آسمان اور زمین کی برکتوں سے مراد ہر قسم کی برکات ہیں

مذہب اسلام میں جو شخص داخل ہوتا ہے ، اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کی چادر سے اسے ڈھانپ لیتا ہے ، جو اسے ہر طرح کی پریشانی اور مصائب و مشکلات سے محفوظ رکھتا ہے۔لیکن جب وہ گناہ کرتا ہے تو اس چادر میں ایک سوراخ ہوجاتا ہے۔ اگر وہ توبہ نہیں کرتا تو وہ سوراخ باقی رہتا ہے اور پھر جتنا گناہ کرتا ہے اسی اعتبار سے سوراخ میں زیادتی ہوتی رہتی ہے ۔ یہاں تک کہ رحمتوں کی چادر چھلنی ہوجاتی ہے اور ان ہی سوارخوں کے ذریعے انسان پر مختلف قسم کی پریشانیاں نازل ہوتی ہیں ۔ کبھی بیماری ، کبھی گھریلو اختلاف ، کبھی تجارت اورکاروبار میں رکاوٹیں اور کبھی اولاد اور رشتے داروں کا دشمن بن جانا۔اس طرح کے بے شمار مسائل اس کے لیے کھڑے ہوجاتے ۔ وہ حیران و پریشان رہتا ہے ، مگر بہت کم لوگوں کا اس طرف ذہن جاتا ہے کہ یہ سارے مسائل اور پریشانیاں انھی کے اپنے عمل اور کردار کا نتیجہ ہیں۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے برکت کے نزول کا ضابطہ اس طرح بیان کیا ہے :

وَلَوْ أَنَّ أَہْلَ الْقُرٰٓی اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْْہِم بَرَکَاتٍ مِّنَ السَّمَآئِ وَالأَرْضِ ﴿الأعراف : ۹۶﴾

’ اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے ۔‘

آسمان اور زمین کی برکتوں سے مراد ہر قسم کی برکات ہیں ، صحت میں ، کاموں میں ، وقت میں ، مال میں ، کھانے پینے اوراستعمال و ضرورت کی تمام چیزوں میں برکت و رحمت نازل کی جاتی ہے ، جس سے مقصود ومطلوب آسان ہوجاتا ہے اور تادیر اس کے استعمال کی توفیق دی جاتی ہے ۔ مثلاً ایک آدمی کی صحت تقریباً دس سال سے بالکل ٹھیک ہے ، کبھی سر میں درد نہیں ہوا۔ اُسے یاد بھی نہیں ہے کہ وہ ڈاکٹر کے پاس کب گیا تھا ؟ یہ صحت کی برکت ہے کہ ڈاکٹر کے پاس جانے آنے کی کلفتوں اور الجھنوں سے بچ گیا۔ وہ مستقل اپنا کام کرتا رہا ۔ وقت بھی محفوظ رہا اور پیسہ بھی۔ اسی طرح تھوڑے وقت میں امید سے زیادہ کام کرنا بھی ایک قسم کی برکت ہے۔ جس کام کے لیے آدمی کہیں جاتا ہے یا جس کام میں مصروف رہتا ہے ، اگر وہ کام صحیح طرح ہوگیا ، کوئی رکاوٹ نہ آئی تو یہ بھی برکت ہے اور اگر کام میں رکاوٹ پیدا ہوجائے تو سمجھنا چاہیے کہ اس کے اعمال بد کی نحوست کے سبب اللہ کی طرف سے بے برکتی کا انتظام کیا گیا۔ بہت سے لوگ وقت میں بے برکتی کی شکایت کرتے ہیں کہ صبح سے شام ہوجاتی ہے ، وقت اس قدر تیزی سے گزر جاتا ہے کہ دن کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ کوئی کام مکمل نہیں ہوپاتا ہے کہ دوسرا دن بل کہ دوسرا ہفتہ اور دوسرامہینہ شروع ہوجاتا ہے۔ سالہا سال تیزی سے گزر رہے ہیں۔ کوئی قابل لحاظ کام انجام نہیں دیا جاسکتا۔ بلا شبہ یہ بے برکتی ہے ، جو انسان کے اعمال بد کا نتیجہ ہے ؛ لیکن بہت سے بزرگ ایسے بھی گزرے ہیں جنہوں نے بہت کم وقت میں بڑا کارنامہ انجام دیا۔ انھوں نے ہزاروں کتابیں تصنیف کیں، لاکھوں شاگردپیدا کیے ، تصوف وسلوک کی راہ میں بھی خلفا اور مریدین کی ایک بڑی تعداد تیار کی، ان کی طویل خدمات کو اگر ان کی عمر پر آج تقسیم کیا جائے تو عقل حیران ہوجاتی ہے اور سوچنا پڑتا ہے کہ آخر اتنے کم وقت میں اتنا عظیم کارنامہ کیسے انجام دیا گیا۔بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے ان کے نیک اعمال کی برکت کی وجہ سے ان کے وقت میں برکت دی تھی کہ کم وقت میں توقع سے زیادہ وہ کام کرگئے، جو آج لوگ صدیوں میں نہیں کرسکتے۔ ایسے خداترس افراد آج بھی موجود ہیں اور ان کے اخلاص و للہیت کے مطابق ان کے اوقات میں برکت کا سلسلہ جاری ہے۔بل کہ ایک عام مسلمان بھی جب اللہ سے ڈرتا ہے اور اطاعت الٰہی کو اپنا شعار بناتا ہے تو اس کی نیکی اور تقویٰ کے اعتبار سے اس کے وقت میں برکت دے دی جاتی ہے ، جس سے وہ بہت سے ایسے کام کرلیتے ہیں ، جو گنہگار نہیں کرسکتے ۔


بہت سے کج فہم لوگوں کو برکت کا مفہوم سمجھ میں نہیں آتا۔ بعض لوگ مذاق بھی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میرے پاس دس ہزار روپے ہیں ، کیا نیک کام کرنے سے وہ بارہ ہزار بن جائیں گے۔ یاد رہے کہ برکت سے مراد روپے کی مقدار میں اضافہ نہیں ہے ، بل کہ روپے کا صحیح جگہ استعمال ہونا ، کم پیسوں میں کام کا بن جانا ، تھوڑی آمدنی میں ضرورت پوری ہوجانا یہ سب مال کی برکت ہے ، جو اللہ تعالیٰ اس کی نیکی کی وجہ سے عطا کرتا ہے ۔ بہت سے دوست و احباب کی آمدنی ایک لاکھ سے زائد ہر مہینے ہوتی ہے ، مگر کچھ پیسے بیماریوں اور اسپتالوںمیں، کچھ ناجائز مقدمات کی پیروی میں، کچھ عیش و عشرت میں اور کچھ گناہ کے کاموں میں خرچ ہوجاتے ہیں۔ مہینا پورا ہونے سے پہلے ہی ان کے سارے پیسے ختم ہوجاتے ہیں اور قرض کی نوبت آجاتی ہے ۔ سماج میں کوئی عزت ہے اور نہ قلبی و ذہنی سکون انھیں حاصل ہے۔ یہ اللہ سے بغاوت کا نتیجہ ہے ، جس کے سبب مال سے برکت اٹھالی گئی۔ اس کے برعکس مدارس اور دینی کاموں سے وابستہ افراد کی زندگیوں کا مطالعہ کیا جائے تو ہر ایک کو حیرت ہوگی کہ معمولی تنخواہوں میں اپنے پورے گھر والوں کے ساتھ سب کے حقوق ادا کرتے ہوے وہ باعزت اور باوقار زندگی گزارتے ہیں ، جس پر بڑی تنخواہ پانے والوں کو رشک آنے لگتا ہے۔

(منقول مفتی تنظیم عالم قاسمی)

Syed Musarrat Ali
About the Author: Syed Musarrat Ali Read More Articles by Syed Musarrat Ali: 126 Articles with 112561 views Basically Aeronautical Engineer and retired after 41 years as Senior Instructor Management Training PIA. Presently Consulting Editor Pakistan Times Ma.. View More