تعلیمی اداروں میں بچوں کو کیا سیکھایا جارہا ہے

ہم اپنے تعلیمی اداروں میں بچوں کو کیا سکھا رہے ہیں، کیا پڑھا رہے ہیں ؟ ان کی تربیت کیسی ہو رہی ہے ؟ ہم انھیں کامیاب بنانا چاہ رہے ہیں یا ان کے اندر لالچ اور حسد جگا رہے ہیں..
ملک میں ناقص تعلیمی نظام کی بدولت ہجوم بن رھا ھے جو بالکل بے شعور اور بے ادب ہے کیونکہ شعور تربیت سے آتا ھے۔اگر تعلیم نے ہی سب سکھانا ہوتا تو آج مختلف گروہوں کے پیچھے لگ کر اپنی زندگیاں برباد کرنے والے نوجوان اپنے ہنر سے خود کو ایک قابل انسان بنا رہے ہوتے ۔
پاکستان میں آج بھی دوہرا نظام تعلیم موجود ہے. جس میں ایک طرف او لیول اور کیمبرج سسٹم کے اسکولز ہیں، جن سے صرف دولت مند طبقے کے بچے ہی فیضیاب ہوسکتے ہیں، مگر اس میں جو تعلیمی نظام ہے اس میں جو تعلیم دی جارہی ہے اس میں بچوں کے کچے زہنوں کو لبرل کی طرف لیجایا جارہا ہے کہ آئندہ یہ جب بڑے ہوینگے اور اپنی شروعات کی زندگی میں جس میدان پر اپنی کامیابی کے جھنڈے تو گاڑے گے مگر وہاں یہ اپنی لبرل سوچ کو ہی پروان چڑھا آئینگے. اس مثال آجکل مختلف چینلز میں جیسے شبر زیدی،قاسم رضا، باقر رضوی وغیرہ کے مختلف سیمینار سے خطاب میں لبرل سوچ کو پروان چڑھانا ہے.
جبکہ مدارس کی تعلیمی اقدار میں بھی اکثریت شعور دینے اور مذہبی تعلیم کو پروان چڑھانے کی بجائے بیشتر تعلیمی مکتب فرقہ واریت، مسلک ، انتہا پسندیگی،کی تعلیم کو پروان چڑھا رہے ہیں جبکہ ان اداروں کے بچوں کی اکثریت یتیمی اور یا انتہائی غربت کی لکیر سے نیچے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں جنہیں اپنے گھر میں دو وقت کی روٹی و کپڑوں کی پہنچ نہیں ہوتی یہ بچے انتہائی مجبوری میں ان مدرسوں میں مذہبی تعلیم کے لیے آتے ہیں مگر انہیں تعلیمی شعور کے بجائے اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اکثر آپ کراچی و پاکستان کے شہری علاقوں چھٹی والے دن شام کے اوقات میں فیملی پارکس میں جس طرح غول کا غول ان مدرسوں کے طالب علموں کا قبضہ ہوتا ہے اس سے ہی یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ان اداروں میں ان کچے زہن کی نشوونما کس طرح کی جارہی ہے کہ جہاں شعور سے عاری ہے کہ یہ صنف نازک کے لیے تفریح پارک مختض کیے ہوئے ہیں مجال ہے کوئی ادارہ یا کوئی شخض انہیں منع کرے یا مدارس کے کرتا دھرتا ان کو منع کریں .
اگر کسی بھی مذہبی جماعت کا جلسہ ہو یا ریلی انہیں ادارہ بھیج کر اپنی نیکی میں اضافہ ادارہ کا حق سمجھتا ہے .
ملک بھر میں مڈل کلاس طبقہ اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں پڑھاتے تھے جہاں اساتذہ میں علم کا زخیرہ کے ساتھ شعور، کلچر، تہذیب و تمدن، ادب و احترام ،زہنی پختگی ، انسانیت و اسلامی سوچ بھی کار فرماں تھی یہ ہی سوچ لیکر بچہ جب اپنی پریکٹیکل لائف میں آتا تھا تو یہ ہر کسی انسان ، چرند و پرند کے حقوق سے بھی واقفیت رکھتا تھا. بلکہ ان پر عمل بھی کرتا تھا مگر جب سے ان سرکاری اسکولوں کو ایک سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت تباہ و برباد کردیا ان کی عمارتیں انتہائی خستہ حالی کا شکار ہوگیں اور متعدد اسکولوں میں طلبہ کے بیٹھنے کیلئے کرسیاں تک موجود نہیں ہوتیں، جبکہ بہت سے سر کاری اسکول ایسے بھی ہیں جو آج تک اساتذہ سے محروم چلے آرہے ہیں۔ سہولیات کے فقدان اور ناقص معیار تعلیم کے باعث غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے ذہین طلباء بھی تعلیمی میدان میں بہت پیچھے رہ گئے۔ امیر اور غریب کے تعلیمی معیار میں اسی فرق کی وجہ سے غریب طبقے سے تعلق رکھنے والا طالبعلم آگے بڑھنے سے محروم رہ گیا اور نہ ہی وہ اب سرکاری تعلیمی ادارہ رہے اور نہ ہی وہ مڈل کلاس عوام کی اولادیں جو ان سرکاری اسکولوں اور کالجوں سے فارغ ہوکر یونیورسٹیوں یا پروفیشنلز اداروں وغیرہ میں جاتیں تھیں تو تعلیمی شعور کے علاوہ ہر چیز کی آگہی لیکر جاتیں تھیں جس سے مُلک میں ترقی کی طرف گامزن تھا اور ہر میدان میں میریٹ اور انصاف کے معیار پر اپنی بلندی کی طرف جارہے تھے نہ کوئی تعصب نہ کوئی اجارہ داری کا راگ الاپ رہے تھے مگر 1965 کے بعد جس طرح سے ایک سوچی ساجی اسکیم کے تحت شروعات ہوئیں اور 1971 اور 1977 میں تعلیمی سسٹم کو کاری ضرب لگا کے لبرل اور جہادی مدارس کو ترجیہات میں شامل کیا اپنے اپنے مفادات اور انٹرنیشنل کی خواہشات پر تو ہمارا یہ سرکاری تعلیمی ادارہ کو پہلے کافی ضرب کے تحت یہ ادارے گاؤں میں اصطبل بنے اور شہروں میں طلباء تنظیموں کے زیر اثر ہوئے تو پھر میرٹ کا فقدان چاہے داخلوں میں یا نئے اساتذہ کی بھرتیوں میں اور ان ہی اداروں سے تعلیمی شعور کا جنازہ اُٹھا تو اس کاُنتیجہ ہمیں آج جہالت ، پسماندگی اور غربت کا یہ مُلک دیکھ رہا ہے مگر اب بھی اکثریت کی یہ ہی ہٹ دھرمی ہے کہ ہم صیح ہیں مگر ایک دن ضرور یہ مانا پڑیگا کہ ہم نے جو سرکاری اسکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں کا حال کیا ہے اس ہی کی وجہ نے آج ہم اور ہماری ساری قوم ایک مذاق بنی ہوئی ہے.

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 233 Articles with 83012 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.