے؛چنانچہ جمعہ کی امامت حضرت حسنؓ کو تفویض فرمائی،
اس جمعہ میں آپ نے ذیل کا خطبہ دیا: "خدا نے جس نبی کو مبعوث کیا اس کو ایک ذات، ایک قبیلہ اور ایک گھر عنایت فرمایا، اس ذات کی قسم جس نے محمدﷺ کو مبعوث کیا جو شخص ہم اہل بیت کا کوئی حق تلف کرے گا خدا اس اتلافِ حق کے بقدر اس شخص کا حق گھٹا دے گا"۔
حضرت علیؓ کا زخم نہایت کاری تھا، بعض نے آپ علیؓ سے حضرت حسنؓ کی آیندہ جانشینی اورخلافت کے بارہ میں سوال کیا آپ نے فرمایا"نہ میں حکم دیتا ہوں اورنہ روکتا ہوں" زخمی ہونے کے تیسرے دن حضرت علیؓ جنت الفردوس کو سدھارے حضرت حسنینؓ اورجعفرؓ نے غسل دیا، حضرت حسنؓ نے نمازجنازہ پڑھائی اورنمازِ فجر سے قبل آپ کا جسدِ خاکی مقام رؓہ میں جامع مسجد کے متصل سپرد خاک کیا گیا۔
حضرت حسنؓ کوفہ میں تھے آپ کو عبد اللہ بن عامر کی پیش قدمی کی خبر ہوئی تو آپ بھی مقابلہ کے لیے کوفہ سے مدائن کی طرف بڑھے، ساباط پہنچ کر جنگ سے پہلو تہی کے آثار دیکھے اس لیے اسی مقام پر رک کر حسبِ ذیل تقریر کی:
"میں کسی مسلمان کے لیے اپنے دل میں کینہ نہیں رکھتا اور تمہارے لیے بھی وہی پسند کرتا ہوں جو اپنے لیے پسند کرتا ہوں،تمہارے سامنے ایک رائے پیش کرتا ہوں، امید ہے کہ اسے مسترد نہ کروگے جس اتحاد ویکجہتی کو تم ناپسند کرتے ہو وہ اس تفرقہ اوراختلاف سے کہیں افضل و بہتر ہے،میں تم لوگوں کو تمہاری مرضی کے خلاف مجبور کرنا نہیں چاہتا" یہ خیالات سن کر لوگ سناٹے میں آگئے اورایک دوسرے کا منہ تکنے لگے،اگرچہ کچھ لوگ جنگ سے پہلو تہی کر رہے تھے تاہم بہت سے خارجی عقائد کے لوگ جو آپ کے ساتھ تھے اور لڑنا فرض عین سمجھتے تھے،انہوں نے جب یہ رنگ دیکھا تو برا بھلا کہنے لگے اوران کی تحقیر کرنی شروع کردی،جس مصلیٰ پر آپ تشریف فرماتے تھے حملہ کرکے اسے چھین لیا،پیراہن مبارک کھسوٹ کر گلے سے چادر کھینچ لی،
حضرت حسنؓ نے یہ برہمی دیکھی تو گھوڑے پر سوار ہو گئے اور ربیعہ و ہمدان کو آواز دی انہوں نے بڑھ کر خارجیوں کے نرغہ سے چھڑایا اور آپ سیدھے مدائن روانہ ہو گئے راستہ میں جراح بن قبیصہ خارجی حملہ کی تاک میں چھپا ہوا تھا، اس نے حملہ کرکے زانوئے مبارک زخمی کر دیا، عبد اللہ بن خطل اورعبداللہ بن ظبیان نے جو آپکے ساتھ تھے جراح کو جہنم واصل کر دیا ،
حضرت حسنؓ مدائن جاکر قصر ابیض میں قیام پزیر ہو گئے،شفایاب ہونے کےبعد پھر عبد اللہ بن عامرکے مقابلہ کے لیے تیار تھے ،اس دوران میں امیر معاویہؓ بھی انبار پہنچ چکے تھے اور قیس بن عامر کو جو حضرت حسنؓ کی طرف سے یہاں متعین تھے، امیر معاویہؓ نے قیس کا محاصرہ کیا دوسری طرف حضرت حسنؓ اورعبداللہ ابن عامر بالمقابل آگئے،عبد اللہ اس موقع پر چال چلا کہ حضرت حسنؓ کی فوج کو مخاطب کرکے کہا کہ عراقیو! میں خود جنگ نہیں کرنا چاہتا،میری حیثیت صرف معاویہؓ کے مقدمۃ الجیش کی ہے، اس لیے حسنؓ کو میرا سلام کہہ دو اورمیری جانب سے یہ پیام پہنچا دو کہ ان کو اپنی ذات اور اپنی جماعت کی قسم جنگ ملتوی کر دیں۔عبد اللہ بن عامر کا یہ افسوں کار گر ہو گیا،جنگ ملتوی ہو گئی ، حضرت حسنؓ واپس مدائن چلے آنے کے بعد عبد اللہ بن عامر کو موقع مل گیا اس نے بڑھ کر مدائن میں گھیر لیا۔
حضرت حسنؓ پہلے ہی امن چاہتے تھے ،امیر معاویہؓ سے صلح کرنے پر آمادہ تھے،جنگ کا خیال بالکل ترک کر دیا اور چند شرائط پر امیر معاویہؓ کے حق میں خلافت سے دستبرداری کا فیصلہ کر لیا اور یہ شرائط عبد اللہ بن عامر کے ذریعہ سے امیر معاویہؓ کے پاس بھجوا دیئے،جو حسب ذیل ہیں:
(1)کوئی عراقی محض بغض وکینہ کی وجہ سے نہ پکڑا جائے گا۔
(2) بلااستثنا سب کو امان دی جائے گی۔
(3)عراقیوں کے ہفوات کو انگیز کیا جائے گا۔
(4)یہ ہواز کا کل خراج حسنؓ کے لیے مخصوص کر دیا جائے گا۔
(5) حسینؓ کو دو لاکھ سالانہ علاحدہ دیا جائے گا ۔
(6)بنی ہاشم کو صلات وعطایا میں بنی عبدشمس (بنی امیہ) پر ترجیح دی جائے گی۔
عبد اللہ بن عامر نے یہ شرائط امیر معاویہؓ کے پاس بھیجوا دیئے، انہوں نے بلا کسی ترمیم کے یہ تمام شرطیں منظور کر لیں اوراپنے قلم سے ان کی منظوری لکھ کر اپنی مہر ثبت کرکے معززین وعمائد کی شہادتیں لکھوا کر حضرت حسنؓ کے پاس بھیجوادیا۔ (یہ تمام حالات اخبار الطوال وینوری ،230 تا 232 سے ماخوذ ہیں)حضرت حسنؓ کوفہ تشریف لے گئے امیر معاویہؓ یہاں آکر آپ سے ملے اور دونوں میں صلح نامہ کے شرائط کی زبانی بھی تصدیق و توثیق ہو گئی۔
دست برداری کے بعد حضرت حسنؓ اپنے اہل و عیال کو لے کر مدینۃ الرسول چلے گئے،اس طرح آنحضرتﷺ کی یہ پیشین گوئی پوری ہو گئی کہ میرا یہ بیٹا سید ہے خدا اس کے ذریعہ مسلمانوں کے دو بڑے فرقوں میں صلح کرائے گا۔
بااختلاف روایت آپ کی مدت خلافت ساڑھے پانچ مہینے یا چھ مہینے سے کچھ زیادہ یا سات مہینے سے کچھ زیادہ تھی،آپ کی بیعت خلافت کی تاریخ تو متعین ہے مگر دستبرداری کی تاریخ میں بڑا اختلاف ہے،بعض ربیع الاول 41ھ بعض ربیع الثانی اوربعض جمادی الاول بتاتے ہیں،اسی اعتبار سے مدت خلافت میں بھی اختلاف ہو گیا ہے۔
دستبرداری کے بعد حضرت حسنؓ آخری لمحہ حیات تک اپنے جد بزرگوار کے جوار میں خاموشی وسکون کی زندگی بسر کرتے رہے 50ھ میں کسی نے آپ کو زہر دے دیا (زہر کے متعلق عام طور پر غلط فہمی پھیلی ہوئی ہے کہ امیر معاویہؓ کے اشارہ سے دیا گیا، جو سراسر غلط ہے )،جب حالت زیادہ نازک ہوئی اورزندگی سے مایوس ہو گئے،توحضرت حسینؓ کو بلا کر ان سے واقعہ بیان کیا،انہوں نے زہر دینے والے کا نام پوچھا،فرمایا:نام پوچھ کر کیا کروگے؟ عرض کیا قتل کروں گا، فرمایا: اگر میرا خیال صحیح ہے تو خدا بہتر بدلہ لینے والا ہے اوراگر غلط ہے تو میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے کوئی ناکردہ گناہ پکڑا جائے اور زہر دینے والے کا نام بتانے سے انکار کر دیا،تیسرے دن ضروری وصیتوں کے بعد باختلاف روایت ربیع الاول 49 یا 50 ھ میں اس بوریہ نشین مسندِ بے نیازی نے اس دنیائے دنی کو خیرباد کہا 48 سال کی عمر میں 670ء کو انتقال ہو گیا،
سعید بن العاصؓ عامل مدینہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور جنت البیقیع میں حضرت فاطمہ زہراؓ کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا۔
حضرت حسنؓ کی رحلت معمولی واقعہ نہ تھا ؛بلکہ صلح ومسالمت، حلم وعفو ، صبر وتحمل، استغناء وبے نیازی، خاندانِ نبوت کے چشم وچراغ کا ماتم تھا، بنی ہاشم کی عورتوں نے ایک مہینہ تک سوگ منایا ،جنازہ میں انسانوں کا اتنا ہجوم تھا کہ اس سے پہلے مدینہ میں کم دیکھنے میں آیا تھا،حضرت ثعلبہ بن ابی مالک راوی ہیں کہ حضرت حسنؓ کے جنازہ میں اتنا ازدحام تھا کہ اگر سوئی جیسی مہین چیز بھی پھینکی جاتی تو کثرت ازدحام سے زمین پر نہ گرتی۔
حضرت حسنؓ نے ساری عمر نہایت فراغت کے ساتھ زندگی بسر کی،
حضرت عمرؓ نے جب صحابہؓ کرام کے وظائف مقرر کیے اورحضرت علیؓ کا پانچ ہزار ماہوار مقرر کیا،توآپ کے ساتھ حضرت حسنؓ کا بھی رسول اللہ ﷺ کی قرابت کے لحاظ سے پانچ ہزار ماہوار مقرر فرمایا جو انہیں برابر ملتا رہا ،
شروع سے آخرتک آپ نے بڑی راحت وآرام کی زندگی بسر فرمائی۔
آنحضرتﷺ کی وفات کے وقت حضرت حسنؓ کی عمر آٹھ سال سے زیادہ نہ تھی تاہم آپ جس خانوادہ کے چشم وچراغ تھے اورجس باپ کی آغوش میں تربیت پائی تھی وہ علوم مذہبی کا سرچشمہ اورعلم وحمل کا مجمع البحرین تھا اس لیے قدرۃ اس آفتابِ علم کے پرتو سے حسنؓ بھی مستفید ہوئے؛
چنانچہ آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد مدینہ میں جو جماعت علم وافتا کے منصب پر فائز تھی اس میں ایک آپ کی ذاتِ گرامی بھی تھی البتہ آپ کے فتاویٰ کی تعداد بہت کم ہے۔
آپ کی مرویات کی تعداد کل تیرہ ہے۔
مذہبی علوم کے علاوہ آپ خطابت اور شاعری میں بھی کمالات تھے،حضرت حسنؓ عرب کے اخطب الخطباء کے فرزند تھے،اس لیے خطابت ورثے میں ملی تھی اور بچپن ہی سے خطابت کا مادہ تھا، ایک مرتبہ نہایت فصیح وبلیغ خطبہ دیا، حضرت علیؓ نے سن کر فرمایا کیوں نہ ہو بیٹے میں باپ کا اثر ہوتا ہے۔
آپ کے حکیمانہ مقولے ملتے ہیں جن میں ہر مقولہ بجائے خود دفتر ہے، ایک شخص نے آپ سے سوال کیا کہ زندگی بسر کرنے کے اعتبار سے سب سے اچھی زندگی کون بسر کرتا ہے؟ فرمایا جو اپنی زندگی میں دوسروں کو بھی شریک کرے،
پھر پوچھا سب سے بری زندگی کس کی ہے؟ فرمایا جس کے ساتھ کوئی دوسرا زندگی نہ بسر کرسکے، فرماتے تھے کہ ضرورت کا پورا نہ ہونا اس سے کہیں بہتر ہے کہ اس کے لیے کسی نااہل کی طرف رجوع کیا جائے۔
شبیہ رسول حضرت حسنؓ کا لقب تھا یہ مشابہت محض ظاہری اعضا و جوارح تک محدود نہ تھی؛بلکہ ذات باطنی اور معنوی لحاظ سے بھی اسوۂ نبویﷺ کا نمونہ تھی،یوں تو تمام مکارم اخلاق کا پیکر مجسم تھے؛ لیکن زہد ورع دنیاوی جاہ وچشم سے بے نیازی اور بے تعلقی آپ کا ایسا خاص اورامتیازی وصف تھا جس میں آپ کا کوئی حریف نہیں۔


Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 474240 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More