مسجد اقصٰی کی تاریخ

مسجد اقصیٰ کا محل وقوع

مسجد اقصیٰ فلسطین کے دارالحکومت بیت المقدس میں واقع ہے بیت المقدس کو القدس بھی کہا جاتاہے، القدس کو مغربی اصطلاح میں یروشلم کہا جا تا ھے ۔عبرانی میں القدس کو یروشلائم کہا جا تا ھے ۔ اس کا ایک نام ایلیا بھی ھے ۔ اسلام سے قبل اس کا نام ایک رومی بادشاہ نے ایلیا رکھا تھا۔
یہ بحر روم سے ۵۲ کلو میٹر ، بحر احمر سے ۲۵۰ کلو میٹر اور بحر مردار سے ۲۲ کلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔ بحر روم سے اس کی اونچائی ۷۵۰ میٹر اور بحر مردار کی سطح سے اس کی بلندی ۱۱۵۰ میٹر ہے۔ سب سے پہلے یہاں یبوسین آکر آباد ہوئے، ایک روایت ہے کہ اس شہر کو ”سام بن نوح“ نے آکر آباد کیا۔ سب سے پہلے ۱۰۱۳ قبل مسیح میں حضرت داؤد علیہ السلام نے اس کو فتح کیا۔

مسجد اقصیٰ کی تاریخی حیثیت

احادیث مبارکہ کے مطابق مسجد الاقصیٰ دنیا کی دوسری مسجد ھے جس کی بنیاد رکھی گئی ۔بخاری شریف اور مسلم شریف میں حضرت ابوذر سے روایت ہے، جس میں یہ صراحت ہے کہ مسجد بیت الحرام کی تعمیر اور مسجد اقصیٰ کی تعمیر میں چالیس سال کا عرصہ ہے اور ایک روایت میں ہے کہ مسجد بیت الحرام کو حضرت آدم کی پیدائش سے دو ہزار سال پہلے فرشتوں نے تعمیر کیا۔ امام قرطبی فرماتے ہیں کہ ان دونوں روایتوں سے یہ بات ثابت ہوئی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بیت الحرام کے اور حضرت سلیمان علیہ السلام مسجد اقصیٰ کے مجدد ہیں، نہ کہ مؤسس۔ اور مسجد اقصیٰ کا ذکر قرآن کریم کی اس آیت میں ہے، جس میں معراجِ نبوی کا تذکرہ ہے۔

مسجد اقصیٰ کی تعمیر کے ادوار اس بارے میں مختلف روایات ہیں کہ مسجد اقصیٰ کا مؤسّسِ اول کون ہے:پہلا قول یہ ہے کہ سب سے پہلے فرشتوں نے تعمیر کی۔ دوسرا قول یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے سب سے پہلے تعمیرکی۔ تیسرا قول یہ ہے کہ حضرت سام بن نوح سب سے پہلے تعمیر کرنے والے ہیں اور چوتھا قول یہ ہے کہ حضرت داؤد وسلیمان علیہما السلام پہلے تعمیر کرنے والے ہیں۔

علامہ احمد بن عبد الواحد المقدسی فرماتے ہیں کہ ان سب روایتوں میں اس طرح تطبیق ہوسکتی ہے کہ سب سے پہلے فرشتوں نے ، پھر حضرت آدم علیہ السلام نے، پھر حضرت سام بن نوح نے اور پھر حضرت داؤد وسلیمان علیہما السلام نے بالترتیب تعمیر کیا ہو۔(حوالہ سابقہ)۔ لیکن بخاری اور مسلم شریف کی احادیث سے صریحاً معلوم ہوجاتا ھے کہ جس طرح ابو الانبیا حضرت ابراھیم علیہ السلام نے اپنے بڑے بیٹے کے ساتھ مل کر مکہ مکرمہ میں بیت اللہ یعنی مسجد الحرام کی بنیاد رکھی، بعینہٖ حجرت ابراھیم علیہ السلام نے اپنے دوسرے بیٹے حضرت اسحاق علیہ السلام کے ساتھ مل کر چالیس سال کے بعد بیت المقدس یعنی مسجد الاقصی کی بنیاد رکھی۔

مکہ مکرمہ کا قبلہ عالمگیر اور دائمی قبلہ تھا جبکہ بیت المقدس کا قبلہ بنی اسرائیل اور بعد میں امت محمدیہﷺ کے لئے ایک محدود مدت تک قبلہ رھا۔انبیا بنی اسرائیل مسجد الاقصیٰ میں نماز اور دوسری عبادت کرتے تھے ، تاھم احادیث سے معلوم ھوتا ھے کہ انبیا بنی اسرائیل حج کے لئے بیت اللہ یعنی مکہ مکرمہ تشریف لاتے رھے۔گویا یہ دو مراکز روئے زمین پر اللہ جل جلالہ کے گھر رھے ھیں اور مرجع الخلائق رھے ھیں۔جب رسول اللہ ﷺ کو اللہ نے نبوت سے سر فراز فرمایا تو ایک رات ان کو اپنے عجائیبات کی سیر کروانے کے لئے ان کو مسجد الحرام سے مسجد الاقصیٰ لے گئے، جہان سے وہ عالم بالا یعنی عالم غیب کی سیر کے لئے تشریف لے گئے۔

معراج کا واقعہ اسلام کا ایک انتہائی روح پرور واقعہ ھے جس پر انسانیت کو فخر اور تشکر ھے۔معراج کے دوران مسلمانوں پر پانچ وقت کی نمازیں فرض ہوئیں۔مشیت خداوندی سے امت محمدیہ کا قبلہ ابتدا بیت المقدس یعنی مسجد الاقصیٰ مقرر کیا گیا۔غالب گمان یہ ھے کہ معراج کا واقعہ ہجرت مدینہ سے ایک سال پہلے ھوا۔ اس عہد میں دنیا میں اللہ کے دو ھی گھر موجود تھے (1) مسجد الحرام(2) مسجد الاقصیٰ۔ تیسرا مقام کوئی نہیں تھا ۔مدینہ منورہ میں اس دور میں مسجد نبوی بنی ھی نہیں تھی۔قرآن کریم جب عہد قدیم کی اقوام کا تذکرہ کرتا ھے تو دو ہی مساجد کا ذکر کرتا ھے یعنی مسجد الحرام اور مسجد الاقصیٰ۔

چونکہ قوم یہود بنی اسرائیل کی باقیات تھی اور خود کو اس دور میں بھی اللہ کی منتخب کردہ قوم سمجھتی تھی اورقوم یہود خود کو انبیا کرام علیھم السلام کی وارث سمجھتی تھی، لہذا اللہ نے اس کو آخری موقع دیا تاکہ وہ من حیث القوم کفر و بغاوت کو چھوڑ کر اللہ کی مطیع بن جائے ۔لیکن قوم یہود نے جب بنی اسرائیل کی بجائے بنی اسماعیل میں سے پیغمبر آخر الزمان کو مبعوث پایا تو ایک بار پھر اپنی کینہ پروری،قومی تعصب اور جاھلانہ تفاخر کے سبب اللہ کے کلام اور احکام کا انکار کیا اور رسول اللہ ﷺ کو آخری نبی ماننے سے انکار کر دیا۔اس طرح قوم یہود نے آخری موقع بھی کھو دیا اور من حیث القوم دائرہ اسلام سے باھر ھو گئے۔

مدینہ منورہ میں رسول اللہ ﷺ اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے ہمراہ مسلسل ڈیڑھ سال یعنی سترہ اٹھارہ مہینوں تک شمال کی سمت بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نمازیں پڑھتے رھے۔ لیکن خود رسول اللہ ﷺ کی یہ خواہش تھی کہ اللہ مہربانی فرما کر ایک بار پھرمسجد الحرام کے عالمگیر قبلہ کو مسلمانوں کا قبلہ مقرر فرمادے۔ایک دن جب وہ مدینہ کی ایک مسجد میں نماز پڑھا رھے تھے ، تب حضرت جبرائیل آمین وحی لیکر نازل ھوئے تو بیت المقدس کی بجائے بیت اللہ یعنی مسجد الحرام کو ھمیشہ ھمیشہ کے لئے مسلمانوں کا قبلہ مقرر کر دیا ۔جس مسجد میں تحویل قبلہ کو واقعہ ہوا ،اس مسجد کو مسجد القبلتین کا نام دیا گیا جہاں بیک وقت ایک نماز میں دو قبلوں کی طرف رخ کیا گیا ۔تحویل قبلہ کا مقصد واضح تھا کہ اب بنی اسرائیل کی بحیثیت قوم فضیلت ختم کر دی گئی۔شریعت موسوی ،تورات اور بیت المقدس یعنی مسجد الاقصیٰ کا قبلہ منسو خ کر دئیے گئے۔اب قیامت تک واجب الاطاعت اور واجب الاتباع پیغمبر آخر الزمان ھوں گے۔اب شریعت محمدیہ ﷺ آخری شریعت ھوگی اور قیامت تک نافذ ھوگی، اب تورات کے احکامات پر عمل موقوف کر کے تورات کی بجائے قرآن عظیم الشان کو سر چشمہ رشد و ہدایت قرار دیا گیا ۔اب قیامت تک کے لئے تمام بنی نوع انسان کو مرکز و منبع اور قبلہ مکہ مکرمہ میں واقع بیت اللہ ،مسجد الحرام ھوگا۔

چونکہ بنی اسرائیل کی باقیات قوم یہود نے آخری بار پھر اللہ سے بغاوت کردی ۔ لہذا قوم یہود کو تمام فضیلتوں، نعمتوں اور عزتوں سے محروم و معزول کر دیا گیا کیونکہ اللہ کا اٹل قانون ھے کہ اس کی نعمتیں اور رحمتیں باغی اور کافروں کے لئے نہیں ھوتیں۔چونکہ اللہ اور اس کے آخری رسول ﷺ پر امت محمدیہ ﷺ نے ایمان لا کر خود کو اب اللہ کی فضیلتوں، نعمتوں،رحمتوں اور عزتوں کے قابل بنا دیا لہذا اب قیامت تک امت محمدیہ ﷺ ھی مسلمان قوم کی حیثیت سے اللہ کی منتخب اور برگزیدہ قوم ھوگئی۔

المختصر محمد رسول اللہ ﷺ آخری نبی و رسول ،قرآن کریم آخری کتاب، شریعت محمدیہﷺ آخری شریعت، بیت اللہ دائمی اور ابدی قبلہ اور امت محمدیہﷺ آخری اور معزز امت قرار پائی۔چونکہ قوم یہود نے آخری بار بھی ہدایت کو مسترد کر دیا لہذا ان پر قیامت تک کے لئے ضلالت و مسکنیت مسلط کر دی گئی۔امت محمدیہﷺ کو گذشتہ انبیا کرام علیھم السلام کے وارثین قرار دیکر تمام دینی ورثہ کو حقدار و نگران و متولی مقرر کر دیا ۔امت محمدیہ ﷺ کے گذشتہ تمام انبیا کرام علیھم السلام اور ان پر نازل کی گئی کتابوں پر ایمان لانا فرض کر دیا گیا ۔

مسجد اقصیٰ پر آنے والے حوادثات

مسجد اقصیٰ کی تعمیر کے بعد اس پر مختلف قسم کے حوادثات آئے، جس کی وجہ سے دوبارہ اس کی تجدید اور تأسیس کی ضرورت پڑتی رہی،لیکن تاریخ کی کتابوں میں چھ حوادثات کا ذکر ہے، جن میں باہر سے القدس پر حملہ ہوا، مسجد کو دو مرتبہ نقصان پہنچا۔ ان دو واقعوں کا ذکر قرآن پاک کی سورہٴ اسراء کے شروع میں ہے۔
پہلا واقعہ جس میں مسجد کی تعمیر کو نقصان پہنچا، وہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کے ۴۱۵ برس بعد ۵۸۸ ق-م میں پیش آیا، جب بابل کے بادشاہ بخت نصر نے اس پر حملہ کیا اور پورے شہر کو آگ لگادی، جس میں مسجد کی عمارت منہدم ہوگئی، پھر شاہ فارس جناب خورش (سائرس اعظم) المعروف ذوالقرنین کے تعاون سے دوبارہ اس کی تعمیر ہوئی۔ دوسرا واقعہ ۶۳ ق-م میں ہوا، جس میں دوبارہ رومی قابض ہوگئے۔ پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع جسمانی کے چالیس سال بعد ۷۰ء میں طیطوس (ٹائیٹس) نامی رومی شہزادے اور سپہ سالار نے اس شہر کو بالکل تباہ کردیا، اس میں بھی مسجد کو نقصان پہنچا۔ دونوں مرتبہ مسجد الاقصیٰ کی تباہ بنی اسرائیل کے لئے اللہ کا عذاب تھا۔ مسجد اقصیٰ 70 عیسوی سے حضرت عمر کے زمانے تک ویران رہی ۔

مسجد ِاقصیٰ کا اسلامی دور

حضرت عمر کے دور خلافت میں حضرت ابو عبیدہ بن الجراح نے ۱۶ھ میں بیت المقدس کا محاصرہ کیا اور ان کے سامنے اپنا پیغام رکھا، نہ ماننے کی صورت میں قتل اور صلح کی صورت میں جزیہ اور خراج کا حکم سنایا، تو وہ ایک شرط پر صلح کے لئے تیار ہوگئے کہ خلیفہٴ وقت صلح کے لئے خود تشریف لائیں۔ حضرت ابوعبیدہ نے حضرت عمر کو خط لکھ کر ساری صورتحال سے آگاہ کیا تو حضرت عمر، حضرت علی کے مشورہ سے بیت المقدس جانے پر راضی ہوگئے، یوں حضرت عمر کے دور خلافت میں مسجد اقصیٰ اسلام کے سائے میں آگئی۔ حضرت عمر نے مسجد کو صاف کروایا اور وہاں پر مسجد تعمیر کرالی، جس کو مسجد عمر کہتے ہیں۔

اسلامی دور میں مسجد اقصیٰ کی تعمیر وترقی

فتح کے کافی عرصہ بعد اموی خلیفہ عبد الملک بن مروان نے ۶۵ھ میں اس کی تعمیر اور مرمت کا آغاز کیا اور ولید بن عبد الملک نے مصر کے سات سال کا خراج اس کی تعمیر کے لئے وقف کردیا تھا۔ بعد میں آنیوالے زلزلوں میں اس کی عمارت کو نقصان پہنچا تو ۱۶۹ھ میں مہدی کے دور حکومت میں دوبارہ اس کی تعمیر نو کی گئی۔ ۴۰۷ھ کے زلزلے میں قبّہ کی دیوار یں منہدم ہوگئیں تو ۴۱۳ھ میں ظاہر فاطمی نے اس کی دوبارہ تعمیر کی اور افرنگی بادشاہوں نے مسلمان بادشاہوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ۴۹۲ھ میں بیت المقدس پر حملہ کردیا اور حضرت عمر کے برخلاف اس بادشاہ نے ستر ہزار مسلمانوں کا قتل عام کیا اور مسجد کی بے حرمتی کی اور مسجد میں گھوڑوں کے لئے اصطبل بنایا، جس کو ”اصطبل سلیمان“ کہا جاتا تھا اور مال متاع لوٹ لیا تھا۔ ۹۱ سال تک مسجد اقصیٰ ان کے قبضہ میں رہی۔ پھر سلطان نور الدین زنگی کے فتوحات کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے ان کے جانشین سلطان الناصر صلاح الدین یوسف بن ایوب نے ۵۵۳ھ میں دوبارہ قبضہ کرلیا اور مسجد کی صفائی کروا کر اس کی مرمت کی۔

اس کے بعد مسلمان بادشاہ اس کی مرمت اور تزیین میں حصہ لیتے رہے: ۶۵۵ھ میں ملک معظم نے، ۶۶۸ھ میں ظاہر بیبرس نے، ۷۸۶ھ میں منصور قلادوں نے، ۷۶۹ھ میں ملک اشرق نے، ۷۸۹ھ میں ظاہر برثوق اور ظاہرجقمق العلانی نے، ۸۷۷ھ میں الاشرف ابو النصر نے تجدید کی۔

خلافت عثمانیہ کے خلفاء بھی حصہ لیتے رہے، خاص طور پر سلیمان القانونی نے ۹۴۹ھ میں تجدید کی۔ اس کے بعد عثمانی خلفاء نے اس کی طرف خاص توجہ نہ دی، بہرحال پھر بھی ۱۲۳۲ھ، ۱۲۵۶ھ، ۱۲۹۱ھ اور اس کے بعد بھی تزیین وآرائش کا کام جاری رہا اور موجودہ تعمیر ترک سلاطین کے دور میں سلطان عبد الحمید( ۱۸۵۳ء) اور سلطان عبد العزیز (۱۸۷۴ء) کے دور حکومت کی تعمیر کردہ ہے۔

مسجد ِاقصیٰ کی مساحت

مسجد اقصیٰ کا اطلاق اس پورے احاطے پر ہوتا ہے، جس کو حضرت سلیمان علیہ السلام نے تعمیر کیا ہے اور اس پر مسجداقصیٰ کا اطلاق کیا ہے۔ اس اعتبار سے اور ہردورمیں گز اور میٹر کے اختلاف کی وجہ سے مسجد اقصیٰ کے طول وعرض میں مؤرخین کے مختلف اقوال ہیں۔ ”احسن التقاسیم“ اور ”مختصر کتاب البلدان“ میں ہے کہ مسجد کی لمبائی ایک ہزار گز اور چوڑائی ۷۰۰ گز ہے۔

”معجم البلدان“ میں ہے کہ اس کی لمبائی اس کی چوڑائی سے زیادہ ہے۔ ناصر خسرو نے اپنے سفرنامے میں جو ۴۳۸ھ میں ہوا، اس میں لکھا ہے کہ مسجد بیت المقدس کی لمبائی ۷۵۴ گز اور چوڑائی ۴۵۵ گز ہے، یہ خراسان وغیرہ کے گز کے حساب سے ہے۔ابن جبیر نے اپنے سفرنامہ میں جو ۵۷۸ھ- ۵۸۱ھ میں ہوا، اس میں لکھا ہے کہ مسجد اقصیٰ کی ۷۸۰ گز لمبائی اور ۴۵۰ گز چوڑائی ہے اور حدود حرم کے اندرونی ہال کا طول ۶۰۰ گز اور عرض ۷۰۰ گز ہے، نہایت عمدہ اور خوبصورت نقش ونگار کیا ہوا ہے۔ تمام مؤرخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مسجد اقصیٰ روز اول سے جن حدود پر قائم ہوئی، آج بھی انہیں حدود پر قائم ہے۔ کبھی چار دیواری کے اندر پورے احاطے کو مسجد اقصیٰ کہا جاتا ہے اور کبھی صرف اس خاص حصہ کو مسجد اقصیٰ کہا جاتا ہے۔

مسجد اقصیٰ کے متعلق فضائل

مسجد اقصیٰ کے فضائل احادیث میں آئے ہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ:

”رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تین مسجدوں کے علاوہ (کسی دوسری جگہ کے لئے) تم اپنے کجاووں کو نہ باندھو (یعنی سفر نہ کرو): مسجد حرام، مسجد رسول (یعنی مسجد نبوی) اور مسجد اقصیٰ “۔ (بخاری ج:اص:۱۰۸)

اور ایک روایت میں ہے کہ:
” مسجد اقصیٰ میں ایک نماز بیس ہزار نمازوں کے برابر (اجر وثواب رکھتی) ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ:
”جو شخص بیت المقدس میں نماز پڑھے، اللہ تعالیٰ اس کے تمام گناہ معاف فرمائیں گے“۔
مسجد اقصیٰ کی حدود میں دیگر بھی ایسی چیزیں موجود ہیں، جو مسلمانوں کے لئے باعث فخر ہیں، جن میں سے حدود حرم میں واقع قبے، مینارے اور مدرسے ہیں، جن کو مسلمان بادشاہ مختلف ادوار میں تعمیر کرواتے رہے، ان میں سے چندمشہور قبّوں کے نام یہ ہیں: قبة المعراج، قبة السلسلة، قبة النحویة، قبة الصخرة۔ ان سب میں سے زیادہ مقدس قبة الصخرة ہے، جس کا قدرے تفصیل سے ذکر کیا جاتا ہے۔
قبة الصخرة ***
قبہ گنبد کو اور الصخرة چٹان کو کہتے ہیں، یہ قبہ ایک چٹان پر واقع ہے۔ ناصر خسرونے اپنے سفرنامہ میں اس کے اوصاف بیان کئے ہیں کہ یہ قبة الصخرة ایک چبوترہ میں واقع ہے اور صخرہ قبہ کے وسط میں ہے اور قبة الصخرة مثمّن الاضلاع (آٹھ پہلوؤں والا) ہے، آٹھ پہلوؤں میں سے ہر پہلو ۳۳ گز کا ہے اور چاروں طرف دروازے ہیں اور قبہ کا اندرونی احاطہ ۵۳ میٹر ہے، سیڑھیوں سے چڑھ کر اوپر کی طرف پہنچتے ہیں، سیڑھیوں کے اختتام پر دروازے ہیں اور قبہ کا اندرونی حصہ تین حصوں پر مشتمل ہے: پہلے میں چٹان، دوسرے میں ستون اور تیسرا حصہ دروازے کے ساتھ متصل ہے۔
قبہ میں اندر کی طرف ستون کی دوقطاریں ہیں۔ پہلی قطار چٹان کے اردگرد ہے، اس میں چار بڑے مربّعة الاضلاع (چار پہلووٴں والے) اور دو گول چھوٹے ستون ہیں۔ دوسری قطار ذرا فاصلہ پر ہے، اس میں آٹھ بڑے مسدّسة الاضلاع (چھ پہلووٴں والے) اور(۱۶) سولہ چھوٹے ستون ہیں اور ان ستونوں پر سونے کا پانی چڑھا ہوا ہے۔
سب سے پہلے اس کی تعمیر خلیفہ عبد الملک بن مروان نے کی ہے یا تاریخ یعقوبی کے مصنف نے یہ ایک بات نقل کی ہے کہ جب خلیفہ عبد الملک بن مروان کا حضرت عبد اللہ بن زبیر سے اختلاف ہوا تو حجاز پر حضرت عبد اللہ بن زبیر کا کنٹرول تھا ، خلیفہ نے لوگوں کی توجہ حرمین شریفین سے ہٹانے کے لئے مسجد اقصیٰ میں قبة الصخرة تعمیر کروایا، لیکن یہ بات درست نہیں ہے، کیونکہ تاریخ یعقوبی کا مصنف شیعہ ہے اور وہ اموی خلفاء کو پسند نہیں کرتا، دوسری وجہ یہ ہے کہ خلیفہ عبد الملک بن مروان نے اسی دور میں جامع مسجد دمشق اور دیگر مقدس مقامات پر شاندار، خوبصورت عمارتیں تعمیر کروائیں، یہ بھی ان میں سے ہے۔
بہرحال قبة الصخرة اموی دور کا ایک اہم شاہکار تصور کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے مسجد اقصیٰ کی رونق میں اور اضافہ ہوتا ہے۔ قبة الصخرة کی تعمیر مشہور تابعی ”رجاء بن حیوہ“ اور ”یزید بن سلام“ کی نگرانی میں مکمل ہوئی، جب تعمیر مکمل ہوئی تو ان حضرات نے خلیفہٴ وقت کو لکھا کہ ایک لاکھ دینار بچ گئے ہیں، تو خلیفہ نے ان کو ان کی ایمان داری اور دیانت کا انعام دینا چاہا تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم اس اعزاز میں اور نعمت کے شکرانے کے طور پر اپنی بیویوں کے زیور اس پر لگادیں، چہ جائیکہ اس کے بدلے انعام لیں، تو خلیفہ نے حکم دیا کہ اس کے سونے کو پگھلا کر طلا کاری کردی جائے۔ یہ ان کے اخلاص کا نتیجہ تھا۔
الصخرة ***
یہ قبہ جس چٹان پر واقع ہے، وہ چٹان ایک قدرتی پتھر ہے، جس کی لمبائی ۵۶ فٹ اور چوڑائی ۴۲ فٹ ہے اور نیم دائرے کی غیر منظم شکل ہے۔ ناصر خسرو اپنے سفرنامہ میں لکھتے ہیں کہ اس کا کل احاطہ ۱۰۰ گز ہے اور یہ غیر منظم شکل ہے اور نہ ہی مدوّرة اور نہ ہی مربّعة، یہ عام پہاڑوں کی طرح ہے
اس چٹان کے کئی فضائل ہیں ۔ حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ یہ چٹان جنت کی چٹانوں میں سے ہے۔ اکثر مؤرخین کے نزدیک یہ وہی جگہ ہے، جہاں پر اسرافیل علیہ السلام کھڑے ہوکر نفخہٴ اخیرہ پھونکیں گے۔ یہی انبیاء سابقین کا قبلہ رہا ہے اور ۱۶،۱۷ ماہ تک نبی کریم ا بھی اس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے رہے۔ یہودیوں کا قبلہ اول ہونے کی وجہ سے عیسائی وہاں پر کوڑا کرکٹ پھینکتے تھے، جب حضرت عمر نے فتح کیا تو اس کو صاف کروایا۔
قبہ صخریٰ کے بیچھے غار ***
اسی چٹان کے نیچے ایک غار ہے، جو مربعہ شکل میں ہے ۔اس غار کی لمبائی ۱۱ فٹ اور زمین سے اونچائی ۳۰ فٹ ہے۔ غار تک پہنچنے کے لئے قبلہ کی طرف گیارہ سیڑھیاں ہیں اور غار کے دروازے کے پاس ایک عمارت ہے جو دوستونوں پر مشتمل ہے اور سنگ مرمر سے اس کی تزیین کی گئی ہے ۔ عمارت کے اندر دو محراب ہیں۔ محراب کے نیچے دوستون انتہائی خوبصورت اور سنگ مرمر سے بنے ہوئے ہیں۔ دائیں طرف والے محراب کے سامنے ایک چبوترہ ہے، جس کو مقامِ خضر کہا جاتا ہے۔ شمال میں واقع چبوترہ کو ”باب الخلیل“ کہا جاتا ہے۔ قبّہ اور غار کا فرش خوبصورت سنگ مرمر سے بنا ہوا ہے،جس سے اس کی چمک اور خوبصورتی میں اور اضافہ ہوتا ہے۔
مسجد کا اندرونی حصہ ***
مسجد کے اندرونی حصے کے مغربی جانب جامع النساء ہے، جس کو فاطمیین نے تعمیر کروایا اور مغربی جانب جامع عمر ہے، جس کو حضرت عمر نے فتح کے بعدتعمیر کرایا تھا اور اسی عمارت کی طرف ایک بڑا خوبصورت ایوان ہے، جس کو” مقامِ عزیر“ کہا جاتا ہے، اسی ایوان کے شمال کی جانب ایک خوبصورت محراب ہے، جس کو” محرابِ زکریا“ کہا جاتا ہے اور اس کی لمبائی اور چوڑائی ۶۰۶ میٹر ہے۔ مغربی جانب ایک لوھے کا جنگلہ ہے، جس میں ایک محراب” محرابِ معاویہ “کے نام سے ہے۔ قبلہ کی جانب ایک بڑا محراب ہے، جس کو محرابِ داؤد کہتے ہیں اور اس کے ساتھ ایک منبر ہے، یہ منبر سلطان نور الدین زنگی نے مسجد اقصیٰ کے لئے بنوایا تھا، خود انتقال کرگئے ، لیکن ان کے جانشین سلطان صلاح الدین ایوبی نے اس کو فتح کے بعد حلب سے منگوا کر نصب کیا۔
دیوارِ براق ***
یہ دیوار دم کے جنوب مغرب میں ہے، اس کی لمبائی ۴۷ میٹر اور بلندی ۱۷ میٹر ہے۔ روایات میں ہے کہ حضور ﷺ نے معراج والی رات یہاں اپنی سواری باندھی تھی، اسی مناسبت سے اس کو دیوار براق کہتے ہیں۔
مسند احمد کی روایت میں ہے کہ حضرت عمر نے فتح کے بعد حضرت کعب احبار سے پوچھا کہ کہاں نماز پڑھوں؟ انہوں نے فرمایا کہ چٹان کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھیں، تاکہ سارا قدس آپ کے سامنے ہو۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ آپ نے تو یہودیوں سے ملی جلی بات کہی، میں تو وہاں پر نماز پڑھوں گا، جہاں پر رسول اللہ ا نے نماز پڑھی تھی، چنانچہ آپ قبلہ کی جانب گئے اورفاتحین صحابہ کے ساتھ براق باندھنے کی جگہ کے قریب نماز پڑھی، آپ نے وہاں پر مسجد تعمیر کرنے کا حکم دیا۔
مسجد اقصیٰ کے شمال اور مغرب کی جانب چار مینارے تھے، یہ چاروں مینارے چاروں دروازوں کے ساتھ تعمیر کئے گئے تھے، ان کو باب المغاربة کا مینارہ، باب السلسلہ کا مینارہ، باب؟ کا مینارہ اور باب الاسباط کا مینارہ کہا جاتا ہے۔ یہ مینارے ممالیک کے دور حکومت ( ۷۶۹ھ تا ۱۳۶۷ھ) میں تعمیر ہوئے۔ (خطط الشام،ج: ۵ص:۲۵۴)

مسجد اقصیٰ میں تعلیم وتعلّم اور علمی شخصیات

مسلمان بادشاہوں نے مسجد اقصیٰ کی تعمیر کے ساتھ ساتھ اس میں تعلیم و تعلّم کے لئے بھی سہولتیں فراہم کیں: طلباء کے لئے کمرے اور درسگاہیں تعمیر کیں، ان میں سے جامعة المغاربہ، مدرسہ عثمانیہ، مدرسہ کریمیہ، مدرسہ باسطیہ اور مدرسہ طولونیہ وغیرہ تعمیر کرائے۔ مسجد اقصیٰ کی طرف بہت سی علمی اور مذہبی شخصیات نے سفر کئے، جن میں مشہور نام یہ ہیں: حضرت عمر کے دور خلافت میں عبادة بن صامت متوفی۳۴ھ اور شداد بن اوس متوفی۵۸ھ وہیں رہے۔ مشہور مفسر مقاتل بن سلیمان المتوفی سنة ۱۵۰ھ اور فقیہ امام عبد الرحمن بن عمرو اوزاعی متوفی ۱۵۷ھ اور عراق کے مشہور عالم امام سفیان ثوری متوفی ۱۶۱ھ اور مصر کے امام لیث بن سعد متوفی ۱۷۵ھ اور فقہ شافعی کے بانی امام محمد بن ادریس شافعی متوفی ۲۰۳ھ اور حجة الاسلام متوفی ۴۸۸ھ ہیں۔
اس کے بعد عیسائیوں کے قبضہ میں جانے کے بعد یہ سلسلہ موقوف ہوگیا تھا ، لیکن سلطان صلاح الدین ایوبی کی فتح کے بعد دوبارہ اس میں تعلیم اور تعلّم کا سلسلہ جاری ہوگیا اور ہندوستان کے مشہور خطیب مولانا محمد علی جوہر کا مزار مدرسہ خاتونیہ کے باہر واقع ہے۔

Qazi Nadeem Ul Hassan
About the Author: Qazi Nadeem Ul Hassan Read More Articles by Qazi Nadeem Ul Hassan : 148 Articles with 128315 views Civil Engineer .. View More