1947 ،کانگریس اور مہاراجہ کشمیر کا گٹھ جوڑ اور تحریک آزادی


اطہرمسعود وانی
نیشنل کانفرنس کی دار کونسل (جو مجلس عاملہ کی حیثیت میں کام کر رہی تھی) نے غلام محی الدین مہرہ کی صدار ت میں وسط اگست میں ایک جلسہ کیا۔ اس میں کل 13 ممبروں میں سے آٹھ ممبران نے الحاق پاکستان کے حق میں رائے دی ۔الغرض یہ بات صاف تھی کہ ریاست جموں وکشمیر کے عوام کی ٹھوس اور غالب اکثریت الحاق پاکستان کی خواہش مند ہے۔ لیکن مہاراجہ ہری سنگھ عوام کی خواہشات سے بے نیاز رہ کر کانگرسی لیڈر وں کے ساتھ ایک گہری اور عوا م دشمن سازش میں مصروف تھے کانگریسی لیڈر بھی ریاست کو بھارت میں شامل کرنے کے لئے بے تاب تھے اور اس مقصد کے لئے سازشوں میں لگے ہوئے تھے۔ 3 جون 47 ء کے اعلان سے چند دن قبل ہی کانگرس کے صدر آچاریہ کرپلانی کشمیر آئے اور یہاں نیشنل کانفرنسی کارکنوں ہندو لیڈروں اور مہاراجہ ہری سنگھ اور ا نکے مشیروں کے ساتھ پراسرار ملاقاتیں کرتے رہے۔ کانگریس کے کمیونسٹ لیڈر بھی ان دنوں بار بار کشمیرآئے۔ اگست 47 کے پہلے ہفتے میں کانگرس کے ''روحانی باپ'' گاندھی جی بھی غالباً زندگی میں پہلی اورآخری بار کشمیر چلے آئے۔ جونہی انہوں نے اپنے دورے کا اعلان کیا تو ریاست کے عوامی نمائندوں نے ان کے خلاف زبردست احتجاج کیا ۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ گاندھی جی کانگرسی لیڈروں اور ہری سنگھ کی ناپاک سازش کی آخری منزلیں طے کرانے آ رہے ہیں چنانچہ مسلم کانفرنس کی مجلس عمل کے صدر میر واعظ مولانا محمد یوسف شاہ نے گاندھی جی کی آمدسے چند دن قبل مندرجہ ذیل بیان جاری کیا،
''اگر مہاراجہ بہادر نے مسٹر گاندھی کے اثرورسوخ میں آکر کشمیر کو ہندو انڈیا میں شامل کیا تو ریاست میں خلل امن کا زبردست اندیشہ ہے ۔ مجھے امید ہے کہ مہاراجہ بہادر اس نازک ترین موقع پر تدبر سے کام لیں گے اور کوئی ایسا قدم نہیں اٹھائیں گے جس سے مسلمانان کشمیر کے ناراض ہو جانے کا اندیشہ ہو''۔ (روزنامہ ہمدرد سرینگر)
جب ریاست میں گاندھی جی کے دورے کے خلاف ایک طوفان برپا ہوا تو انہوں نے کشمیر جانے سے قبل دہلی میں ایک بیان جاری کیا، '' میں کشمیر اس لئے نہیں جارہا ہوں کہ مہاراجہ بہادر پر کسی قسم کا دبائو ڈال دوں کہ وہ انڈین یونین میں شامل ہوں۔ اس سوال کا فیصلہ کرناکہ ریاست کو پاکستان میں شامل ہونا چاہئے یا ہندوستان میں وہاں کے عوام کا کام ہے۔میں اس میں کوئی دخل نہیں دینا چاہتا ۔ نہ میں وہاں نیشنل کانفرنس کے لیڈر شیخ عبداللہ اوران کے رفقاء کو جیلوں سے رہا کرانے کے لئے جا رہا ہوں''۔ (روزنامہ ''ٹریبون'' لاہور)
لیکن اس کے ساتھ ہی ٹریبون اپنے نامہ نگار خصوصی کے حوالہ سے مندرجہ ذیل خبر بھی شائع کی، '' گاندھی جی کا دورہ کشمیر اس مقصد کے لئے ہو رہا ہے کہ مہاراجہ صاحب گاندھی جی سے ملاقات کریں گے اورالحاق کے بارے میں ان کا مشورہ حاصل کرینگے'' ۔ جب گاندھی جی اپنے اس پراسرار مشن کے سلسلہ میں کشمیر آئے تو بارہ مولااور سری نگر میں مسلم کانفرنس کی طرف سے ان کے خلاف زبردست مظاہرے ہوئے۔ مشتعل عوام نے ان کی کار پر پتھروں کی بارش کی''۔ ان کی سرینگر آمد پر صدر مسلم کانفرنس پارلیمنٹری بورڈ میجر سید علی احمد شاہ اسمبلی میں مسلم کانفرنسی پارٹی کے ڈپٹی لیڈر خواجہ غلام احمد جویلر اورپارٹی کے چیف وہپ سردار محمد ابراہیم نے مندرجہ ذیل مشترکہ بیان جاری کیا، ''ہمیں ڈر ہے کہ کہیں مہاراجہ بہادر پر انڈین ڈومینین کے ساتھ شامل ہونے کیلئے دبائو نہ ڈالا جائے اس لئے ہم مسلمانان کشمیر کی طرف سے یہ صاف ظاہر کر دینا چاہتے ہیں کہ ہم پاکستان ڈومینین کے ساتھ شامل ہوناچاہتے ہیں ۔ ہم چاہتے ہیں کہ مسٹر گاندھی اپنے وعدے کی بناء پر اس بدنصیب ریاست کی سیاست میں دخل نہ دیں۔ اگر انہوں نے ریاست کی سیاست میں دخل دیاتو حالات بگڑ جائیں گے''۔ (روزنامہ ہمدرد سرینگر)


گاندھی جی نے آتے ہی 3 اگست کو مجاہد منزل میں نیشنل کانفرنس کے کارکنوں سے خطاب کیا اور انہیں مشورہ دیا کہ وہ مہاراجہ صاحب کے خلاف نہ بولیں ۔ اسی دن انہوں نے وزیراعظم کشمیر پنڈت رام چند کاک سے دوبار ملاقات کی ۔ مہاراجہ ہری سنگھ کے گروجی سے بھی ملے اور خود مہاراجہ ہری سنگھ سے بھی طویل ملاقات کی۔ اس کے بعد واپس چلے گئے ان کی واپسی کے ایک ہفتے بعد ہی وزیراعظم کا ک کو سبکدوش کر کے ایک ڈوگرہ جرنیل جنگ سنگھ کو وزیراعظم کشمیر مقرر کیا گیا۔ کاک کے متعلق یہ افواہ تھی کہ وہ ریاست کوخود مختار رکھنے کے حق میں تھے۔ 15 اگست 47 ء کو قیام پاکستان پر ریاست جموں وکشمیر میں جگہ جگہ مسلمانوں نے پورے جوش وخروش کے ساتھ یوم پاکستان منایا ۔ سری نگر کی جامع مسجد میں میر واعظ کشمیر کی صدارت میں ایک لاکھ اسلامیان کشمیر کا احتجاج ہوا۔ جس میں الحاق پاکستان کا پرزور مطالبہ کیا گیا۔ 27 اگست کو مسلم کانفرنس کے قائم مقام صدر چوہدری حمید اللہ خان اورصدر مجلس عمل میر واعظ مولانا محمد یوسف شاہ کا ایک مشترکہ بیان جاری ہوا جس میں انہوں نے کہا، ''ہم مہاراجہ بہادر کو خبردار کرتے ہیں کہ اگر اس نے انڈین یونین میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا تو ریاست کے تمام مسلمان اس کی مزاحمت کریں گے۔ ریاست کے مسلمانوں کی رائے یہ ہے کہ کشمیر پاکستان میں شامل ہو کیونکہ جغرافیائی تسلسل اور تمدن واشتراک عمل اس کا تقاضا کر رہے ہیں۔ اگر اکثریت کے جذبات و احساسات کو نظرانداز کرنے کی کوشش کی گئی تو مسلمان ہر نازک صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں''۔ (روزنامہ ''ہمدرد'' سرینگر)

27اگست 47 ء کو ریاست جموں وکشمیر کا پاکستان کے ساتھ باقاعدہ ''جوں کا توں معاہدہ ''ہوا۔ ہندوستان نے اس قسم کا معاہدہ کرنے سے انکار کردیا ۔ یہ بھی ایک فریب کارانہ چا ل تھی۔30 اگست 47 ء کو مسلم کانفرنس کی طرف سے وزیراعظم کشمیر کو ایک یادداشت پیش کی گئی جس میں مندرجہ ذیل مطالبات پیش کئے گئے۔


(1 )۔ کشمیر فوراً پاکستان میں شمولیت کا اعلان کرے ۔
(2) ریاست کے جدید آئین کیلئے ایک آئین ساز اسمبلی قائم کی جائے۔
(3)۔ ریاست میں فوری طور پر ذمہ دارنظام حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے۔


(4)۔ کشمیر پاکستان کی آئین ساز اسمبلی میں شمولیت کا اعلان کرے۔
(5)۔شہری آزادی کو بحال کیا جائے اور مسلم کانفرنس کے صدر چوہدری غلام عباس خان اور ان کے ساتھیوں کو رہا کیا جائے ۔
(6)۔ پونچھ کے حالات پر خاص توجہ دی جائے ۔
قیام پاکستان کے دن ہی پونچھ میں پاکستان کے حق میں جلسے اور مظاہرے شروع ہوگئے۔ اس سے پہلے ہی وہاں عدم ادائیگی محصولات کی تحریک جاری تھی۔ ڈوگرہ حکومت نے اہل پونچھ کو زبردستی دبانے کی کوشش کی۔ چنانچہ 26 اگست 47 ء کو باغ کے ایک جلسہ عام پر فوج نے فائرنگ کی جس سے متعدد مسلمان شہید ہوگئے ۔مسلم کانفرنسی کارکنوں کی ایک بڑی تعداد قید کردی گئی۔ (ان میں سے کانفرنس کے ایک مخلص کارکن اور باغ مسلم کانفرنس کے جنرل سیکرٹری سید خادم حسین شاہ مرحوم کو ڈوگرہ ظالموں نے جیل میں ہی شہید کردیا ۔ اس مجاہد کے لبوں پر آخری دم تک پاکستان زندہ باد کے الفاظ رہے) مسلم کانفرنس نے 5 ستمبر 47 ء کو یوم پونچھ منایا ۔ قائم مقام صدر مسلم کانفرنس نے ایک بیان میں اس قتل عام کی شدید مذمت کی اور کہاکہ '' قتل عام کا مقصد الحاق پاکستان کی تحریک کوختم کرنا ہے''۔
19 ستمبر 47 ء کو مسلم کانفرنس نے پھر ایک بار''یوم پاکستان'' منایا اور ہر جگہ عام جلسے کر کے الحاق پاکستان کامطالبہ کیا گیا۔ستمبر کے پہلے ہفتے میں ہی نیشنل کانفرنس کے صدر شیخ محمد عبداللہ کو بھدرواہ جیل سے بادامی باغ چھائونی لایا گیا۔ اس دوران کانفرنس کے دو جلاوطن لیڈر بخشی غلام محمد اور غلام محمد صادق پر سے پابندی ختم کی گئی ۔ وہ جلاوطنی کے دوران کانگرسی لیڈروں سے ساز باز کر آئے تھے اور شیخ محمد عبداللہ کے ساتھ پراسرار ملاقاتیوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔ اچانک 29 ستمبر 47 ء کو شیخ محمد عبداللہ اپنی معیاد قید مکمل کرنے سے پونے دو سال پہلے ہی رہا کردیئے گئے۔ 7اکتوبر 47 ء تک ''کشمیر چھوڑ دو'' تحریک کے تمام قیدی رہا کئے جا چکے تھے لیکن مسلم کانفرنس کے صدر چوہدری غلام عباس خان اوران کے ساتھی بدستور نظربند رکھے گئے۔ شیخ صاحب کی رہائی سے تین دن قبل 26 ستمبر کو مسلم کانفرنس کے قائم مقام صدر چوہدری حمیداللہ خان مرحوم کا داخلہ بھی ریاست میں بند کردیا گیا، وہ لاہورآئے تھے۔دوسرے دن کشمیر اسمبلی کا اجلاس ہوا تو مسلم کانفرنس اسمبلی پارٹی کے ڈپٹی لیڈر خواجہ غلام احمد جیولرنے چوہدری حمید اللہ خان کے ریاست میں داخلہ پر پابندی کے خلاف احتجاج کیا اور بطور احتجاج تمام پارٹی اسمبلی سے واک آئوٹ کر گئی۔ اس کے ساتھ ہی مسلم کانفرنسی کارکنوں کی جلاوطنی نظربندی اور زبان بندی کا سلسلہ شروع ہوا۔


اس سے قبل ہی جنگ سنگھ کی جگہ ایک کٹرہندومہرچند مہاجن کو ریاست کا وزیراعظم مقرر کیا جا چکا تھا۔ انہوں نے اپنی پہلی پریس کانفرنس میں مسلم کانفرنس کوکچلنے کا اعلان کر دیا ۔ البتہ الحاق کے بارے میں یہ بتایا کہ اس کا فیصلہ کرتے وقت عوام کی مرضی کا خیال رکھا جائے گا ۔لیکن یہ کہنے کی باتیں تھیں۔ مسٹر مہاجن توآئے ہی اس لئے تھے کہ ہری سنگھ اور کانگرس کی سازش کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں۔ اس کے ساتھ ہی کٹھوعہ روڈ کی تعمیر کا کام شروع ہوگیا۔یہ سڑک کشمیر کو بھارت سے ملانے والا واحد راستہ ہے ۔یہ بھی لارڈ مونٹ بیٹن اورریڈ کلف کی سازش اور بددیانتی سے ضلع گورداسپور کی وجہ سے بھارت کو ملا تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ گورداسپور کا بھارت کوملنا کشمیری عوام کے خلاف سازش کی ایک اہم کڑی تھی ۔15 اکتوبر کو وزیراعظم کشمیر نے حکومت پاکستان کے نا م ایک تار روانہ کیا جس میں یہ الزام لگایا گیا کہ ریاست کی ضروریات زندگی کی سپلائی میں رکاوٹ ڈالی جا رہی ہے۔ دوسرے دن ہی وزیراعظم پاکستان خان لیاقت علی خان نے اس کے جواب میں ایک تارحکومت کشمیر کو بھیجا جس میں تمام الزامات کی پرزورتردید کردی گئی اور ساتھ ہی کشمیری مسلمانوں کو دبانے کی پالیسی پر اظہار تشویش کیا گیا۔

دوسری طرف ان ہی دنوں کشمیری عوام نے ہری سنگھ کی معزولی اور آزادکشمیر حکومت کے قیام کا اعلان کردیا تھا اور آزاد مجاہدین ریاست کو آزاد کراتے ہوئے تیزی کے ساتھ کشمیر کے صدر مقام سرینگر کی طرف بڑھ رہے تھے۔ 26 اکتوبر 47 ء کو مہاراجہ ہری سنگھ نے بھاگ کر جموں میں پناہ لی اور وہاں سے اس وقت کے گورنر جنرل ہندوستان لارڈمونٹ بیٹن کے نام مندرجہ ذیل خط روانہ کیا۔
'' مائی ڈیئر مونٹ بیٹن!
میں یوئر ایکسیلنسی کو اطلاع دینا چاہتا ہوں کہ میری ریاست میں ایک تشویش ناک صورت حال پیدا ہوگئی ہے۔ جس میں میں آپ کی حکومت کی طرف سے فوری امداد کی استدعا کرتا ہوں۔ آپ اس امر سے آگاہ ہیں کہ ریاست جموں وکشمیر نے اب تک ہندوستان یا پاکستان دونوں میں سے کسی کے ساتھ بھی الحاق تسلیم نہیں کیا ۔ جغرافیائی اعتبار سے ریاست دونوں ملکوں سے متصل ہے اور دونوں کے ساتھ نہایت اہم اقتصادی اور کلچرل تعلقات رکھتی ہے ۔ اس کے علاوہ میری ریاست کی سرحدیں جمہوریہ سوویت روس اور چین کے ساتھ ملتی ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان اپنے خارجہ تعلقات میں اس حقیقت کو کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔ میں اس بات کا فیصلہ کرنے کے لئے کچھ مہلت چاہتا تھا کہ مجھے ان دونوں میں سے کسی ڈومینین کے ساتھ شامل ہونا چاہئے اور آیا میری ریاست اور دونوں ملکوں کا بہترین مفاد اس میں نہ ہوگا کہ میری ریاست آزادرہے او ردونوں سے دوستانہ اور خوشگوار تعلقات قائم رکھے ۔ اسی مہلت کے لئے میں نے ہندوستان اور پاکستان دونوں سے درخواست کی کہ وہ ریاست کے ساتھ ساکن معاہدے کر لیں۔ حکومت پاکستان نے اس چیز کو قبول کر لیا اور ہندوستان نے میری حکومت کے نمائندے کے ساتھ مزید بات چیت کرنے کی خواہش ظاہر کی ۔ لیکن محولا بالا حالات کے پیدا ہو جانے کی وجہ سے میں اس گفت وشنید کا انتظام نہ کر سکا ۔ واقعہ یہ ہے کہ حکومت پاکستان ساکن معاہدے کے ماتحت ریاست میں ڈاک وتار کے محکموں کا انصرام کر رہی ہے۔
اگرچہ حکومت پاکستان کے ساتھ ہمارا ساکن معاہدہ ہوچکا ہے لیکن یہ حکومت میری ریاست کو اشیاء خوراک نمک اور پٹرول کی بہم و رسانی کے معاملے میں روزافزوں مشکلات پیدا کررہی ہے۔ افریدیوں بے وردی سپاہیوں اور غنڈوں کو جو جدید ہتھیاروں سے مسلح ہیں ریاست میں داخل ہونے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ جو پہلے پونچھ کے علاقے میں پھر سیالکوٹ میں اور آخر میں اس رقبے درانہ میں گھس آئے جو رام کوٹ کی طرف ضلع ہزارہ کے متصل واقع ہے۔ اس یورش کا نتیجہ یہ ہوا کہ ریاست کے پاس جو محدود سی فوج تھی، وہ منتشر کرنی پڑی۔ اسے بیک وقت کئی مقامات پر دشمن کا مقابلہ کرنا پڑا۔ چنانچہ جان و مال کی تباہی اور لوٹ مار کو روکنا بے حد دشوار ہو رہا ہے۔ مہورہ کا بجلی گھر جس سے سارے سری نگر کو بجلی کی طاقت بہم پہنچائی جاتی تھی، جلا کر خاکستر کر دیا گیا۔ جب میں ان عورتوں کی تعداد پر غور کرتا ہوں جو اغواء اور عصمت دری کا شکار بنائی گئیں تو میرا دل خون کے آنسو روتا ہے ۔ یہ وحشی لشکر جو ریاست پر چھوڑ دیئے گئے ہیں اب میری حکومت کے گرمائی صدر مقام سری نگر پر قبضہ کرنے کی نیت سے بڑھے چلے آ رہے ہیں تاکہ اس کو فتح کر کے ساری ریاست پر چھا جائیں۔


شمال مغربی سرحدی صوبہ کے دور دست علاقوں سے قبائل کے لوگ ہجوم کی صور ت میں مانسہر ہ مظفرآباد کی سڑک پر موٹر ٹرکوں میں باقاعدہ چلے آ رہے ہیں۔ ان کے پاس جدید ترین اسلحہ کافی تعداد میں موجود ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ جو کچھ ہو رہا ہے صوبہ سرحد کی حکومت اور پاکستان کی حکومت کے علم کے بغیر نہیں ہوسکتا ۔ میری حکومت نے بار بار اپیلیں کی ہیں کہ ان حملہ آوروں کو روکنے یا میری ریاست میں آنے سے منع کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ بلکہ پاکستان ریڈیو اور پاکستانی اخبارات تو ان واقعات کی اطلاعات شائع کر رہے ہیں اور پاکستانی ریڈیو نے یہ کہانی بھی نشر کی ہے کہ کشمیر میں ایک عارضی حکومت بھی قائم کر دی گئی ہے ۔ واضح رہے کہ میری ریاست کے مسلم و غیر مسلم لوگوں نے بالعموم اس ہنگامے میں کوئی حصہ نہیں لیا۔
ان حالات میں جو آج میری ریاست میں پیدا ہو رہے ہیں اور صورت حال کی اس شدت میں میرے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا کہ میں انڈین ڈومینین سے امداد کی استدعا کروں یہ فطرتی بات ہے کہ جب تک میری ریاست ہندوستان کے ساتھ الحاق قبول نہ کرے حکومت ہند مجھے امداد نہیں دے سکتی ۔ لہذا میں نے الحاق کا فیصلہ کر لیا ہے او ر الحاق نامہ اس عریضے کے ساتھ منسلک کر رہا ہوں۔ تاکہ آپ کی حکومت اسے منظور کرے۔ اس طرز عمل کے سوا دوسرا راستہ صرف یہی ہو سکتا ہے کہ میں اپنی ریاست اور اپنی رعایا کو لٹیروں اور ڈاکوئوں کے حوالے کر دوں۔ لیکن اس بنیاد پر نہ کوئی مہذب حکومت زندہ رہ سکتی ہے ، نہ قائم رکھی جا سکتی ہے ۔ اس لئے جب تک میں ریاست کا حکمران ہوں اور اپنے جسم میں جان رکھتا ہوں ملک کے دفاع کے لئے ایسی صورت کبھی پیدا نہ ہونے دوں گا۔ میں آپ کی حکومت کو اس ارادے کی اطلاع بھی دینا چاہتا ہوں کہ میں فوراً ایک عبوری حکومت قائم کر دوں گا او رشیخ عبداللہ سے کہوں گا کہ اس نازک صورتحال میں میرے وزیراعظم کی حیثیت میں حکومت کی ذمہ داری کا بوجھ اٹھائیں۔ اگر میری ریاست کو بچانا مقصود ہے تو اس کے لئے فوری امداد سرینگر پہنچ جانی چاہئے۔ مسٹر مینن(سیکرٹری اور ریاست ہائے ہند) کو صورتحال کی سنگینی کا پورا علم ہے اور اگر کسی مزید تصریح کی ضرورت باقی رہ گئی ہے تو وہ آپ کی خدمت میں تفصیلاً عرض کر دیں گے۔ میں بہت عجلت میں ہوں آپ میرا آداب قبول فرمائیے۔ آپ کا مخلص ہری سنگھ 26 اکتوبر 1947 ء

اطہر مسعود وانی
03335176429
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 770 Articles with 613243 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More