امام اعظم اپنا طریق اجتہاد و استنباط یوں بیان کرتے ہیں
’’میں سب سے پہلے کسی مسئلے کا حکم کتاب اﷲ سے اخذ کرتا ہوں، پھر اگر وہاں وہ مسئلہ نہ پاؤں تو سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لے لیتا ہوں، جب وہاں بھی نہ پاؤں تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اقوال میں سے کسی کا قول مان لیتا ہوں اور ان کا قول چھوڑ کر دوسروں کا قول نہیں لیتا اور جب معاملہ ابراہیم شعبی، ابن سیرین اور عطاء پر آجائے تو یہ لوگ بھی مجتہد تھے اور اس وقت میں بھی ان لوگوں کی طرح اجتہاد کرتا ہوں۔‘‘
علمِ فضیلت
حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ سے اتنے لوگوں نے علمِ فیض حاصل کیا ہے جس کی تعداد علماء کرام نا ممکن قرار دیتے ہیں مطلب کسی سے اس قدر علم و فیض نہیں پہنچا جتنا حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ سے پہنچا علماء فرماتے ہیں کہ کسی امام کے اتنے شاگرد اور اساتذہ نہیں ہیں جتنا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے تھے-
امام اعظم ابو حنیفہ کے شاگردوں کی تعداد تقریباً آٹھ سو لکھی ہے-
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے اساتذہ سے مختلف علوم یعنی شریعت و طریقت حاصل کیے یعنی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ طریقت میں امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ کے خلیفہ تھے اور آپ نے ان سے دوسال میں علوم طئے کیے-
کشف و مشاہدہ
اولیاء کرام کا ایک روحانی وصف کشف و مشاہدہ ہے اللہ پاک نے اپنی نگاہِ شفقت سے امام حضرت اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ نے کو یہ وصف عطا فرمایا تھا مطلب آپ جس کے لیے بات ارشاد فرما دیتے وہ ہو کر ہی رہتی آپ کی روحانیت کا یہ عالم تھا کہ آپ باطنی آنکھوں وہ دیکھتے تھے جو ظاہری آنکھوں سے نظر نہیں آتا-
وصال
امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وصال ۲/شعبان المعظم۱۵۰ھ میں ہوا-
حوالہ
(امام الائمہ أبو حنیفہ،مصنف:حضرت مفتی محمد رفیق الاسلام رضوی مصباحی دینا جپوری/سن اشاعت:ربیع الاول ۱۴۳۷ھ جنوری۲۰۱۶ء)


" />

امام الائمہ امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سوانح حیات کا مختصرا جائزہ

امام الائمہ امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سوانح حیات کا مختصرا جائزہ
اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کو دینِ اسلام کی سر بلندی کے لیے دنیا میں مبعوث فرمایا اور اسکے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس مشن کو آگے بڑھایا اور اس مبارک اور عظیم جماعت کے بعد اس مشن اعظم کو تابعین نے اپنی کاوشوں اور اپنی علمی جہد کے ذریعے سے دنیا کے ہر کونے کونے تک پہنچایا پھر اسی مقدس اور با برکت جماعت پاک میں سے ایک نام امام الائمہ کاشف الغمہ،سراج ہذہ الامۃ،امام الاعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رضی اللہ عنہ بھی ہیں جنہوں نے اپنے علمی فیضان سے مسلماناں اہلسنت والجماعت کے ایمان و عقیدہ کو مضبوط رکھنے کے لیے بہت سی کاوشیں سر انجام دی اور دینِ اسلام میں ہمیشہ کوشہ رہے-
ولادت با سعادت
امام الائمہ،سراج الامہ،کاشف الغمہ،امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رضی اللہ عنہ ۸۰ھ میں کوفہ میں پیدا ہوئے اور نسب نعمان بن ثابت بن زُوطیٰ بن ماہ ہے بعض آئمہ کرام نے زُوطیٰ کی جگہ نعمان رکھا ہے اور آپ کا قد مبارک درمیانہ اور چہرہ خوبصورت تھا اور آپ عالم زاہد عابد خوش صورت و سیرت اور شیریں یعنی میٹھی زبان مبارک والے تھے-
علمِ حدیث کی تحصیل کا پس منظر
آپ نے حدیث کی تحصیل کا آغاز کوفہ سے شروع کیا اور وہاں ۹۳ مشائخ سے احادیث اخذ کی اور ان محدثین کرام میں تعداد تابعین کی تھی آپ نے کوفہ کے علاوہ بصرہ میں بھی محدثین سے حدیثیں حاصل کی یہ محدث ہونے کے ساتھ ساتھ بہت بڑے عظیم مجتہد بھی تھے اور آپ نے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد تجارت کے کام میں مصروف ہوگئے اور ایک کامیاب تاجر سے مشہور ہوگئے لیکن پھر آپ کے دل میں علمِ دین حاصل کرنے کا شوق پیدا ہوا تو آپ نے امام حماد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حلقۂ درس میں شریک ہوئے اور آپ نے حضرت امام حماد کی گفتگو کو یاد کر لیا کرتے تھے آپ کو ان کے تمام اسباق حفظ ہو جایا کرتے تھے آپ رضی اللہ تعالیٰ نے اس قدر علم میں مہارت لے گئے پھر علم سے سیراب ہونے کا سلسلہ سالوں تک جاری رہا آپ محدث کے ساتھ فقہ میں بھی مہارت رکھتے تھے-
امام شافعی فرماتے ہیں
”جو شخص فقہ حاصل کرنا چاہتا ہے وہ امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کو لازم پکڑے کیونکہ تمام لوگ فقہ میں امام ابو حنیفہ کے خوشہ چین (محتاج) ہیں۔“
حوالہ
(مناقب الامام ابی حنیفہ:ص:۲۷)
آپ کے چند شاگرد امام اوزاعی،امام زہری،امام عمرو بن دینار،امام یوسف اور حضرت سیدنا امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ آپ کے خاص شاگرد تھے -
فضائل و مناقب
حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ کی یہ عادتِ کریمہ تھی کہ آپ بغیر وضو حدیث روایت نہیں کرتے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ متقی پرہیز گار اور مستجاب الدعوات تھے یعنی جس کی دعائیں دوسروں کے حق میں قبول ہوتی ہیں آپ سے زیادہ متقی کسی کو نہیں دیکھا یہاں تک کہ آپ کے سامنے مال پیش کیا گیا مگر آپ نے اپنی آنکھوں سے اس مال کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھا آپ نے اللہ پاک کی رضا کے خاطر مصائب برداشت کیے اور ثابت قدمی کا مظاہرہ پیش کیا کبھی زبان مبارک سے ناشکری نہیں کیا بلکہ توکل اور صبر و شکر ادا کیا-
آئمہ حدیث آپ کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں
"کہ ایک طرف آپ علم کے سمندر ہیں اور دوسری طرف زہد و تقویٰ اور طہارت کے پہاڑ ہیں"
امام اعظم اپنا طریق اجتہاد و استنباط یوں بیان کرتے ہیں
’’میں سب سے پہلے کسی مسئلے کا حکم کتاب اﷲ سے اخذ کرتا ہوں، پھر اگر وہاں وہ مسئلہ نہ پاؤں تو سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لے لیتا ہوں، جب وہاں بھی نہ پاؤں تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اقوال میں سے کسی کا قول مان لیتا ہوں اور ان کا قول چھوڑ کر دوسروں کا قول نہیں لیتا اور جب معاملہ ابراہیم شعبی، ابن سیرین اور عطاء پر آجائے تو یہ لوگ بھی مجتہد تھے اور اس وقت میں بھی ان لوگوں کی طرح اجتہاد کرتا ہوں۔‘‘
علمِ فضیلت
حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ سے اتنے لوگوں نے علمِ فیض حاصل کیا ہے جس کی تعداد علماء کرام نا ممکن قرار دیتے ہیں مطلب کسی سے اس قدر علم و فیض نہیں پہنچا جتنا حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ سے پہنچا علماء فرماتے ہیں کہ کسی امام کے اتنے شاگرد اور اساتذہ نہیں ہیں جتنا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے تھے-
امام اعظم ابو حنیفہ کے شاگردوں کی تعداد تقریباً آٹھ سو لکھی ہے-
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے اساتذہ سے مختلف علوم یعنی شریعت و طریقت حاصل کیے یعنی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ طریقت میں امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ کے خلیفہ تھے اور آپ نے ان سے دوسال میں علوم طئے کیے-
کشف و مشاہدہ
اولیاء کرام کا ایک روحانی وصف کشف و مشاہدہ ہے اللہ پاک نے اپنی نگاہِ شفقت سے امام حضرت اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ نے کو یہ وصف عطا فرمایا تھا مطلب آپ جس کے لیے بات ارشاد فرما دیتے وہ ہو کر ہی رہتی آپ کی روحانیت کا یہ عالم تھا کہ آپ باطنی آنکھوں وہ دیکھتے تھے جو ظاہری آنکھوں سے نظر نہیں آتا-
وصال
امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وصال ۲/شعبان المعظم۱۵۰ھ میں ہوا-
حوالہ
(امام الائمہ أبو حنیفہ،مصنف:حضرت مفتی محمد رفیق الاسلام رضوی مصباحی دینا جپوری/سن اشاعت:ربیع الاول ۱۴۳۷ھ جنوری۲۰۱۶ء)


امام الائمہ امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سوانح حیات کا مختصرا جائزہ
اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کو دینِ اسلام کی سر بلندی کے لیے دنیا میں مبعوث فرمایا اور اسکے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس مشن کو آگے بڑھایا اور اس مبارک اور عظیم جماعت کے بعد اس مشن اعظم کو تابعین نے اپنی کاوشوں اور اپنی علمی جہد کے ذریعے سے دنیا کے ہر کونے کونے تک پہنچایا پھر اسی مقدس اور با برکت جماعت پاک میں سے ایک نام امام الائمہ کاشف الغمہ،سراج ہذہ الامۃ،امام الاعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رضی اللہ عنہ بھی ہیں جنہوں نے اپنے علمی فیضان سے مسلماناں اہلسنت والجماعت کے ایمان و عقیدہ کو مضبوط رکھنے کے لیے بہت سی کاوشیں سر انجام دی اور دینِ اسلام میں ہمیشہ کوشہ رہے-
*ولادت با سعادت*
امام الائمہ،سراج الامہ،کاشف الغمہ،امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رضی اللہ عنہ ۸۰ھ میں کوفہ میں پیدا ہوئے اور نسب نعمان بن ثابت بن زُوطیٰ بن ماہ ہے بعض آئمہ کرام نے زُوطیٰ کی جگہ نعمان رکھا ہے اور آپ کا قد مبارک درمیانہ اور چہرہ خوبصورت تھا اور آپ عالم زاہد عابد خوش صورت و سیرت اور شیریں یعنی میٹھی زبان مبارک والے تھے-
*علمِ حدیث کی تحصیل کا پس منظر*
آپ نے حدیث کی تحصیل کا آغاز کوفہ سے شروع کیا اور وہاں ۹۳ مشائخ سے احادیث اخذ کی اور ان محدثین کرام میں تعداد تابعین کی تھی آپ نے کوفہ کے علاوہ بصرہ میں بھی محدثین سے حدیثیں حاصل کی یہ محدث ہونے کے ساتھ ساتھ بہت بڑے عظیم مجتہد بھی تھے اور آپ نے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد تجارت کے کام میں مصروف ہوگئے اور ایک کامیاب تاجر سے مشہور ہوگئے لیکن پھر آپ کے دل میں علمِ دین حاصل کرنے کا شوق پیدا ہوا تو آپ نے امام حماد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حلقۂ درس میں شریک ہوئے اور آپ نے حضرت امام حماد کی گفتگو کو یاد کر لیا کرتے تھے آپ کو ان کے تمام اسباق حفظ ہو جایا کرتے تھے آپ رضی اللہ تعالیٰ نے اس قدر علم میں مہارت لے گئے پھر علم سے سیراب ہونے کا سلسلہ سالوں تک جاری رہا آپ محدث کے ساتھ فقہ میں بھی مہارت رکھتے تھے-
*امام شافعی فرماتے ہیں*
”جو شخص فقہ حاصل کرنا چاہتا ہے وہ امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کو لازم پکڑے کیونکہ تمام لوگ فقہ میں امام ابو حنیفہ کے خوشہ چین (محتاج) ہیں۔“
*حوالہ*
(مناقب الامام ابی حنیفہ:ص:۲۷)
آپ کے چند شاگرد امام اوزاعی،امام زہری،امام عمرو بن دینار،امام یوسف اور حضرت سیدنا امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ آپ کے خاص شاگرد تھے -
*فضائل و مناقب*
حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ کی یہ عادتِ کریمہ تھی کہ آپ بغیر وضو حدیث روایت نہیں کرتے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ متقی پرہیز گار اور مستجاب الدعوات تھے یعنی جس کی دعائیں دوسروں کے حق میں قبول ہوتی ہیں آپ سے زیادہ متقی کسی کو نہیں دیکھا یہاں تک کہ آپ کے سامنے مال پیش کیا گیا مگر آپ نے اپنی آنکھوں سے اس مال کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھا آپ نے اللہ پاک کی رضا کے خاطر مصائب برداشت کیے اور ثابت قدمی کا مظاہرہ پیش کیا کبھی زبان مبارک سے ناشکری نہیں کیا بلکہ توکل اور صبر و شکر ادا کیا-
*آئمہ حدیث آپ کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں*
"کہ ایک طرف آپ علم کے سمندر ہیں اور دوسری طرف زہد و تقویٰ اور طہارت کے پہاڑ ہیں"
*امام اعظم اپنا طریق اجتہاد و استنباط یوں بیان کرتے ہیں*
’’میں سب سے پہلے کسی مسئلے کا حکم کتاب اﷲ سے اخذ کرتا ہوں، پھر اگر وہاں وہ مسئلہ نہ پاؤں تو سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لے لیتا ہوں، جب وہاں بھی نہ پاؤں تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اقوال میں سے کسی کا قول مان لیتا ہوں اور ان کا قول چھوڑ کر دوسروں کا قول نہیں لیتا اور جب معاملہ ابراہیم شعبی، ابن سیرین اور عطاء پر آجائے تو یہ لوگ بھی مجتہد تھے اور اس وقت میں بھی ان لوگوں کی طرح اجتہاد کرتا ہوں۔‘‘
*علمِ فضیلت*
حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ سے اتنے لوگوں نے علمِ فیض حاصل کیا ہے جس کی تعداد علماء کرام نا ممکن قرار دیتے ہیں مطلب کسی سے اس قدر علم و فیض نہیں پہنچا جتنا حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ سے پہنچا علماء فرماتے ہیں کہ کسی امام کے اتنے شاگرد اور اساتذہ نہیں ہیں جتنا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے تھے-
امام اعظم ابو حنیفہ کے شاگردوں کی تعداد تقریباً آٹھ سو لکھی ہے-
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے اساتذہ سے مختلف علوم یعنی شریعت و طریقت حاصل کیے یعنی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ طریقت میں امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ کے خلیفہ تھے اور آپ نے ان سے دوسال میں علوم طئے کیے-

*کشف و مشاہدہ*
اولیاء کرام کا ایک روحانی وصف کشف و مشاہدہ ہے اللہ پاک نے اپنی نگاہِ شفقت سے امام حضرت اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ نے کو یہ وصف عطا فرمایا تھا مطلب آپ جس کے لیے بات ارشاد فرما دیتے وہ ہو کر ہی رہتی آپ کی روحانیت کا یہ عالم تھا کہ آپ باطنی آنکھوں وہ دیکھتے تھے جو ظاہری آنکھوں سے نظر نہیں آتا-

*وصال*
امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وصال ۲/شعبان المعظم۱۵۰ھ میں ہوا-
*حوالہ*
(امام الائمہ أبو حنیفہ،مصنف:حضرت مفتی محمد رفیق الاسلام رضوی مصباحی دینا جپوری/سن اشاعت:ربیع الاول ۱۴۳۷ھ جنوری۲۰۱۶ء)

Syeda Rahat moin
About the Author: Syeda Rahat moin Read More Articles by Syeda Rahat moin: 4 Articles with 1445 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.