حقیقی دوست

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب
حضرت یحی بن معاذ رحمتہ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں کہ " آپ کا حقیقی دوست وہ ہے
جو آپ کو گناہوں سے ڈرائے "
اب ہمیں سب سے پہلے حقیقی دوست کی پہچان کرنا ہوگی کیوں کہ گناہوں سے ڈرانے والا اور نیکیوں کے راستے پر چلانے والا ہی اگر حقیقی دوست ہے تو اس کی تاریخ میں کیا مثال ملتی ہے اور فی زمانہ ہم ایسے دوست کی پہچان کس طرح کریں گے اس کے لیئے سب سے اہم چیز ہے مطالعہ یعنی مختلف انبیاء کرام علیہم السلام صحابہ کرام علیہم الرضوان تابعین اولیاء کرام اور بزرگان دین کو پڑھیں آپ کو حقیقی دوست بھی مل جائیں گے اور ان کی پہچان بھی ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے دوست کے بارے میں کئی اقوال ہمیں پڑھنے کو ملتے ہیں میں یہاں کچھ اقوال تحریر کرنے کی سعادت حاصل کروں گا ایک جگہ آپ کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں کہ " دنیا کا سب سے غریب انسان وہ ہے جس کا کوئی دوست نہیں ہے " اور ایک جگہ فرماتے ہیں کہ " جو دوست چھوٹی چھوٹی باتوں پر ناراض ہوکر بات چیت ترک کردے حقیقت میں وہ دوست تھا ہی نہیں " حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں کہ " دوست کے دشمن کو دوست نہ بنائو اس طرح تم اپنے ہی دوست کے دشمن بن جائو گے"
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم سے جب پوچھا گیاکہ ہمارے لیئے کون سے ہمنشیں یعنی دوست بہتر ہیں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے اچھے مخلص اور نیک دوست کی تین نشانیاں بتائی ہیں ۔
پہلی نشانی جو آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے بتائی وہ یہ تھی کہ " جسے دیکھکر تمہیں اللہ کی یاد آجائے "
دوسری نشانی یہ بتائی کہ " جس کی گفتگو تمہارے علم میں اصافے کا سبب بنے " اور تیسری نشانی میرے سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے بتائی کہ " جس کے اعمال تمہیں آخرت کی یاد دلائیں " ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی بتائی ہوئی ان تین نشانیوں میں ایک اچھے مخلص اور حقیقی دوست کی پہچان موجود ہے دوستی کا رشتہ ایک نازک رشتہ بھی ہوتا ہے اور ایک پائدار بھی بس اسے نبھانے والے سچے اور مخلص دل کے مالک ہونے چاہیئے مجھے ایک واقعہ اس وقت یاد آرہا ہے جس میں ایک حقیقی دوست کی پہچان بتائی گئی ہے
میں آپ کو ایک واقعہ بتاتا ہوں ایک شخص کا ایک بیٹا تھا روز رات کو دیر سے آتا اور جب بھی اس سے باپ پوچھتا بیٹا کہاں تھے.؟ تو جھٹ سے کہتا کہ دوست کے ساتھ تھا. ایک دن بیٹا جب بہت زیادہ دیر سے آیا تو باپ نے کہا کہ بیٹا آج ہم آپ کے دوست سے ملنا چاہتے ہیں. بیٹے نے فوراً کہا اباجی اس وقت؟؟ ابھی رات کے دوبجے ہیں کل چلتے ہیں. نہیں ابھی چلتے ہیں. آپ کے دوست کا تو پتہ چلے.
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں باپ نے ابھی پہ زور دیتے ہوئے کہا. جب اس کے گھر پہنچے اور دروازہ کھٹکھٹایا تو کافی دیر تک کوئی جواب نہ آیا. بالآخر بالکونی سے سر نکال کہ ایک بزرگ نے جو اس کے دوست کا باپ تھا آنے کی وجہ دریافت کی تو لڑکے نے کہا کہ اپنے دوست سے ملنے آیا ہے. اس وقت, مگروہ تو سو رہا ہے بزرگ نے جواب دیا. چاچا آپ اس کو جگاؤ مجھے اس سے ضروری کام ہے, مگربہت دیرگذرنے کے بعد بھی یہی جواب آیا کہ صبح کو آجانا. ابھی سونے دو ,اب تو عزت کا معاملہ تھا تو اس نے ایمرجنسی اور اہم کام کا حوالہ دیا مگرآنا تو درکنار دیکھنا اور جھانکنا بھی گوارا نہ کیا باپ نے بیٹے سے کہا کہ چلو اب میرے ایک دوست کے پاس چلتے ہیں. جس کا نام خیر دین ہے. سفر لمبا تھا پہچتے پہنچتے اذانوں سے ذرا پہلے وہ اس گاؤں پہنچے اور خیردین کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا, مگر جواب نہ آیا بالاخر اس نے زور سے اپنا نام بتایا کہ.میں اللہ ڈنو,مگر پھر بھی دروازہ. ساکت اور کوئی حرکت نہیں.
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اب تو بیٹے کے.چہرے پہ بھی فاتحانہ مسکراہٹ آگئی.لیکن اسی لمحے لاٹھی کی ٹھک ٹھک. سنائی دی. اور دروازے کی زنجیر اور کنڈی کھولنے کی. آواز ہوئی اور ایک بوڑھا.شخص برآمد ہوا جس نے لپٹ کہ اپنے دوست کو گلے لگایا اور بولا کہ میرے دوست بہت معذرت مجھے لیٹ اس لیے ہوئی کہ جب تم نے ستائیس سال بعد میرا دروازہ رات گئے بجایا لیکن تمہاری کھٹ کھٹ کے انداز سے میں تمہیں پہچان گیا تو مجھے.لگا کہ تم کسی مصیبت میں.ہو اس لیے جو پیسے جمع تھے وہ نکالے کہ شاید پیسوں کی ضرورت ہے پھر بیٹےکو اٹھایا کہ شاید بندے کی ضرورت ہے پھر سوچا شاید فیصلے کےلیے پگ کی ضرورت ہو تو اسے بھی لایا ہوں. اب سب کچھ سامنے ہے پہلے بتاؤ کہ کس چیز.کی ضرورت ہے؟؟
یہ. سن کہ بیٹے کی آنکھوں. سے آنسو آگئے کہ ابا جی کتنا سمجھاتے تھے کہ بیٹا دوست وہ نہیں. ہوتا جو رت جگوں میں. ساتھ ہو. بلکہ دوست وہ ھوتا ھے جو ایک آواز پہ ہی حق نبھانے آجائے. ،،
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں مشہور و معروف شاعر جناب احمد فراز نے جبھی تو کہا تھا
تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فراز
ہوتا نہیں ہے دوست ہر ہاتھ ملانے والا
دوستی ایک لازوال رشتہ ہے یہ ایک ایسا رشتہ ہے جس پر بیشمار اشعار لکھے گئے بیشمار کالمز لکھے گئے بیشمار فلمیں اور ڈرامے بنائے گئے بڑے بڑے مقرروں نے بڑی بڑی تقاریر کرڈالی بڑے بڑے گلوکاروں نے گانے گا لیئے لہذہ جب سے دنیا وجود میں آئی اور جب تک باقی رہے گی یہ رشتہ اسی طرح آب و تاب کے ساتھ چمکتا دمکتا رہے گا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضرت امام غزالی رحمتہ اللہ تعالی علیہ نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ
" بیٹا اس دنیا میں ایمان کے بعد اگر کوئی
اچھی چیز ڈھونڈنا ہو تو اچھا دوست
ڈھونڈنا کیوں کہ اچھا دوست ایسے درخت
کی مانند ہوتا ہے جو سایہ بھی دے گا اور
پھل بھی " ۔
حضرت امام غزالی علیہ الرحمہ کی یہ نصیحت ایک حقیقی دوست کا اشارہ دیتی ہے ۔ ہمیشہ یہ بات رکھیئے کہ آپ کا حقیقی دوست وہی ہے جو آپ کے ساتھ اس وقت بھی کھڑا ہوگا جب سب لوگ آپ کو چھوڑ چکے ہوں ہمارے یہاں اکثر پرانی دوستیوں کے قصے مشہور ہوتے ہیں اور اپنے ارد گرد ہم نے اندازا بھی لگایا ہے کہ کئی دو افراد میں لگ بھگ بچپن سے دوستی ہوتی ہے اور چلتی رہتی ہے یہاں تک کہ وہ اب عمر کے اس حصے میں داخل ہوچکے ہوتے ہیں جہاں وہ دوستی ان کے لیئے ایک یادگار ہوجاتی ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ترمزی کی ایک حدیث جس کے راوی ہیں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے فرمایا کہ " آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے لہذہ تم میں سے ہر شخص کو یہ دیکھنا چاہیئے کہ وہ کس سے دوستی کررہا ہے "۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں سرکار علیہ وسلم کے مطابق انسان وہی طور طریقے اور طرز زندگی اپناتا ہے جو اس کے دوست کے ہوتے ہیں لہذہ دین اور حسن اخلاق کے معاملے میں بڑی احتیاط کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ خوب غور و فکر کرے کہ کس کو دوست بنارہا ہے
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اسے چاہیئے کہ جس کا دینی اور اخلاقی کردار اچھا ہو اسے دوست رکھے اور جس کا کردار پسند نہ آئے اس سے دور رہے خلاصئہ کلام یہ ہے کہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ انسان کو چاہیئے کہ اچھے لوگوں کو دوست بنائے وہ لوگ جو انہیں گناہوں سے ڈرائے کہ اسی بات میں ان کے لیئے بہتری ہے اور شرعی طور پر بھی یہ ہی حکم ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں دوستی کا مفہوم بہت وسیع ہے ہمارے اردگرد بسنے والا کم و بیش ہر شخص کسی نہ کسی سے دوستی کا دم بھرتا ہوا نظر آتا ہے تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ دنیا میں کئی لوگ اپنے اچھے دوستوں کی وجہ سے دنیا میں بھی کامیاب رہے اور آخرت کی بھلائی کے کاموں میں بھی لگے رہے جبکہ ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو برے دوستوں کی وجہ سے اپنی اس دنیا اور آخرت کی زندگیوں کو تباہ و برباد کر گئے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں دوستی کے لیئے حکم ہے کہ دوستی ہمیشہ نیک صالح اور قران و سنت پر عمل کرنے والے لوگوں کے ساتھ ہی اختیار کرنی چاہیئے کیوں کہ صحبت ہمیشہ اثر رکھتی ہے مسلم شریف کی حدیث نمبر 6692 میں ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ہے کہ " اچھے برے ساتھی کی مثال مشک کے اٹھانے اور آگ کے بھڑکانے والے کی طرح ہے مشک والا یا تو تجھے ایسے ہی سونگھنے کے لیئے دے گا یا تو اس سے خرید کر مکمل خوشبو پالے اور آگ بھرکانے والا یا تو چنگاری سے تیرے کپڑے جلادے گا یا تو اس سے بدبو پائے گا " ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہمارے یہاں ایک غیر مہذب رواج یہ بھی پروان چڑھتا جارہا ہے کہ لوگ غیر مسلمانوں یعنی کفار و مشرک سے دوستیاں کرنے لگے ہیں میں ذاتی طور ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جنہوں نے ایسے ہندو یعنی کافر انسان سے دوستی کررکھی ہے جو ان کے پڑوس میں رہائش پزیر ہیں جبکہ سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے صاف اور واضح ارشاد فرمادیا ہے کہ یہودی کبھی بھی تمہارا دوست نہیں ہوسکتا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں قران مجید کی سورہ المائدہ کی آیت نمبر 57 میں ارشاد خداوندی ہے کہ
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِیۡنَ اتَّخَذُوۡا دِیۡنَکُمۡ ہُزُوًا وَّ لَعِبًا مِّنَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ وَ الۡکُفَّارَ اَوۡلِیَآءَ ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ
ترجمعہ کنزالایمان ۔۔اے ایمان والوں جنہوں نے تمہارے دین کو ہنسی کھیل بنا لیا ہے وہ جو تم سے پہلے کتاب دیئے گئے اور کافر ان میں سے کسی کو اپنا دوست نہ بنائو اور اللہ سے ڈرتے رہو اگر ایمان رکھتے ہو ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں مطلب یہ ہے کہ اے ایمان والے مسلمانوں وہ لوگ جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی ان کو جنہوں نے تمہارے دین کو ہنسی اور کھیل بنایا ہوا ہے وہ کافر ہیں اور کافروں کو دوست مت بنائو اور اللہ سے ڈرتے رہو شرط یہ ہے کہ اگر تم واقعی صاحب ایمان ہو بلکل اسی طرح اللہ تعالی نے سورہ المائدہ کی آیت نمبر 51 میں بھی سخت تلقین فرماتے ہوئے کہا کہ
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوا الۡیَہُوۡدَ وَ النَّصٰرٰۤی اَوۡلِیَآءَ ۘؔ بَعۡضُہُمۡ اَوۡلِیَآءُ بَعۡضٍ ؕ وَ مَنۡ یَّتَوَلَّہُمۡ مِّنۡکُمۡ فَاِنَّہٗ مِنۡہُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِیۡنَ
ترجمعہ کنزالایمان ۔۔۔اے ایمان والوں یہود و نصاری کو دوست نہ بنائو وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں کوئی ان سے دوستی رکھے گا تو وہ انہی میں سے ہے بیشک اللہ بے انصافوں کو راہ نہیں دیتا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں مطلب یہ ہے کہ کافر یہودی مشرک نصاری یہ ہمارے پڑوسی ہوں یا محلے دار ان سے کاروباری تعلقات ہوں یا ملازمت میں ساتھ کام کرنے والا بات چیت کرنے یا ان سے ملنے ملانے پر کوئی ممانعت نہیں لیکن بلاوجہ اور غیر ضروری باتوں اور ان سے ملنے ملانے سے ہوسکے تو پرہیز کرنا بہتر ہے کیوں کہ دوستی کا آغاز اسی طرح ہوتا ہے اور اس مذکورہ آیت میں اللہ تعالی کا یہ ہی فرمان ہے کہ اگر کوئی اہل ایمان ان سے دوستی قائم کرے گا تو وہ پھر ان میں سے ہی ہوگا اور بیشک وہ رب ایسے لوگوں اور ایسی قوم کو سیدھا راستہ نہیں دکھاتا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اب دیکھیئے
طبرانی کی حدیث نمبر 10357 میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ " اللہ کے لیئے دوستی ہو اللہ کے لیئے دشمنی ہو اللہ کے لیئے محبت ہو اور اللہ کے لیئے بغض ہو " اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم سے محبت کے بعد ضروری ہے کہ اللہ تعالی کے دوستوں کے ساتھ دوستی اور دشمنوں کے ساتھ عداوت یعنی نفرت کی جائے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں دوستی اگر ہو تو صرف اللہ کے لیئے ہو اور دشمنی ہو تو وہ بھی صرف اللہ کے لیئے ہو جو لوگ ہمارے رب کے معاملے میں دل میں بغض رکھتے ہو تو ہمیں بھی ان سے بغض یعنی لاتعلقی رکھنی چاہیئے کیوں کہ وہ دوستی کے قابل کبھی ہو ہی نہیں سکتے ہاں دشمنی کے قابل ضرور ہوسکتے ہیں یعنی یہ بات واضح ہوگئی کہ جو ہمارے دین ہمارے رب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے دشمن ہیں وہ ہمارے بھی دشمن ہیں اگر ہمارا ایمان سچا اور پکا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہ ہی بات قران مجید کی سورہ المجادلہ کی آیت نمبر 22 میں اللہ تعالی نے اس طرح بیان کی ہے کہ ترجمعہ کنزالایمان۔۔۔تم نہ پائوگے ان لوگوں کو جو یقین رکھتے ہیں اللہ اور پچھلے دن پر کہ دوستی کریں ان سے جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے مخالفت کی اگرچہ وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا کنبے والے ہوں یہ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان نقش فرمادیا اور اپنی طرف کی روح سے ان کی مدد کی اور انہیں باغوں میں لے جائے گا جن کے نیچے نہریں بہیں گی ہمیشہ رہیں گی اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی یہ اللہ کی جماعت ہے سنتا ہے کہ اللہ کی ہی جماعت کامیاب ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جہاں دوستی کا ذکر ہو وہاں اگر ہم سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم اور ان کے رفیق غار یار اور مزار یار حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی دوستی کا تذکرہ نہ ہو تو میری یہ تحریر ادھوری اور نامکمل رہ جائے گی اس دوستی کی ویسے تو بہت سی مثالیں ہمیں ملتی ہیں لیکن غار ثور کا واقعہ ان تمام واقعات پر افضل و اعلی ہے جہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی دشمنان اسلام سے حفاظت کی خاطر جس طرح حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے تین دن گزارے جب غار کے سارے راستے اور سوراخ بند کردیئے تو دو سوراخ باقی رہ گئے ایک میں جہاں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنا پائوں رکھ دیا اور دوسرے میں روایتوں کے مطابق مکڑی نے جالیں بنا لیئے تھے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جب دشمن آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کو تلاش کرتے ہوئے یہاں تک پہنچے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ پریشان ہوگئے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کہیں دشمن ہم تک پہنچ گئے تو اس پر سرکار علیہ وسلم نے فرمایا کہ " گھبرائو نہیں اللہ ہمارے ساتھ ہے " اور جب دشمن غار تک پہنچے تو دیکھا کہ پائوں کے نشانات یہیں تک ہیں انہیں شک ہوا کہ کہیں غار میں تو نہیں ہیں لیکن مکڑی جالوں کو دیکھکر سوچا کہ اگر یہاں کوئی آتا تو یہ مکڑی کے جالے نہ ہوتے یہ سوچ کر وہ وہاں سے چلے گئے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایسے دوست جو زندگی میں ہر وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے ساتھ ساتھ رہے اور روزہ میں بھی ساتھ ہی آرام فرما ہوئے ایسے رفیق ایسے ساتھی ایسے حقیقی دوست اور ایسے سچے عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی تاریخ اسلام میں کوئی مثال ملنا ناممکن ہے معزز یاروں المختصر یہ کہ زندگی میں ایک دوست کا ہونا بہت ضروری ہے لیکن دوست وہ جو شرعیت کا پابند ہو اور سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی بتائی ہوئی نشانیوں پر پورا اترتا ہو اور واقعی جو ہمیں گناہ کے عذاب سے ڈرائے اورہر وقت اللہ تعالی اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے احکامات پر عمل پیرا ہوکر ہمیں بھی اسی راستے پر چلائے کیوں کہ ایسا دوست ہی ہمارا حقیقی دوست ہوسکتا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں میں اپنی آج کی اس تحریر کا اختتام اس خوبصورت بات پر کروں گا کہ ایک دوست نے اپنے دوسرے دوست سے کہا کہ دوست کا مطلب کیا ہے ؟ دوسرے دوست نے جواب دیا کہ میرے پاگل دوست ایک واحد دوست ہی تو ہے جس کا کوئی مطلب نہیں ہوتا کیوں کہ جہاں مطلب ہو وہاں دوست نہیں ہوتا اور جہاں دوست ہو وہاں مطلب کا کوئی کام نہیں ۔ ان شاء اللہ اگلی تحریر کے ساتھ حاضر خدمت ہوں گا دعائوں میں یاد رکھیئے گا اللہ نگہبان ۔۔۔۔

محمد یوسف برکاتی
About the Author: محمد یوسف برکاتی Read More Articles by محمد یوسف برکاتی: 112 Articles with 78225 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.